Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

خواجہ معین الدین چشتی

سید صباح الدین عبدالرحمٰن

خواجہ معین الدین چشتی

سید صباح الدین عبدالرحمٰن

MORE BYسید صباح الدین عبدالرحمٰن

    ابتدائی زندگی : بارہ سال کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، ترکہ میں ایک باغ ملا اس کی نگہبانی کرتے تھے، ایک روز ابراہیم قلندر نامی ایک مجذوب باغ میں آئے، خواجہ معین الدین نے انگور کے خوشے پیش کیے لیکن انہوں نے انگور نہ کھایا اور کھلی (کنجارہ) کو دانتوں سے چبا کر خواجہ صاحب کے منہ میں دیا، کھلی کا کھانا تھا کہ خواجہ صاحب کا دل انوارا لٰہی سے روشن ہوگیا، خلائق دنیا سے برگشتہ ہوکر طلبِ خدا میں اٹھ کھڑے ہوئے اور سمرقند پہنچے۔

    یہاں پر آپ نے کلام پاک حفظ کیا اور علوم ظاہری کی تحصیل میں مصروف رہے، سمرقند سے نکل کر عراق کی طرف روانہ ہوئے، قصبہ ہارون میں حضرت شیخ عثمانی ہارونی قدس سرہ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور ان سے شرف بیعت حاصل کیا اور ہارون میں ڈھائی برس رہے، زاں بعد اپنے پیر کے ساتھ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی بھی زیارت کی، شیخ عثمانی نے ان کے حق میں خدا اور اس کے رسول کی بارگاہ میں دعائیں کیں تو عالمِ غیب سے ندا آئی۔

    ’’معین الدین دوست ماست او را قبول کردم و برگزیدم‘‘

    نیا وطن : مدینہ منورہ ہی میں بارگاہ رسالت سے خواجہ صاحب کو ہندوستان جانے کی بشارت ملی حضرت شیخ عثمانی نے خرقہ خلافت سے سرفراز کیا، اس وقت خواجہ صاحب کی عمر 52 برس کی تھی، ہارون سے ہندوستان روانہ ہوئے تو راستہ میں حضرت شیخ محی الدین ابی محمد عبدالقادر جیلانی سے شرف نیاز حاصل کیا، بغداد میں شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی اور ان کے پیر شیخ ضیاؤالدین کی صحبت سے مشرف ہوئے اور یہیں خواجہ اوحدالدین کرمانی قدس سرہٗ سے فیضیاب ہو کر ان سے خرقہ خلافت پایا، بغداد سے ہمدان سے تبریز پہنچےاور وہاں سے منزل بہ منزل چلتے غزنی پہنچے، راستہ میں کئی بزرگوں سے ملاقاتیں ہوئیں اور اس طرح روحانیت کے مقامات طے کرتے آپ غزنی سے ہندوستان پہنچنے حضرت خواجہ جس وقت ہندوستان آئے اس وقت شیخ علی ہجویری داتا گنج بخش کا انتقال ہوچکا تھا، حضرت خواجہ صاحب نے ان کے مزار پر چلہ کیا اور جب مدت ختم کر کے رخصت ہونے لگے تو یہ شعر پڑھا ہے۔

    گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا

    کاملاں را پیر کامل ناقصان را رہنما

    اس شعر کی وجہ سے حضرت شیخ علی حسن ہجویری کا نام داتا گنج بخش مشہور ہوا، وہاں سے آپ ملتان آئے اور یہاں پانچ برس رہ کر سنسکرت اور پراکرت سیکھی یہاں سے دہلی اور پھر اجمیر آئے، اجمیر میں دسویں محرم ۵۶۱ھ میں نزول اجلال فرمایا اور آخر وقت تک یہیں قیام رہا، اجمیر کے قیام میں خواجہ صاحب نے دو شادیاں کیں جن میں سے ایک سید وجیہ الدین مشہدی کی بیٹی تھیں اور دوسری کسی ہندو راجا کی بیٹی جو مشرف با سلام ہوگئی تھیں۔

    تاریخ وفات ۶ رجب ۶۲۳ ہے ایک روایت کے مطابق آپ نے ۹۷ برس اور دوسری روایت کے مطابق ۱۰۴ برس کی عمر پائی۔

    وارث النبی فی الھند : جب آپ اجمیر تشریف لائے تو اس وقت دہلی اور اجمیر کا حکمراں راجہ پتھورا تھا، اس کے حکام نے خواجہ صاحب کے قیام میں بڑی مزاحمت کی اور جب وہ خود ان کے مقابلہ میں بے بس اور لاچار رہے تو ہندو جوگیوں کو اپنے سحر اور جادو سے خواجہ صاحب کو مغلوب کرنے کے لیے مامور کیا لیکن خواجہ صاحب اپنی روحانی قوت اور کرامت سے ہے ان پر غالب ہے اور رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری رکھا، ان کی تعلیم سے راجہ پتھورا کے ملازمین بھی مشرف با سلام ہونے لگے، راجہ نے خواجہ صاحب کو اجمیر سے نکال دینے کی دھمکی دی تو آپ نے فرمایا ما او را بیروں کردیم و دادیم‘‘ یہ پیش گوئی صحیح ثابت ہوئی، شہاب الدین غوری نے حملہ کر کے راجہ پتھورا کو گرفتار کر لیا اور بالٓاخر وہ مارا گیا اس کے بعد مسلمانوں کے سیاسی اقتدار اور خواجہ صاحب کے فیوض و برکات سے ہندوستان اسلام کے نور سے منور ہوگیا، اسی لیے خواجہ صاحب کا لقب ’’وارث النبی فی الہند‘‘ ہے۔

    روحانی فیوض : ہندوستان کے صوفیائے کرام میں خواجہ صاحب کا مرتبہ سب سے زیادہ بلند ہے، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ان کو قطب المشائخین کا لقب کی بشارت ملی، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے ان کو ملک المشائخ سلطان السالکین، منہاج المتقين، قطب الاؤليا، شمس الفقرا، ختم المہتدین کے لقب سے یاد کیا ہے اور بہت سے بزرگوں نے بھی حضرت خواجہ صاحب کے القاب لکھے ہیں، جن کی فہرست طویل ہے، خواجہ صاحب کے فیوض و برکات اور کہ امات و خوارق عادات عام طور سے بہت مشہور ہیں اور آج بھی ان کی ابدی خواب گاہ کی زیارت کے لیے ہندوستان اور پاکستان کے ہر گوشے کے لوگوں کا ہجوم رہتا ہے۔

    تعلیمات : خواجہ صاحب نے کوئی مستقل تصنیف نہیں چھوڑی گھر آپ کے ملفوظات کو آپ کی تصنیف سمجھ کو تین کتابیں آپ سے منسوب کی جاتی ہیں (۱) انیس الارواح (۲) رسالہ در کسب نفس (۲۳)دلیل العارفين۔

    انیس الارواح میں خواجہ صاحب نے اپنے مرشد خواجہ عثمان ہارونی کی ۲۸ صحبتوں کے ملفوظات جمع کیے ہیں، ان محفوظات میں تصوف کے مہمات مسائل و نکات پر بحث نہیں کی گئی ہے بلکہ اقوال کے ذریعے بعض شرعی، اخلاقی اور دنیاوی مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

    دليل العارفین میں خواجہ صاحب کی گیارہ صحبتوں کے ملفوظات ہیں اور اس کتاب میں مختلف دینی مسائل و صوفیانہ رموز شریعیت حقیقت طریقت، محبت الٰہی، کشف و کرامت و غیره پر جستہ جستہ مختصر مگر جامع اور بصیرت افروز اشارے اور کنائے ہیں جن کو سمجھنے میں کوئی وقت نہیں ہوتی۔

    حضرت خواجہ صاحب کے نزدیک اہل سلوک کا ہر قسم کے تصوری و معنوی اخلاق و محاسن کا حامل ہونا ضروری ہے کیوں کہ ان کے نزدیک تصوف نہ علم ہے اور نہ رسم بلکہ

    مشائخ کا ایک خاص اخلاق ہے جو ہر لحاظ سے مکمل ہونا چاہیے، مصوری حیثیت سے اس اخلاق کی تکمیل یہ ہے کہ سالک اپنے ہر کردار میں شریعت کا پابند ہو۔

    جب اس سے کوئی بات خلاف شریعت سرزد نہ ہوگی تو وہ دوسرے مقا پر پہنچے گا، جس کا نام طریقت ہے اور جو اس میں ثابت قدم رہے گا معرفت کا درجہ حاصل کرے گا اور جب اس میں بھی پور اترے گا تو حقیقت کا مرتبہ پائے گا، غرض کہ خواجہ صاحب نے شریعت کے تمام ارکان اور جزئیات خصوصاً نماز کی پابندی پر بڑا زور دیا ہے۔ (بزم صوفیہ)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے