Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

امیر خسرو بحیثیت ایک صوفی

سید صباح الدین عبدالرحمٰن

امیر خسرو بحیثیت ایک صوفی

سید صباح الدین عبدالرحمٰن

MORE BYسید صباح الدین عبدالرحمٰن

    ابوالحسن یمین الدین خسرو (1253عیسوی - 1327عیسوی) کی شخصیت میں بڑی رنگا رنگی ہے، وہ دنیا کے عظیم ترین شاعروں میں شمار کئے جاتے ہیں، اسی کے ساتھ بلند پایہ نثرنگار بھی تھے، بے مثل ماہر موسیقی بھی، سلاطین دہلی کے محبوب ترین ہم جلیس بھی، وفادار بیٹے بھی، شفیق باپ بھی اور اپنی مرشد حضرت شیخ المشائخ نظام الدین اؤلیا کے بہت ہی چہیتے اور جاں نثار مرید بھی، ان کے جیسا عبقری صدیوں کے بعد ہی کبھی کبھی پیدا ہوجاتا ہے، ان کی عبقریت کے گونا گوں پہلوؤں میں سے اس مقالہ میں وہ جامِ معرفت پی کر جس طرح سرشار اور مخمور ہے، اسی کو ناظرین کے سامنے پیش کرنا ہے۔

    سیاسی حیثیت سے تو انہوں نے غیاث الدین بلبن (1266عیسوی - 1286عیسوی) سے لے کر محمد بن تغلق کا ابتدائی عہد دیکھا جب کہ سیاست کی ہر قسم کی ہنگامہ آرائیاں ہوتی رہیں، ہندوستان پر انہوں نے تاتاریوں کے پے درپے خونریز حملے دیکھے، خود ان کے ہاتھوں اسیر ہوئے، اپنے محبوب ترین علمی و ادبی سرپرست شہزادہ محمد سلطان کو میدانِ جنگ میں 1285عیسوی میں شہید ہوتے بھی دیکھا، سلطان معزالدین کیقباد (1287عیسوی - 1290عیسوی) کی سرمستیاں اور رنگ رلیا بھی ان کی نظروں سے گذریں، سلطان جلال الدین خلجی (1290عیسوی - 1296عیسوی) کی مصحف دار کی حیثیت سے اس کے المناک قتل سے بھی متاثر ہوئے، سلطان علاؤالدین خلجی (1296عیسوی - 1216عیسوی) کی فتوحات میں بھی شریک رہے، پرواریوں کے ہاتھوں شاہی محل کے اندر سلطان قطب الدین خلجی کا سفاکانہ قتل بھی 1320عیسوی میں ان کی زندگی میں ہوا، غیاث الدین تغلق (1320عیسوی - 1325عیسوی) نے ان پر واریوں کو جس طرح مغلوب کیا، اس کے مناظر بھی دیکھے اور آخر میں محمد شاہ تغلق کی حکومت کے آغاز میں اپنی جان آفریں کے سپرد 1327عیسوی میں کی۔

    ان کی پیدائش 1253عیسوی میں ہوئی، انہوں نے چوہتر برس کی عمر پائی، ان کے پورے دورِ زندگی مین سیاسی ہنگامہ آرائیوں کے ساتھ شیخ المشائخ حضرت نظام الدین اؤلیا کی روحانی حکومت بھی قائم رہی، ان کے انفاسِ متبرکہ کی وجہ سے بقول مؤرخ مولانا ضیاؤالدین برنی دنیا روشن ہورہی تھی، ایک عالم نے ان کی بیعت کا ہاتھ پکڑا ان کی مدد سے گناہگاروں نے توبہ کی، ہزاروں بدکاروں اور بے نمازیوں نے بدکاری سے ہاتھ اٹھا لیا، لوگوں کے معاملات میں سچائی پیدا ہوگئی، احکامِ شریعت و طریقت کے رواج کی رونق بڑھی، خاص و عام، غریب و دولت مند، بادشاہ و فقیر، عالم و جاہل توبہ اور پاکی کی تعلیم پانے لگے تھے، بڑے بڑے گناہ لوگوں کے نزدیک کفر کے مشابہ معلوم ہونے لگے تھے۔

    (مزدیک تفیصلات کے لئے دیکھو تاریخِ فیروز شاہی صفحہ 241-46)

    اسی ماحول میں امیر خسرو کی زندگی گذری، شیخ المشائخ حضرت نظام الدین اؤلیا کا سن پیدائش 634ہجری ہے، اس طرح امیر خسرو حضرت خواجہ تقریباً سترہ سال چھوٹے تھے، سیرالاؤلیا کے مصنف کا بیان ہے کہ جب خسرو پیدا ہوئے تو ان کے والد کے گھر کے پاس ایک مجذوب (دیوانہ صاحب نعمت) رہا کرتے تھے، ان ہی کے پاس ان کے والد خسرو کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر لے گئے، مجذوب نے دیکھتے ہی کہا کہ ایک ایسے شخص کو لائے ہو جو خاقانی سے دو قدم آگے ہوگا، (سیرالاؤلیا صفحہ 301) اس پر تبصرہ کرتے ہوئے شیخ عبدالحق دہلوی نے اخبارالاخیار میں لکھا ہے کہ ممکن ہے دو قدم آگے کہنے سے ان مجذوب کا مقصد مثنوی نگاری اور غزل گوئی کے فن میں ہو، کیونکہ قصیدہ گوئی میں بعض بزرگوں کی رائے کے مطابق وہ خاقانی تک پہنچ تو سکے لیکن آگے نہ بڑھ سکے، (صفحہ 93-92) مولانا شبلی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مجذوب صاحب کے کمالات معنوی کا ہم انکار نہیں کرتے لیکن ان کے شاعرانہ ذوق کا تسلیم کرنا مشکل ہے، خاقانی کو امیر خسرو سے کیا نسبت۔ (شعرالجم، جلد دوم صفحہ 108)

    امیر خسرو نے اپنے والد سیف الدین کے متعلق غرۃ الکمال کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ وہ اپنی امارت کے باوجود پاصفت فرشتہ خصلت، عبادت گذار اور صاحبِ ولایت تھے، اسی بات کو اپنے انداز میں اس طرح لکھا ہے:-

    عجب سیفے کہ با چندیں صفت گوہر پاکش چناں بودہ کہ ہر گز سخن او زبانِ او بیرون نیامدے، ترک در خواب فرشتہ باشد او در بیداری فرشتہ بود، از بالا آمدہ آں چناں فرشتہ را جز در خواب نتواں دید، صفت، ملکی در طاعت چناں ملکہ کردہ کہ در خورشید سیہ چشم چشم، سرخ نہ کردی ہم از طریقِ دنیا امیر بود، ہم از جانب عقبیٰ صاحبِ ولایت با آں کہ امی بود

    غالباً اسی عبارت کو سمانے رکھ کر سیرالعارفین کے مصنف نے لکھا ہے کہ امیر سیف الدین لاچین اور پیر مرد صالح اور خداپرست تھے، خزینۃ الاصفیاء میں بھی ہے کہ

    ’’امیر سیف الدین لاچین پیری بے نظیری خدا پرستے بود (صفحہ 339)

    سیرالعارفین میں ہے کہ حضرت خواجہ امیر خسرو جب ہمراہ برادران و پدر بزرگوار حضرت نظام الدین اؤلیا کے مرید ہوئے تھے، اس وقت ان کی عمر آٹھ بڑس کی تھی لیکن اس میں عمر صحیح نہیں لکھی گئی ہے کیونکہ امیرخسرو نے غزۃ الکمال کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ وہ اپنے والد کی وفات کے وقت سات سال کے تھے، اس کے بعد وہ اپنے نانا عمادالملک کے یہاں پرورش پانے لگے، ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ ان کے نانا نہ تھے بلکہ دوست تھے۔

    آں جد نبود بلکہ دوستے بود، صاحب دولتے چوں چتر سلطان سپاد دوست عمال الملک چہارم

    پھر لکھتے ہیں کہ انہوں نے فراخ دلی ہندوستان کی مملکت اپنی مٹھی میں کرلیا تھا، اگر چہ وہ عرض کے کام پر مامور تھے پھر لکھتے ہیں:-

    زہے روات عارض کہ در کار آرائی مملکت ہند ہمہ تن رائے بود، چنانکہ اگر خواستے رائے بگردایندے و بار کردے

    لکھتے ہیں کہ ایک سو سترہ سال کی عمر پائی جس میں ستر سال تک عارض ممالک رہے اور ایسے عارض کہ ایک لاکھ ہندو ایک لاکھ سوارن کے یہاں سے کلاہ اور قبا پاتے تھے، مسلمانوں پر بھی ان کے کرم کی بارش عام تھی پھر ان کی دعوت اور پان کی تقسیم کا ذکر کرتے ہیں، آخر میں لکھتے ہیں کہ

    آں ہمہ ناں دہی مونس تربت او باد

    امیر خسرو نے اپنے نانا کا ذکر اپنی عبارت آرائی کے ساتھ مختصر طریقہ پر کیا ہے لیکن ان کے ہم مشرب اور دوست مولانا ضیاؤالدین برنی نے ان کے نانا کی تعریف بہت دل کھول کر کی ہے، وہ لکھتے ہیں کہ وہ سلطان شمس الدین ایلتتمش کے عہد میں عرض شکرہ سے عرض ممالک کے عہدے تک پہنچے اور دو قرن تک دیوان عرض کے جملہ معاملات ان ہی کے حکم سے طے پاتے تھے، سلطان بلبن بھی ان کی بڑی عزت کرتا، اس نے حکم دے رکھا تھا کہ خوانین و ملوک کے بعد ان ہی کی نشست رہے، ان کے اختیارات لا محدود تھے، عرض کے وقت جو بھی سوار ان کو مستعد نظر آتا وہ اس کی تنخواہ پہلے سے زیادہ کردیتے اگر لشکر کے کسی سوار کو کوئی حادثہ پیش آجاتا یا وہ کسی مصیبت میں مبتلا ہو جاتا تو وہ اس کی مدد کرتے اور کہتے کہ میں لشکر کا سردار ہوں، اگر مصیبت کے وقت لشکر کی فریاد نہ سنوں تو میر لشکر کا سردار ہونا بے سود ہے، وہ ہر سال دیوان عرض کے ملازمین کو اپنے گھر بلاتے، ان کو خلعت دیتے اور بیس ہزار تنکے ان کو دے کر کہتے کہ وہ آپس میں تقسیم کرلیں وہ ہر ایک کے ہاتھ کو بوسہ دیتے اور منت کے طور پر کہتے کہ تم بادشاہ پر جو لشکر کا مالک ہے، مجھ پر جو لشکر کا عارض ہوں اور خود لشکر پر جو رعایا کا محافظ ہے رحم کرو اور ثبوت کے طور پر لشکر سے کوئی چیز لینے کی توقع نہ رکھو، اس سے لشکر تباہ ہوجائے گا، وہ ان کو مخاط کر کے اپنے بھائیوں اور بیٹوں کی طرح عزیز نہ رکھوں گا تو دنیا میں حرام خور سمجھا جاؤں گا اور آخرت میں کرسیٔ قضا کے سامنے شرمسار ہوں گا، دیوان عرض میں ان کی طرف سے کھانا کھلایا جاتا، اس وقت پچاس ساٹھ خوان کھانے کے لائے جاتے جن میں میدے کی روٹی، بکری، حلوان، کبوتر، چوزے کے گوشت شربت اور پان ہوتے، دسترخوان پر دیوان عرض کے لوگ بیٹھے جو کھانا بچ جاتا وہ فقیروں کو دے دیا جاتا، ان کے پان عمدگی کے لئے مشہور تھے، پچاس ساٹھ پان والے غلام پان تقسیم کرنے میں مشغول رہتے، وہ خیرات و صدقات کے لئے مشہور تھے اور بہت سے گاؤں وقت کئے، ان کی وفات کو کئی قرن گذر گئے ہیں لیکن ان کا وقف کیا ہوا گاؤں باقی ہے، اس کی آمدنی مستحقین پر خرچ ہوتی ہے، ان کی روح کو ثواب پہنچانے کے لئے کھانا دیا جاتا ہے، ختم قرآن بھی پڑھا جاتا ہے، (صفحہ 117-115) عمادالملک کی ان خوبیوں سے متاثر ہوکر سیرالعارفین کے مصنف نے لکھا ہے کہ امیر خسرو نےاپنے نانا عمادالملک کی تعریف عزۃ الکمال میں لکھی ہے یہ بڑے اؤلیائے کرام میں سے تھے، امیر خسرو نے ان کو ولی تو نہیں لکھا ہے لیکن ولی کی تمام صفات ان کے ساتھ منصوب کی ہیں اور آخر میں لکھا ہے:-

    من یتیم را آں کریم در کنف پرورش می پروردتا پرور شدم، ہشت سالہ بودم کہ آں بزرگ صد و سیزدہ سالہ شد و در بہشت کہ ہزار سالہ را بود بہ یک نفس رسید، زہے قادر قدیمے کہ دردم زدنی ہزارسالہ راہ چشم پیش کردہ

    امیر خسرو، ضیا=الدین برنی اور سیرالاؤلیا کے مصنف میں سے کسی نے یہ نہیں لکھا ہے کہ ان کے والد اور نانا حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوگئے تھے مگر سیرالعارفین میں ہے کہ امیر خسرو اپنے بھائیوں اور والد کے ساتھ حضرت شیخ نظام الدین اؤلیا کے مرید ہوئے، والد کے ساتھ خسرو کے مرید ہونے کی روایت اس لئے مشکوک ہوجاتی ہے کہ جب ان کے والد کی وفات ہوئی تو وہ سات سال کے تھے، ظاہر ہے کہ حضرت خواجہ اتنے کم سن بچہ کو مرید نہیں کرسکتے تھے یا شاید برکت کی خاطر مرید کر لیا ہو، مگر یہ تو یقینی ہے کہ امیر خسرو کے بھائی اعزاالدین علی بھی حضرت خواجہ کے مرید تھے۔ (فوائدالفواد، صفحہ 9 لاہور اڈیشن) میں ہے کہ

    ’’اعزالدین علی شاہ سلمہٗ اللہ تعالیٰ کہ یکے از مریدانِ خاص بود

    مرأۃ الاسرار میں واضح بیان یہ ہے کہ صاحبِ سیرالعارفین لکھتے ہیں کہ امیر خسرو جس زمانہ میں آٹھ سال کے تھے تو ان کے والد اپنے تین لڑکوں عزالدین علی شاہ، حسام الدین احمد اور ابوالحسن کے ساتھ دہلی آئے، یہ سطان المشائخ کا ابتدائی زمانہ تھا، امیر سیف الدین لاچیں اپنے تینوں لڑکوں کے ساتھ آنحضرت کے مرید ہو گئے (قلمی نسخہ دارالمصنفین جلد دوم صفحہ 443) اس لئے سیرالعارفین کی یہ روایت تو صحیح ہے کہ امیر خسرو کے والد اور بھائی حضرت خواجہ سے مرید ہوئے، سیرالاؤلیا کی روایت ہے کہ سلطان المشائخ جب بداؤں سے آئے تو سرئے میاں بازار میں اترے جو سرائے نمک بھی کہلاتی تھی، والدہ اور ہمشیرہ کو اس جگہ ٹھہرایا اور خود بارگاہِ فلاں قوم اس میں سکونت پذیر ہوئے جو اس سرائے کے پاس تھی، امیر خسرو بھی اسی محلہ میں رہتے تھے، کچھ دنوں کے بعد راوت عرض کا مکان خالی ہوا، کیونکہ ان کے لڑکے اپنے اقطاع پر چلے گئے، راوت عرض امیر خسرو کے نانا تھے، سلطان المشائخ اس گھر میں چلے آئے، دو سال اس مکان میں رہے، یہ برج حصار دہلی متصل مندہ پل کے نزدیک تھا، اس کی عمارت بہت ہی وقیع تھی۔ (صفحہ 108)

    حضرت خواجہ عمادالملک کے محل میں دو سال تک رہے تو یہ خیال ہوتا ہے کہ عمال الملک بھی اپنے والد اور نواسے کے ساتھ حضرت خواجہ کے مرید ہوگئے تھے اور حضرت خواجہ کا کسی امیر کے محل میں قیام کرنا اپنی درویشی کی شان کے خلاف سمجھتے، عمادالملک کی وفات 671ہجری میں ہوئی، جب کہ حضرت خواجہ کی عمر اس وقت 37 کی تھی، امیر خسرو کا بیان ہے کہ عمادالملک کی وفات ایک سو تیرہ سال کی عمر میں ہوئی، اس لحاظ سے دونوں میں عمر کا بڑا تفاوت رہا، گر پیری مریدی میں تفاوت عمر کا چنداں نہیں کیا جاتا ہے، خسرو کے والد کا جب انتقال ہوا تو ان کی عمر پچاس سال کی تھی، حضرت خواجہ سے ان کا مرید ہونا یقی ہے، مرید ہوتے وقت انہوں نے تفاوتِ عمر کا خیال نہیں کیا، سیرالاؤلیا ہی کی روایت ہے کہ جب خسرو کے نانا کے لڑکے پانے اقطاع سے دہلی واپس آئے تو حضرت خواجہ کو مکان خالی کرنے کو کہا اور ان کو اتنی مہلت بھی نہ دی کہ وہ اپنے لئے کوئی اور رہائش گاہ تلاش کر لیتے، حضرت خواجہ کے پاس کوئی سامان نہ تھا، کچھ کتابیں تھیں، ان کو سر پر رکھ کر ایک مسجد میں آکر مقیم ہوئے، اس کے بعد اپنے معتقدین کے اصرار پر کئی مکانات میں منتقل ہوتے رہے، سیرالاؤلیا کے مصنف کا بیان ہے کہ جس رات کو حضرت خواجہ نے راوت عرض کا مکان چھوڑا اسی رات کو اس مکان میں آگ لگ گئی اور س کی تمام رفیع اور بے نظیر عمارتیں زمین پر گر کر پست ہوگئیں (سیرالاؤلیا صفحہ 111-109) یہ روایت بہت تکلیف دہ ضرور ہے، سیرالاؤلیا کے مصنف کا بیان ہے کہ امیر خسرو اس وقت دہلی میں نہ تھے، پٹیالی میں تھے، وہ وہاں ہوتے تو یہ واقعہ پیش نہ آتا مگر سوال یہ ہے کہ جب حضرت خواجہ یہ مکان چھوڑ رہے تھے تو ان کے اور معتقدین کہاں تھے جو ان کو اپنی کتابیں سر پر اٹھا کر لے جانی پڑیں کہیں ایسا تو نہیں کہ اس زمانہ کے عام تذکرہ نگاروں کا دستور تھا کہ وہ مشائخ کے سلسلہ میں سلاطین، ان کے امراء اور درباریوں کا ذکر کرتے ہیں تو کوئی نہ کوئی بات ایسی لکھ دیتے ہیں جس سے فقر و درویشی کے مقابلہ میں باشاہت اور امارت فرد تر دکھائی دیتی ہے۔

    سلطان غیاث الدین بلبن کے لڑکے شہزادہ محمد سلطان کی بیوی کے طلاق و نکاح کے سلسلہ میں حضرت شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی کے پوتے حضرت شیخ صدرالدین ملتانی سے تعلقات میں کشیدگی یا سلطان غیاث الدین تغلق اور خواجہ نظام الدین اولیا کے درمیان تناؤ اور ہنوز دہلی دور است کا واقعہ یا سلطان محمد تغلق اور حضرت نصیرالدین چراغ دہلوی کی باہمی آویزش اسی قسم کی مثالیں ہیں جو ناقدانہ تجزیہ میں صحیح ثابت نہیں ہوسکتی ہیں۔

    (بزمِ صوفیہ صفحہ 135،248،283)

    حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا امیر خسرو کے ماموؤں کے گھر سے نکلے تو سیرالاؤلیا کے مصنف کا بیان ہے کہ دہلی کی سکونت سے ان پر بڑی بد دلی طاری رہی، دہلی کے قیام کی بیزاری کا حال فوائدالفواد میں لکھا ہے اور اسی سے سیرالاؤلیا کے مصنف نے بعض حصے لفظ بہ لفظ نقل کئے ہیں، فوائدالفواد میں ہے کہ

    از دروازۂ کمال بیروں در خطیرۂ کہ برلب خندق است، ہم نزدیک دروازۂ مذکور زمینے بلند است و دراں خطیرہ شہیدانند، الغرض آں درویش مرا گفت کہ اگر می خواہی کہ ایمان خود بہ سلامت بہ بری، ازیں شہربرد، من ہماں زبان عزیمت کردم کہ ازیں شہر بردم، ولے بموانع ماندہ شد، امروز مدت بست وپنج سال است کہ عزیمت من مقرراست ولے رفتہ نمی شود، خواجہ ذکرہ اللہ بالخیر فرمود کہ من ایں سخن ازاں درویش شنیدم باخود مقرر کردم کہ دریں شہر بنا شسم چند جائے دل من شد کہ بردم، لختے دل کردم کہ در قصبۂ پٹیالی بردم، دراں ایّام ترک آنجا بودہ است، مقصود ازیں ترک امیر خسرو بود، عصمہ اللہ باز فرمود کہ یک دل کردم کہ در حجنالہ بروم کہ موضعے منزہ است، الغرض در بسنالہ رفتم سہ رز آنجا بودم، دریں سہ روز ہیچ خانہ نیافتم، نہ کرایہ و نہ گردی، نہ بہائے دریں سہ روز ہر روز مہمان یکے بودم، چوں از آنجا باز گشتم ایں اندیشہ در خاطر می بود تاوقتے جانت حوض را لی بودم در باغے کہ آں را باغ حسرت گویند، باخدائے عرزوجل مناجات کردم۔ (صفحہ 242-241)

    سیرالاؤلیا میں ہے کہ

    از دروازۂ کمال بیروں برل خندق ہم نزدیک دروازۂ کمال زمینے است بلند دوراں خطیرہ شہیدانند، الغرض آں درویش مراگفت کہ اگر می خواہی کہ ایمان خود بہ سلامت بہ بری، ازیں شہر بیروں شو، ہماں زماں من عزیمت کردم کہ ازیں شہربردم، دل بمونع ماندہ شدہ، مدت بست وپنج سال باشد کہ عزیمت من مقید است ولے رفتہ نمی شود، شیخ المشائخ می فرمود چوں من ایں سخن ازاں در ویش شنیدم باخود مقرر کرد کہ دریں شہر بناشسم چند جائے دل من شد کہ بردم، لختے دل کردم کہ در قصبہ پٹیالی بردم، دراں ایام ترک آنجا بود، مقصود ازیں ترک امیر خسرو بود، باز فرمود کہ یک دل کردم کہ در بسنالہ بردم کہ موضع نزدیک است الغرض در بسنالہ رفتم سہ روز آنجا بودم۔۔۔۔

    ہیچ خانہ نیافتم، نہ گردی نہ کرای، دریں سہ روز ہرو روز مہمان یکے بودم، چوں از آنجابازگشتم ایں اندیشہ در خاطر می بود، تاوقتے جانب حوض رانی بودم، در باغے کہ آں را باغ حسرت گویند مناجات کردم۔۔۔۔ (صفحہ 110-11)

    فوائدالفواد میں راوت عرض کے محل سے حضرت خواجہ نظام الدین کے نکلنے اور محل کے زمین میں دوز ہونے کا ذکر نہیں، امیر خسرو اور ضیاؤالدین برنی نے بھی اس ناخوشگوار واقعہ کا ذکر نہیں کیا ہے اور اگر یہ واقعہ پیش بھی آیا تو حضرت خواجہ اور امیر خسرو کے تعلقات میں کوئی خلل نہیں پڑا۔

    اب سوال یہ ہے کہ امیر خسرو حضرت خواجہ سے کب مرید ہوئے؟ سیرالاؤلیا کے مصنف نے بڑی وضاحت کے ساتھ لکھا ہے کہ

    وہ یعنی امیر خسرو جب بلوغ کو پہنچے تو وہ سلطان المشائخ کی ارادت کے شرف سے مشرف ہوئے اور طرح طرح کے مخصوص مراحم و شفقت سے مخصوص کئے گئے، ان پر خاص نظر کا لحاظ رکھا جاتا تھا، ان دونوں سلطان المشائخ امیر خسرو کے نانا راوت عرض کے گھر میں رہتے تھے جو مندہ پل کے دروازہ کے پاس تھا (صفحہ 301)

    اس کے بعد سیرالاؤلیا کے مصنف یہ بھی لکھتے ہیں کہ امیر خسرو عارفانہ طور پر حضرت خواجہ کے محرم راز ہوگئے۔

    باعتقاد صادق در محبت اسرار سلطان المشائخ بودے، کوشید کہ شایان محرمیت اسرار آں حضرت گشت (صفحہ 301)

    امیر خسرو اپنی اس ارادت پر زندگی بھر فخر کرتے ہے جس کا اظہار انہوں نے اپنی منقبتوں میں کیا ہے جو وہ اپنے دواوین اور مثنویوں میں حمد اور نعت کے بعد بالالتزام لکھتے رہے، مثلاً اپنی مثنوی مطلع الانوار میں اپنے شیخ کی جو منقبت لکھی ہے اس میں پہلے پیر کی منقبت اس طرح بیان کی ہے کہ

    ہر کہ ز دل دامن پیراں گرفت

    گنج بقازیں دہ ویراں گرفت

    ناصیہ پیر نہ تنہاست نور

    بلکہ جہانے ست زنور حضور

    ناصیۂ پیر نہ تنہا ضیا ست

    بلکہ یکے از صفت کبریاست

    چشمۂ خورشید نہ تنہا ضیاست

    بلکہ زمیں را نظرش کیمیاست

    پھر لکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے روحانی منعم (آقا) ہی کی نظر کی بدولت سب کچھ حاصل کیا۔

    ایں کہ مراہست بخاطر دروں

    نقد معانی ز نہایت بروں

    نے ز خود ایں ملک اند یافتم

    از نظر منعم خود یافتم

    اسی منقبت میں رقم طراز ہیں کہ ان کو حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا کی غلامی یعنی مریدی پر فخر ہے اور وہ سلسلۂ نظامی میں منسلک ہوگئے ہیں جس کے بعد ان کو کسی آموزگار یعنی مرشد کی ضرورت نہیں۔

    مفتخر ازوے بہ غلامی منم

    خواجہ نظام ست ونظامی منم

    چو نظر مرحمتش گشت یار

    نیست مرا حاجت آموزگار

    پھر خداوندتعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ حضرت خواجہ کی تعلیم پر عمل کرنے کی سعادت حاصل ہو اور ان کو جو انوار حاصل ہوتے ہیں ان کا کچھ پر تو ان کے یعنی خسرو کے دل پر بھی پڑتا رہے۔

    بار خدایا برضائے خودش

    خاص کرم کن بلقائے خودش

    تاکہ سعادت بمن آرد پیام

    دولتِ ازاں شاہ رسد باغلامل

    چو دہی از نور مرادش نشاں

    پرتوِ آں بر دلِ خسرو فشاں

    اپنی مثنوی شیریں خسرو میں جو منقبت لکھی تو اپنے پیر کو نبی کا بازوئے راست، اسرار قضا کا محرم، میراثِ نبوی کا کامل نصاب، مقام طبر میں حضرت جعفر طیّار رضی اللہ عنہ کی سرید اللہ فوق ایدیہم کا مظہر وغیرہ سب کچھ کہا ہے، اس مثنوی کے مرتب علی احمد خاں اسیر نے اس منقبت کے متعلق لکھا ہے کہ امیر خسرو کو چونکہ اپنے شیخ کے ساتھ فنا فی الذات کا مرتبہ حاصل ہے اسی وجہ سے وہ ایسے موقع پر ہمیشہ بے اختیار و بے خود پائے جاتے ہیں۔

    ایسی تمام صفات کا ذکر آپ کی محویت تامہ اور فنائیت کاملہ کے براہیم قاطعہ ہیں، بایں ہمہ جدت اسلوب، ابداع اختراع، استعارات، ابہامات، ایجاد و التزام، تشبیہات و صنائع کا دامن کسی وقت ہاتھ سے نہیں چھوٹتا، ہر سادہ اور معمولی مضمون کو فصاحت کا پہلو اختیار کئے ہوئے ایسے پسندیدہ طریق بلاغت سے بیان کرتے ہیں کہ رنگ سخن کی بہار ہزار گونہ بڑھ جاتی ہے۔

    (صفحہ 88-87 علی گڑھ ایڈیشن)

    ارادت کے آداب میں یہ بھی ہے کہ مرید اپنے کو مرشد کا ادنیٰ غلام اور چاکر سمجھے، اسی لئے اپنی مثنوی لیلی مجنوں میں اپنے مرشد کے مختلف فضائل و محاسن بیان کر کے آخر میں لکھتے ہیں:-

    مند ز سپہر بر ترش باد

    خسرو چو ستارہ چاکرش باد

    اپنی مثنوی آئینۂ سکندری میں جب پُرزور نعت لکھ لیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) پر در نثار کرتے وقت لولوئے شاہوار حاصل ہوئے تو یہ خیال آیا کہ ان موتیوں کا تحفہ اپنے پیر کی خدمت میں پیش کروں۔

    نثارے کزاں در انگیختم

    بدرگاہِ پیغمبرش ریختم

    من افشاندم و آسماں برگرفت

    عطار و ببوسید وبرسر گرفت

    مراگاہ افشاندن آں نثار

    بسے دخل شد لولوئے شاہوار

    دریغ آیدم کایں چنیں گوہرے

    برم تحفہ در خدمت دیگرے

    ادب نایدم پیش ازیں در ضمیر

    کزاں سازم آرایش مدح پیر

    پناہ جہاں دین حق را نظام

    رہِ قدس را پیشوائے تمام

    ہشت بہشت میں جو منقبت لکھی اس میں ارادت کے آداب کے مطابق اپنے کو حضرت خواجہ کا غلام بتاتے ہیں اور حشر میں ان ہی کے ساتھ رہنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔

    ملک وحدت ینام ایشان است

    بندہ خسرو غلام ایشان است

    نام من زاں ستودہ کیشاں باد

    حشر من در میان ایشاں باد

    مثنوی دول رانی حمد کے بعد نعت لکھی اور جب نعت لکھ چکے تو کہتے ہیں کہ اب اپنے پیر کا ذکر کرنا ہے۔

    پس از دیباچۂ نعت رسالت

    ز ذکر ِپیربہ باشد مقالت

    نظام الدین حق فرخندہ نامے

    کہ دینِ حق گرفت ازوے نظامے

    اس مثنوی میں اس آرزو کا بھی اظہار کیا ہے۔

    زہے بخت ارتہ کفشش بمیرم

    اپنی مثنوی نہ سپہر میں دل کھول کر لکھا ہے کہ ان کو اپنے شیخ کی ارادت میں ایک عظیم پناہ مل گئی ہے اور وہ راہِ مستقیم پر آگئے ہیں اور خوش ہیں کہ ان کو ان کے ضمیر کی بدولت ایک دستگیر مل گیا ہے۔

    ارادت گہ او پناہے عظیم

    الفت در ارادت رہے مستقیم

    خوش آندم کہ من از اعتقاد ضمیر

    گرفتم بہ حق دست آں دستگیر

    اس سلسلہ میں لکھتے ہیں کہ اس شاہ کا ہاتھ میرے لئے ایک کشتی بن گیا ہے جس کے بعد (تصوف کا) بحر میرے لئے کھل گیا ہے، میں نے ان کے منہ سے جو لعاب پایا تو اس سے میرے منہ میں میری شاعری میں آب وتاب پیدا ہوگئی جو زلال میں نے پایا سی کی تلاش خضر کو ہے اور اسی کی بدولت (خضر کی طرح) زندہ ہوں، اگر میں اس میں سے دو قطرے دوات میں ڈال دوں تو وہ بحرِ ظلمات میں آبِ حیات بن جائیں اور جب ان قطروں سے ایک قطرہ اپنے قلم میں منتقل کرتا ہوں تو اس سے ایک دریا بہہ نکلتا ہے میرے یہ قطرے (اشعار) سمندر کی طرح ہیں لیکن ان سے اپنے پیر کی صفات کا احاطہ نہیں کرسکتا ہوں، اسی لئے میں اپنے سر کو شرم سے اٹھا نہیں سکتا ہوں جب کہ میں کوشش کرتا ہوں کہ میں نے ان سے جو کچھ پایا ان پر نچھاور کردوں۔

    بہ نہ بحر ازاں جانم راہ شد

    چو کشتی مرا دستِ آں شاہ شد

    من ازوے لعابِ دہن یافتم

    کہ زیں گونہ آبِ دہاں یافتم

    زلالم کہ خضر آب جوئے ویست

    بداں زندہ ام چو ز جوئے ویستل

    دو قطرہ کزاں در دوات افگنم

    بہ ظلمت در آبِ حیات افگنم

    چو آں قطرہ از خامہ را نم بروں

    ازاں قطرہ دریا فشانم بروں

    شد ایں قطرہا گرچہ دریا نظیر

    نگردد محیط صفت ہائے پیر

    ولے زیں خجالت نیارم برو

    کہ ہم زان اولی نثارم برو

    ضمیرش کہ دریائے رحمانیست

    دوخان فلک زویکے خالی است

    پذیرائی ایں قطرۂ خویش باد

    بریں قطرہ موجش ز در پیش باد

    حضرت خواجہ سے امیر خسرو کی مریدی کی دھوم ان کے دوستوں اور معاصروں میں بھی رہی، تاریخِ فیروز شاہی کے مصنف مولانا ضیاؤالدین برنی، امیر خسرو کے پیر بھائی، گہرے دوست اور ہم نشین تھے، وہ لکھتے ہیں کہ

    برسوں امیر خسرو امیر حسن اور میرے درمیان محبت اور یگانگت کے تعلقات رہے ہیں، وہ نہ میرے بغیر رہ سکتے تھے اور نہ میں ان کی ہم نشینی کے بغیر زندگی بسر کرسکتا تھا

    مولانا ضیاؤالدین برنی نے امیر خسرو کی جو تعریف چند سطور میں کی ہے اسی اجمال کی تفصیل لکھ کر بعد کے اربابِ علم اپنا خراجِ عقیدت پیش کرتے رہے ہیں، مولانا ضیاؤالدین لکھتے ہیں کہ

    امیر خسرو جیسا مادر عالم اگر محمود یا سنجر کے عہد میں ہوتا تو ظاہر اور غالب ہے کہ یہ بادشاہ اس کو ولایت اور اقطاع انعام میں دے دیتے

    پھر ان کے شاعرانہ کمالات کا ذکر اس طرح کرتے ہیں:-

    عہد علائی میں شعراء بھی ایسے تھے کہ ان کے بعد بلکہ ان سے پہلے بھی زمانہ کی آنکھ نے ان کی مثل کوئی شاعر نہیں دیکھا تھا، خاص طور پر امیر خسرو جو قدیم اور نئے سب شاعروں کے خسرو یعنی بادشاہ ہیں جو اختراع معنی، تصنیفات کی کثرت اور رموز غریب کے اظہار میں اپنا نظیر نہیں رکھتے، اگر وہ دوسرے اساتذہ نظم اور نثر کے ایک دو فن میں بے مثال ہوتے تو امیر خسرو جملہ فنون میں ممتاز اور مستثنیٰ حیثیت رکھتے تھے، ایسا صاحبِ فن کہ جو شاعری کے جملہ فنون میں استاد اور سرآمد مانا گیا ہو، نہ گذشتہ زمانہ میں گذرا ہے اور نہ بعد کہ زمانہ میں قیامت تک کبھی پید اہوگا یا نہیں، امیر خسرو نے فارسی نظم اور نثر میں ایک کتب خانہ تصنیف کیا ہے اور اپنی سخنوری کا سکہ جمایا ہے، شاید خواجہ سنائی نے یہ شعر امیر خسرو ہی کے متعلق کہا ہے:-

    بہ خدا رابہ زیر چرخ کبود

    ہمچو او ہست و بود و خواہد بود

    (صفحہ 359)

    یہاں تک تو امیر خسرو کے شاعرانہ کمالات پر تبصرہ ہے لیکن میرے اس مقالہ کے لئے ان کی تحریر کا اہم ٹکڑا یہ ہے:-

    اس تمام فضل و کمال اور فصاحت فن و بلاغت کے ساتھ وہ مستقیم الحال صوفی بھی تھے، ان کی عمر کا بیشتر حصہ صوم و صلوٰۃ اور قرآن خوانی میں گذرا وہ مستعدی اور لازمی عبادات میں یکتا تھے اور ہمیشہ روزہ رکھتے تھے، وہ شیخ (نظام الدین) کے خاص مریدوں میں تھے، میں نے اتنا عقیدت مند مرید کوئی اور نہیں دیکھا، عشق و محبت الٰہی سے ان کو پورا حصہ ملا تھا، صاحبِ سماع اور صاحبِ حال و وجد تھے‘‘ ( صفحہ 359)

    سیرالاؤلیا کے مصنف بھی امیر خسرو کے پیر بھائی رہے ہیں، وہ بھی رقم طراز ہیں کہ :-

    امیر خسرو کہ خسرو شاعران سلف و خلف بودہ است و در اختراع معانی و کثرتِ تصنعات غریبہ، نظیرنداشت و مع ذالک الفضل و الکمال و الفنون و البلاغ صوفیٔ مستقیم الحال بود و بیشتر عمر او درصیام تعبد تلاوت گذشتہ است و از مریدانِ خاصۂ حضرت سلطان المشائخ شیخ شیوخ العام سید نظام الحق والدین محمد احمد بداؤنی البخاری الچشتی قدس اللہ سرہٗ العزیز بود و آں چناں مرید و معتقد من دیگرے راندیدم و از عشق و محبت نصیبے تمام داشت و صاحب سماع و وجد و صاحب حال بود‘‘ (صفحہ 588)

    پھر بعد کے تمام تذکرہ نگاروں نے حضرت خواجہ سے امیر خسرو کی مریدی کا ذکر بڑے والہانہ انداز میں کیا ہے، پہلے ذکر آ چکا ہے کہ سیرالعارفین میں ہے کہ امیر خسرو کا پورا خاندان ان سے مرید تھا، اخبارالاخیار میں ہے:-

    از یاران و مریدانِ قدیم شیخ نظام الدین اؤلیا ست قدس سرہ غایت اعتقاد و محبت بہ شیخ داشت و شیخ را نیز بودے نہایت شفقت و عنایت بود، ہیچ کس را بہ خدمت شیخ آں قرب و محر میتی کہ امیر خسرو داشت نبود(صفحہ 93)

    مرأۃ الاسرار میں ہے:-

    سلطان االشعراء امیر خسرو میر سیف الدین قدس سرہٗ در جمیع کمالات صوری و معنوی نظیرے نداشت و محبوب ترین مریدان پاک اعتقاد حضرت سلطان المشائخ بودہ کہ در خلا و ملا بخدمت آں حضرت محرمیت تمام داشت(ورق 445)

    سفینۃ الاؤلیا میں ہے:-

    ’’مرید و معشوق و نفس ناطقہ و منظور نظر اسلطان المشائخ اند‘‘ (صفحہ 168)

    خزینۃ الاصفیا میں ہے:-

    حضرت شیخ نظام الدین اؤلیا را نیز مثل وے (امیر خسرو) محرم اسرار و یارِ وفادار و محبوبِ مطلوب نبود(صفحہ 339)

    خسروکی زندگی کا یہ اعجاز ہے کہ ایک طرف تو اپنے سارے معاصر سلاطین دہلی کے محبوب، ہمدم، ہم راز اور ہم جلیس بھی رہے، معزالدین کیقباد جیسا رند اور سرمست سلطان بھی ان کا گرویدہ رہا، جلال الدین خلجی نیک دل فرماں روا بھی ان کا فریفتہ تھا، علاؤالدین خلجی جیسے سخت گیر حکمراں کو بھی ان کے بغیر چین نہیں ملتا تھا قطب الدین مبارک شاہ خلجی جیسا لاپرواہ اور غیر ذمہ دار سلطان بھی ان کا گرویدہ رہا، غیاث الدین تغلق اور محمد ابن تغلق جیسے بیدار مغز فرماں رواؤں کےدرباروں میں بھی ان کو محبوبیت حاصل رہی، وہ ان سلاطین کے درباروں میں اس طرح رہے جسے بھرے ہوئے دودھ کے پیالہ پر گلاب کی پنکھڑیاں رکھی ہوں، ان کے مرشد حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا کسی حال میں بھی اپنے معاصر سلاطین سے ملنا پسند نہ کرتے، ان کے اس رویہ کی وجہ سے سلطان قطب الدین مبارک شاہ خلجی کو ان سے پرخاش بھی پیدا ہوگئی تھی مگر امیر خسرو نے شاہی دربار سے منسلک رہنے کے باوجود اپنے مرشد کی غلامی، تابعداری اور اطاعت گذاری میں ایک بے مثال نمونہ پیش کیا، ان کے شاہی آقاؤں میں سے کسی کو ان سے یہ شکایت نہیں ہوئی کہ وہ اپنے مرشد کے ادنیٰ غلام اور چاکر کیوں ہیں اور نہ ان کے مرشد کو یہ گلہ ہوا کہ وہ دربار داری کر کے دنیا سے کیوں ملوث ہوئے وہ اپنے شاہی آقاؤں اور روحانی پیشوا کے درمیان بال سے باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز دھار کے پل صراط پر پوری زندگی کامیابی سے چلتے رہے وہ شاہی محلوں، شاہی درباروں، یاشاہی کیمپوں میں ہوتے تو ان کا دماغ ان جگہوں پر ضرور ہوتا مگر ان کا دل اپنے روحانی مرشد کے خرقہ و کلاہ میں اٹکا رہتا، وہ اپنے شاہی آقاؤں کو اپنی قصیدہ خوانی، مثنوی نگاری، خوش گلوئی، فنِ موسیقی، بذلہ سنجی اور حاضر جوابی سے خوش کرتے مگر اپنے روحانی آقا کے پاس پہنچ جاتے تو کبھی ان کی خدمت میں منقبت کہہ کر اپنی عقیدت و محبت کے پھول نچھاور کرتے، کبھی خلوت میں ان کے ادانیٰ خادم بن کر رہتے، کبھی ان کے ساتھ مجلسِ سماع میں رقص کرتے، کبھی خوش الحان قوال بن کر شراب معرفت کے خم کے خم لنڈھاتے، کبھی سوزِ عشق کا درس حاصل کرتے، کبھی مجلس میں بیٹھ کر ان کے ملفوظات قلم بند کرتے رہتے، کبھی ان کی گرانی طبع کو اپنی محبوبانہ اداؤں سے دور کرنے کی کوشش کرتے، سیرالاؤلیا کے مصنف کا بیان ہے کہ سلطان المشائخ جب عشا پڑھ لیتے تو کوٹھے پر جاتے، وہاں کچھ دیر عبادت کرتے پھر ان کے سونے کے لئے کھاٹ بچھائی جاتی، اس پر بیٹھ جاتے، ان کے لئے تسبیح آتی، اس وقت کسی کو آنے کی اجازت نہ ہوتی، صرف امیر خسرو آتے، وہ ان کے سامنے بیٹھ کر ہر قسم کی باتیں اور حکایتیں سناتے، سلطان المشائخ سن کر ان کی خاطر اپنا سرِ مبارک بلاتے رہتے، وقتاً فوقتاً پوچھتے، رہتے کہ ترک کیا کیا خبریں ہیں اس سے امیر خسرو کو اور بھی فراخ دلی پیدا ہوجاتی، امیر خسرو کچھ پڑھ کر سنانے بھی لگتے، اس وقت چھوٹے بچے، کچھ رشتہ دار اور مولا زادوں کو بھی حاضر ہونے کی اجازت مل جاتی اور وہ پاؤں دابنے لگے، اسی موقع کے لئے امیر خسرو نے کہا ہے:-

    نخفت خسرو مسکیں ازیں ہوس شبہا

    کہ دیدہ برکف پایت نہد بخواب شود

    (سیرالاؤلیا صفحہ 126-125)

    رات کو اپنے روحانی آقا کے ساتھ خلوت آرا ہوتے لیکن دن کو اپنے شاہی آقا کے یہاں پہنچ کر انجمن آرائی کرتے، سیرالاؤلیا کے مصنف نے بجا طور پر لکھا ہے کہ ان کا مسلک یہ تھا۔

    کمر بخدمت سلطاں بہ بند وصوفی باش

    اس مصرع کا پورا شعر یہ ہے۔

    مراد اہلِ طریقت لباس ظاہرنیست

    کمر بخدمت سلطاں بہ بند و صوفی باش

    امیر خسرو کی صوفیانہ زندگی اسی شعر کی تفسیر ہے، وہ سلاطین دہلی کی دربار داری کے لئے کمر بستہ ضرور رہے مگر اسی کے ساتھ شاہراہ طریقت پر بھی بڑی کامیابی کے ساتھ گامزن ہوئے سیرالاؤلیا کے مصنف کا بیان ہے کہ

    سلطان الشعرا برہان الفضلا امیرخسرو شاعر رحمۃ اللہ علیہ کہ گووے سبقتِ فضل از متقدمان و متاخران بردہ بود و باطنے صاف داشت، طریقۂ اہلِ تصوف در صورت و سیرت او پیدا بود، گرچہ تعلق بہ بادشاہاں داشت

    اسی بات کو اور بھی واضح کر کے شیخ عبدالحق دہلوی نے اخبارالاخیار میں لکھا ہے۔

    وہ اپنے علم و فضل کے باوجود تصوف کی صفات اور درویشوں کے احوال سے موصوف تھے، اگرچہ بادشاہوں سے تعلقات رکھتے اور ملوک و امراء سے خوش طبعی اور ظرافت سے اختلاط کرتے لیکن ان سب کی طرف ان کا دل متوجہ نہ تھا، یہ بات اس طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ ان کے کلام میں جو برکات ہیں وہ گنہگاروں کے دل میں نہیں پائی جاسکتی ہیں، برکات سے محروم لوگوں کے کلام کو مقبولیت اور قلبی تاثیر حاصل نہیں ہوسکتی(صفحہ 92)

    دربار سے منسلک ہونے کے باوجود امیر خسرو کو اپنے مرشد سے جو قلبی لگاؤ رہا، اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا نے ایک بار ان سے فرمایا کہ میں سب سے تنگ آجاتا ہوں لیکن تم سے تنگ نہیں آتا ہوں، دوسری بار اسی بات کو اس طرح فرمایا کہ میں سب سے تنگ آجاتا ہوں حتی کہ اپنے آپ سے تنگ آجاتا ہوں لیکن تم سے تنگ نہیں آتا ہوں۔ (سیرالاؤلیا صفحہ 302)

    حضرت خواجہ کو امیر خسرو سے جو محبت اور شیفتگی رہی یا امیر خسرو کو حضرت خواجہ سے جو موانست اور فریفتگی رہی، وہی امیر خسرو کے تصوف کی دل آویز اور دلپذیر کہانی ہے، جس کو سیرالاؤلیا کے مصنف نے حضرت خواجہ کی زبانی بیان کر کے اس میں عارفانہ رنگ پیدا کر دیا ہے۔

    حضرت خواجہ نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ مندہ پل کے پاس شیخ نجیب الدین متوکل کے گھر کے دروازہ کے نزدیک بہت پاک صاف پانی بہہ رہا ہے، خسرو ایک اونچی دکان پر بیٹھے دیکھائی دیئے ہیں، بہت خوش اور مسرور نظر آرہا ہے، میرے دل میں یہ بات پیداہوئی کہ اس وقت خسروؒ کے لئے خدا سے وہی چیز مانگوں جو میں چاہتا ہوں، میرا خیال ہے کہ میری دعا قبول کی گئی اور خسرو میں وہی کیفیت پیدا ہوگئی۔ (صفحہ 303)

    ایک اور موقع پر حضرت خواجہ نے فرمایا کہ ایک روز خسرو کے لئے دیا کرتے وقت یہ خیال آیا کہ خسرو درویشوں کا نام نہیں ہوا کرتا ہے، خسرو کو محمد کا سہ لیس کے نام سے پکارنا چاہئے، خسرو سے جب اس کا ذکر آیا تو انہوں نے کہا کہ میرے لئے یہ خطاب غیب سے آیا ہے اور گویا رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے اس کی خبر دی ہے، اس سے مجھ کو ابدی نعمتوں کی امید ہوگئی ہیں۔ (صفحہ 303)

    حضرت خواجہ نے امیر خسرو سے فرمایا کہ میرے لئے دعا کرو کیونکہ تمہاری بقا میرے اوپر منحصر ہے، میری بقا کے لئے تم کو میرے پہلو میں دفن کرنا چاہئے، یہ بات لوگوں نے کئی بار حضرت خواجہ کو یاد دلائی تو فرمایا ایسا ہی ہوگا۔ (صفحہ 303)

    حضرت خواجہ نے فرمایا کہ میں نے خدائے تعالیٰ سے عہد کیا ہے کہ اگر مجھ کو بہشت بھیجا جائے گا تو خسرو کے ساتھ جاؤں گا۔ (صفحہ 303)

    ایک اور موقع پر حضرت خواجہ نے امیر خسرو سے فرمایا کہ میں نے جمع کی رات کو خواب میں دیکھا کہ شیخ الاسلام بہاؤالدین زکریا کے بیٹے شیخ صدرالدین تشریف لائے تو میں نے بڑھ کر ان کی اتنی تواضع کی کہ بیان نہیں کیا جاسکتا ہے، یکایک تم (یعنی امیر خسرو) دور سے نظر آئے اور میرے پاس پہنچ گئے اور معرفت کی باتیں شروع کر دیں، اسی کے بعد مؤذن نے فجر کی نماز کی اذان دی تو میں نیند سے بیدار ہوگیا، اس خواب کو بیان کر کے حضرت خواجہ نے خسرو سے فرمایا دیکھو! تم کو کیا رتبہ مل گیا ہے، خسرو کا بیان ہے کہ یہ سن کر میں نے اپنی نیاز مندی میں عرض کیا کہ مجھ جھاڑو دینے والے کو یہ سب کچھ آپ ہی کا دیا ہوا ہے، یہ سن کر حضرت خواجہ پر گریہ طاری ہوگیا پھر زور زور سے رونے لگے، خسرو پر بھی گریہ طاری ہوگیا، اس کے بعد حضرت خواجہ نے اپنی کلاہ خاص اپنے دستِ مبارک سے خسرو کو پہنائی اور فرمایا کہ مشائخ کو باتوں کا لحاظ رکھا کرو۔ (صفحہ 304)

    سیرالاؤلیاء کے مصنف نے یہ بھی لکھا ہے کہ امیر خسرو کو حضرت خواجہ نے ترک اللہ کا خطاب ایک کاغذ پر لکھ کر دیا تھا، خسرو نے اس کو تعویذ بناکر رکھا تھا اور ہدایت دی تھی کہ اس کو ان کی قبریں رکھ دیا جائے، اسی کی بدولت قیامت میں ان کی بخشائش ہوجائے گی۔ (صفحہ 303)

    پھر ایک منقبت میں بھی اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے۔

    بر زبانت چو خطابِ بندہ ترک اللہ رفت

    دست ترک اللہ گیروہم اللٰہش سپار

    امیر خسرو ایک فطری شاعر بھی تھے، اپنی صغر سنی میں اساتذۂ فن کے تتبع میں اشعار کہنے شروع کر دیئے تھے جو کچھ منظوم کرتے حضرت خواجہ کی خدمت میں پیش کرتے وہ اپنی شاعری کے سارے کمالات کو محض اپنے مرشد کے لعابِ دہن کی برکت سمجھتے، مثنوی نہ سپہر میں اپنے مرشد کی شان میں جو منقبت کہی ہے، اس میں کہتے ہیں۔

    من ازوے لعابِ دہن یافتم

    کہ زیں گونہ آبِ دہاں یافتم

    ایک روز حضرت خواجہ نے امیر خسرو سے کہا کہ معشوقوں کے زلف و خال کے ساتھ اصفہان کے شعراء کے طرز میں عشق انگیز کلام کہا کرو، امیر خسرو نے انہی دلآویز صفات کے ساتھ اپنا کلام کہنا شرو کیا اور اس کو انتہائے کمال تک پہنچا دیا۔ (سیرالاؤلیاء صفحہ301)

    ایک بار امیر خسرو نے حضرت خواجہ کی مدح میں ایک منقبت کہی اور جب اس کو سنایا تو حضرت خواجہ نے فرمایا کیا صلہ چاہتے ہو؟ خسرو نے جواب دیا کلام میں شیرینی اس وقت حضرت خواجہ کی چارپائی کے نیچے ایک طشت میں شکر رکھی تھی، انہوں نے خسرو سے یہ یہ طشت منگوائی اور اُن سے کہا اپنے سر کے اوپرچھڑک لو اور کچھ کھا بھی لو، اس کے بعد ہی ان کے کلام میں بڑی شیرینی پید ہوگئی، امیر خسرو آخر عمر میں پچتایا کرتے کہ کوئی اور بہتر صلہ مانگتا تو وہی ملتا۔ (سیرالاؤلیا، صفحہ 301-302)

    حضرت خواجہ نے اپنے محبوب مرید کو شاعری سے متعلق یہ اشعار کہہ کر اپنی شفقت کا اظہار کیا ہے۔ (سیرالاؤلیا، صفحہ 304)

    خسرو کہ بہ نظم ونثر مثلش کم خاست

    ملکیت ملکِ سخن آن خسرو راست

    آن خسرو ماست ناصر خسرو نیست

    زیرا کہ خدائے ناصر خسرو راست

    اور واقعی خدا خسرو کا ناصر و حامی بنا رہا وہ جب کوئی کتاب لکھتے تو حضرت خواجہ کی خدمت میں پیش کرتے، وہ اس کو ہاتھ میں لے کر اس پر فاتحہ (فاتحہ الکتاب) پڑھنے خسرو اور ان کے قدر دانوں کا بیان ہے کہ اسی وجہ سے ان میں کمال پیدا ہوتا گیا۔ (سیرالاؤلیا صفحہ 302)

    حضرت خواجہ کو یہ بھی خیال رہا کہ کہیں امیر خسرو شعر و شاعری میں پڑ کر اسی میں الجھ کر نہ رہ جائیں، اس لئے ان کو اس سے بھی بہتر کام لگایا، ان کی ہدایت کے مطابق تہجد کے وقت امیرخسرو کلام پاک کے سات پارے پڑھنے لگے، ایک روز حضرت خواجہ نے ان سے پوچھا ترک! تمہارا کیا حال ہے، خسرو نے جواب دیا کہ اب رات کے آخری حصہ میں گریہ طاری رہتا ہے، یہ سن کر حضرت خواجہ نے فرمایا الحمدللہ اب تم کچھ ظاہر ہونے لگے‘‘۔ (سیرالاؤلیا، صفحہ 302)

    امیر خسرو نے معشوقوں کے زلف و خال کے ساتھ جس طرز میں عشق مجازی کا راگ الاپنا شروع کیا تھا، وہ حضرت خواجہ کی صحبت میں رہتے رہتے، عشقِ الٰہی میں بدل گیا، رفتہ رفتہ اس میں ایسا سوز پیدا ہوگیا کہ حضرت خواجہ کو اس ترک بچہ کے سوز سینہ پر فخر ہونے لگا اور ان کے اشعار سن کر مست ہوجاتے ہیں، ایک بار امیر خسرو ان کے سامنے اپنی ایک غزل گانے لگے، جب اس شعر پر پہنچے۔

    رخ جملہ را نمود ومرا گفت تو مبیں

    زیں ذوق مست وبے خبرم کیں سخن چہ بود

    تو حضرت خواجہ نے نگاہِ محبت سے ان کو دیکھا، بے خود ہوگئے اور ان پر گریہ طاری ہوگیا، امیر خسرو اس شعر کو بار بار گاتے رہے۔ (سیرالاؤلیا، صفحہ 516)

    ایک اور مواقع پر امیر خسرو کے صاحبزادے امیر حاجی نے ان کی ایک غزل خواجہ کے سامنے شروع کی اور جب یہ شعر سنایا

    خسرو تو کیستی کہ در آئی دریں شمار

    کیں عشق تیغ بر سرِ مردانِ دیں زدہ است

    تو حضرت خواجہ پر وجد طاری ہوگیا اور جب امیر حاجی نے اس کو بار بار دہرایا تو حضرت خواجہ نے اسی وجد و کیف میں اپنی ایک دستار امیر حاجی اور ایک امیر خسرو کو دے دی۔

    (سیرالاؤلیا صفحہ 516-515)

    سیرالاؤلیا میں تو نہیں لیکن سفنۃ الاؤلیا میں ہے کہ حضرت خواجہ فرمایا کرتے کہ قیامت کے روز مجھ سے پوچھا جائے گا کہ کیا لائے تو میں کہوں گاکہ یہ ترک اللہ کا سوزِ سینہ۔(سفینۃ الاؤلیا، صفحہ160)

    حضرت خواجہ کو امیر خسرو سے ایسا لگاؤ پیدا ہوگیا تھا کہ ان کے حضور میں جانے کی ہمت جب کسی کی نہ ہوتی تو اُس وقت وہی ان کے پاس بھیجے جاتے، حضرت شیخ برہان الدین غریب حضرت خواجہ کے بڑے محبوب مرید تھے، ان کو خلافت بھی عطا کی تھی اور رشد و ہدایت کی غرض سے سات ہمراہیوں کے سات دولت آباد بھی بھیجا جب وہ حضرت خواجہ سے روحانی تعلیم پا رہتے تھے تو کچھ لوگوں نے حضرت خواجہ سے بیان کیا کہ وہ یعنی شیخ برہان الدین غریب مشائخ کی طرح کمل کو دو تہہ کر کے سجادے پر بیٹھتے ہیں، حضرت خواجہ کو ان کی نشست کایہ طریقہ ناگوار گذرا، جب وہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو اُن سے مخاطب ہونا پسند نہیں فرمایا اور جب جماعت خانہ میں تشریف لائے تو اپنے خادم اقبال سے ان کو یہ کہلا بھیجا کہ وہ جماعت خانہ میں نہ بیٹھیں وہ یہ سن کر پریشان ہوئے، گھر جاکر سو گ میں بیٹھ گئے، برابر روتے رہتے، لوگ ان کی عیادت کے لئے آتے، ان کو روتا دیکھ کر خود بھی رونے لگتے، امیر خسرو بھی ان کی حالتِ زار سے متاثر ہوئے تو اپنی دستار گردن میں لٹکائی اور حضرت خواجہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت خواجہ ان کو اس طرح دیکھا تو پوچھا ترک کیا ہے؟ عرض کیا مولانا برہان الدین کی معافی چاہتا ہوںمسکراکر پوچھا مولانا برہان الدین کہاں ہیں؟ امیر خسرو نے مولانا برہان الدین کو بھی ان کی دستار گردن میں ڈال کر صفِ نعال میں کھڑا کردیا، پھر تو حضرت خواجہ نے تقصیر معاف کر دی اور تجدیدِ بیعت سے مشرف کیا۔

    (سیرالاؤلیا، صفحہ 81-297)

    حضرت نصیرالدین چراغ دہلوی بھی حضرت خواجہ کے بہت ہی چہیتے مرید تھے، دہلی میں انہی نے ان کی جانشینی کی، جب روحانی تربیت پا رہے تھے تو ان کے دل پر جو کیفیت گذر رہی تھی، اس کا حال خود اپنے مرشد سے نہ کہہ سکے، امیر خسرو ہی نے جاکر ان کی طرف سے عرضِ حال کیا جیسا کہ آتے ذکر آئے گا۔

    سیرالاؤلیا ہی کے مصنف کا بیان ہے کہ ایک بار ایک شخص نے بڑی جرأت کے ساتھ حضرت شیخ المشائخ سے کہا کہ جس نظر سے آپ امیر خسرو کو دیکھتے ہیں، اسی نظر سے مجھے بھی دیکھ لیجئے، شیخ المشائخ نے تو کوئی جواب نہیں دیا لیکن خسرو کو خیال آیا کہ میں اس کو یہ جواب دوں کہ پہلے ویسی صلاحیت پیدا کرو۔ (صفحہ 302)

    امیر خسرو کو حضرت خواجہ سے جو عشق رہا، اس کا ذکر تو ان کے پیر بھائی یعنی سیرالاؤلیا کے مصنف نے بہت کیا ہے جیسا کہ گذشتہ صفحات میں بیان ہوا، بعد کے تذکروں میں بھی اس عشق و محبت کی داستانیں بہت کچھ ملتی ہیں جو یا تو امیر خسرو کے ان معاصر تذکروں سے لی گئی ہیں جو اب ہماری دسترس سے باہر ہیں یا بزرگوں کے سینہ بہ سینہ جو روایتیں چلی آئیں ان کو قلم بند کردیا گیا ہے۔

    امیر خسرو اپنے مرشد کی ہر ادا اور ہر بات پر جان چھڑکتے، اخبارالاخیار (صفحہ 55) میں ہے کہ حضرت خواجہ رات بھر اپنے حجرہ میں عبادت و ریاضت میں مشغول رہتے جس سے ان پر غیر معمولی کیف و مستی اور بے خودی و وارفتگی طاری رہتی، ایک روز امیر خسرو صبح کے وقت حضرت خواجہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو شغل باطن سے ان کی آنکھیں سرخ تھیں، ان خمار آلود آنکھوں کو دیکھ کر امیر خسرو مست ہوگئے اور یہ شعر برجستہ کہا۔

    تو شبانہ می نمائی بہ بر کہ بودی امشب

    کہ ہنوز چشمِ مستت اثر خمار دارد

    تزک جہانگیری (صفحہ 81 مطبوعہ علی گڑھ) میں ہے کہ ایک بار حضرت خواجہ جمنا کے کنارے آکر کھڑے ہوگئے تو دیکھا کہ ہندو اپنے کسی تہوار کے موقع پر جوق در جوق اس خیال سے غسل کر رہے ہیں کہ ان کو ثواب حاصل ہوگا، خسرو بھی ان کی معیت میں تھے، حضرت خواجہ نے ہندوؤں کے مذہبی شغف اور انہماک کو دیکھ کر امیر خسرو سے مخاطب ہوکر فرمایا۔

    ہر قوم راست راہے دینے و قبلہ گاہے

    حضرت خواجہ کے سرِ مبارک پر اس وقت ٹوپی کج تھی، امیر خسرو حضرت خواجہ کی زبانِ اقدس سے یہ مصرع سن کر مست ہوگئے اور فوراً دوسرا مصرع یہ کہا

    من قبلہ راست کردم برسمت کج کلاہے

    اور یہ واقعہ ہے کہ خسرو نے اپنے کج کلاہ مرشد ہی کی وجہ سے اپنے قبلہ کو راست کر دکھایا، سفینۃ الاؤلیا (صفحہ 170) میں ہے کہ ایک بار امیر خسرو دہلی سے باہر گئے ہوئے تھے، واپس ہوئے تو ان کے پاس پانچ لاکھ نقرئی ٹنکے تھے جو ان کے شاہی آقا نے ان کو ایک قصیدہ کے صلہ میں عطا کیا تھا، دہلی کے قریب پہنچے تو ایک فقیر کو اپنے پاس آتے دیکھا جو حضرت خواجہ کی خانقاہ سے آ رہا تھا، اس کو انہوں نے اپنی جوتیاں دے کر رخصت کیا تھا، امیر خسرو اس کے نزدیک آئے تو بے اختیار ہوکر اس سے مخاطب ہوئے کہ تم سے میرے پیر روشن ضمیر کی خوشبو آرہی ہے، کیا تمہارے پاس ان کی کوئی نشانی تو نہیں؟ فقیر نے وہ جوتیاں، دکھائیں، امیر خسرو دیکھ کر بیتاب ہوگئے، فقیر سے پوچھا کہ اسے فروخت کرتے ہو؟ وہ راضی ہوگیا تو انہوں نے پانچ لاکھ ٹنکے (اس کو دے کر اپنے مرشد کی جوتیاں خرید لیں، ان کو اپنے سر پر رکھ کر مرشد کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اس درویش نے اتنے ہی پر اکتفا کیا، اگر اس کے بدلے تمام جان و مال طلب کرتا تو میں حاضر کردیتا۔

    یہ روایت تو بہت مشہور ہے کہ حضرت خواجہ کے محبوب بھانجے مولانا نقی الدین نوح کا عین شباب مین انتقال ہوگیا تو ان کو اس سے بڑا صدمہ پہنچا، چھ مہینے تک ان پر مہر سکوت لگی رہی، اس سے امیر خسرو بھی مغموم رہتے تھے، ان کو فکر ہوئی کہ کس طرح مرشد کا غم غلط ہو، ایک روز بسنت کا میلہ تھا، ہندو دہلی میں کالکا جی کے مندر پر سرسوں کے پھول چڑھا رہے تھے اور مست ہوکر ترانے الاپ رہے تھے، امیر خسرو اس کو دیکھ کر بیخود ہوگئے، فارسی اور ہندی کے چند اشعار اسی وقت موزوں کئے، سرسوں کے پھول توڑے، پگڑی کو کج کر کے مستانہ شان پیدا کی اور جھومتے جھامتے، اشعار پڑھتے حضرت خواجہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جو اس وقت اپنے بھانجے کے مزار پر تھے، امیر خسرو کی مستانہ ادا دیکھ کر او ر ان کے اشعار سن کر تبسم فرمایا تو امیر خسرو کا کام بن گیا، اس روز سے جب ہندو کالکا جی کے مندر پر جاتے تو دہلی اور قرب و جوار کے صوفیہ قوالوں کو لے کر سرسوں کے پھول ہاتھ میں لئے اشعار پڑھواتے ہوئے مولانا تقی الدین کے مرقد پر جاتے ہیں اور وہاں سے حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا کےمزار پر آتے ہیں، ان اشعار میں ایک شعر یہ ہے۔

    رشک ریز آمدست ابر بہار

    ساقیا گل بریز وبادہ بیار

    قوال ہندی کی ایک ٹھمری کو پڑھ کر بار بار دہراتے ہیں، جس کا ایک مصرع یہ ہے۔

    عرب یار توری بسنت منائی

    رفتہ رفتہ دہلی کی درگاہوں میں پندرہ دن تک بسنت کا میلہ رہنے لگا اور دوسری جگہوں میں بھی مسلمان بسنت منانے لگے اور اب بھی یہ منایا جاتا ہے۔

    مولانا شبلی نے شعرالعجم کی دوسری جلد (صفحہ 128) میں رقم طراز ہیں کہ خواجہ صاحب سے امیر کی ارادت اور عقیدتِ عشق کی درجہ تک پہنچ گئی تھی، ہر وقت ساتھ ساتھ رہتے تھے اور گویا ان کا جمال دیکھ کر جیتے تھے، خواجہ صاحب کو بھی ان کے ساتھ یہ تعلق تھا کہ فرمایا کرتے تھے کہ جب قیامت میں سوال ہوگا کہ نظام الدین کیا لایا ہے؟ تو خسرو کو پیش کردوں گا، دعا مانگتے تھے تو خسرو کی طرف اشارہ کر کے فرماتے تھے، الٰہی یہ سوز سینۂ ایں ترک مرا بہ بخش۔

    اوپر کی تفصیلات سے ظاہر ہوگا کہ حضرت خواجہ اور امیر خسرو ایک دوسرے کے حبیب و محبوب بنے رہے مگر ان کے عارفانہ رشتے کے سلسلہ میں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں، ایک تو یہ کہ جب حضرت خواجہ خود سلاطینِ وقت سے ملنا اور دربار میں جانا کسی حال میں بھی پسند نہیں کرتے تھے تو اپنے محبوب امیر خسرو کو دربار سے وابستہ رہنا کیوں گوارا کر رکھا تھا؟ اس کا جواب تو یہ ہے کہ دربار کی وابستگی سے شریعت کی کوئی خلافت ورزی نہیں ہوتی تھی، سلاطینِ وقت سے ملنے پر چشتیہ سلسلہ کے بزرگوں نے کوئی قدغن بھی عائد نہیں کر رکھا تھا۔

    سیرالاؤلیا جیسے مستند تذکرہ کی روایت ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے پاس اجمیر کے نزدیک ایک گاؤں تھا، وہاں کے مقطع نے ان کو لڑکوں کو تنگ کیا تو لڑکوں کے کہنے پر وہ بادشاہ سے ملنے کے لئے اجمیر سے دہلی گئے، جہاں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے ساتھ مقیم ہوئے، خواجہ بختیار کاکی خود سلطان شمس الدین سے ملے جس کو صورتِ حال معلوم کر کے تعجب ہوا، وہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی سے ملا اور ان کے لئے فرمان لکھ دیا، (صفحہ 53) پھر اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ سلطان شمس الدین ایلتتمش حضرت قطب الدین بختیار کاکی کے حلقۂ ارادت میں داخل نہ تھا، سلطان علاء الدین خلجی کے شہزادے خضر خان اور شادی خان خود حضرت خواجہ نظام الدین کی خانقاہ میں تربیت پاتے رہے، (سیر العارفین صفحہ 74) حضرت خواجہ کا سلاطینِ دہلی سے نہ ملنا کسی شرعی قباحت کی بنا پر نہ تھا بلکہ یہ محض ان کے ذاتی کردار کا ایک پہلو تھا، اس لئے دربار سے امیر خسرو کا وابستہ رہنا کوئی ایسی قابلِ اعتراض بات نہ تھی جس کو حضرت خواجہ کو گوارا نہ کرنا چاہئے تھا۔

    حضرت خواجہ چنگ ارباب اور دوسرے مزامیر کے استعمال کو ناجائز سمجھتے تھے، ان سے کہا گیا کہ بعض خانقاہوں میں درویش چنگ رباب اور مزامیر کی محفلِ سماع میں رقص کرتے ہیں، تو انہوں نے فرمایا کہ وہ اچھا نہیں کرتے کیوں کہ جو فعل نامشروع ہے، وہ ناپسندیدہ ہے، ایک مرید نے عرض کیا کہ یہ درویش جب محفل سے باہر آتے ہیں اور ان سے کہا جاتا ہے کہ ایسی محفل میں کیوں شریک ہوئے جہاں مزامیر تھے اور وہاں کیوں رقص کیا تو جواب دیتے ہیں کہ ہم سماع میں اس قدر مستغرق ہو جاتے ہیں کہ ہم کو خبر نہیں ہوتی کہ اس جگہ مزامیر بھی ہیں، حضرت خواجہ نے فرمایا کہ یہ جواب درست نہیں اور یہ تمام باتیں معصمت کی ہیں (فوائدالفواد صفحہ 227) امیر خسرو کی زندگی تو چنگ رباب اور مزار ہی میں گذری، ان کے دوست مولانا ضیاؤالدین برنی لکھتے ہیں۔

    وہ گانے اور راگ وغیرہ ایجاد کرنے کے فن میں کمال رکھتے تھے، موزوں اور لطف طبیعت سے جس فن کو بھی نسبت ہے اس میں ان کو اللہ تعالیٰ نے سرآمد روزگار پیدا کیا تھا، ان کا وجود عدیم المثال تھا (صفحہ 359)

    امیر خسرو کے پیر بھائی سیرالاؤلیاء کے مصنف نے بھی لکھا ہے کہ

    در علم موسیقی کمال داشت (صفحہ 588)

    امیر خسرو کے ان دونوں معاصروں نے مزامیر کا ذکر نہیں کیا ہے لکن خود امیر خسرو نے اعجاز خسروی میں فنِ موسیقی پر بہت کچھ لکھا ہے جس کی مشکل عبارت آرائی کہ وجہ سے ان کے اس فن کے کمالات کو سمجھنا آسان نہیں لیکن اس کے مطالعہ سے یہ پتہ چلے گا کہ انہوں نے اس زمانہ کے مزامیر میں سے پنجہ رباب، پنجہ چنگ، دست نائی، دست طنبور، دستک قوال، دستان خشی، شہنائی، بابلک شہنائی، بگمک، ممکک، دم سرنے، ومدمۂ نے، تیرۂ ہندی، دہل غازی، دہلاک زناں، دہل زناں وغیرہ کاذکر کیا ہے(اعجاز خسروی صفحہ 283، حصہ دوم) وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان مزامیر کے فن سے اچھی طرح واقف تھے۔

    صحت و علت مزامیر نیکو دانیم کہ چوں چنگ از سفیدی اندام سر افگندہ ماند و نامے کہ شکمش از نفخِ اوزار دہد و مسلک کہ از دمش در نالیدن آید و نوالک کہ تنگیٔ نفس گلو گیرش کند و کوفتگیٔ دف کہ از حرارت مدقوق گردد۔ (ایضاً صفحہ 286)

    ان کے بجانے کے فن میں اصلاحات بھی کیں اور کچھ نئی چیزیں بھی دریافت کیں۔

    اصلاح ہر یک بچہ طریق باید کردد گرفتن نبص رباب وزدن رگ بربط چناں برقانونِ حکمت دریافتہ ایم کہ بیمار را طیب شفا توانیم شد۔ (ایضاً صفحہ 286)

    اس سے ظاہر ہے کہ امیر خسرو کو مزامیر سے خاص شغف رہا اور عام روایت تو یہ ہے کہ انہوں نے ستار، طبلہ، ڈھولک وغیرہ کے بجانے میں بہت سے اختراعات کئے۔

    اس سلسلہ میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ جب حضرت خواجہ مزامیر کی حلت کے قائل نہ تھے تو اپنے محبوب کو اس سے شغف رکھنے کی اجازت کیوں دی؟ اس کا جواب تو بظاہر یہ ہے کہ وہ مزامیر کو مکروہ اور حرام ضرور سمجھتے رہے مگر ان کے مریدوں کی مجالس سماع میں اس کا استعمال جاری رہا، ان کے بعض محتاط مرید اور خلیفہ مثلاً حضرت نصیرالدین چراغ دہلوی تو اس سے پرہیز کرتے رہے مگر اور مرید اس سے اجتناب نہ کرسکے، امیر خسرو کا شمار مؤخرالذکر کو مریدوں ہی میں کرنا چاہئے، مزامیر کی حلت و حرمت پر بحث اب تک جاری ہے، بعض معتدل لوگوں نے یہ لکھ کر معاملہ کو طے کرنے کی کوشش کی ہے کہ فقہا کے یہاں یہ حرام ہے لیکن صوفیائے کرام کے یہاں اس کی اجازت ہے۔

    امیر خسرو کو بہت ہی محبوب اور عزیز رکھنے کے باوجود حضرت خواجہ کو کبھی یہ خیال نہیں ہوا کہ امیر خسرو دنیا کو تیاگ کر کے صرف ان کے آستانہ پر سر جھکائے ہوئے ہیں، وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کا تعلق دنیا سے باقی ہے، سیرالاؤلیا ہی کی روایت ہے (صفحہ 506) کہ ایک بار امیر خسرو مجلسِ سماع کے رقص میں شامل ہوگئے، انہوں نے رقص میں اپنے ہاتھوں کو اوپر کیاتو سلطان المشائخ نے ان کو اپنے پاس طلب کیا اور فرمایا کہ تم دنیا سے تعلق رکھتے ہو، تم کو رقص کے وقت ہاتھ اوپر نہ کرنا چاہئے، امیر خسرو نے اپنے ہاتھ نیچے کر لیے اور مٹھی باندھ کر رقص کرنے لگے، چشتیہ سلسلہ میں رقص کے آداب میں ہے کہ جب وہ رقص میں اپنے پاؤں زمین پر پٹکتے ہیں تو دنیا کو یہ گویا لات مارتے ہیں اور جب رقص میں ہاتھوں کو اوپر کرتے ہیں تو گویا آخرت کے طلبگار ہوتے ہیں، اسی کو اس شعر میں اس طرح ظاہر کیا گیا ہے۔

    رقص گر ہمی کنی رقص عارفانہ کن

    دنیا زیر پائے نہ دست بر آخرت فشاں

    سیرالاؤلیا ہی کے مصنف کا بیان ہے کہ حضرت خواجہ کے حلقۂ ارادت میں ہر قسم کے لوگ تھے، خوب طبعان عالم بھی، شعرائے بے نظیر بھی، ندیمانِ دلپذیر بھی اور جوانانِ لطیفہ گو بھی تھےان سب کی تربیت ان کے اندازِ طبع کے مطابق کرتے اور ان کے ذوق کو بیدار کر کے ان کا گویا امالہ کرتے رہتے۔

    خوب طبعان عالم از شعرائے بے نظیر و ندیمان دلپذیر و جوانانِ لطیفہ گوے ہمہ بر آستان حضرت سلطان المشائخ تنہا دہ بودند و از دولتِ او ہر کسے باندازہ طبع خویش در ہر قسم کہ میں بودند، ذوقہا در سینۂ خود، حساس کردند(صفحہ 511)

    چشتیہ سلسلہ کے اکابر بزرگ راہِ سلوک میں توبہ، عبادت، زہد، رضا، قناعت، مجاہد، مشاہدہ، ذکر فکر، اصلاح، اخلاص، معرفت، شکر اور محبت پر زیادہ زور دیتے، ان میں جو اعلیٰ ترین مقامات پر پہنچے، وہ کوشش فرماتے کہ ان کی توبہ حضرت آدم کی طرح ہو، عبادت حضرت ادریس کی ہو، زہد حضرت عیسیٰ کا ہو، رضا حضرت ایوب کی طرح ہو، قناعت حضرت یعقوب، مجاہدہ حضرت یونس، صدق حضرت یوسف، تفکر حضرت شعیب، اصلاح حضرت داؤد، اخلاص حضرت نوح، معرفت حضرت خضر، شکر حضرت ابراہیم اور محبت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو۔ (سیرالاقطاب صفحہ 138-137)

    مگر ظاہر ہے کہ یہ تمام اوصاف ہر رہرو سلوک کے لئے ممکن نہ تھے مگر جوہر شناس بزرگ اپنے مریدوں کی ذاتی اور انفرادی صلاحیتوں کو پیشِ نظر رکھتے اور ان ہی کے مطابق ان کو تعلیم دیتے، حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا اپنے مریدوں کی تعلیم و تربیت میں بہت سخت تھے، کسی قسم کی رو رعایت نہ کرتے مگر جیسا ہوتا اسی لحاظ سے پیش بھی آتے پہلے ذکر آچکا ہے کہ حضرت خواجہ برہان الدین غریب کی بیعت محض اس لئے فسخ کر دی کہ وہ کمبل کو دو تہ کر کے اس پر بیٹھتے تھے، اس کو ان کی تن پروری اور راحت پسندی پر محمول کیا، حضرت جلال الدین اودھی اپنے زہد و ورع، ترک اور تجرید کے لئے مشہور تھے، ان کے ساتھیوں نے ان سے درس و تدریس کی خواہش ظاہر کی، حضرت خواجہ سے اس کی اجازت چاہی تو انہوں نے فرمایا کہ وہ کسی اور ہی کام کے ہیں، خواجہ مؤیدالدین کرہ سلطان علاؤالدین خلجی کی شہزادگی کے زمانہ میں اس کے جاں نثاروں میں تھے مگر ترکِ دنیا کر کے حضرت خواجہ کے پاس یہ پیام بھیجا کہ وہ خواجہ مؤیدالدین کرہ کو رخصت کردیں کہ اس کا کام بٹائیں، حضرت خواجہ نے فرمایا کہ ان کو ایک اور کام در پیش ہے، اسی میں وہ کوشش کررہے ہیں، جب پیامبر نے حضرت خواجہ سے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ اپنے جیسا سب کو کرلیں؟ تو حضرت خواجہ نے فرمایا کہ اپنے جیسا کیا، میں تو اپنے سے بہتر کرنا چاہتا ہوں، خواجہ شمس الدین دھاری شاہی ملازمت میں دیوان کے عہدہ پر مامور تھے، اس کو چھوڑ کر حضرت خواجہ کے مرید ہوگئے اور ان کے ملفوظات کو جمع کر کے مرتب کیا، ایک دن اپنے مرید مرشد سے عرض کیا کہ اگر حکم ہو تو آنے جانے والوں کے لئے یک مکان بنوالوں، مرشد نے فرمایا یہ کام اس کام سے جس کو تم نے چھوڑا ہے، کم نہیں (سیرالاؤلیاء اور اخبارالاخیار صفحہ 102-101) (بزمِ صوفیہ از خاکسار مقالہ نگار صفحہ 260-259) حضرت نصیرالدین چراغ دہلوی جب حضرت خواجہ سے تربیت حاصل کر رہے تھے تو ان ہی کی ہدیات کے بموجب دس دس روز گذر جاتے مگر کچھ نہ کھاتے، جب خواہشات کا غلبہ ہوتا تو لیموں کا عرق پی لیتے، جب ان کی عبادت و ریاضت میں یادِ الٰہی بڑھی تو خلق اللہ کے ہجوم میں ان کو سکون میسر نہیں ہوتا، اپنی یکسوئی میں خلل پانے لگے، جنگل جاکر عبادت کرنا چاہتے تھے مگر مرشد سے اس کی اجازت براہِ راست مانگنے کی ہمت نہیں ہوئی، امیر خسرو کا سہارا لیا اور ان ہی کو سفارش کرنے کے لئے مرشد کی خدمت میں بھیجا مگر حکم ملا کہ وہ خلق اللہ کے درمیان ہی میں رہیں اور خلق کی جفاؤں کو برداشت کریں، اس ایثار کا بدلہ ان کو ملے گا، اس سلسلہ میں حضرت خواجہ نے یہ بھی فرمایا کہ مختلف افراد مخلف کاموں کے لئے موزوں ہوتے ہیں اسی لئے میں کسی سے تو یہ کرنے کو کہتا ہوں کہ اپنے آپ کو بھی بند رکھے اور اپنے دروازہ کو بھی کسی کو یہ ہدایت دیتا ہوں کہ وہ مریدوں کی تعداد بڑھائے اور کسی کو یہ حکم دیتا ہوں کہ خلق اللہ کے درمیان ہی میں رہے، ان کی جفاؤں کو برداشت کرتے ہوئے ان سے حسن سلوک سے پیش آئے یہی مقام ابنیاء اور اؤلیا کا ہے۔ (سیرالاؤلیاء صفحہ 238)

    حضرت خواجہ نے امیر خسرو کی تربیت ان کی افتاد طبع اور ان کی سیرت کی فطری خوبیوں کے مطابق کی، وہ خود تو بادشاہوں سے کسی حال میں بھی ملنا پسند نہ کرتے مگر امیر خسرو کو ان کا ہم جلیس اور ندیم بننے کی اجازت دے رکھی تھی، ان کو یہ اچھی طرح یقین تھا کہ امیر خسرو دربار کی رنگ رلیوں اور سرمستیوں میں شریک رہیں یا وہاں کے نغمہ و سرود سے لطف اندوز ہوں یا ان پر شاہانہ جود و کرم سے مال و دولت کی بارش کتنی ہی ہو، وہ ہر حال میں اپنے خلاق و کردار کو بلند رکھیں گے اور اپنی سیرت کو داغدار نہ ہونے دیں گے، حضرت خواجہ نے ان کے متعلق جو رائے قائم کی وہ بالکل صحیح ثابت ہوئی، وہ بادشاہوں کو اپنے قصیدوں سے خوش رکھتے، شبانہ تقریبات میں شان و شوکت کی تصویر کشی کر کے درباریوں کو بھی محظوظ کرتے، پری رویانِ ہندی کے رقص کا ذکر کرنے میں اپنے شاعرانہ کمالات بھی دکھاتے، ہندی اور ایرانی راگ راگنیوں کو ملا کر ایک فن کارانہ امتزاج بھی پیدا کر دیا مگر دربار داری کر کے اپنے مرشد کے پاس پہنچتے تو کچھ اور ہی نظر آتے، حضرت خواجہ کی روحانی تعلیم یہ تھی کہ محبتِ حق جب قلب کا محض غلاف بنی رہے تو معصیت کا امکان ہے لیکن جب خدا کی محبت قلب کے سویدا میں پہنچ جائے تو معصیت کا امکان نہیں ہوتا، امیر خسرو کے قلب اپنے مرشد کی تعلیم کی وجہ سے خدا کی محبت ان کے قلب کے سویدار میں پہنچ چکی تھی، اس لئے درباروں کی دنیاداری میں ان کے یہاں معصیت کا امکان ہی نہیں پیدا ہوا، سیرالاؤلیا، صفحہ 368 میں ہے کہ حضرت خواجہ کی تعلیم یہ تھی کہ طہارت کی کئی قسمیں ہوتی ہیں، ایک تو یہ کہ دل کو خیانت وغیرہ کے ظواہر سے پاک رکھا جائے، دوسرے یہ کہ اعضا کو گناہوں سے پاک رکھا جائے، تیسرے یہ کہ دل کو اخلاقِ ذمیمہ سے پاک رکھائے، امیر خسرو نے ہر حال میں اپنے دل کو اخلاق ذمیمہ سے پاک رکھا، اس لئے اپنے شاہی اور روحانی دونوں آقاؤں کے یہاں محبوب رہے، حضرت خواجہ کی تعلیم یہ بھی تھی دنیا میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں، ایک وہ ہیں جو دنیا کو دوست رکھتے ہیں اور اسی کی یاد اور طلب میں تمام دن مشغول رہتے ہیں، دوسرے وہ ہیں جو دنیا کو دشمن جانتے ہیں، اس کی مذمت کرتے اور اس کی عداوت میں عبادت کرتے رہتے ہیں، تیسرے وہ ہیں جو اس سے نہ محبت نہ عداوت کرتے ہیں اور اس کا ذکر بھی نہ محبت اور عداوت سے کرتے رہتے ہیں، ایسے لوگ ان دونوں لوگوں سے بہتر ہوتے (فوائدالفواد، صفحہ 318) امیر خسرو تیسرے قسم کے لوگوں میں سے تھے، وہ محض ایک زاویہ نشین صوفی ہوجاتے تو حضرت خواجہ کے حلقہ میں ایسے صوفیوں کی کوئی کمی نہ تھی، ان کی زندگی کے کمالات کا راز تو اس میں ہے کہ لسانِ حال اور لسانِ قال بن کر جام شریعت اور سندان عشق دونوں کو اپنے ہاتھوں میں لئے خاتمہ بالخیر کو پہنچے، حضرت خواجہ کی تعلیم تھی کہ انسان کے پاس نفس بھی ہے اور قلب میں بھی، نفس سے غوغا اور فتنہ پیدا ہوتا ہے، قلب کے ذریعہ سے سکونِ رضا اور ملاطفت حاصل ہوتی ہے، نفس قلب کے ذریعہ سے مغلوب ہوسکتا ہے لیکن نفس کو نفس سے سہارا مل جائے تو فتنہ اور خصوص کی کوئی حد نہیں ہوتی اس لیے تحمل اور حلم اس درجہ کا ہونا چاہئے کہ

    زہر بادیٔ چو کاہی گر میرزی

    اگر کوہے بکاہی ہم نیر زی

    (فوائدالفواد صفحہ214)

    امیر خسرو کی زندگی اس کا مظہر ہے کہ اپنے نفس کو اپنے قلب پر غالب نہیں ہونے دیا جس سے ان کے قلب کو ایسا سکون حاصل ہوتا رہا کہ وہ اپنے روحانی آقا کی رضا اور شاہی آقا کی ملاطفت کے سایہ میں زندگی گذارتے رہے وہ اگر اپنے روحانی آقا کی ہر نفس سے پرکاہ کی طرح لرزتے رہے تو انہوں نے اپنے شاہی آقا کی شان و شوکت کی پہاڑ کے سامنے جھک کر اپنے دین و ایمان کی بازی لگانا پسند نہیں کیا، جس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوگا کہ سطان جلال الدین خلجی کو حضرت خواجہ سے ملنے کی بڑی تمنا تھی مگر حضرت خواجہ سلطان وقت سے ملنا کسی حال میں بھی پسند نہیں کرتے تھے، اس لئے سلطان نے بھیس بدل کر امیر خسرو کے ساتھ ان کیخدمت میں حاضر ہونے کا ارادہ کیا، امیر خسرو سے سلطان نے اس کو راز میں رکھنے کی فہمایش کی، امیر خسرو کے دل میں ی خیال آیا کہ راز افشاں ہونے کے بعد کہیں ان کے مرشد کو گرانی اور ناگواری نہ ہو، اس لئے سلطان کی فہمایش کے باوجود اپنے مرشد کو اپنے شاہی کا ارادہ بتا دیا جس کے بعد حضرت خواجہ شہر چھوڑ کر اپنے مرشد کی زیارت کے لئے اجودھن روانہ ہوگئے، سلطان کو خبر ہوئی تو امیر خسرو سے باز پرس کی کہ یہ راز کیوں فاش کیا، امیر خسرو نے ایمانی قوت سے سلطان کو یہ جواب دیا کہ اگر آپ رنجیدہ ہوتے تو زیادہ سے زیادہ میری جان کا خطرہ ہے لیکن مرشد آزردہ ہوتے تو میرے ایمان کا خطرہ تھا، سلطان کو یہ جواب بہت پسند آیا۔ (سیرالاؤلیا صفحہ 135)

    امیر خسرو کی روحانی زندگی کا راز اسی میں ہے کہ ہر حال میں اپنے ایمان کو ہر قسم کے خطرات سے محفوظ رکھا، امیر خسرو کو اپنے مرشد سے باطنی تعلیمات کے ساتھ ظاہری تعلیمات بھی برابر حاصل ہوتی رہیں، پہلے ذکر آیا ہے کہ وہ اپنے مرشد کی ہدایت کے مطابق روزانہ تہجد کے وقت کلام پاک کے سات پارے پڑھتے۔

    (سیرالاؤلیا صفحہ 302)

    پھر ان کو یہ بھی تلقین کی کہ وہ مشائخ کی باتوں کا لحاظ رکھیں، (ایضاً صفحہ 304) حضرت خواجہ کی یہ تعلیم تھی کہ عبادت کی دو قسمیں ہیں، لازمہ اور متعدیہ، عبادت لازمہ میں نماز، روزہ، حج، اوراد اور تسبیحات داخل ہیں جن سے عبادت کرنے والوں کو فائدہ پہنچتا ہے، عبادت متعدیہ کا فائدہ غیروں کو پہنچتا ہے، عبادتِ لازمہ میں اخلاص کا ہونا ضروری ہے تاکہ یہ خداوندتعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہو طاعت عبدات متعدیہ میں اخلاص جہاں تک بس میں ہو اختیار کیا جائے۔ (فوائدالفواد صفحہ 21)

    امیر خسرو اپنے مرشد کی اس تعلیم پر بھی برابر عمل کرتے رہے جیسا کہ ان کے دوست مولانا ضیاؤالدین برنی کا بیان ہے کہ ان کی عمر کا بیشتر حصہ صوم و صلوٰۃ، عبادت اور قرآن خوانی میں گذرا، وہ متعدی اور لازمی عبادات میں یکتا تھے اور ہمیشہ روزے رکھتے تھے۔ (تاریخ فیروز شاہی صفحہ 359)

    سیرالاؤلیا کے مصنف کا بیان ہے کہ حضرت خواجہ اپنے دستِ خاص سے خطوط لکھ کر کچھ نہ کچھ تعلیم دیتے رہتے ایک میں نصیحت کی کہ جس کی حفاظت کے بعد شریعت کی ناپسندیدہ باتوں سے اجتناب کیا جائے اپنے اوقات کی نگہبانی کرتے رہنا چاہئے، عمر عزیز کے ذریعہ سے تمام مرادیں حاصل ہوتی رہیں تو اس کو غنیمت سمجھا جائے، زندگی بیکار کاموں میں نہ گذاری جارے، اگر دل میں انشراح کی قوت پیدا نہ ہو تو انشراحِ قلبی کی پیروی کی جائے، کیونکہ یہی راہِ طریقت میں معتبر ہے اور تمام امور میں طلبِ خیر کو مقدم رکھا جائے۔ (سیرالاؤلیا صفحہ 387-385، اخبارالاخیار صفحہ 93)

    اس بات کی کون تردید کر سکتا ہے کہ امیر خسرو کی زندگی اس نصیحت کے مطابق نہیں رہی، وہ جسمانی گناہوں سے محفوظ رہے اور باریکی رنگ رلیاں اور سر مستیاں شریعت کی ناپسندیدہ باتوں میں ضرور تھیں مگر وہ ان کے دور کے محض تماشائی تھے، ان میں کبھی ملوث نہیں ہوئے، اپنے اوقات کی پوری نگہبانی کی، چاہے وہ اپنے مرشد کے حضور میں ہوتے یا دربارِ شاہی میں حاضر رہتے، ان کی عمرِ عزیز میں ہر قسم کی مرادیں حاصل ہوتی رہیں، ان کو وہ غنیمت اس لحاظ سے سمجھتے رہے کہ اگر یہ مرادیں دولت کی شکل میں ہوتیں تو ان کو اپنے خاندان، اعزہ، اقربا اور مرشد کی خانقاہ میں صرف کردیتے، اسی لئے انہوں نے اپنے پیچھے کوئی بڑی دولت نہیں چھوڑی، وہ چاہتے تو امیر کبیر بن سکتے تھے، لیکن درویشانہ زندگی ہی بسر کی، انہوں نے دربار داری ضرور کی لیکن اس کو ان کی زندگی کے بیکار کاموں میں شمار نہیں کیا جاسکتا ہے، دربار داری کے سلسلہ میں انہوں نے جو قصائد کہے یا مثنویاں لکھیں وہ شعر و ادب کے شاہکار ہیں، بقول مولانا ضیاؤالدین برنی انہوں نے اپنے پیچھے علم و فن کا ایک کتب خانہ چھوڑا، اگر وہ دربار سے وابستہ نہ ہوتے تو یہ کتب خانہ ان کی بعد کی نسلوں کو حال نہ ہوتا، آخر میں مذکورۂ بالا تحریر میں حضرت خواجہ نے جو یہ نصیحت کی تھی کہ انشراح قلبی کی پیروی کی جائے تو امیر خسرو اپنی نجی، روحانی ادبی اور درباری زندگی میں اسی انشراح کے پیکر تھے اور تمام امور میں طلب خیر کو مقدم رکھتے۔

    امیر خسرو کی وفات جس انداز میں ہوئی وہ بھی ان کے مرشد سے عشق کے انتہائی کمال کا ثبوت ہے، بقول مولانا شبلی خسرو اپنے مرشد کا جمال دیکھ کر جیتے رہے، جب ان کے مرشد کی وفات ہوئی تو خود ان کی بھی موت آگئی وہ اپنے مرشد کی وفات کے وقت دہلی سے دور سلطان محمد تغلق کے ساتھ بنگالہ کی مہم پر تھے، وہاں یکایک ان کے دل پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی، سلطان سے اجازت لے کر چل کھڑے ہوئے، دہلی پہنچ کر معلوم ہوا کہ محبوبِ الٰہی اپنے محبوب سے جاملے، یہ سن کر بیتاب ہوگئے، اپنا منہ سیاہ کیا، کپڑے پھاڑ ڈالے، خاک میں لت پت حجرہ میں پہنچے۔

    جامہ دراں چشم چکاں خون دل رواں

    بوے اے مسلمان میں کون ہوں کہ ایسے بادشاہ کے لئے روؤں، میں تو اپنے لئے روتا ہوں کہ سلطان المشائخ کے بعد میری زندگی کی بقا زیادہ نہیں، اس کے بعد چھ مہینے اور زندہ رہے، پھر اپنے محبوب سے جاملے، سلطان المشائخ کے روضہ کے پاس ہی دفن ہوئے۔ (سیرالاؤلیا صفحہ 305)

    سیرالاؤلیا میں تو نہیں مگر اور تذکروں میں یہ روایت بھی ہے کہ دہلی پہنچ کر جب ان کو اپنے مرشد کی وفات کی خبر ملی توا اپنی ساری ملکیت مرشد کے ایصالِ ثواب کے لئے فقیروں اور مسکینوں میں لٹا دی، ماتمی لباس پہن کر مرشد کے مزار پر پہنچے، اس سے ٹکرا کر ایک چیخ ماری کہ سبحان اللہ آفتاب تو زمین کے اندر ہے اور خسرو ابھی زندہ ہے، پھر یہ ہندی شعر پڑھا۔

    گوری سووے سیج پر مجھ پر ڈالے کیس

    چل خسرو گھر آپ اپنے ریں بھئی کہوں دیس

    یہ پڑھ کر بے ہوش ہوگئے اور اسی اندوہ وغم میں چھ مہینے کے بعد عالمِ بقا کو سدھارہے،(سفینۃ الاولیا صفحہ 7) خسرو کی ہندی کتبا بنارس ایڈیشن صفحہ 4 وحید مرزا

    سیرالاؤلیا کے مصنف ہی کا بیان ہے کہ امیر خسرو نے اپنے مرشد کی وفات پر ایک مرثیہ بھی لکھا تھا جس میں وفات کی یہ تاریخ کہی۔

    ربیع دوم دہزدہ زمہ در ابر رفت آں مہ

    زمانہ چو شمار بیست داد وپنج وہفد را

    (سیرالاؤلیا 155)

    یہ بات ذہن میں ضرور آنی چاہیئے کہ اگر امیر خسرو مستقیم الحال صوفی تھے تو تصوف میں اپنے پیچھے کون سا سرمایہ چھوڑا، اس راقم کا جواب یہ ہے کہ افضل الفوائد اور اپنی شاعری یہ کہنے میں بالکل تامل نہیں کہ امیر خسرو پر اب تک ڈاکٹر وحید مرزا سے زیادہ کوئی اور محقق مستند قرار نہیں دیا گیا ہے، وہ افضل الفوائد کو امیر خسرو کی زندگی کا پھل بتا کر لکھتے ہیں کہ

    یہ کتاب بظاہر میر حسن کی عظیم تصنیف فوائدالفواد کی تقلیدمیں لکھی گئی، اس لئے یہ اعجاز خسروی یا خزائن الفتوح سے بالکل مختلف ہے، اس کی زبان بہت ہی سادہ، سلیس اور لفظی صنائع سے بالکل پاک ہے، اس زمانہ میں جو فارسی زبان بولی جاتی تھی، یہ اس کا عمدہ نمونہ ہے۔ (صفحہ225)

    مگر کچھ ایسے محققین بھی ہیں جو اس خیال کے ہیں کہ افضل الفوائد کو امیر خسرو نے خود مرتب نہیں کیا بلکہ ان کی طرف منسوب کردیا گیا ہے، اس پر برابر بحث جاری ہے، اس میں کتابت کی بہت سی غلطیاں ملیں گی، سنین و اسماء کے ذکر اور واقعات کی ترتیب میں بھی خامیاں ہیں لیکن اگر مختلف نسخوں کو سامنے رکھ کر اس کو محنت سے ایڈٹ کیا جائے تو اس کے متعلق بہت سے شکوک و شبہات دور ہوسکتے ہیں۔

    مأخذ :
    • کتاب : Monthly Ma'arif

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے