Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

شہاب الدین مہمرہ استاد امیر خسرو

سید صباح الدین عبدالرحمٰن

شہاب الدین مہمرہ استاد امیر خسرو

سید صباح الدین عبدالرحمٰن

MORE BYسید صباح الدین عبدالرحمٰن

    مولانا شہاب الدین مہمرہ بدایوں کے ہنے والے تھے جو ہر زمانہ میں مشائخ علما اور شعرا کا بہت بڑا مرکز رہا ہے، ان کے والد بزرگوار کا نام جمال الدین تھا جن کے نام کا جز بھی مہمرہ یا متمرہ تھا، منتخب التواریخ (مؤلفہ ملا عبدالقادر بدایونی) میں مولانا شہاب الدین کے اسم گرامی کے ساتھ مہمرہ ہی مرقوم ہے لیکن مجمع الفصحا (مؤلفہ رضا قلی خان) میں متمرہ ہے، منتخب التواریخ کے انگریز مترجم جارج رین کنگ نے مجمع الفحا کی سند پر مہمرہ کو صحیح سمجھا ہے لیکن اور تذکرہ نویسوں مثلاً مجمع النفائس، عرفات العاشقین، گل رعنا اور مخزن الغرائب کے مؤلفوں نے مہمرہ ہی لکھا ہے، کسی تذکرہ نویس نے متمرہ یا مہمرہ کی تصریح نہیں کی ہے، البتہ نزہۃ الخواطر میں مولانا عبدالحئ نے مولانا شہاب الدین کے والد بزرگوار کا نام جمال الدین المہمروی البدایونی لکھا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مہمرہ کسی جگہ کا نام ہے، جہاں سے مولانا شہاب الدین کے والد بزرگوار ان کے آبا و اجداد ہجرت کر کے ہندوستان آئے اور بدایوں میں سکونت پذیر ہوئے، یہ نہ معلوم ہو سکا کہ مہمرہ کس ملک کا قصبہ یا قریہ ہے، (محمرہ ہائے حطی کے ساتھ) مکہ کے قریب ایک قریہ کا بھی نام ہے، مولانا شہاب الدین عربی کے بھی بہت بڑے عالم تھے، اگر ان کی عربی دانی کی وجہ سے ان کو عربی النسل قرار دیا جائے تو ممکن ہے کہ ان کا خاندان محمرہ ہی سے آیا ہو، ان کے حالاتِ زندگی بہت زیادہ نہیں ملے، امیر خسرو نے ان کے متعلق جو خیالات جابجا ظاہر کئے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف ایک بلند پایہ شاعر بلکہ اپنے بہت بڑے عالم، فاضل بھی تھے اور اپنی فلسفہ دانی اور حکمت کی وجہ سے بقراطِ وقت اور افلانِ زمانہ کہلاتے تھے، الٰہیات، طبعیات، ریاضیات، معقولات اور منقولات سب میں یدطولیٰ حاصل تھا، فقہ میں مبسوط اور حکمت میں اشارات پر بڑا عبور تھا، ان کے بارے میں امیر خسرو اپنی مثنوی ہشت بہشت میں فرماتے ہیں۔

    چرخ چوں راست کردد ستارشل

    بست عزّاللّہی مہر تارش

    گر کند سوئے آں عمامہ نظر

    مشتری رافتد عمامہ زسر

    حکمتش داد از بس افزونی

    ملکِ بقرارطی و فلاطونی

    در الٰہی فنش نہ در حدِ کس

    حدِ او ہم الٰہ داند وبس

    در طیعی شناختہ ہستمام

    رازِ مولودِ عنصر و اجرام

    در ریاضی بیک صریر قلم

    باز کردست گوشِ جذرا صم

    عقلیش از قیاس عقل بردن

    نقلیش از مقام نقل فزون

    دُرّ مبسوط در یکے مشتش

    صد اشارات در ہرانگشتش

    ہرچہ در دہر نقشِ دانائی ست

    دل او ا بران تونائی ست

    او چو ابرِ کرم بفرقِ جہان

    زیر کان چون صدف کشادہ دہاں

    اعجازِ خسروی میں امیر خسرو کے کچھ خطوط مولانا شہاب الدین کے نام بھی ہیں، ان مین سے ایک عربی میں ہے اور ایک خالص فارسی میں جس میں عربی کا ایک لفظ بھی نہیں، عربی مکتوب میں مولانا شہاب الدین کو امام کے لقب سے مخاطب کیا گیا ہے جس سے شاید امام العلما و الفضلا مراد ہو۔

    فنِ شاعری میں بھی مولانا شہاب الدین کو درجۂ کمال حاصل تھا، عزۃ الکمال میں امیر خسرو نے ان کو ’’سلیمان ممالک سخن’’ کہا ہے اور وہ بھی فرتے ہیں کہ لوگ ان کے کلام کو دیوانہ وار سنتے ہیں اگر چہ انہوں نے اپنے کلام کو مدون نہیں کیا۔

    شہاب الملک والدین کہ شہابِ فلک از آتشِ طبع او صد بار دیوان خود را سوختہ است کہ اگر آن سلیمان ممالک سخن را عزیمت جمع کردن، دیوان بودے، ایں معے راجان رفتہ در تن حاضر گردایندے و امرالقیس چوں قیس مجنون گشتے ہر شعر بلند شہابے آسمانے است بر کواکب و خلقی دیوانہ، آں بعضے شیاطین می نہند و استرافے می کنند، از سرقہ ایشاں خدائے نگاہ دارد

    ایک اور موقع پر رقمطراز ہیں:-

    ’’۔۔۔۔۔مولانا شہاب الحق والدین ۔۔۔۔ آں شہابِ ثاقب کہ در طافت طبع آتش بارہ ایست و در دل شب روشن از انوارِ غیب خبر آورد صد ہزار انجمن را گرم دارد تا جہانے از و عتقبس گردد

    ہشت بہشت میں مولانا شہاب الدین کی شاعری کی تعریف میں رطب اللسان ہوتے ہیں اور ان کو عربی زبان کے مشہور شعرا بختری اور ابو تمام سے افضل قرار دیا ہے اور غایت تعریف میں فرمایا ہے کہ مولانا شہاب کے اشعار خانۂ کعبہ کے بجائے بہشت میں آویزاں کئے جانے کے لائق ہیں، امیر خسرو کی گلفشانی ملاحظہ ہو۔

    او شہاب و دل و تنش ز اخبار

    نیّرین مشارق الانوار

    از تمامِ فنون وضل تمام

    غیرت بحتری و بو تمام

    گاہ تحریر گربہ بیت عتیق

    یافت اشعرِ تا زبان تعلیق

    شعر او را کہ مطلع نورست

    جائے تعلیق بیت معمور است

    کسی تذکرہ نویس نے اس پیکرِ علم و ادب کی ولادت وفات کا سنہ نہیں لکھا ہے، ابھی حال ہی میں ڈاکٹر اقبال حسین نے اپی کتاب (Early Persian poet of Indian)

    میں امیر خسرو کے دیباچہ عزۃ الکمال کے حسبِ ذیل فقرہ۔

    ’’مولانا شہاب الدین مہمرہ و مولانا بہاؤالدین بخاری کہ ہر یکے نستان علم را بلبلے بود داند

    سے یہ قیاس کیا ہے کہ وہ عزۃ الکمال کا دیباچہ لکھنے یعنی 695ہجری سے پہلے وفات پا چکے تھے، میرے پیشِ نظر عزۃ الکمال کا ایک کِرم خورہ نسخہ ہے جس کے بعض اوراق جابجا پھٹ گئے ہیں، اس لئے اس فقرہ پر نظر نہیں پڑی لیکن ڈاکٹر اقبال حسین نے امیر خسرو کی مثنوی ہشت بہشت سے بعض ایسے اشعار بھی نقل کئے ہیں جن میں امیر خسرو نے مولانا شہاب الدین کا شکریہ ادا کیاہے، ان ہی اشعار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مولانا شہاب الدین مثنوی ہشت بہشت کو بہ نظر اصلاح یہ دیکھا تھا، ہشت بہشت 701 ہجری میں لکھی گئی ہے، اس لئے یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ مولانا شہاب الدین 701 تک بقیدِ حیات تھے، اُن کی تاریخِ ولادت تو معلوم نہیں لیکن ملا عبدالقادر بدایونی نے منتخب التواریخ میں ان کا ایک قصیدہ نقل کیا جو انہوں نے سلطان رکن الدین فیروز شاہ کی خدمت میں پیش کیا تھا، یہ سلطان 632ہجری کے اخیر میں کل چھ سات مہینہ کے لئے تخت پر بیٹھا، ظاہر ہے کہ قصیدہ پیش کرتے وقت مولانا شہاب الدین کی عمر کم از کم پندرہ سال کی ہوگی، اس حساب سے وہ سلطان شمس الدین ایلتتمش کے عہد میں پیدا ہوئے ہوں گے، مثنوی ہشت بہشت کی اصلاح کے وقت ان کی عمر اسی اور نوّے کے درمیان ہوگی، امیر خسرو کا سن اس مثنوی کے قلم بند کرتے وقت پچاس سال کا تھا ظاہر ہے کہ امیر خسرو نے ادب و احترام کا اظہار کرنے میں مولانا شہاب الدین کے سنِ وصال کی بزرگی اور ان کے علم و فضل دونوں کا لحاظ رکھا ہوگا اور جو کچھ لکھا گیا ہے، اس کی بناء پر یہ قیاس ہوتا ہے کہ مولانا شہاب الدین نے سلطان رکن الدین کی خدمت میں اپنی بہت کم سنی کے زمانہ میں ذیل قصیدہ پیش کیا، اس میں 141 اشعار ہیں، ہر شعر میں کرگ (کنیڈا) گرگ (بھیڑیا) پیل اور شیر کے الفاظ لائے گئے ہیں اور ان ہی چاروں الفاظ کی رعایت سے پورے قصیدہ میں صنعت گری کی گئی ہے، مولانا شہاب الدین نے اس کم سنی میں اس غیر معمولی قادر الکلامی اور جدّت طرازی کا جو اظہار کیا وہ گویا ان کے بحرالعلوم ہونے کا پیش خیمہ تھا، طوالت کے خیال سے ہم اس قصیدہ کے چند ہی اشعار نقل کر نے پر اکتفا کرتے ہیں۔

    ہر زماں ایں کرگ و گرگ و فیل و شیر طفل خوار

    آں کند بامن کہ پیل و کرگ وقت کار راز

    آسمانِ پیل گوں مالا تنم را کرگ سان

    روزگار شیروش مبرم رباید گرگ وار

    زور کر گم نے و بامن تندیل آسمان

    شیر مردے می کند چو کہنہ گرگ روزگار

    پیل باا کرگ آن نکرد د گرگ بایش انچہ کرد

    شیر چرخ از جور بااین شخص چوں موے نزار

    حیلت وگرگ است وزور کرگ باشیرہ فلک

    زان ہمیشہ بردلِ من درد باد پیل بار

    سلطان کو مخاطب کرکے کہتے ہیں۔

    خسرو دارد مدح تو برگرگ وکرگ وشیر وپیل

    گشتہ ام نادر با مرصاحب چرخ اقتدار

    پیل تن شیرافگن گر زت اگر خواہد دہد

    گرگ را چون دم کرگس بر سرِ گردوں قرار

    آن وزیرے کہ برائے گو شمالِ گرگ چرخ

    دل نہادہ ہمچو کرگ وپیل شیراز اضطرار

    آخر کے اشعار یہ ہیں:۔

    پیل بخشا در بداؤن باید ویرانہ

    گر چہ جاے گرگ وکرگ وشیرباشد ایں دریار

    تاکہ شیر وپیل باشد در مہابت ہم قدم

    تاکہ گرگ وکرگ باشد در کتابت یک شعار

    خصم گرگ افسونت اے کرگ افگن وپیل استناد

    باد پیش شیر دہلیزت میان خاک خوار

    ہمچو شیرو پیل وگرگ وکرگ در گرمابہا

    دشمنان بے جان شدہ برآخر سنگین قطار

    اس قصیدہ کا ذکر کرتے ہوئے مجمع النفائس کے مؤلف نے لکھا ہے کہ

    چنین قصیدہ و گفتن بالقوہ دیگرے نیست

    اور یہ رائے صیحح ہے گو آج کل کے اربابِ ذوق کے لئے لزوم مالا یلزم کی مذکورہ بالا مشکل صنعت میں کوئی شاعرانہ دلکشی نہیں، کسی اور سلطان کی مدح میں ان کے کسی اور قصیدہ کا کہیں ذکر نہیں اس لئے خیال ہوتا ہے کہ بادشاہوں کی منادمت پسند نہیں کرتے تھے اور جب اُن کے علمی کمالات کی شہرت ہر طرف پھیلی تو اربابِ علم خود اُن کے گرد جمع ہوگئے اور وہ سرچشمۂ فیض بن کر سب کو سیراب کرتے رہے، اس زمانہ کا مشہور اور ممتاز شاعر ملک الکلام فخر الملک عمید تولکی جو امیر خسرو اور حسن سنجری کا سرپرست بھی رہا، ان کو استاد کے لقب سے یاد کرتاہے، سلک السلوک اور طوطی نامہ کے مشہور مؤلف حضرت مولانا ضیاؤالدین نخشبی بھی ان کے شاگردوں میں تھے، امیر خسرو نے اپنی غیر معمولی خداداد استعداد و صلاحیت کی بنا پر کسی کو اپنا استاد بنانا پسند نہیں کیا، شروع میں بطور خود کہتے رہے پھر کسی استاد سے مشورہ لینے کے بعد بجائے اساتذہ کے دواوین کو سمانے رکھ کر ان کا تتبع کرتےتھے لیکن جب جب سخنوری و زمزمہ سنجی کے شباب پر پہنچے تو مولانا شہاب الدین کو اپنا کلام دکھانے لگے جو مولانا شہاب کی علمی و ادبی فضیلت کا سب سے بڑا ثبوت ہے، اپنی مشہور و معروف مثنوی ہشت بہشت کے خاتمہ میں امیر خسرو نے اعتراف کیا ہے کہ یہ کتاب شہاب کی اصلاح یافتہ ہے، چنانہ فرماتے ہیں۔

    من بدو عرض کردہ نامۂ خویش

    او بہ اصلاح راندہ خامۂ خویش

    دید ہرنکتہ را رقم برقم

    رنج برخود نہاد و منت ہم

    نظیر تیز کرد موئے شگاف

    نے بعمیا نظارۂ بگزاف

    امیر خسرو کا بیان ہے کہ مولانا شہاب نے دشمن بن کر اس مثنوی کی غلطیاں دیکھیں، گو دوستوں کی طرح اس کو پسند بھی کیا۔

    گرچہ چوں دوستاں پسندیدہ

    لیکن از چشمِ دشمنان دیدہ

    دیدۂ خصم عیب کوش بود

    دیدۂ دوست عیب پوش بود

    دید چو دشمنان درین دفتر

    تاہمہ عیب آمدش بہ نظر

    چون ہمہ عیب دید دشمن وار

    شست چوں دوستان آئینہ دار

    کلک او تیر راست را بگماشت

    کہ درین روضہ آہوئے نگذاشت

    پھربڑی صفائی سے اقرار کرتے ہیں کہ

    شمع من یافتہ ضیا از وے

    مسِ من گشتہ کیمیا از وے

    امیر خسرو مولانا شہاب کی بتائی ہوئی غلطیوں کو ادب سے قبول کرتے تھے، کہتے ہیں۔

    ہر چہ او گفت من نہادم گوش

    برکشیدم مگس ز شربت نوش

    وانچہ بنمود ومن نجستم پے

    عیب آن برمن است نے بروے

    گر بماندہ زوشنہ اش جائے

    بے خسے نیست ہیچ دریاے

    ان اشعار کی بنا پر مولانا شبلی لکھتے ہیں کہ امیر نرے مقلد نہ تھے، جہاں کو اصلاح کی وجہ سے سمجھ میں نہیں آتی تھی، وہاں استاد کی رائے تسلیم نہیں کرتے تھے، گو ادب کا پاس اب بھی ملحوظ رکھتے تھے۔

    عیب آں برمن است نہ بروے

    آخری اشعار میں بھی مولانا شہاب الدین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی مثنوی کو ختم کر دیتے ہیں۔

    صد ہزار آفریں بر آں دل پاک

    کہ بروں برو زیں چمن خاشاک

    انچہ او دیدتانہایت دید

    خس و خارے ز گلشنے برچید

    آنچہ ماند از نظر بہ پردہ نہان

    ہم نہاں داردش خدائے جہان

    یارب او چون ز پینج نامۂ من

    بردہ بیرون خطائے خامۂ من

    نامۂ او کہ حرز جانش باد

    در قیامت خطِ امانش باد

    ان اشعار کو پڑھ کر یہ کہنے میں تامل نہیں کہ خود امیر خسرو نے مولانا شہاب الدین کو اپنا مشفق استاد تسلیم کیا ہے، امیر غالباً اپنا کلام برابر مولانا شہاب الدین ہی کو دکھاتے رہے ہوں، اسی وجہ سے کہا ہے۔

    شمع من یافتہ ضیا ازوے

    مسِ من گشتہ کیمیا از وے

    چنانچہ شبلی رقم طراز ہیں کہ کیا عجیب بات ہے کہ استاد جس کے دامنِ تربیت میں خسرو جیسا شخص پل کر بڑا ہو، آج اس کا نام و نشاں تک معلوم نہیں۔

    لیکن ڈاکٹر محمد وحید مرزا (ریڈر : شعبۂ عربی لکھنؤ یونیورسٹی) اپنی محققانہ اور فاضلانہ کتاب دی لائف اینڈ ورکس آف امیر خسرو میں مولانا شہاب الدین مہمرہ کو امیر خسرو کا استاد تسلیم نہیں کیا ہے، چنانچہ کتاب کے دیباچہ میں شہاب مہمرہ یا متمرہ کا ذکر کیا ہے لیکن ان کی استادی اور امیر خسرو کے تلمیذ کی کوئی تصریح نہیں کی ہے بلکہ ایک اچھا شاعر کہہ کر ان کا ذکر ختم کر دیا ہے پھر اس کتاب کے صفحہ 33 کے حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ مولانا شبلی نے شعرالعجم میں لکھا ہے کہ خسرو مولانا شہاب الدین کے شاگرد ہوگئے تھے لیکن وہ (مولانا شبلی) اس غلط نتیجہ پر خسرو کے بعض ان اشعار کی بنا پر پہنچے جو انہوں نے مولانا شہاب کے متعلق کہے ہیں، آگے چل کر صفحہ 143 پر علاؤالدین خلجی کے عہد کے شعراء کا ذکر کرتے ہوئے، ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں ان میں سے بہت سے شعرا صاحبِ دیوان بھی ہوئے یعنی انہوں نے اپنے کلام کے مجموعے مرتب کئے، ان میں سے ایک شہاب الدین بھی تھے جن کی تعریف خسرو نے خاص طور پر کی ہے اور ان کو عربی زبان کا عالم بھی بتایا ہے اور متعدد بار ان سے اپنی شعر و شاعری سے متعلق مشورے بھی کئے ہیں لیکن ہم تک ان کی کوئی تصنیف نہیں پہنچی ہے، اس لئے ان کی شخصیت کا پتہ چلا نامشکل ہے، اس تحریر پر ڈاکٹر صاحب کا یہ حاشیہ ہے کہ یہ غالباً وہی ہیں جن کو برنی اور فرشتہ نے عہدِ علائی کے شعراء میں شہاب صدر نشیں لکھا ہے لیکن ان کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں، خسرو ان کو اکثر امام کے لقب سے یاد کرتے ہیں جس سے یہ خیال ہوتا ہے کہ وہ شہاب الدین تھے جو نظام الدین اؤلیا کے امام تھے، (سیرالاؤلیا، صفحہ 392-290) لیکن وہ کوئی مشہور شاعر نہ تھے، حضرت نظام الدین اؤلیا کے معاصروں میں اجودھن کے خواجہ فرید کے صاحبزادے کا اسمِ گرامی بھی شہاب الدین ہی تھا، (سیرالاؤلیا، صفحہ 8-186) پھر صفحہ 195 اور 203 پر مولانا شہاب الدین کا ذکر امیر خسرو کے دوستوں میں کیا ہے، صفحہ 203 پر امیر خسرو ہی کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں کہ مثنوی ہشت بہشت پر ان کے دوست شہاب الدین نے نظر ثانی کی جو بہت بڑے عالم تھے، صفحہ 218 پر ان کو امیر خسرو کا سرپرست بھی لکھا ہے۔

    ڈاکٹر صاحب امیر خسرو سے متعلق تمام معلومات فراہم کرنے میں شاید کچھ ایسے مشغول رہے کہ وہ مولانا شہاب الدین کے بارے میں زیادہ چھان بین نہ کرسکے ورنہ وہ بھی اسی نتیجہ پر پہنچتے کہ در اصل شہاب الدین مہمرہ ہی مولانا شہاب الدین تھے، ڈاکٹر صاحب نے دیباچہ میں لکھا ہے کہ خسرو نے شہاب الدین مہمرہ کی تقلید میں بھی بعض قصائد کہتے ہیں اور ان کو یہ بھی اعتراف ہے کہ ایک شاعر شہاب الدین سے متعدد بار امیر خسرو نے شاعری کے متعلق مشورہ بھی کیا، اسی شاعر کو امیر خسرو کا سرپرست بھی تسلیم کرلیا ہے پھر جس شہاب الدین کا ذکر بار بار کیا ہے اس کو شہاب الدین مہمرہ تسلیم کرنے اور امیر خسرو کا استاد ماننے میں عذر کیون ہے، مولانا شہاب الدین مہمرہ اپنے علمی و ادبی پایہ کی وجہ سے اپنے عہد کے غالباً تمام شعرا کے استاد تھے، اسی لئے فرشتہ نے عہد علائی کے شعرا کی فہرست میں شہاب الدین صدر نشین کے لقب سے یاد کیا ہے، مولانا عبدالقادر بدایونی نے ان کو استاد الشعراء لکھا ہے، ڈاکٹر اقبال حسین (لکچرر : پٹنہ یونیورسیٹی) نے بھی ان کو اپنی کتاب ہندوسان کے قدیم فارسی شعراء میں امیر خسرو کا استاد ہی تسلیم کر کے ان کی شاعری پر تبصرہ کیا ہے، ایسے باکمال شاعرپر گمنامی کا پر دہ پڑا رہنا تعجب انگیز ہے، اس کے متعدد اسباب ہیں۔

    (1) ایک تو یہ کہ وہ شاہی دربار سے مستقل طور پر وابستہ نہیں ہوئے اور عام طور سے مؤرخوں اور تذکرہ نویسوں نے ان ہی شعرا کو زیادہ اچھالا ہے جو دربار سے متعلق تھے۔

    (2) دوسرے شہاب الدین مہمرہ نے اپنے کلام کا مجموعہ مرتب نہیں کیا جیسا کہ اوپر ہم امیر خسرو کے ایک بیان میں واضح کر چکے ہیں، گو ان کا منتشر اور متفرق کلام ہر زمانہ میں شوق سے پڑھا گیا، گیارہویں صدی ہجری میں تقی اوحدی مؤلف عرفات العاشقین نے ان کے تقریباً تین ہزار بکھرے ہوئے اشعار جمع کئے اور اس کا یہ بھی بیان ہے کہ اس کے عہد میں بھی تمام اربابِ نظر مولانا شہاب مہمرہ کو اساتذۂ فن میں شمار کرتے تھے، اس کے اصلی الفاظ یہ ہیں۔

    گویندوے از شعراے بزرگوار سواد ہندوستان است و ایں صیحح است۔

    مولانا شہاب کے گمنام ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہوئی کہ جب امیر خسرو کی شاعری کا آفتاب نصف النّہار کو پہنچان تو اور تمام شعرا ستاروں کی طرح مانڈ پڑ گئے، منتخب التواریخ میں مولانا عبدالقادر مولانا شہاب مہمرہ کے ذکر میں فرماتے ہیں۔

    چوں کلام متقدمین بعد از ظہور کوکبۂ خسرو شاعر ان حکم وجود ستارہ ہا در وقت ارتفاع اعلام نیّر اعظم پیدا کردہ و مانند سبعیات ہنگام نزول وحی منزل بر خیرالبشر و سیّدعالم علیہ السلام در پردۂ توازی ماندہ ازانہا کم می گویند و می نویسند بلکہ نمی نمایدن۔

    (جلد اول صفحہ 71-70)

    تذکرہ نویس اور مؤرخین امیر خسرو کے ساتھ سنجری کے کلام کا تو ذکر کرتے ہیں لیکن اربابِ کمال کی شاعری میں ان کو کچھ ایسی لذّت و کیفیت محسوس ہوتی ہے کہ اس عہد کے بقید اور تمام شعراء کو وہ نظر انداز کر دیتے ہیں، ملا عبدالقادر امیر خسرو اور میر حسن کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:-

    درآن عہد اگر چہ شعرائے دیگر صاحبِ دواوین بودہ اند، امّا باد وجود ایں دو بزرگوار ذکر آنہا خوش نمی آید:۔

    چوں آفتاب برآید ستارہا عدم است

    لیکن در حقیقت مولانا شہاب مہمرہ کی حیثیت ایک ستارہ کی نہ تھی، خودملا عبدالقادر بدایونی نے ان کو

    شہسوار میدان بلاغت اور راستاد الشعرا‘‘ کہا ہے کہ امیر خسرو نے نہ صرف شاعرانہ انداز میں ان کے ادبی و عملی کمالات کی مدح سرائی کی ہے بلکہ جس طرح انہوں نے قاخانیٔ انوری، ظہیر فاریابی اور کمال اصفہانی کے تتبع میں قصائد کہے، اسی طرح مولانا شہاب مہمرہ کی تقلید میں بھی قصیدہ کہہ کر ان کو اساتذۂ فن میں شمار کیا ہے، امیر خسرو کا ایک مشہور شعر یہ ہے۔

    در بداؤن مہمرہ سرمست بر خیز ذرخواب

    گر بر آید غلغلہ مرغانِ دہلی زیں نوا

    پہلے کہا جا چکا ہے کہ امیر خسرو نے مولانا شہاب الدین کو ’’سلیمان ممالک سخن‘‘ بھی کہا ہے، جہانگیر کے زمانہ میں میر عضدالدولہ نے فرہنگ جہانگیری لکھی تو اس میں اور اساتذہ کی طرح مولانا شہاب کے بھی اشعار جابجا سند میں پیش کئے۔

    عرفات العاشقین کا مؤلف مولانا شہاب کی تعریف میں رطب اللسان ہے۔

    ’’شاہ سخن پر درازیست کہ در عرصہ فکرت رایقان سمند معنی را پیادہ رُخ بررُخ نہادے یل در شطرنج مقاومت وفیل فرزین طرح دلوی۔

    جمع النفائس کے مؤلف سراج الدین علی خان آرزو نے بھی تسلیم کیا ہے کہ

    دی (شہاب الدین مہمرہ) از شعرائے بزرگ ہندوستان است

    موجودہ دور کے اہلِ قلم میں پروفیسر عبدالغنی اپنی انگیزی کتاب پری موغل پر شین اِن ہندوستان میں لکھا ہے کہ شہاب الدین مہمرہ کے قصائد ایران کے سربر آوردہ شعراء فرخی، خاقانی، انوری وغیرہ کے ہم پلہ ہیں، یہ رائے اس لحاظ سے بے شک قابلِ قبول ہے کہ مولانا شہاب الدین مہمرہ ان باکمال شعراہی کی طرح قادرالکلام تھے، گو مولانا کے طرزِ ادا اور اسلوبِ بیان کی نوعیت ان شعرا سے مختلف تھی، البتہ پروفیسر موصوف کی اس رائے سے پورا اتفاق ہے کہ مہمرہ کے قصائہ اس بات کا بہترین ثبوت ہیں کہ ہندوستان کے اربابِ فن نے فارسی ادب کو کس طرح فروغ دیا۔

    مولانا شہاب الدین کے زیادہ سے زیادہ اشعار منتخب التواریخ اور عرفات العاشقین میں نظر سے گذرے، کچھ اشعار مجمع النفائس، خلاصۃ الاشعار اور مخزن الغرائب میں بھی ہیں، ان ہی نمونوں کو دیکھ کر ہم کو ان کے کلام پر ایک نگاہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

    مولانا شہاب مہمرہ کی قصیدہ نگاری میں بعض بالکل ہی نئی باتیں پائی جاتی ہیں مثلاً وہ بعض اوقات تین چار الفاظ لے لیتے ہیں اور ان کو ہر شعر میں دہرا کر قصیدہ نگاری کی لفظی صنعت کا کمال دکھاتے ہیں اور اس مشکل صنعت کے ساتھ قصیدہ کی فصاحت و بلاغت میں فرق نہیں آنے پاتا بلکہ ان کی جدّتِ طبع لطفِ زبان اور اندازِ بیان میں یکساں لطف حاصل ہوتا ہے، تقی اوحدی نے عرفات العاشقین میں ان کے اس وصف کی داد اس طرح دی ہے:-

    در شعر وے صنائع و بدائ و بسیار فصاحت و بلاغت بے شمار است و در اکثر قصائد التزامات مشکلہ غریبہ مکرر نمودہ و نہایت قدرت بصد ظہور رسانیدہ

    اس کی ایک مثال اوپر گذر چکی ہے، اسی طرح کا ایک اور قصیدہ حمد و نعت میں کہاگیا ہے، اس میں مور موئے کے الفاظ ہر شعر میں آئے ہیں, کچھ اشعار ناظرین کی ضیافت کے لئے پیش کئے جاتے ہیں۔

    از زبان گرشہ شگافم موئے ہنگامِ بیان

    در نثائے حق زحیرت ہمچو مورم بے زبان

    در پئے زنجیر مویان پریرو از ہوس

    بستہ ام بسیار چون مور ان ز دل جان برمیان

    و ز برائے مور چشمان شکر لب در خیال

    سفتہ ام موئے سخن صدرہ زر وے امتحان

    تا ذخیرہ باشدم چون مور اندر مدح او

    مود و نیمہ کردم و یک موندید از کس نشان

    بعد ازین چوں موربندم بر دربے چوں مکر

    وزبُنِ ہر موئے تو فیقش کشابم صدزبان

    پورا قصیدہ عرفات العاشقین میں درج ہے جس میں تقریباً 15 اشعار ہیں، منتخب التواریخ جلد اول (صفحہ 76-79) میں بھی یہ قصیدہ ملے گا، گو اس میں کچھ کم یعنی 144 اشعار ہیں۔

    اپنی قادرالکلامی کے اظہار کے لئے مولانا شہاب الدین ہر قصیدہ میں کوئی نہ کوئی جدت ضرور اختیار کرتے، چنانچہ مجمع النفائس کے مؤلف کا بیان ہے کہ

    ضلائے عصر بود، در ہر قصیدہ طرز خاصے دارد۔۔۔۔ قدرت او از آنہا معلوم میشود

    بعض قصاد ایسے بھی کہے ہیں جن میں خاص خاص حرف کے الفاظ مطلق استعمال نہیں ہوئے ہیں مثلاً حسب ذیل قصیدہ کے 134 اشعار کے کسی لفظ میں الف استعمال نہیں ہوا ہے، طوالت کے خیال سے ہم پورے قصیدہ کو نقل کرنےسے قاصر ہیں، اس لئے اس کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

    منہ بہ برگ سمن پیش لالۂ و عنبر

    ز مشک سودہ مگس کرد نسترن چنبر

    بند حقہ بسد زرشتۂ لولو

    مپوش تختۂ نقرہ بہ حلقۂ عنبر

    محیط دولتِ گردون ولے بہ پیشِ نفس

    چو رود خشک شود فیض دجلۂ کوثر

    چو چوب عود بسوزد سپہر مجمرہ شکل

    ز کوزہ سخطش گر جہد بکینہ شرر

    ز شرم کو ہر لفظ تو در دلِ معدن

    نشستہ صد عرق شرم بر رخِ گوہر

    اسی صنعت میں سلطان رکن الدین کے دربار کے ایک امیر بہاؤالدین کی شان میں بھی ایک قصیدہ ہے، اس کے کچھ اشعار ہدیۂ ناظرین ہیں۔

    زہے چو مہر بجود و کرم شدہ مشہور

    علوی قدر تو برتر ز گنبد معمور

    نسیمِ خلقِ تو در حدشش جہت موصوف

    بلندِ حیثیتِ تو در بزمِ فلکل مشہور

    محیط علم وخردہم بہاء دین کز تو

    حدیث خلق حسن گشت و زمین مذکور

    نسیم طبع تو برحرفِ معدلت موصوف

    محیط کف تو برفیض مکرمت مقصور

    ز قدرِ تست معظم نمودہ مسند ملک

    ز فرتست مقدس شدہ تجلی طور

    مطیع حکم تو در شرق و غرب ترک و غرب

    رہیں عدل تو در بحروبر و خوش و طیور

    چو بحر و گنج برخطہ جود تو موصوف

    چو بخت و عقل بہر بقعہ سعی تو مشکور

    تو بے نظیر بے بعد لی و کس نہ بیند نیز

    عدیل عدل تو ہر گز بروز نشور

    ہندوستان میں اس قسم کے قصاعد مصنوع کے لکھنے کا سہرا مولانا شہاب الدین ہی کے سر ہے۔

    خلاصۃ الاشعار کے مؤلف نے لکھا ہے کہ ان کے قصائد مصنوع ایران کے حکیم ابو علی جبائی کے قصائد کے ہم پلہ قرار دیئے جاسکتے ہیں۔

    ہندوستان کے شعرا میں حمد و نعت میں قصائد کہنے کی اولیت بھی غالباً مولانا شہاب ہی کو حاصل ہوئی ان سے پہلے شعرا سلاطین، وزرا اور امرا کی مدح سرائی میں قصیدہ نگاری کا سارا زور صرف کرت تھے لیکن مولانا شہاب نے حمد و نعت میں قصائد کہہ کر اس صنعت شاعری میں مذہبی رنگ بھی پیدا کیا حمد کے کچھ اشعار ہم پہلے نقل کر چکے ہیں، اب ایک طویل نعتیہ قصیدہ کے کچھ اشعار نقل کئے جاتے ہیں۔

    نہ تخت کن محمد کہ سروقِ شرف زد

    بسوے در مہیمن ز سرائے ام ہانی

    بشرے ملک لطافت فلکی زمین تواضع

    چو فلک بہ پاک جسمی چو ملکّب پاک جانی

    گہرے کہ بود جایش بجزا نۂ الٰہی

    قمرے کہ تافت نورش ز سپہر جاودانی

    گہرے کہ قیمیت تر ز وجودِ او نیاید

    بہ دلالتِ عناصر ز محیطِ ؤسمانی

    قمرے کہ ہر سحر گہ چو شب سیاہ گیتی

    زخجالتِ عقیقش رخِ کوکب یمانی

    شکرین زبان رسولے کہ بود نجات امت

    بہ عقیدۂ زبانش ز عقیلۂ زبانی

    گہرین بیان فصیحے کہ فصاحت بیانش

    چو ضمیر کان کند خون دل گنج شایگانی

    زجمال عارضش کم رخ آفتاب شرقی

    ز قوام قامتش خم قد سروبوستانی

    بہ حساب برگرتہ رہ مالک الرقابی

    بہ کلام برکشادہ در صاحبِ القرانی

    جذباتِ شوقِ باطن بمکاشفت کشیدہ

    زبسیط کائناتش بہ محیط لامکانی

    اس کے بعد خلفائے راشدین یعنی حضرت ابوبکر (ابن ابو قحافہ) حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی کا بھی رضی اللہ عہنم کے ذکر ہے، جس میں تھوڑی سی ان کی منقبت بھی آگئی ہے۔

    بہ نووید دوست جانش شدہ مست برامیدش

    پسر ابو قحافہ زدہ قحف دوستگانی

    ربطی بنا فگندہ سخنش قضائے حق را

    شدہ از پئے سیاست عمرش بہ عدل باقی

    قدم سیوم دریں رہ نہ پیش نہادہ مردے

    کہ گزد غرور راہش بہ متاع این جہانی

    شدہ رکن چار منیش علی آنکہ بدگہِ کین

    ز شعاع ذوالفقارش رُخِ مہر زعفرانی

    ملکا بحق یاران کہ مرا بہ یار مئی خودا

    ز بلائے یار نادان ہمہ عمر را رہائی

    زمن آنکہ ایں قصیدہ طلبیدہ باد جانش

    چو قیصدہ امام مزین بجواہر معانی

    پورے قصیدہ میں بلاغت بھی ہے اور فصاحت بھی، الفاظ کے در و بست سے قصیدہ میں بڑی کیفیت پیدا ہوگئی ہے، شاید مولانا شہاب کے اسی قسم کے کلام کو دیکھ مخزن الغرائب کے مؤلف نے لکھا ہے کہ

    او فاضلِ وقت خود بود و طبعی موزون و شعرے چوں در مکنون داشت

    ان قوافی کی دل آویزی سے متاثر ہوکر امیر خسرو نے اپنے استاد کے شاید تببع میں ایک پرکیف غزل لکھی ہے، گو اس کی بحر مختلف ہے، ناظرین بھی اس غزل کے دو چار شعر سے لطف اٹھائیں۔

    بہم از جمال ساقی ز شرابِ ارغوانی

    کہ بیار تشنہ ام من بہ آبِ زندگانی

    تن من چو موم از آتش بگداخت در فراقت

    بدے چوسنگ خارا تو ہنوز ہم چنانی

    چو نوید عشق دادی دل مردہ زندہ گردد

    کہ غذائے روح باشد غم دوستان جانی

    مشو از صبا مشوش ز نفیر درد مندان

    چو زغائبانِ مجلس خبرے بماشانی

    امیر خسرو اور عمیدالدین منامی نے غالباً اپنے استاد مولانا شہاب کے تتبع میں حمد و نعت میں بہت سے قصائد کے کہے ہیں جن کا ذکر کسی اور موقع پر آئے گا، حمد و نعت میں تصوف کے مسائل کا آنا گزیر ہے، اس لئے ظاہر کہ مولانا شہاب کے قصائد میں صوفیانہ رنگ بھی لا محالہ پیدا ہوگیا جس کی بنا پر ڈاکٹر اقبال حسین کا خیال ہے کہ مولانا شہاب ہی کو یہ اولیت حاصل ہے کہ انہوں نے قصائد کو تصوف سے روشناس کیا لیکن ہم کو مولانا شہاب کا کوئی ایسا قصیدہ نہیں ملا جس میں انہوں نے تصوف کے معارف و حقائق کا مستقل ذکر کیا ہو، البتہ ان کے حمد و نعت کے قصائد ان کے صوفیانہ جذبات کا ضرور اظہار ہوتا ہے، پروفیسر عبدالغنی رقم طراز ہیں کہ مولانا شہاب کے جو اشعار تذکروں میں پائے جاتے ہیں، ان میں زیادہ تر اخلاقیات اور روحانیات کا درس ہے جو اپنے تخیلاکی رفعت اور اسلوبِ بیان کی شوکت و جزالت کے لحاظ سے بے مثل ہیں اور یہی قصیدہ گوئی کے محاسن ہیں، تصوف کا اخلاق و روحانیت سے گہرا تعلق ہے، اس لئے مولانا شہاب کے کلام میں اخلاق و روحانیت کا عنصر بھی ہے، لہٰذا پروفیسر عبدالغنی نے کو کچھ کہا ہے اس کو تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں، البتہ مولانا شہاب کا سارا کلام دسیاب ہوجاتا تو اور بھی وثوق کے ساتھ اس رائے سے اتفاق کیا جاسکتا تھا کیونکہ مولانا شہاب کے علم و فضل سے توق بھی یہی کی جاسکتی ہے کہ انہوں نے شاعری کو محض ذریعہ تفریح نہیں بنایا ہوگا بلکہ خوشامد اور مداحی سے الگ ہوکر عشقِ حقیقی کی آگ سے دل کو گرمانے اور پند و موعظت سے اخلاق کو منوانے کی بھی کوشش کی ہوگی۔

    لیکن پروفیسر عبدالغنی نے نہ جانے یہ بات کیسے لکھ دی کہ عرفی نے ہندوستان آنے پر شہاب کے طرز نگارش اور تجلی رجحان کا تتبع کیا، وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ مہمرہ کے قصائد میں جو زندگی کے مقاصد و نصب العین اور ذہن کی توانائیاں ہیں وہ عرفی کے قصائد میں بھی بکثرت ہیں جس نے مہمرہ ہی کی طرح لمبے لمبے قصائد لکھے، یہ تو صحیح ہے کہ عرفی کے بعض قصائد مہمرہ ہی کی طرح طویل ہیں لیکن طرز نگارش اور تخیلی رجحان میں دونوں کا موازنہ کرنا یک بیکار سی بات ہے جہاں تک زورِ کلام ار طرزِ ادا کی جدت کا تعلق ہے، شہاب اور عرفی میں تھوڑا سا موازنہ ہوسکتا ہے گو ان کی بھی نوعیت بالکل جدا اور مختلف ہے، عرفی نے پانے مضامین کے زور اور اسلوبِ بیان کے اچھوتے پن میں الفاظ کی شان و شوکت بندش کی چستی، خیالات کی رفعت، استعارات اور تشبیہات کی طرفگی اور فصاحت و بلاغت کا ایسا زور شور دکھلایا کہ وہ ایک طرز خاص کا موجد بن گیا جس سے مولانا شہاب کے قصائد کو کوئی مناسبت نہیں مولانا شہاب اپنے عہد کے مسلم الثبوت استاد ضرور تھے، جیسا کہ ہم پہلے دکھلا چکے ہیں لیکن بقول پروفیسر محمود شیرانی مرحوم شہاب کا انداز، علمیت، سنگلاخ زمین، صنعت لزوم مالا یلزم و دیگر صنائع ہیں، یہ رنگ جو زیادہ تر چھٹی ساتویں صدی میں مرغوب طبائع تھا دسویں صدی میں عرفی اور اس کے معاصریں کو کیوں پسند آنے لگا

    پروفیسر عبدالغنی نے یہ بھی لکھا ہے کہ مہمرہ کے کردار کی شرافت اور دنیا سے بے نیازی نے ان کو سلاطین کے سامنے جھکنے سے باز رکھا، اس لئے محض روپئے کی خاطر انہوں نے کسی کی مداحی نہیں کی یہ صحیح ہے گو مولانا شہاب نے سلطان رکن الدین فیروز شاہ اور اس کے بعض درباری امرا کی شان میں کچھ قصیدے ضرور کہے لیکن قصائد ان کی کم عمری کے زمانہ کے ہیں، ان کے علم و فضل کے شہرہ کے بعد واقعی ان کی جبینِ نیاز کسی کے آستانہ پر نہیں جھکی مگر پروفیسر موصوف کا یہ بیان بھی تعجب انگیز ہے کہ گو عرفی ہندوستان دولت کی تلاش ہی میں آیا لیکن شہاب فہمرہ کی طرح اس نے قصیدہ گوئی کو اپنا پیشہ بنایا اور نہ انعام کی تلاش میں وہ سلاطین و امرا کے درباروں کا مشتاق رہا، پروفیسر موصوف نے حاشیہ میں خودیہ بھی لکھا ہے کہ عرفی نے شہزادہ سلیم (جہانگیر) حکیم ابوالفتح، عبدالرحیم خان خاناں اور اکبر کی شان میں قصیدہ کہے جن کی سرپرستی نے اس کو دوسروں سے بے نیاز کر دیا تو پھر اس کو دوسرے امراء و سلاطین کے دربار میں جانے کی ضرورت ہی کیا رہ گئی تھی، یہ اور بات ہے اس نے اپنے غرور کم بینی اور خودستائی میں مختلف درباروں کی ناصیہ سائی کا اظہار پسند نہیں کیا، یہ ضرورت ہے کہ وہ قصیدہ گوئی کو اچھا پیشہ بھی نہیں سمجھتا تھا۔

    قصیدہ کار ہوس پیشگان بوعرفی لیکن پھر بھی وہ برابر قصیدے ہی کہتا رہا اور اس کا نام آج تک اس کے قصیدوں ہی کے بدولت روشن ہے، البتہ یہ صحیح ہے کہ اس نے اپنے قصیدوں میں ادنیٰ درجہ کی مداحی اور چاپلوسی کا اظہار نہیں کیا ہے بلکہ مضمون آفریں اور نازک خیالی کے ساتھ بڑی خودداری کا ثبوت دیا ہے اور بقول مولانا، شبلی، عرفی نے قصائد میں جس قسم کی خود داری کے خیالات کی ابتدا کی تھی اگر اس کی طرف عام خیالات کا میلان ہوگیا ہوتا تو شاید یہ صنف کسی اچھے کام کا مصرف بن جاتی۔

    (شعر العجم، حصہ سوم صفحہ 114)

    جہاں تک قصیدہ گوئی سے اچھے کام کا مصرف لینے کا تعلق ہے، ہندوستانی شعرا میں یہ اولیت مولانا شہاب ہی کو حاصل ہے کہ انہوں نے قصیدہ کو حمد و نعت، اخلاق و تصوف سے روشناس کر کے اس صنف میں ایک نیا رنگ پیدا کیا جس کو بعد کے شعرا نے چمکایا، اس لحاظ سے اس فن سے مذہبی، روحانی اور اخلاقی جذبات کا نشو و نما کا بھی کام لیا جانے لگا اور اس کا سہرا مولانا شہاب ہی کے سر ہے، ڈاکٹر اقبال حسین نے ان کے قصیدوں پر عام تبصرہ کرتے ہوئے، بجا طور پر کہا ہے کہ ان کے قصیدے اب موجودہ مذاق کے مطابق نہیں ہیں لیکن جب یہ کہے گئے تو اس عہد کے تمام معاصرین نے ان کو عام طورپر پسند کیا اور اس کی تقلید کرنے کی بھی کوشش کی، یہ اپنی جدت طرازی اور دوسرے محاسن کی وجہ سے صدیوں تک مقبول رہے، ان میں تصنع ضرور ہے لیکن مولانا شہاب نے اپنی جادو گری سے اس تصنع میں بھی شوکت اور رفعت پیدا کی انہوں نے ہر قصیدہ میں ایک نئی صنعت پیش کی جو ان کی غیر معمولی ذہنی صلاحیت کا ثبوت ہے۔

    ان کے قصیدے ان کی قادرالکلامی، لفظی صنّاعی اور اختراع کے بہترین نمونے ہیں جن کی بنا پر یہ بلا شک و شبہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے عہد میں فارسی شاعری پر غیر معمولی طریقہ پر اثر انداز ہوئے اور آج بھی اپنی جدّتِ طبع اور قصیدہ گوئی پر بے مثل مہارت رکھنے کی وجہ سے یاد رکھنے کے قابل ہیں۔

    اس مضمون کے شروع میں ذکر کیا گیا ہے کہ مولانا شہاب کی وفات کی صحیح تاریخ معلوم نہیں ہوسکی ہے لیکن اس سلیمان ممالک سخن اور غیرت بوتحام و بخری کی وفات بدایوں میں ہوئی اور یہیں وہ پیوندِ خاک ہوئے، ان ہی کے پہلو میں ان کے شاگرد حضرت مولانا ضیاؤالدین بخشبی (المتوفیٰ 751ہجری) کا مزار شریف ہے۔

    مأخذ :
    • کتاب : Monthly Ma'arif

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے