Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

خواجہ معین الدین چشتی کے آستانۂ عالیہ پر حاضری

سید صباح الدین عبدالرحمٰن

خواجہ معین الدین چشتی کے آستانۂ عالیہ پر حاضری

سید صباح الدین عبدالرحمٰن

MORE BYسید صباح الدین عبدالرحمٰن

    خواجہ صاحب کی درگاہ ہندوستان کے ان مقدس مقامات میں سے ہے جہاں ہندوستان کے بڑے بڑے بادشاہوں کا سرِ نیاز خم ہوا ہے لیکن ہم یہاں مسلمان سلاطین یا مغل بادشاہوں اور مسلمانوں کی عظیم شخصیتوں کے جذبات عقیدت پیش کرنا نہیں چاہتے بلکہ بین الاقوامی شہرت رکھنے والے غیر مسلم سیاسی لیڈروں اور علمی شخصیتوں نے جو تاثرات آستانہ کی حاضری کے بعد ظاہر کیے پیش کر رہے ہیں۔

    گاندھی جی کے تاثرات : ۱۹۱۱ میں مہاتما گاندھی اجمیر وارد ہوئے، درگاہ شریف برابر جاتے رہے جب تک اجمیر میں قیام رہا۔

    اپنی عام تقریروں کے علاوہ نجی مجلسوں میں بھی اپنے تاثرات کا اظہار کرتے اور کہتے کہ لوگ اگر سچے جذبے کے ساتھ خواجہ صاحب کے دربار میں جائیں تو آج بھی اُن کے باطن کی بہت سی خرابیاں ہمیشہ کے لیے ناپید ہو سکتی ہیں اور آدمی اپنے اندر غیر معمولی قوت کا ادراک کر سکتا ہے۔

    گاندھی جی نے کہا کہ مجھے یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ لوگ عام طور پر صرف دنیوی مقاصد لے کر خواجہ صاحب کے پاس جاتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ ان کی پوری زندگی اندر کی تعلیم دیتے گزری، انہوں نے روح کی روشنی کو باقی رکھنے کے لیے جو پیغام دیاذاسے کوئی نہیں سنتا، نہیں تو یہ ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے کی بات کیوں کرتے؟ خواجہ صراحت بنے تو سچائی کے ہتھیار سے لوگوں کا من جیت لیا، ان کی زندگی میں، عدم تشدد کا صاف مظاہرہ تھا، افسوس ہم لوگ ان کی زندگی کو اپنے لیے آدرش نہیں بناتے۔

    بابا نانک کی عقیدت : بابا گرو نانک نے اسلامی مقامات مقدسہ کے سفر کے لیے جب قدم اٹھایا تو سب سے پہلے حضرت خواجہ بزرگ کے آستانے پر بکمال عقیدت حاضر ہوئے اور مسلسل کئی روز مقیم رہے اور مراقبہ کرتے رہے اور حضرت خواجہ کی زندگی اور تعلیمات کا بغور مطالعہ کیا، اپنے کاثرات کا خود انہوں نے ذکر بھی کیا ہے، چنانچہ بابا صاحب کے ماننے والے آج بھی اس آستانہ پر عقیدت کے ساتھ سر نیاز خم کرتے ہیں۔

    ڈاکٹر رادھا کرشنن کا خراج تحسین : ڈاکٹر ادھا کرشنن، بین الاقوامی شہرت رکھنے والے فلسفی اور مفکر ہیں اور ہندوستان کے وائس پریزیڈینٹ، آپ نے درگاہ خواجہ صاحب میں حاضر ہو کہ تصوف پر علمی نقطۂ نگاہ سے روشنی ڈالی اور فرمایا کہ جب انسان پر خود اپنے وجود کے اسرار منکشف ہو جاتے ہیں تو اس کا کردار بے لچک ہو جاتا ہے، ایک شخص اپنی انفرادی حیثیت میں رہ کر انبوہ در انبوہ انسانوں سے وہ سب کچھ براہ راست منوا لیتا ہے جو اس کی زندگی کا مشن ہوا کرتا ہے، صوفیوں نے خود شناسی کے اس طریقہ کو اپنا کر ہمیشہ دنیا میں ایک صالح نظام زندگی کی طرح ڈالی ہے، خواجہ صاحب نے بھی اپنے تفکر کی گہرائیوں سے متاثر کرنے کی بے پناہ قوت کا خزانہ نکال لیا اور بظاہر غیر محسوس طریقہ سے ماحول کا نقشہ بدل ڈالا، ہمیں زندگی کی پوشیدہ قدروں کی طرف سنجیدگی سے متوجہ ہونا چاہیے تاکہ داخلی طور پر سکون اور خارجی طور پر سلامتی د امن کی ضمانت ہوسکے۔

    وزیر اعظم نہرو کے جذبات : جواہر لال نہرو ۱۹۴۵ء میں اجمیر گیے تو خواجہ صاحب کے آستانہ پر بھی حاضری دی، ایک گھنٹہ تک سر جھکائے قوالی سنتے رہے اور اندرونِ گنبد شریف آنکھیں بند کیے خاموش کھڑے رہے۔

    آزادی کے بعد بحیثیت وزیر اعظم، ہنگامی حالات میں پھر حاضر آستانہ ہوئے اور تقدیس درگاہ پر دو گھنٹہ تک تقریر کرتے رہے، یہ بھی ظاہر کیا کہ دنیا کے مختلف حصوں سے خواجہ صاحب کی درگاہ کی حفاظت اور احترام سے متعلق ہزاروں تار اور خطوط مجھے موصول ہوئے ہیں، اس سے قطع نظر میں پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ اعلان کرتا ہوں کہ اس مقدس درگاہ کی حفاظت ہر قیمت پر کی جائے گی اور اس کے تقدس اور احترام پر آنچ نہ آنے دی جائے گی۔

    آل انڈیا کانگریس کے سالانہ سیشن اجمیر میں پنڈت جی نے بحیثیت صدر کانگریس شرکت کی تو ایک بار پھر حاضری کا شرف حاصل کیا، وجے لکشمی جو اس وقت یو این او کی صدر بھی تھیں اپنے بھائی کے ساتھ حاضر ہوئیں، اس موقع پر پنڈت جی کے سر پر سرخ دستار باندھی گئی، درگاہ شریعت سے واپسی پر اپنی کھلی ہوئی موٹر میں دستار اتار نے لگے تو وجے لکشمی نے کہا کہ ‘‘باندھے رہیے آپ تو دولہا معلوم ہوتے ہیں‘‘ اور ووسیل اپنی قیام گاہ تک بڑے احترام کے ساتھ پنڈت جی دستار باندھے رہے اور پنڈت جی نے قیام گاہ پہنچ کر بطور نذر ایک معقول رقم پرائیوٹ سکریٹری کے ساتھ بھیجی۔

    راج گوپال اچاریہ کے تاثرات : حصولِ آزادی کے بعد پہلے ہندوستانی گونر جنرل اور ہندوستان کے عظیم مفکر اور مایۂ ناز سیاس راجہ گو پال آچار یہ جب حضرت خواجہ صاحب اجمیر کے استانہ پر حاضر ہوئے اور روایتی طور پر درگاہ شرافت کے تبرکات انھیں دیے گیے تو راجہ جا نے آبدیدہ ہوکر اپنے جذبات عقیدت کو اس طرح ظاہر کیا کہ

    انسانی جوہر کو درخشندہ تر بنانے کے لیے عظیم روحانی شخصیتوں نے جو طریقہ اختیار کیا اس میں محبت کی نگاہ، سلامتی کی زبان اور کردار کی روشنی کو ہمیشہ دخل رہا ہے، خواجہ صاحب کی زندگی اور ان کی تعلیمات میں خصو صیتیں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں، انہوں نے سچائی کی راہ اپنے لیے متعین کر لی تھی اور اسی راہ پر چلنے کے لیے ان کی آوازہ بند ہوئی جسے سن کر ہر شخص عرفان حق کے راز کو پاگیا، اگر ہم اس طرح کی عظیم ہستیوں کے نقشِ قدم کو دلیل راہ بنالیں تو انسان میں با ہمی تفرقہ کی جو و باہمی پھیل جاتی ہیں ان سے انسانیت ہمیشہ کو محفوظ ہو جائے۔

    میں جانتا ہوں کہ ایک اور بزرگ خواجہ حمیدالدین کی پاک قبر ناگور (مدراس) میں مرجع خلائق ہے، ایسی عالی ہستیوں نے ملاح و خیر سے لبریز مقاصد کے حصول کے لیے دنیا کے ہر گوشہ کو منور کیا ہے۔

    بطور تبرک اس مقدس آستانے سے جو تسبیح مجھے دی گئی ہے زندگی کے آخری لمحات تک وہ میرے ساتھ رہے گی اور اس کے فرحت بخش استعمال کو اپنے معمولات میں داخل رکھو گے۔

    پنڈت سندر لال الہ آبادی کی عقیدت : ہندوستان کے مشہور مفکر، ادیب اور بلند پایہ خطیب ہیں پنڈت سندر لال نے خواجہ معین الدین اجمیری صاحب کی ذات گرامی پر عقیدت کے آنسو بہاتے ہوئے ایک طویل تقریر کی جس میں کہا کہ غریب نواز نے محبت کی بنیاد پر اپنے فکر و عمل کی جو عمارت تعمیر کی وہ ایک مضبوط قلعہ بنکر اپنی گود پھیلائے آج بھی جھٹکے ہوئے لوگوں کو پکار پکار کر پناہ پناہ کی دعوت دے رہی ہے، کیا اچھا ہو کہ ہم یہ کہتے ہوئے اس حصار میں داخل ہو جائیں کہ

    کافر عشقم مسلمانی مرا در کار نیست

    ہر رگِ من تا گشتہ حاحتِ زنار نیست

    اچاریہ ونوبا بھاوے کی نصیحت : آزادی کے بعد آچاریہ ونوبا بھاوے نے حاضر آستانہ ہو کر با قاعدہ گاندھی جی کا بھجن گا کراپنی عقیدت مندی کا اظہار کیا اور درگاہ شریف میں اپنی تقریر کے دوران خواجہ صاحب کی تعلیم کو عام کرنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ یہ سب سے بڑی محرومی ہوگی کہ ہم اتنی بڑی روحانی شخصیت کی قابل تقلید تعلیمات سے فیضیاب ہوسکیں۔

    آج کے حالات میں جب کہ اس دیس کے باسیوں نے روحانی فیضان سے منہ موڑ لیا ہے، اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ خواجہ صاحب کے ایسے مہا پرشوں کے کردار و عمل کو واضح طور پر سامنے لایا جائے جو اس وقت بھی انسانی ذہن میں خوشگوار انقلاب لاسکتا ہے اور زندگی کو نشیب سے فراز کی طرف لے جا سکتا ہے۔

    ڈاکٹر راجندر پرشاد کے جذبات : پریزیڈنٹ جمہوریہ ہند ڈاکٹر راجندر پرشاد نے درگاہ شریف میں اپنی تقریر کے اندر کہا کہ جہاں تک مجھے معلوم ہے، خواجہ صاحب نے محض اپنے کردار کو مثال بنا کر پیش کر دیا، ان کی خاموش زندگی کا یہ پہلو انسانوں میں اچھائی پیدا کرنے کے لیے بہت کافی ثابت ہوا، خواجہ صاحب کی زندگی روشنی کا بلند مینار تھی جس نے دور دور تک اجالا پھیلا دیا، یہ روشنی تاریک دلوں میں اس طرح اتر گئی اور پوری زندگی کو جگمگا دیا کہ دنیا حیران رہ گئی، چاہیے کہ ہم بھی روشنی کے اس مینار سے شعاعیں مانگ لیں اور اپنی ہستی کے تمام پہلوؤں کو منور کر لیں۔

    مہاراجہ کشن پرشاد کی عقیدت : مہاراجہ سرکشن پر شاد وزیرِ اعظم حیدرآباد دکن متعدد بار انتہائی نیاز مندی کے ساتھ خواجہ صاحب کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، خواجہ صاحب کی روحانیت سے مہاراجہ اس درجہ متاثر ہوئے کہ جب گیند شریف میں جاتے تو ان پر وجد و حال کی عجیب کیفیت طاری ہو جاتی، انہوں نے فارسی اردو اور ہندی میں کئی منقبتیں کہی میں جو بیحد مقبول ہوئی ہیں مہاراج کی زندگی پر خواجہ صاحب کی عظمت کا رنگ اس درجہ غالب ہوگیا تھا کہ انہوں نے اپنے ایک بیٹے کا نام خواجہ پرشاد رکھا، مہاراجہ خواجہ صاحب کے حضور بلند آواز سے آیات قرآنی تلاوت کرتے اور باقاعدگی کے ساتھ ایصال ثواب کرتے تھے، رات کو پچھلے پہر حاضر آستانہ ہو کر مراقب ہونا ان کے معمول میں داخل تھا، مہاراجہ سرکشن پرشاد نے آستانہ پر مورچھل جھلنے کی خدمت بھی انجام دی اور اس موقع پر یہ رباعی کہی۔

    مورچھل جھلنے کی خدمت مل گئی

    شادؔ کو دنیا کی عزت مل گئی

    بارگاہ خواجۂ اجمیر سے

    لو کلید گنجِ قسمت مل گئی

    مسلمان سلاطین : ان کے علاوہ مسلمان سلاطین میں ہے پہلے شہاب الدین غوری نے ۵۸۹ھ میں شرف قدم بوسی حاصل کیا اور بعض تذکروں کے مطابق مریدی کا شرف بھی حاصل کیا، اسی طرح ۶۱۵ھ میں شمس الدین التمش حاضر در بار ہوا، ۸۵۹ھ میں سلطان محمود خلجی اجمیر آیا اور روضہ مبارک کا طواف کیا اور ایک مسجد (صندل خانہ) تعمیر کرائی، ۷۹۸ھ میں سلطان عد خان ۹۳۱ھ میں شہزادہ بہادر خاں ۹۵۱ھ میں شیر شاہ سوری اور ۹۶۹ھ میں جلال الدین اکبر اجمیر آیا اور پھر ۹۷۵ھ میں پیادہ پا حاضر آستانہ ہوا اور اس طرح بارہا آگرہ سے اجمیر آتا اور آستانہ کی حاضری دیتا رہا، ایک مسجد بھی تعمیر کرائی اور لنگر خانہ جاری کیا، ۱۰۳۲ھ میں نورالدین جہاں گیر پیادہ پا اجمیر پہنچا۔

    حلقہ بگوشی کا مشرف : تزک جہاں گیری میں ۹ جلوس کی حاضری آستانہ کے متعلق خود جہاں گیر نے اپنا یہ واقعہ لکھاہے کہ ’’علالت کے زمانہ میں یہ بات میرے دل میں آئی کہ جس طرح باطنی طور پر میں خواجہ بزرگ کا معتقد اور حلقہ بگوش ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ میری ہستی ان ہی کی دعا کے طفیل ہے اس لیے صحت یاب ہو کر کھلم کھلا (علامیہ) بھی اپنے کاموں میں دُرِ غلامی پہن کر ان کا حلقہ بگوش ہو جاؤں گا، چنانچہ ماہ رجب میں میں نے کانوں میں سوراخ کر کے ایک ایک دانہ مروارید آب دار دونوں کانوں میں پہن لیا، اہل دربار نے بھی دُر (موتی) لے کر اپنے کانوں میں پہنے، رفتہ رفتہ یہ رسم عام ہوگئی۔

    شہاب الدین شاہ جہاں بھی اپنے ۲۱ سالہ دور حکومت میں ۵ بار حاضر آستانہ ہوا، اسی طرح محی الدین اورنگزیب بھی ۱۰۶۸ھ میں آستانہ خواجہ پر حاضر ہوا، ۱۹۰۷ میں شاہ افغان امیر حبیب اللہ خاں نے آستانے کی حاضری کا شرف حاصل کیا،۔۱۹۱۲ میں پہلی بار میر عثمان علی خاں نظام حیدرآباد نے آستانہ پر حاضری دی، غرض کہ ہندوستان میں یہی ایک ایسی درگاہ ہے جہاں ہر مذہب و ملت کے اکا بر و صفار اپنا سر نیاز خم کرتے ہیں، جہاں مذہبی رہنما اور سیاسی لیڈر سب نے حاضری دی ہے اور ہندوستان میں سب فرقوں کے لوگ جس کثرت سے اس آستانہ پر حاضر ہوتے ہیں شاید ہی کسی دوسرے آستانے پر گئے ہوں، اس لیے اگر ہندوستان کے مشہور انگریز وائے سرائے لارڈ کرزن نے اس عام مقبولیت اور عقیدت مندی

    کو دیکھا تو یہ کہا کہ ’’میں نے ایک قبر کو ہندوستان میں شہنشاہی کرتے دیکھا‘‘ تو بالکل صحیح کہا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے