Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

ملفوظاتِ خواجگانِ چشت

سید صباح الدین عبدالرحمٰن

ملفوظاتِ خواجگانِ چشت

سید صباح الدین عبدالرحمٰن

MORE BYسید صباح الدین عبدالرحمٰن

    ہماری علمی و مذہبی وراثت کے جو قیمتی سرمایے ہیں ان میں ہندوستان کے شروع کے اکابر خواجگانِ چشت کے ملفوظات کے مجموعے بھی شمار ہوتے رہے ہیں اور یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے اپنے مرشد خواجہ عثمان ہارونی (یا ہروانی) کے ملفوظات انیس الارواح کے نام سے قلمبند کئے، اس کے مطبوعہ نسخہ میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی زبانی یہ روایت ہے کہ حضرت خواجہ (حضرت عثمانی ہارونی) بغداد میں معتکف ہوئے تو انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ وہ کچھ دنوں کے لئے باہر نہ نکلیں گے، میں چاشت کے وقت آجایا کروں، وہ کچھ ایسی باتیں کہیں گے جو مریدوں اور فرزندوں کے لئے یادرگار کے طور پر رہ جائیں گی، یہ حکم سن کر میں روزانہ حضرت خواجہ کے یہاں مقام عزلت میں پہنچ جاتا اور جو کچھ ان کی زبانِ دُربار سے سنتا قلمبند کرلیتا (مطبع مجتبائی صفحہ4)

    اسی طرح عام خیال یہی رہا ہے کہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے اپنے مرشد حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے ملفوظات دلیل العارفین کے نام سے مرتب کئے پھر حضرت فرید الدین گنج شکر نے بھی اپنے مرشد حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے ملفوظات فوائدالسالکین کے نام سے جمع کئے، خواجہ نظام الدین نے بھی اپنے مرشد خواجہ فریدالدین گنج شکر کے ملفوظات راحت القلوب کے نام سے اکھٹے کئے اور حضرت بدر اسحٰق نے بھی ان کے ملفوظات اور اسرارالاؤلیا کے نام سے مرتب کئے لیکن یہ تمام ملفوظات کے مجموعے حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی کے اس بیان سے مشکوک اور فرضی سمجھتے گئے ہیں جو خیرالمجالس کی مجلس یازدہم میں درج ہے، خواجہ نصیر الدین چراغ کے سامنے کسی نے خواجہ عثمانی ہارونی کے ملفوظات کا ذکر کیا تو خواجہ نصیر الدین چراغ نے فرمایا کہ یہ ملفوظات ان کے نہیں ہیں پھر فرمایا کہ یہ ملفوظات کے نسخے میری نظر سے بھی گذرے ہیں، ان میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جو ان کے اقوال کے مناسب نہیں، اس کے بعد یہ بھی کہا کہ شیخ نظام الدین اؤلیاء یہ بھی فرماتے تھے کہ میں نے کوئی کتاب تصنیف نہیں کی، کیونکہ شیخ الاسلام فریدالدین، شیخ الاسلام قطب الدین اور خواجگانِ چشت جو داخل شجرہ ہیں، کسی نے کوئی کتاب تصنیف نہیں کی۔

    (خیرالمجالس مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ایڈیشن)

    راقم ہی نے اس ملفوظ کی طرف اردو میں غالباً پہلی دفعہ جولائی 1945عیسوی کے معارف (صفحہ87) کے ذیعہ سے توجہ دلائی پھر 1949عیسوی میں اپنی حقیر تالیف بزم صوفیہ کی تمہید میں ذکر کیا کہ خواجگانِ چشت کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان بزرگوں نے ملفوظات کے مجموعوں کو مرتب نہیں کیا بلکہ بعد میں ان کے اسمائے گرامی ان کی طرف منسوب کر دیے گئے پھر اکتوبر 1950عیسوی اکتوبر 1951عیسوی اور دسمبر 1954عیسوی کے معارف میں ان ملفوظات پر کچھ بحث بھی کی لیکن ایک عرصہ تک کشمکش میں رہنے اور مزید غور و فکر کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ خیرالمجالس کی روایت پر نظرِ ثانی کرنے کی ضرورت ہے، سیرالعارفین کے مؤلف نے اپنے زمانہ میں جو خیرالمجالس دیکھی تھی، اس میں سے مذکورۂ بالا روایت کو دوسرے طریقہ سے بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ملفوظ خیرالمجالس کے مرتب حمید قلندر سے مروی اور منقول ہے کہ ایک شخص نے حضرت نصیر الدین محمود اودھی سے عرض کیا کہ میں خواجہ قطب الحق والدین قدس سرہٗ کے ملفوظات میں ایسا کچھ لکھا ہوا دیکھا ہے، آپ نے جواب میں فرمایا کہ بالکل غلط ہے، میں نے بہ چشمِ خود ان کے ملفوظات کو دیکھا ہے، حاشا اللہ یہ کلام ان کا نہیں ہے، اکثر غلط کلمات الحاقی ہیں جو مجاوروں نے بڑھا دیئے ہیں، کسی طرح قطب صاحب کے حال اور اعمال کے موافق نہیں یہ بیان خیرالمجالس کے مطبوعہ نسخہ سے مختلف ہے، اس سے یہ ظاہر ہے کہ قطب صاحب کے ملفوظات مرتب ہوئے جن میں کچھ ملفوظات الحاقی ہیں، خیرالمجالس کی مجلس یازدہم ہی میں اس کے مرتب حمید قلندر نے یہ بھی لکھا ہے کہ میں نے عرض کیا کہ فوائدالفواد میں ہے کہ ایک شخص نے شیخ الاسلام شیخ نظام الدین قدس اللہ سرہٗ العزیز سے عرض کیا کہ

    من بر شخصے کتابے دیدہ ام از تصنیف شیخ

    تو حضرت شیخ نے فرمایا۔

    او تفاوت گفتہ است، من ہیچ کتابے تصنیف نہ کردہ ام و خواجگانِ مانیز نہ کردہ اند

    یہ سن کر حضرت نصیر الدین چراغ نے فرمایا کہ واقعی حضرت یعنی شیخ نظام الدین اؤلیا نے کوئی کتاب تصنیف نہیں کی، اس کے بعد حمید قلندر نے کہا کہ جو رسالے اس وقت ملتے ہی، مثلا شیخ قطب الدین و شیخ عثمان ہراونی، کیا وہ شیخ کے زمانہ میں نہ تھے، حضرت نصیر الدین چراغ نے فرمایا کہ نہ تھے، اگر ہوتے تو شیخ ان کا ذکر کرتے اور دستیاب ہوتے۔ (صفحہ 53)

    لیکن حمید قلندر نے فوائدالفواد کے جس ملفوظات کا ذکر کیا ہے وہ اس کے موجودہ مطبوعہ نسخے سے کچھ مختلف ہے، فوائدالفواد میں ہے۔

    سخن در کتب مشائخ افتاد و فوائدے کہ ایشاں نویسند عزیزے حاضر بود، عرضداشت کرد کہ مرا در اودھ مردے کتابے نمود، گفت کہ ایں بشتہ خدمت مخدوم ست خواجہ ذکرہ اللہ بالخیر گفت کہ تفاوت گفتہ است، من ہیچ کتاب نہ نوشتہ ام بعد ازاں فرمود کہ شیخ علی ہجویری چوکشف محجوب بنشست او کتاب نام خود باد کرد۔۔۔۔‘‘ (صفحہ 45)

    اس میں یہ نہیں ہے کہ

    خواجگان مانیز نہ کردہ اند

    معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا مجموعۂ ملفوظات کو تصنیف قرار نہیں دیتے تھے، اسی لئے انہوں نے اپنے مرشد کے جو ملفوظات مرتب کئے، ان کے مجموعہ کو اپنی کتاب نہیں سمجھتے تھے کیونکہ اسی فوائدالفواد میں ہے کہ انہوں نے اپنے مرشد کے ملفوظات جمع کئے جو 707ہجری تک ان کے پاس تھے وہ 28 شوال 707ہجری کی ایک مجلس میں فرماتے ہیں کہ میں جو کچھ اپنے شیخ سے سنتا لکھ لیتا اور ان کو دکھاتا، جب شیخ کوئی حکایت یانکتہ بیان کرتے اور میں مجلس میں نہیں ہوتا تو جب میں واپس آتا تو اپنی باتوں کو میرے لئے دہراتے، تاکہ میں لکھ لوں، وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اسی زمانہ میں ایک شخص نے مجھ کو سپید کاغذ جلد بندھوا کر دیا، اسی میں شیخ کی باتیں لکھ لیا کرتا تھا، وہ مجموعہ میرے پاس ہے، فوائدالفواد کی پوری عبات یہ ہے۔

    خواجہ فرمود ہر چہ از شیخ شنودہ شد نوشتم، چوں بمقام خود باز آمدم، برجائے نسخہ کردم، بعد ازاں ہر بار آنچہ سماع می، افتاد، در قلم می آوردم تا ایں معنی بخدمت شیخ باز نمودیم، بعد ازاں ہر گاہ کہ حکایتے و اشارتے بیان کردے می فرمودے کہ حاضر ہستی تا ایں غائت کہ اگر من غائب بودے، چوں بخدمت باز پیوستمی فائدہ کہ در غیبت فرمودہ بودے آنرا عادت کردے، بعد ازاں خواجہ ذکر اللہ بالخیر فرمود کہ کرامتے معانیہ کردم، ہمدراں ایام مردے مرا کاغذاہا سپید داد یکجا جلد کردہ من آنرا بستدم، فوائد شیخ ہم در آنجاثبت کردم، بالا مبشتم کہ سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم، بعد ازاں کلماتے کہ از شیخ استماع داشتم، بنشستم و باایں غایت آں مجموعہ برمن ہست۔

    (صفحہ 31-30)

    حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا کے دوسرے مجموعۂ ملفوظات افضل الفوائد مرتبہ امیر خسرو میں ہے کہ ملفوظات کو جمع کرنے کا دیرینہ رواج ہے اور یہ بڑی سعادت سمجھی جاتی ہے، چنانچہ حضرت نظام الدین اؤلیا کی زبانی یہ بیان ہے کہ جب مرید اپنے پیر کی خدمت میں حاضر ہوتو جو کچھ اپنے پیر سے سنے اس کو قلمبند کرلے، کیونکہ اس کے ہر حرف کے بدلہ بہشت میں اس کے لئے ایک قصر تیار ہوگا۔

    فرمود کہ چوں مرید بختِ پیر ملازمت نماید، انچہ از زبانِ پیر بشنود، آں راں بکاربرد۔۔۔۔۔

    ہر چہ در پند نصیحت و جز آں بود آں را در قلم آرد، پس حق سبحانہ تعالیٰ ہر حفیکہ در کتاب درج کند در بہشت بنام او قصرے بناکند

    (افضل الفوائد اند مطبوعہ نسخہ 111)

    اس کے بعد افضل الفوائد کا بھی بیان ہے کہ حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا نے بھی اپنے مرشد کے ملفوظات جمع کئے جس میں ان کے مرشد کی بھی مدد شامل رہی اور تقریباً وہی باتیں بیان کی گئی ہیں جو فوائدالفواد میں ہیں، حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا کی زبانی ہے کہ جب شیخ الاسلام فریدالحق والدین نے سنا کہ میں جو کچھ ان کی زبان سے سنتا ہوں لکھ لیتا ہوں تو جب کبھی میں ایک لمحہ کے لئے بھی ان کی مجلس سے غائب ہوجاتا اور واپس آتا تو پھر اس کو بیان فرماتے اور مجلس میں غافل ہو جاتا تو فرماتے کہ تم حاضر ہو؟۔

    فرمود کہ شیخ الاسلام فریدالحق والدین قدس سرہٗ العزیز شنیدہ بود کہ دعا گوی ہر چہ از زبان شیخ فوائد و جز آں می شنود می نویسد، پس ہر وقتیکہ دعا گوی یک لحظہ از مجلس غائب بودے، آں زماں کہ برفتے فرمودے کہ کجا بودی و ہر فوائد کہ پیش فرمودہ بودے باز آں را بیان کردے او را گر اثر غلفت در دعا گوی بدیدی روے سوئے دعا گوے کردی وگفتے حاضر ہستی۔ (افضل الفوائد صفحہ 112)

    اس طرح فوائدالفواد اور افضل الفوائد دونوں کی روایتوں سے ظاہر ہے کہ حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا نے اپنے مرشد کے ملفوظات جمع کئے، افضل الفوائد میں حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا کی زبانی یہ بھی روایت ہے کہ جس روز حضرت خواجہ معین الدین نے حضرت شیخ عثمان ہارونی سے بیعت کی تو وہ بھی جو فوائد شیخ کی زبان گوہر بیان سے سنتے قلمبند کر لیتے۔

    بعد ازاں سخن در بزرگی شیخ معین الدین سنجری قدس اللہ سرہٗ افتاد، حکایت فمود آں روز کہ شیخ معین الدین بخدمت خواجہ عثمان ہارونی نوراللہ مرقدہٗ پیوست و بیعت اوردہ آونیز ہر فوراً کہ از زبان شیخ می شنید آنرا تعلیم می آورد۔ (صفحہ 111)

    پھر اس کے بعد حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا نے یہ بھی فرمایا کہ ان ملفوظات کو انہوں نے بھی دیکھا ہے۔

    ’’چنانچہ ایں حکایت در بزرگی خواجہ حسن بصری در فوائد ایشاں بنشستہ دیدہ ام (صفحہ111)

    افضل الفوائد کے ایک قلمی نسخہ (مملوکہ دارالمصنفین) کے تتمہ کی عبارت سے یہ بھی ظاہر ہے کہ خواجہ مودود چشتی، خواجہ حاجی شریف، خواجہ عثمان ہروانی، خواجہ معین الدین سنجری، خواجہ بختیار کاکی، خواجہ فریدالدین گنج شکر اور خواجہ نظام الدین اؤلیا نے اپنے اپنے مرشدوں کے ملفوظات جمع کئے۔

    حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ کے ایک دوسرے مجموعۂ ملفوظات مفتاح العاشقین میں بھی خواجہ چشت کے ملفوظات کے حوالے جابجا ملتے ہیں خواجہ نصیر الدین چراغ کی زبانی ہے کہ

    ’’در سالہ شیخ الاسلام خواجہ معین الحق الشرع والدین قدس اللہ العزیز نوشتہ دیدہ ام کہ چوں صبح صادق بد مد پس ہفت اندام بزبانِ حال پیش زبان فریاد کند

    (صفحہ 6 مطبع مجتبائی دہلی)

    بعد ازاں فرمود کہ اے درویش در اسرارالاؤلیا بنشستہ دیدہ ام۔۔۔‘‘ (صفحہ 15)

    ’’بعدازاں ہمدرین محل فرمود کہ اے درویش در انیس الارواح بنشستہ دیدہ ام‘‘ (صفحہ 18)

    ’’بعد ازاں فرمود کہ اے درویش در دلیل العارفین می نویسند۔۔۔‘‘ (صفحہ 20)

    سیرالاؤلیا ایک مستند تذکرہ قراردیا جاتا ہے، اس میں بھی ان ملفوظات کے حوالے ملیں گے، اس کے مؤلف امیر خوردکا بیان ہے کہ

    ’’در ملفوظات شیخ الاسلام شیخ معین الدین سنجری بنشستہ دیدہ ام۔ (صفحہ 466) در بیان بعضے ملفوظات شیخ شیوخ العالم فریدالدین والحق قدس اللہ سرہٗ العزیز سلطان المشائخ قدس اللہ سرہ العزیز بخط ِ مبارک خود در قلم اوردہ۔۔۔‘‘ (صفحہ74)

    بزرگے از ملفوظات شیخ شیوخ العالم فریدالحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز پانصد کلم جمع کردہ است، ازاں چند کلمہ ہا آوردہ شد۔۔۔‘‘ (صفحہ 76)

    اوپر کی تحریروں سے ظاہر ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اور حضرت خواجہ فریدالدین گنج شکر کے ملفوظات مرتب ہوئے جن سے سیرالاؤلیا کے مؤلف نے بھی استفادہ کیا، پھر سیرلاؤلیا کے مطالعہ سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت خواجہ نظام الدین نے کوئی رسالہ بھی مرتب کیا، کیونکہ اس کے صفحہ 580،581،541،393،371،352،341،344،332،327 وغیرہ پر ہے۔

    بخط مبارک سلطان المشائخ قدس اللہ سرہ العزیز بنشستہ دیدہ ام۔۔۔

    اس کے بعد جابجا عربی میں اقتباسات ہیں، اس سے ظاہر ہے کہ حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا نے عربی میں کوئی رسالہ مرتب کیا، اس میں شاید ان کی یاد داشت کے طور پر کچھ تحریریں ہوں جن کو حضرت خواجہ اپنی تصنیف شمار کرنا پسند نہ کرتے ہوں۔

    کچھ اہلِ علم ایسے ہیں جو انیس الارواح، دلیل العارفین، فوائدالسالکین، اسرارالاؤلیا اور راحت القلوب کے ساتھ افضل الفوائد اور مفتاح العاشقین کو بھی غیر مستند، نقلی، جعلی مجموعۂ ملفوظات سمجھتے ہیں لیکن وہ سیر الاؤلیا کو غیر مستند قرار نہیں دیتے، البتہ سیرالاؤلیا میں خواجگان چشت کے ملفوظات کے جو حوالے ہیں ان پر تعجب کا اظہار کر کے خاموش ہوجاتے ہیں ان میں سے جو لوگ ملفوظات کے مذکورۂ بالا تمام مجموعوں کے ساتھ اسرارالاؤلیاء کو بھی جعلی قرار دیتے ہیں، ان کی تائید حضرت خواجہ گیسودراز کے ملفوظات جوامع الکلم کی روایت سے بھی ہوتی ہے، جس سے صاف ظاہر ہے کہ مولانا بدرالدین اسحٰق نے حضرت فریدالدین گنج شکر کے ملفوظات کا کوئی مجموعہ مرتب نہیں کیا، خواجہ گیسو دراز کی زبان سے ہے۔

    ملفوظی ازاں شیخ فریدالدین در اجودھن دیدم کہ آں را نسبت مولانا بدرالدین اسحٰق می کنند، سربسر ہمہ افتراست، می گویند جمع کردہ مولانا بدرالدین اسحٰق نیست‘‘

    (صفحہ143)

    لیکن حضرت خواجہ گیسو دراز انیس الارواح، دلیل العارفین، فوائد السالکین اور راحت القلوب کے متعلق خاموش ہیں، ان کا یہ بھی بیان ہے کہ فوائدالفواد تو معتبر ہے لیکن حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیاء کے اور ملفوظات مستند نہیں ہیں۔

    ملفوظ شیخ نظام الدین کہ امیر حسن شاعر جمع کردہ است آں معتبر است و ملفوظہائے دیگرے ازاں شیخ بنشستہ اند، ہمہ باد ہواست

    اس طرح سیرالاؤلیا میں خواجہ نظام الدین اؤلیا کے جو ملفوظات ہیں وہ بھی اس بیان کے مطابق معتبر نہیں لیکن اس سلسلہ کا سب سے تعجب خیز ٹکرا وہ ہے جس میں حمید قلند کے جمع کردہ ملفوظات (خیرالمجاسل) کے متعلق سخت رائے پائی جاتی ہے، خواجہ گیسو دراز اس کو بھی مستند تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔

    و ملفوظی کہ حمید قلندر جمع کردہ است، مولانا کمال الدین خواہر زادہ شیخ موازہ دو جزی پیش شیخ برو، خدمت شیخ دیدہ، گفت من چیزے دیگر گفتہ ام، مولانا حمیدالدین چیزے دیگر بنشستہ است، برگرفت، برون انداخت، مولانا کمال الدین گفت از خدمت شیخ نظام الدین ملفوظے یادگار ماندہ است از خواجہ ہم باشد، فرمودند چہ کنیم، فرصت ندارم کہ ایں را صحیح کنم۔ (صفحہ 134)

    اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت نصیر الدین چراغ نے اس مجموعہ کے کچھ حصے کو سن کر رد کردیا جس کے بعد ان کو اس کو دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ملی، اب جہاں خیر المجالس کے حامی جوامع المکل کی اس روایت کی کچھ نہ کچھ تاویل کرسکتے ہیں، وہاں ان کے ناقد کو یہ کہنے کا مقع مل جاتا ہے کہ اگر خیرالمجالس میں وہ باتیں نہیں لکھی گئیں جو شیخ نصیرالدین چراغ فرماتے رہے تو اس کی روایت کے مطابق خواجگانِ چشت کے ملفوظات کے جن مجموعوں کو فرضی قرار دیا جاتا ہے وہ بڑی حدتک مجروح ہوجاتی ہے لیکن آگے چل کر اگر جوامع الکلم کی روایت بھی اسی طرح مجروح کردی گئی تو پھر معلوم نہیں یہ سلسلہ کہاں پر آکر ختم ہوگا۔

    بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ملفوظات کے ہر مجموعہ کے مرتب کی یہ خواہش غالب رہی کہ اس کا مجموعہ اتنا اہم سمجھا جائے کہ اس کے پیشرو کے مجموعوں کی اہمیت کم ہوجائے، اس لئے وہ اپنے مرشد کی زبانی کوئی نہ کوئی ایسی روایت بیان کردیتے جس سے پہلے کے مجموعوں کی اہمیت خوامخواہ گھٹ کر رہ جاتی، اس طرح خیرالمجالس کے مرتب کی روایت کے مطابق شروع کے خواجگانِ چشت کے ملفوظات کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے تو جوامع الکلم کے مرتب کی روایت کے مطابق خود خیرالمجالس کی اہمیت جاتی رہتی ہے اورپر کی سطروں سے ظاہر ہوگا کہ خواجگانِ چشت کے ملفوظات کی حمایت میں روایتیں زیادہ ہیں اور مخالفت میں نسبتاً کم ہیں لیکن ان گنجلک اور متضاد روایتوں سے قطع نظر کر کے اب صرف ان ملفوظات کا ناقدانہ مطالعہ کرنے کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ کہاں تک مستند اور معتبر ہیں، پروفسیر محمد حبیب (مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ) نے بھی ان ملفوظات کو فرضی اور جعلی قرار دیا ہے، انہوں نے اکتوبر 1950 کے مڈیول انڈیا کوارٹرلی علی گڑھ میں انگریزی میں ایک Chishti Mythize Record of the sultanate Period کے عنوان سےلکھا ہے، جس میں بظاہر بہت ہی مدلل طریقہ سے ان ملفوظات کو نقلی اور فرضی بتانے کی کوشش کی ہے، راقم الحروف طالب علمی کے زمانہ سے پروفیسر صاحب کی وقت نظر اور وسعتِ علم سے متاثر ہے لیکن اس کے باوجود جب اس مضمون کو بہت ہی ذوق شوق سے پڑھا تو ان میں جو دلائل دئیے گئے ہیں ان سے تشفی نہ ہوسکی۔

    جناب پروفیسر صاحب کے نزدیک انیس الارواح، دلیل العارفین، فوائدالسالکین، اسرارالاؤلیا، راحت القلوب، افضل الفوائد اور مفتاح العاشقین وغیرہ سب ہی جعلی مجموعے ہیں، اس سلسلہ میں وہ شیخ فریدالدین عطار کی تذکرۃ الاؤلیا کو بھی جعلی قرار دیتے ہیں، وہ ملفوظات کے مجموعوں میں فوائدالفواد اور خیرالمجالس کو مستند اور تذکروں میں سیر الاؤلیاء سیرالعارفین اور اخبارالاخبار کو معتبر سمجھتے ہیں، ملفوظات خوجگانِ چشت پر ان کے جو اعتراضات ہیں، ان کا ہم ذیل میں تحزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بدقسمتی سے ملفوظات کے تمام مجموعوں کی کتابت و طباعت بہت ہی خراب ہوئی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی محنت اور اہتمام کے بغیر بڑی عجلت میں وہ شائع کردیے گئے ہیں، اسی لئے ان میں سنین و اسماء کی بڑی غلطیاں رہ گئی ہیں جن سے بڑی غلط فہمی پیدا ہوتی ہے جیسا کہ آگے ذکر آئے گا لیکن ان غلطیوں پر مخالفانہ اور معاندانہ تنقید کے بجائے ہمدردانہ نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔

    انیس الارواح میں ہے کہ جب حضرت خواجہ معین الدین چشتی اپنے مرشد سے مرید ہوئے تو ان سے مرشد نے فرمایا کہ اوپر نظر اٹھاؤ اور جب انہوں نے نظر اٹھائی تو پوچھا کیا دیکھتے ہو، فرمایا عرش عظیم پھر زمین کی طرف دیکھنے کو کہا اور جب انہوں نے زمین کی طرف دیکھا تو پوچھا کیا دیکھتے ہو، فرمایا تحت الثریٰ تک نظر جاتی ہے پھر فرمایا کہ سورہ اخلاص ہزار بار پڑھو اور جب پڑھ چکے تو پوچھا پھر دیکھو کیا دیکھتے، تو فرمایا حجاب عظمت پھر کہا آنکھیں بند کر لو اور جب بند کرلیں تو کھولنے کا حکم دیا اور دو انگلیاں دکھا کر پوچھا کیا دیکھتے ہو، تو جواب دیا اٹھارہ ہزار عالم۔

    پروفیسر صاحب اس قسم کی روایت کو صحیح تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں، ان کو عرشِ عظیم، تحت الثریٰ، حجابِ عظمت، اٹھارہ ہزار عالم وغیرہ کی صوفیانہ اصطلاحیں عجیب و غریب معلوم ہوئیں، اس لئے یہ ان کے نزدیک سروپا باتیں ہیں لیکن اس قسم کی اصطلاحیں برابر استعمال ہوتی رہی ہیں، خود فوائدالفواد میں ہے۔

    حکایت جماعت متحیران افتاد کہ بحق چناں مشغول باشند کہ از ہیچ آفریدۂ خبر شان نباشد یکے از حاضران حکایت کرد کہ من وقتے جائے رسیدم و ایں چنین ہفت راہ یدم دو چشم در آسمان داشتہ و شب در روز متحیر ماندہ مگر آنکہ وقت نماز در می آمد، ایشان نمازی گذارند و بازہم چناں متحیر می ماندند، خواجہ ذکر ہ اللہ بالخیر فرمود کہ آرے انبیاء معصوم اند و اؤلیاء، محفوظ، ہم چنیں باشند کہ گفتی۔(صفحہ 144)

    اما فقرا تا عرش نہ بینند، نماز نکنند، قاضی را در خواب نمودند کہ شیخ جلال الدین تبریزی قدس اللہ سرہ لعزیز مصلا بر عرش انداختہ نماز می گزراد۔ (صفحہ 237)

    حضرت مجدد الف ثانی کے مکتوبات میں اس قسم کے رموز اور بھی واضح طریقہ پر پیش کیے گئے ہی، وہ اپنے احوال و کیفیات کو بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔

    میں شدت شوق میں رونے لگا، ایک روز کے بعد بیخودی کی کیفیت محسوس ہوئی، میں نے اس بیخودی میں ایک وسیع دریا دیکھا، اس بیخودی میں دنیا کی شکلیں اور صورتیں درِ یار میں سایہ کے رنگ میں نظر آئیں، اس بیخودی نے رفتہ رفتہ غلبہ پیدا کیا اور یہ کبھی ایک پہر، کبھی دوپہر اور کبھی تمام رات رہتی۔۔۔

    اس کے بعد مجھ کو ایسا نور دکھائی دیا جو ہر چیز پر محیط تھا، میں نے اس کو خدا سمجھا، اس نور کا رنگ سیاہ تھا، میں نے جاکر عرض کیا، فرمایا کہ حق مشہود ہوا لیکن نور کے پردے میں۔۔۔ اس نور میں انبساط ہے، جس کو نفی کرنا چاہئے، اس کے بعد انبساط والے نور انقباض کی طرف رخ کیا، وہ تنگ ہونے لگا، یہاں تک کہ ایک نقطہ ہوگیا، فرمایا کہ اس نقطہ کی بھی نفی کرنی چاہئے اور حیرت کی طرف آنا چاہئے، میں نے ایسا ہی کیا وہ موہوم نقطہ زائل ہوگیا پھر حیرت کی طرف آیا اور یہی شہود حق سبحانہ کا مقام ہے۔۔

    اس کے بعد دوسری بار فنا حاصل ہوئی جس کو فنائے حقیقی کہتے ہیں، دل میں اس قدر وسعت پیدا ہوگئی کہ آسمان سے زمین تک تمام عالم کی حیثیت رائی کے دانہ سے زیادہ نہ تھی، اس کے بعد اپنے کو، دنیا کے ہر فرد کو بلکہ ہر ذرہ کو خدا ہی دیکھا۔۔۔ اور اپنے اور ہر ذرہ کو اس قدر کشادہ اور وسیع دیکھا کہ تمام دنیا اس مین سما گئی تھی بلکہ اپنے اور ہر ذرعہ کو ایک نور پایا جو ہر ذرہ پر چھایا ہوا تھا اور دنیا کی شکل اور صورت اس میں گم تھی، اس کے بعد اپنے بلکہ ہر ذرہ کو ساری دنیا کا جز پایا، جب میں نے (مرشد سے) عرض کیا تو فرمایا کہ توحید میں حق الیقین کا مرتبہ بھی ہے اور مقام جمع الجمع سے بھی مراد ہے۔

    واضح رہے کہ پہلی بار جب یہ درویش سکر و صحو میں لایا گیا تو فنا سے نکل کر بقا سے مشرف کیا گیا اور جب اپنے وجود کے ذرات میں سے ہر ذرہ پر نظر کی تو سوائے حق تعالیٰ کے اور کچھ نہ پایا اور ہر ذرہ کو اس کے شہود کا آئینہ دیکھا، اس مقام سے پھر حیرت میں لایا گیا، جب اپنے میں آیا تو حق سبحانہ تعالیٰ کو اپنے وجود کے ذرات میں سے ہر ذرہ کے ساتھ پایا اور پہلا مقام اس دوسرے مقام سے فروتر نظر آیا پھر حیرت میں لایا گیا اور جب اس دنیا میں آیا تو اس مرتبہ حق سبحانہ کو عالمِ متصل نہ منفصل نہ خارج اور نہ اخل پایا اور پہلی دفعہ جو میں نے پایا تھا کہ وہ دنیا کے ساتھ ہے، اس کو گھیرے ہوئے اور اس میں سرایت کیے ہے، اس کو نفی دیکھا، اسی کیفیت میں مشہود ہوا، دنیا بھی اس وقت مشہود نظر آئی لیکن حق تعالیٰ سے کوئی نسبت نہیں پھر میں حیرت میں لایا گیا اور جب میں صحو میں آیا تو معلوم ہوا کہ حق سبحانہ تعالیٰ کو دنیا سے نسبت ہے لیکن یہ نسبت معلوم نہیں اور وہ اسی نسبت نامعلوم سے مشہود ہوا پھر حیرت میں لایا گیا، اس مرتبہ انقباضی کیفیت طاری ہوئی لیکن جب اپنے میں آیا تو خدا اس نامعلوم نسبت کے بغیر معلوم ہوا، اس طرح کہ وہ دنیا سے کوئی نسبت نہیں رکھتا، اس وقت دنیا بھی مشہود تھی، اس کے بعد ایسا علم حاصل ہوا کہ اس علم کے سبب خلق اور حق تعالیٰ کے درمیان کوئی نسبت باقی رہی اور دونوں شہود کے حاصل ہوجانے کے بعد اس وقت ایسا معلوم ہوا کہ شہود اپنی صفت اور تنزیہہ کے باوجود خدا کی ذات نہیں بلکہ اس کی تکوین کے تعلق کی ایک مقامی صورت ہے، اس کے ماوراء تعلقات کوئی ہے، خواہ وہ تعلق معلوم الکیفیت ہو یا مجہول الکیفیت۔ (مکتوب جلداول 290)

    بیسویں صدی میں اس قسم کے جو تجربات و مشاہدات علامہ اقبال کو حاصل ہوئے وہ بھی ملاحظہ ہوں وہ حضرت مجدد الف ثانی کے مزارِ اقدس پر حاضر ہوئے تو فرماتے ہیں۔

    سجادہ نشین خلیفہ محمد صادق مرحوم نے میرے لیے مزارِ مبارک پر تخلیہ کرا دیا تھا، میں ایک گھنٹہ تک مراقب رہا اور حضرت مجدد کی روح میری طرف محبت آمیز رنگ میں متوجہ رہی، مجھے ماحول کا احساس نہیں رہا، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضرت کے سامنے بیٹھا ہوا ہوں۔۔۔ رقت کا عالم برابر رہا، زمان و مکان کا احساس ختم ہوگیا تھا، روحانی فیض میرے رگ و پے میں ساری تھا، دل میں اس قدر وسعت پاتا تھا کہ ساری کائنات اس میں سما گئی۔ (نقل از مکتوب پروفیسر سلیم چشتی محررہ 26 اپریل سن 1963 عیسوی لاہور)

    انیس الارواح میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے حج کرنے کا ذکر آیا ہے لیکن پروفیسر حبیب نے اس کی تردید یہ لکھ کر کی ہے کہ سیرالاؤلیاء میں ہے کہ چشتی مشائخ میں سے کسی نے حج نہیں کیا۔

    Amir Khurd tells us on good authority that none of the Chishti shaikhs performed the Haj pilgrimage. (Siyar-ul-Auliya. Page 407)

    سیرالاؤلیا کا جو نسخہ (مطبوعہ مطبع محب ہند دہلی) میرے سامنے ہے، اس میں ہے کہ شیخ شیوخ العالم فریدالحق والدین قدس سرہٗ چند بار آرزوے حج کرد و رواں شد بحدے کہ در او چہ رسید در دل مبارک شیخ شیوخ العالم گذشت کہ شیخ من شیخ قطب الدین بختیار قدس سرہٗ حج نکردہ است، مرا چرا باید کرد کہ مخالفت پیر کنم از آنجا کہ باز گشت، (صفحہ 407)

    اس عبارت سے کہیں ظاہر نہیں ہے کہ چشتی مشائخ میں سے کسی نے حج نہیں کیا، بعض ملفوظات حیرت انگیز بتائے گئے ہیں، مثلا بیوی کی فرمانبرداری کے سلسلہ میں کہا گیا ہے کہ

    ہر آں زمانے کہ شوہر او را نجانہ خواب خود خواند داد نیا دید و دور شود ہمہ نیکیہا کہ کردہ باشدہ، چناں بیرون آید، چوں ما راز پوست

    پروفیسر حبیب نے خانہ خواب کو جامعۂ خواب پڑھا ہے، اسی لئے اس کا ترجمہ Night Clothes کیا ہے، ان ملفوظات میں یہ بھی ہے۔

    مومن کو گالی دینا اپنی ماں بہن سے زنا کرنا ہے، ایسے شخص کی دعا سو دن تک مستجاب نہیں ہوتی۔۔۔

    پیشہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کا دوست ہے لیکن جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ پیشہ ہی کےذریعہ سے روزی ملتی ہے تو وہ کافر ہے، کیونکہ رزّاق مطلق خدا ہے وغیرہ وغیرہ۔

    معلوم نہیں کن اسباب کی بنا پر پروفیسر صاحب نے ان فرمودات کو حیرت انگیز (Startling) بتایا ہے، صوفیۂ کرام ترغیب و ترہیب کی خاطر تو موضوع حدیثوں کو بھی استعمال کرنا جائز سمجھتے ہیں پھر اندازِ بیان میں شدت اور سختی ان کے یہاں حیرت انگیز نہیں، مثلاً حضرت شرف الدین یحییٰ منیری نے ارشادالسالکین میں لکھا ہے۔

    تا کافر فرنشود مسلمان نشود، تا سالک برادر خود رانبرد مسلمان نشود، و تا بمادر جفت نشود مسلمان نشود

    یہ فقرے بظاہر بہت ہی حیرت انگیز معلوم ہوتے ہیں لیکن حضرت مجدد الف ثانی نے اس کی جو تصریح کی ہے، اس سے ان فقروں میں بڑی کیفیت پید اہوگئی ہے، وہ فرماتے ہیں۔

    کفر سے مراد کفر طریقت ہے یعنی جب تک کہ کوئی کفر طریقت اختیار کر کے کافر نہ بن جاتا ہے اسلام کی حقیقت سے واقف نہیں ہوسکتا ہے پھر یہ جو کہا گیا ہے کہ جب تک اپنے بھائی کونہ مارے تب تک مسلمان نہیں ہوتا، بھائی سے مراد ہمزاد شیطان ہے جو انسان کے ساتھ رہ کر ہر وقت اس کو شروفساد کی طرف مائل کرتا ہے، اسی طرح بھائی کا سر کاٹنے سے مراد احکامِ شریعت کی تلوار سے شیطان کا سر کاٹنا ہے اور جب تک اپنی ماں سے جفت نہ ہو، مسلمان نہ ہو، اس سے مراد مقام حقیقت کا وصل حاصل کرنا ہے جس کو صوفیہ کی صطلاح میں اُم بھی کہتے ہیں۔

    (مکتوبات امام ربانی جلد سوم، مکتوب 33)

    ایک اعتراض یہ بھی کہ انیس الارواح میں احمد معشوق کا ذکر ہے جو حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا کی روایت کے مطابق عثمان کے بعد کے بزرگ ہیں لیکن فوائدالفواد (صفحہ 257) میں احمد معشوق کی جو کیفیت لکھی ہوئی ہے، اس میں کہیں ذکر نہیں ہے کہ احمد معشوق حضرت خواجہ عثمان ہارونی کے بعد کے بزرگ ہیں بلکہ سیرالاؤلیاء (صفحہ 463) میں ہے کہ

    سلطان المشائخ فرمود کہ بزرگ کے گفتہ است کہ از خواجہ احمد غزالی شنیدم کہ در قیامت ہمہ صدیقاں تمنا برند کہ کاشکے ماخاکے می بودیم کہ روزے خواجہ معشوق برآں پائے نہادہ بودے

    اس سے صاف ظاہر ہے کہ خواجہ معشوق حضرت غزالی سے پہلے کے بزرگ ہیں اور امام احمد غزالی کی وفات 520ہجری میں ہوئی، خواجہ عثمان ہارونی کی ولادت چھٹی صدی ہجری میں اس کے بعد ہی ہوئی جبکہ امام احمد غزالی مذکورہ بالا قول کہہ چکے تھے۔

    ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ انیس الارواح میں مشارق الانوار کا ذکر ہے جو حضرت خواجہ عثمان ہارونی کے بعد کی تصنیف ہے۔

    بر لفظ مبارک راند کہ امیر المومنین عمر بن الخطاب از رسول اللہ علیہ و آلہ وسلم کہ در مشارق الانوار مسطور است از خورون شراب مویز گفت اے عمر حلال نیست و آں محض حرام است۔ (صفحہ 14)

    ان سطروں میں جو حدیث لکھی گئی ہے وہ مشارق الانوار کے مطبوعہ نسخہ میں نہیں ہے اس لئے خیال ہوتا ہے کہ کسی اور کتاب سے یہ حدیث لی گئی ہے جس کے نام کے بجائے مشارق الانوار کی غلط کتابت ہوگئی ہے۔

    حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے مجموعۂ ملفوظات دلیل العارفین پر پہلا اعتراض یہ ہے کہ اس کی مجلسِ اول کی تاریخ 514ہجری لکھی ہوئی ہے جو مہمل اس لئے ہے کہ اس وقت تک حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی پیدائش بھی نہیں ہوئی تھی لیکن یہ کتابت کی اسی طرح کی غلطی ہے جس طرح کہ سیرالاؤلیاء (صفحہ 48) میں ہے کہ حضرت خواجہ قطب الدین 522میں حضرت خواجہ معین الدین سے بیعت ہوئے جب کہ حضرت خواجہ کی پیدایش 530ہجری میں بتائی جاتی ہے یا فرشتہ جیسے دیدہ ور مؤرخ کی تاریخ (جلد دوم صفحہ 377) میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین 561ہجری میں اجمیر تشریف لائے جبکہ وہاں سید حسین مشہدی المشہور بہ خنگ سوار قطب الدین ایبک کی طرف سے داروغہ تھے، حالانکہ قطب الدین ایبک دہلی کا سطلان 602ہجری میں ہوا۔

    دلیل العارفین میں ایک روایت کے سلسلے میں یہ لکھا گیا ہے۔

    گفت یارسول صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امروز قریب چہل سال است کہ نمازی گذارم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چشمِ پُر آب کردد فرمود کہ ہیچ نماز نکردہ۔

    اس پر اعتراض یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو چالیس سال کی مدت نہیں ملی، اس لئے آپ کے سامنے یہ کیسے کہا گیا کہ چالیس سال سے نماز پڑھ رہا ہوں، یہ اعتراض صحیح ہے لیکن چہل سال یقیناً کتابت کی غلطی ہے، یہ چہار یا چندیں سال ہے، کاتب کو چندیں سال، چہار سال اور چہل سال کھنے میں تسامح ہوگیا ہے۔

    دلیل العارفین کی بارہویں مجلس میں روایت ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی وفات سے بیس روز پہلے حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی اجمیر چھوڑ کر دہلی آئے اور یہاں انہوں نے کل چالیس روز قیام کیا تھا کہ ان کی وفات کی خبر آئی، پروفیسر موصوف کا یہ کہنا ہے کہ یہ بیان صحیح نہیں ہے اور ان سے پہلے حضرت قطب الدین بختیار کاکی کی وفات سے اسی سال 14 ربیع الثانی میں ہوچکی تھی لیکن یہ اعتراض اسی وقت صحیح تسلیم کیا جاسکتا ہے جب کہ اخبارالاخیار میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی جو تاریخ وفات لکھی گئی ہے، اس کو قطعی اور آخری سمجھ لیا جائے، راقم کی تحقیق ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی وفات حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی سے پہلے 627ہجری میں ہوئٰ، گو زیادہ تر تذکرہ نویس ان کے وصال کی تاریخ 6 رجب 632 ہجری لکھتے ہیں اگر 627ہجری یا 632ہجری ان کی تاریخِ وفات تسلیم کر لی جائے تو پھر یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا کہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کا وصال حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی وفات سے پہلے ہوا، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی وفات کی تاریخ 14 ربیع الثانی 633ہجری بالاتفاق تسلیم کی گئی ہے، اس لحاظ سے دلیل العارفین کی مجلس یازدہم میں جو کچھ لکھا گیا ہے، اس میں کوئی پیچدگی یا تضاد نہیں ہے۔

    دلیل العارفین (صفحہ 23) میں جامع الحکایت کا حوالہ ہے، اعتراض ہے کہ محمد عوفی کی جامع الحکایات فی الروایات ساتویں صدی ہجری کی تصنیف ہے، اس لئے دلیل العارفین میں اس کا حوالہ دینا تعجب خیز ہے، جامع الحکایت کو محمد عوفی کی جامع الحکایات فی الروایات تسلیم کرلینا اسی وقت صحیح ہوسکتا ہے جب کہ دلیل العارفین میں جو روایت لکھی گئی ہے وہ عوفی کی جامع الحکایات میں بھی موجود ہو، میری نظر سے دلیل العارفین کی روایت عوفی کی جامع الحکایات میں نہیں گذری، اس سے قطع نظر دلیل العارفین میں عوفی کی جامع الحکایات کا حوالہ کوئی تعجب خیز نہیں، کیونکہ محمد عوفی کی وفات 630ہجری میں ہوئی جس کے یہ معنی ہیں کہ یہ کتاب 630ہجری سے پہلے لکھی جاچکی تھی، اس لحاظ سے اگر حضرت خواجہ کی نظر سے گذری تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔

    دلیل العارفین میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی زبانی روایت ہے۔

    مولانا رضی الدین گھوئے پر سے گر گئے، ان کا پاؤں ٹو گیا، گھر آئے تو سونچا کہ یہ بلا کہاں سے آئی، ان کو یاد آیا کہ فجر کی فرض نماز کے بعد وہ سورہ یٰسین پڑھا کرتے تھے، اس وقت یہ وظیفہ فوت ہوگیا

    یہی روایت راحۃ القلوب (صفحہ 22) میں بھی حضرت فریدالدین گنج شکر کی زبانی بیان کی گئی ہے اس میں نام مولانا رضی الدین کے بجائے قاضی رضی الدین مرقوم ہے لیکن فوائدالفواد کی اس روایت میں نام مولانا عزیز زاہد لکھا ہوا ہے۔

    فرمود کہ مولانا عزیز زاہد، رحمۃ اللہ علیہ یک روز از اسپ خطا کرد و بازوی او فرود آمد ازوپر سیدند چہ حالست، گفت کہ من ہر روز سورہ یٰسین می خواندم، امروز نخواندہ ام (صفحہ 100)

    سیرالاؤلیاء میں یہی روایت لفظ بہ لفظ نقل کردی گئی ہے، صرف مولانا عزیز زاہد کے بجائے اس میں مولانا عزیز الدین زاہد لکھا ہے۔

    پروفیسر محمد حبیب کا اعتراض ہے کہ دلیل العارفین کی یہ روایت فوائدالفواد سے سرقہ ہے صرف نام بدل دیا گیا ہے، یہ بھی اعتراض ہے کہ دلیل العارفین کے گمنام مرتب نے مولانا کمال الدین زاہدکو مولانا رضی الدین صعنانی خلط ملط کر دیا ہے، پروفیسر صاحب نے مولانا رضی الدین کے نام کے ساتھ صنعانی بڑھا دیا ہے، حالانکہ دلیل العارفین میں صنعانی نہیں ہے اور پھر فوائدالفواد میں مولانا کمال الدین زاہد کا نام نہیں، اس میں مولانا عزیز زاہد ہے جس کو سیرالاؤلیا نے مولانا عزیزالدین زاہد لکھا ہے، اس کو سرقہ کہنا صحیح نہیں، معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ کے بزرگانِ دین فجر کی نماز کے بعد سورہ یٰسین کی تلاوت کا بڑا التزام رکھتے تھے، اس کے فوت ہوجانے پر مولانا رضی الدین یا مولانا عزیزالدین زاہد کو جو حادثہ پیش آیا، اس کا ذکر پہلے تو حضرت خواجہ معین الدین چشتی پھر حضرت خواجہ فریدالدین گنج شکر اور پھر حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا نے اس کی اہمیت ظاہر کرنے کے لئے کیا، ممکن ہے کہ فوائدالفواد میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اور حضرت خواجہ فریدالدین گنج شکر کی روایت بیان یا اس کو قلمبند کرتے وقت نام لکھنے میں وہی سہو ہوگیا جو خود پروفیسر صاحب کو ہوگیا ہے، انہوں نے عزیز زاہد کو کمال زاہد اورمولانا رضی الدین کو مولانا رضی الدین صنعانی تسلیم کرلیا ہے۔

    دلیل العارفین کی مجلس یازدہم میں ہے۔

    فرمود کہ در ملتان بودم، از بزرگے شنیدم کہ توبہ اہلِ محبت بہ سہ نوع است

    اعتراض یہ ہے کہ اس میں ملتان کا ذکر کیسے آیا جب کہ ان ملفوظات کی ترتیب حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے ہندوستان میں آنے سے پہلے بغداد میں ہوئی لیکن یہ سمجھنا کہ یہ تمام ملفوظات بغداد میں مرتب ہوئے، صحیح نہیں کیونکہ دلیل العارفین کی مجلس دوازدہم اجمیر کی جامع مسجد میں ہوئی پھر جہاں ذکر ہے کہ در ملتان بودم اسی کے بعد یہ بھی ہے کہ

    مسافر می شوم جائیکہ دفن ماخواہد بود یعنی در اجمیر می روم، ہر کسے را وداع کرد و دعا گو بردر راہ بودیم، بعد ازاں در اجمیر رسیدیم۔ (صفحہ 54)

    اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت خواجہ نے اجمیر سے پہلے ملتان میں قیام کیا، جہاں ان کی ملاقات اسی بزرگ سے ہوئی، اس کا ذکر مجلس یازدہم کے بجائے علٰحدہ ہونا چاہئے تھا لیکن ترتیب کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے، اس تصنیفی ترتیب کے نہ ہونے کی وجہ سے واقعہ کی اصلیت میں فرق نہیں آنے پاتا۔

    دلیل العارفین (صفحہ 55) میں ہے۔

    آنگاہ فرمود کہ مرتبہ اہلِ محبت چنانست کہ اگر پرسند شب نماز گزاردی، گوید کہ مارا فراغت نیست وملک الموت می گردیم و ہر جا کہ در ماندہ است او را دست می گیریم

    اس ملفوظ میں موت کی جو خوفناکی دکھائی گئی ہے اس کی تصوف کے ادا شناس ہی سمجھ سکتے ہیں، پروفیسر صاحب اس کو پس درجہ کا تصوف (degrading type of my stoicism) کہتے ہیں لیکن حسب ذیل تحریروں میں اسی قسم کی باتیں ملیں گی۔

    ایک مرید جو پانچوں وقت نماز پڑھتا ہے، تھوڑے اور ادبھی پڑھ لیتا ہے لیکن اپنے شیخ کی محبت اس کے دل میں بہت ہے اور پیر سے بڑا راسخ اعتقاد رکھتا ہے، دوسرا مرید وہ ہے کہ عبادت بہت کرتا ہے، بے حد تسبیح اور اوراد پڑھتا ہے، اس نے حج بھی کیا ہے لیکن شیخ کی محبت میں کمی کرتا ہے اور اس کے پیر سے اعتقاد رکھنے میں فتور ہے تو ان دونوں مریدوں مین سے کون بہتر ہے، فرمایا جو اپنے پیر سے محبت کرتا ہے اور اس کا معتقد ہے۔ (فوائد الفواد صفحہ 120)

    (شیخ نصیر الدین دہلوی نے) فرمایا کہ خواجہ ممشاد دینوری رحمۃ اللہ علیہ بستر علالت پر تھے ان پر سخت وقت گزرا تو اس وقت مریدوں میں سے ایک نے ہاتھ اٹھایا اور دعا کی کہ خداوندا خواجہ ممشاد کو بہت عنایت کرنا، خواجہ ممشاد نے۔۔۔آنکھ کھولی اور فرمایا یہ دعا تم میرے لئے کرتے ہو، چالیس سال سے بہشت مجھ کو دی جارہی ہے لیکن میں اس کی طرف گوشۂ چشم سے بھی نہیں دیکھتا ہوں۔ (خیر المجالس، صفحہ 234)

    فوائدالسالکین پر جتنے اعتراضات ہیں وہ اور بھی زیادہ کمزور قسم کے ہیں، ایک اعتراض یہ ہے کہ اگر حضرت فریدالدین گنج شکر نے اس کو مرتب کیا تو وہ فوائدالفواد میں اس کا ذکر ہوتا ہے لیکن اس کا ذکر نہ ہونا اس کے فرضی ہونے کی کوئی قوی دلیل نہیں ہے، حضرت نظام الدین اؤلیا نے اپنے دوسرے مجموعۂ ملفوظات افضل الفوائد میں اس کا ذکر کیا ہے تو وہ قابلِ اعتناء ہی نہیں سمجھا جاتا ہے، البتہ اس میں 584ہجری کی جو تاریخ لکھی گئی ہے وہ کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے جس کو فاضل معترض نے بھی تسلیم کیا ہے۔

    فوائدالسالکین (مجلس دوم صفحہ 13) میں ہے۔

    ہمدریں محل فرمود کہ وقتے من و قاضی حمیدالدین ناگوری طوافِ خاجہ کعبہ می کردیم، بزرگےبود، او را نیز شیخ عثمان گفتندے وا و از بندگانِ خواجہ ابو بکر شبلی بود۔۔۔

    اس پر یہ اعتراض صحیح ہے کہ ابوبکر شبلی اور خوجہ قطب الدین بختیار کاکی کے زمانے میں بڑا فرق ہے، اس لئے ان کے حج کے زمانے میں بندگانِ خواجہ ابوبکر شبلی کا ہونا ممکن نہیں، بندگان کتابت کی غلطی ہے، اس کے بجائے بنیسگان ہونا چاہئے پھر خواجہ ابوبکر شبلی کے بنیسگان (پوتے پڑپوتے) میں سے کسی کا ہونا کوئی بعید از قیاس نہیں، اسی طرح حسب ذیل عبارت میں کتاب کی ایک ایسی غلطی رہ گئی ہے جس پر اعتراض کرنا محض خردہ گیری ہے۔

    ہمدیں محل فرمود کہ وقتے بخدمت شیخ معین الدین حسن سنجری نشستہ بودم، در اجمیر پتھورا کافر زندہ بود، ہر باری گفت چہ نیکو بود کر ایں درویش از نیجا برد درپیش ہر کہ بودے گلہ می کردے، چنانچہ ایں خبر بہ سمع شیخ معین لادین چشتی رسید و درویشاں دیگر نشستہ، در حال ملکربود، سرور مراقبہ کرد، در مراقبہ فریاد کرد، پتھورا را زندہ بمسلمانان دادیم، ہندریں چند روز لشکر سلطان شمس الدین محمد شاہ آنجا رسید تمام شہر را نہیب کردو پتھورا را زندہ گرفت در واں شد۔۔۔۔۔ (صفحہ 15)

    اور کی عبارت میں سلطان شمس الدین محمد شاہ کے بجائے سطان معزالدین محمد بن سام ہونا چاہئے، اس کے بعد پوری عبارت پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا، سلطان شمس الدین محمد شاہ کا لکھ جانا کتابت و طباعت کی غلطی ہے جس کی نشاندہی تاریخ کا ایک ادنیٰ درجہ کا طالب علم بھی کرسکتا ہے۔

    فوائدالسالکین میں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی زبانی روایت ہے کہ میں قاضی حمید الدین ناگوری کے ساتھ شیخ علی سنجری کی خانقاہ میں تھا، وہاں سماع تھا، قوالوں نے ایک قصیدہ کا یہ شعر پڑھا۔

    کشگتگانِ خجر تسلیم را

    ہر زماں از غیب جانے دیگر ست

    تو مجھ پر اور قاضی حمیدالدین پر اس شعر کا یہ اثر ہوا کہ تین رات دن مدہوش اور متحیر رہے، اس کے بعد ہم دونوں گھر آئے، قوالوں سے یہی شعر پڑھواتے تھے، تین متواتر رات اور دن اس شعر پر کھوئے رہے، ہم لوگ اپنی خبر نہ رکھتے تھے لیکن نماز وقت پر ادا کرتے تھے پھر سماع میں مشغول ہوجاتے تھے، اس طرح سات رات اور دن حیرت میں رہے، قوال جب یہ شعر گاتے تو ایسی حالت اور حیرت پیدا ہوجاتی کہ اس کی شرح نہیں ہوسکتی ہے۔ (صفحہ 18)

    اس روایت میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ اس تحریر کی کیفیت میں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کا وصال ہوگیا، اس کی تصریح فوائدالفواد میں ہے، حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا کی زبانی روایت ہے کہ شیخ علی سنجری کی خانقاہ میں سماع تھا، شیخ الاسلام قطب العالم حضرت خواجہ قطب الدین بختیار اوشی قدس اللہ سرہ العزیز وہاں موجود تھے، قوالوں نے ایک قصیدہ شروع کیا اور جب یہ شعر پڑھا۔

    کشتگان خنجر تسلیم را

    ہر زماں از غیب جانِ دیگر است

    تو شیخ الاسلام قطب العالم حضرت خواجہ قطب الدین نور اللہ مرقدہہٗ کو اس پر وجد آگیا، وہاں سے گھر آئے تو مدہوش اور متحیر تھے، فرماتے تھے کہ وہی شعر پڑھو، وہ پڑھا جاتا، وہ اسی طرح متحیر رہتے جب نماز کا وقت آتا نماز پڑھتے اور پھر وہی شعر پڑھواتے جس کو سن کر ان پر حال اور حیرت طاری ہوجاتی، چار رات دن یہی حال رہا، پانچویں رات رحلت فرمائی، شیخ بدرالدین عزنوی فرماتے ہیں کہ میں اس رات وہاں موجود تھا (صفحہ 144)

    فوائدالسالکین پر اعتراض ہے کہ اس کی اکثر روایتیں فوائدالفواد سے سرقہ ہیں، اگر مذکورۂ بالا روایت بھی سرقہ ہے تو مجھ میں نہیں آتا کہ اس سلسلہ میں رحلت کا ذکر فوائدالسالکین میں کیوں حذف کردیا گیا ہے، سیرالاؤلیا، سیرالعارفین، اخبارالاخیار اور دوسرے تذکروں میں فوائدالفواد ہی کی روایت نقل کی گئی ہے، فوائدالسالکین اور فوائدالفواد دونوں میں یہ روایت حضرت خواجہ قطب الدین کی وفات کے سلسلہ میں نہیں بلکہ کیفیت تحیر کے سلسلہ میں لکھی گئی ہے، دونوں میں فرق یہ ہے کہ فوائدالفواد میں ہے کہ اسی حال میں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی رحلت ہوگئی لیکن فوائدالسالکین کی روایت کے مطابق اس موقع پر قطب صاحب کی رحلت نہیں ہوئی، فوائدالفواد کی روایت زیادہ مستند سمجھی گئی ہے لیکن محض اس اختلاف سے فوائدالسالکین جعلی قرار دیے جانے کے لائق نہیں ہے، خیرالمجالس اور جوامع الکلم جیسی مستند کتابوں میں بھی ایک رایت کو مختلف طریقہ سے بیان کیا گیا ہے، پروفیسر خلیق احمد نظامی نے بھی خیرالمجالس کے دیباچہ میں اس کا اعتراض کیا ہے کہ جوامع الکلم میں بہت سی ایسی روایتیں ہیں جو خیر المجالس میں بھی ہیں اور بعض روایتوں کی تفصیلات میں اہم اختلافات ہیں۔

    فوائدالسالکین میں حضرت قطب الدین بخیار کاکی کی زبانی ہے کہ ہم لوگ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی کی مجلس میں حاضر تھے، بغداد میں کئی روز تک ان کے ساتھ افطار کیا، میں نے ان کی مشغولیت دیکھی، میں نے دنیا کی اتنی سیاحت کی لیکن شیخ شہاب الدین جیسا کوئی آدمی مشغول نہیں دیکھا، (صفحہ 22) پروفیسر صاحب نے حضرت خواجہ قطب الدین اور شیخ شہاب الدین سہروردی کی ملاقات کو مہمل (absurd) قرار دیا ہے لیکن درجہ نہیں بتائی ہے، حضرت شہاب الدین سہروردی کی وفات 633ہجری میں ہوئی، قطب صاحب اور ان کا زمانہ ایک تھا، فوائدالفواد (صفحہ 212) میں سلطان شمس الدین ایلتتمش کے ذکر میں ہے کہ وہ بھی شیخ شہاب الدین سہروردی اور شیخ اوحدی کرمانی سے ملا پھر قطب صاحب کی ملاقات کو بعید از قیاس سمجھ کر مہمل کیسے قرار دیا جاسکتا ہے، یہ اور بات ہے کہ اس کو تسلیم ہی نہ کیا جائے کہ انہوں نے سیاحت کی، لیکن ان کی سیاحت سے انکار کرنا خود اپنی جگہ تعجب خیز ہے، اگر وہ گوشہ نشینی کی طرف مائل ہوتے تو اوش چھوڑ کر اجمیر نہ آتے اور دہلی میں آکر قیام پذیر نہ ہوتے پھر ان کے مرشد حضرت خواجہ معین الدین چشتی برابر متحرک رہے، اس لئے ان کی سیاحت کا دائرہ بہت وسیع رہا، مرشد کی روایت کے مطابق انہوں نے بھی مختلف مقامات کی سیاحت کی تو اس کو یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں، فوائدالسالکین میں غزنین، سمرقند، بغداد کی سیاحت کے علاوہ خانہ کعبہ کی زیارت کا بھی جابجا ذکر ہے لیکن سیرالاؤلیا کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کبھی حج نہیں کیا، اس کے مؤلف نے حضرت شیخ نظام الدین اؤلیا کی زبانی یہ بیان کیا، جیسا کہ پہلے بھی ذکر آچکا ہے۔

    شیخ الشیوخ العالم فریدالحق والدین قدس سرہٗ، چند بار آرزوے حج کرد و رواں شد بحدے کہ در او چہ رسید در دل مبارک شیخ شیوخ العالم گذشت کہ شیخ من شیخ قطب الدین بالخیر بختیار قدس سرہ حج نہ کردہ است مرا چرا باید کرد کہ مخالفت پیرکنم از آنجا کہ بازگشت

    اگر یہ روایت شک و شبہ سے بالا تر اس لئے ہے کہ یہ سیرالاؤلیا جیسے مستند تذکروں کی روایت ہے تو پھر اس کے ان بیانات کو بھی تسلیم کرنے میں کوئی عذر نہ ہونا چاہئے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین اور حضرت فریدالدین گنج شکر کے ملفوظات مرتب ہوئ، جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے۔

    فوائدالسالکین کی حسب ذیل روایت علمائے ظاہر کی نظر میں کھٹکتی ہے، اس لئے راقم بھی اس کو الحاق سمجھتا رہا۔

    فرمایا کہ میں حضرت شیخ معین الدین کی خدمت میں حاضر تھا، دوسرے درویش بھی تھے، اؤلیاء اللہ کا ذکر ہو رہا تھا، اتنے میں ایک شخص باہر سے آیا اور بیعت کے لئے قدمبوسی کی، حضرت خواجہ نے فرمایا بیٹھ جاؤ، وہ بیٹھ گیا، اس نے کہا کہ آپ کی خدمت میں مرید ہونے کے لئے آیا ہوں، انہوں نے فرمایا میں جو کچھ تم سے کہوں کرو اور بجا لاؤ، تو پھر مرید کروں گا، اسنے کہا جو حکم ہو، فرمایا کہ تم تو کلمہ لاألہٰ الا اللہ پڑھتے ہو لیکن ایک بار اس طرح پڑھو لا الہٰ الا اللہ چشتی رسول اللہ، وہ راسخ العقیدہ تھا اس لئے اسی طرح کلمہ پڑھ دیا، حضرت خواجہ نے اس کو بیعت کرلیا، خلعت اور بہت کچھ نعمت عطا کی لیکن اس آدمی سے کہا، سنو، میں نے تم سے اس طرح کلمہ پڑھایا تاکہ تمہاری عقیدت کا امتحان لوں، ورنہ میں جانتا ہوں کہ میں کیا ہوں اور کون ہوں، محمد رسول اللہ کا کمترین غلام ہوں اور کلمہ وہی ہے جو تم نے پڑھا لا الہٰ الا اللہ محمد الرسول اللہ مرید کو صادق ہونا چاہئے۔۔۔(صفحہ 24-23)

    لیکن اسی قسم کی روایت فوائدالفواد (صفحہ 231)، سیرالاؤلیا، (صفحہ338) اور مفتاح العاشقین (صفحہ 4) میں بھی نظر سے گزری، صرف نام بدلا ہوا ہے، فوائدالسالکین میں شیخ معین الدین کا اسم گرامی ہے اور ان تینوں کتابوں میں شیخ شبلی کا نام ہے، ان روایتوں کو دیکھ کر فوائدالسالکین کی روایت کو الحاقی سمجھنے سے رجوع کیا اور خیال ہوا کہ متابعت پیر کے سلسلہ میں صوفیہ کرام کے حلقہ میں اس قسم کی روایتوں کا بیان کرنا عام تھا لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی خیال پیدا ہوا کہ جب یہ روایت الحاقی نہیں ہوسکتی ہے تو پھر ان ملفوظات میں سب ہی روایتیں اپنی اپنی جگہ پر صحیح ہوسکتی ہیں جن کے رموز و نکات کو یہ بزرگانِ دین سمجھ سکتے تھے، فوائدالسالکین کی حسب ذیل روایت بھی عجیب و غریب معلوم ہوتی ہے۔

    حج کا ذکر آیا، قاضیؔ حمید الدین ناگوری، مولانا علاء الدین کرمانی، سید نورالدین مبارک غزنوی، سید شرف الدین، شیخ محمود موزہ دوز، مولانا فقیہ خداداد اور دوسرےلوگ تھے، یہ سب ایسے تھے جن کے درمیان عرش سے لے کر تحت الثریٰ تک کوئی خبر باعثِ حجاب نہ تھی، سب صاحبِ کشف وکرامات تھے، خانہ کعبہ کے مسافروں کا ذکر ہونے لگا، خواجہ قطب الاسلام نے فرمایا جو اللہ کے خاص بندے ہیں، جب وہ اپنے مقام پر ہوتے ہیں تو خانہ کعبہ کو حکم دیا جاتا ہے کہ ان کے گرد طواف کرے، یہ کہہ کر وہ دوسرے حاضرین کھڑے ہوگئے، اور عالمِ تحیر میں ایسے مشغول ہوئے کہ اپنے آپ کی خبر نہ رہی، یہ دعا گو بھی عالم شوق میں مستغرق ہوگیا پھر حضرت خواجہ اور دوسرے لوگوں نے اسی طرح تکبیریں کہنی شروع کردیں جس طرح طوافِ کعبہ کے وقت کہا کرتے ہیں، اور ہر ایک کے جسم سے خون ٹپک رہا تھا اور جو قطرہ زمین پر گرتا تھا، اس سے تکبیر کا نقش بنتا چلا جاتا تھا اور جب ہم ہوشیار ہوئے تو ہم نے کعبہ کو اپنے آگے دیکھا، چنانچہ ہم نے اس کا وہی ادب و تعظیم کیا جو ہونا چاہئے، اس کے بعد ہم نے چار بار طواف کیا، غیب سے ندا آئی، اے عزیزو! ہم نےتمہارا حج، طواف اور نماز قبو کی اور لوگوں کو بھی جو تمہارے نقشِ قدم پر چلیں اور تمہاری پیروی کریں۔

    پھر فرمانے لگے کہ شیخ الاسلام معین الدین حسن سنجری قدس اللہ سرہٗ العزیز ہر سال اجمیر سے زیارت خانہ کعبہ کے لئے جایا کرتے تھے، رات وہاں گزراتے اور صبح ہونے بھی پاتی کی واپس ہوجاتے اور جماعت خانہ میں نماز ادا کرتے پھر فرمایا کہ میں نے شیخ معین الدین کی زبان سے شیخ عثمان ہارونی کی یہ حکایت سنی کہ جب خواجہ مودود چشتی کو خانہ کعبہ کی زیارت کا شوق غالب ہوتا تو فرشتوں کو حکم ہوتا کہ خانہ کعبہ کو چشت لے آئیں اور خواجہ کی نظروں کے سامنے کردیں، خوجہ خانہ کعبہ کا طواف کرتے، نماز پڑھتے تو فرشتے خانہ کعبہ کو لے جاتے پھر فرمایا کہ خواجہ حذیفہ مرعشی قدس اللہ سرہ العزیز سترہ برس تک اپنے سجادہ سے نہیں اٹھے اور کہیں نہیں گئے لیکن جو مسافر اور حاجی خواجہ کی زیارت کو آتے کہتے کہ انہوں نے خواجہ کو خانہ کعبہ اور بیت المقدس میں دیکھا ہے۔ (صفحہ 26-25)

    لیکن اس قسم کی روایتوں سے پورے مجموعہ کو جعلی اور فرضی قراردینا صحیح نہیں، کیونکہ سیرالاؤلیا میں اس سے زیادہ عجیب وغریب روایتیں ہیں، ملاحظہ ہوں۔

    مولانا بدرالدین بڑے صادق القول تھے، ان کی روایت ہے کہ میں نے روز سلطان المشائخ کی دہلیز کے پاس ایک اونٹ دیکھا، وہ دریچہ سے باہر دریچہ کے نیچے کھڑا تھا، سلطان المشائخ اس اونٹ پر سوار ہوئے، اونٹ ہوا میں اڑگیا، میں بیخود ہوا اور کچھ دیر کے بعد جب اپنے آپے میں آیا، نیند جاتی رہی، (خواب از سر رفت) یہاں تک کہ رات آخر ہوگئی پھر میں نے دیکھا کہ وہ انٹ آگیا ہے اور دریچہ کے نیچے کھڑا ہے، سلطان المشائخ نے دیچہ کھولا، اندر چلے گئے اور اونٹ واپس ہوگیا اس کا تب حروف نے ثقہ لوگوں سے سنا ہے کہ شیخ نجم الدین صفاہانی ساٹھ سال تک خانہ کعبہ کے مجاور تھے، انہوں نے اپنا گھر اس طرح بنایا تھا کہ وہاں سے بیٹھے خانہ کعبہ کو دیکھا کرتے تھے، بڑے کامل حال شیخ تھے، ایک روز مکہ کے مجاروں نے ان سے پوچھا کہ اس میں کیا حکمت ہے سلطان المشائخ مقتدائے عالم ہیں اور خدا کے بندوں کو ان کے مقصد تک پہنچادیتے ہیں لیکن خانہ کعبہ کی زیارت نہیں کرتے ہیں، اور حج کی دولت نہیں پاتے ہیں، شیخ نجم الدین رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ وہ اکثر فجر کی نماز خانہ کعبہ میں آکر پڑھتے ہیں اور ہم لوگوں کے ساتھ جماعت میں شریک ہوتے ہیں۔

    خیال ہے کہ وہ اونٹ فرشتہ تھاجو غیب سے آتا اور سلطان المشائخ کو خانہ کعبہ لے جاتا۔ (صفحہ 144-143) آگے چل کر سیر الاولیا کی ایک دوسری روایت یہ بھی ہے۔

    ایک عزیز نے بیان کیا کہ میں اپنے قصبہ سے سلطان المشائخ کی زیارت کے لئے روانہ ہوا، میرا گذر قصبہ بوندی سے ہوا، میرے دل میں یہ خیال ہوا کہ یہاں ایک بزرگ ہیں جو شیخ مومن کہلاتے ہیں، ان سے جاکر ملاقات کروں، ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے فرمایا کہ تم کہاں جاؤ گے میں نے کہا حضرت سلطان المشائخ کے پاس، انہوں نے کہا سلطان المشائخ سے میرا سلام پہنچانا اور کہنا کہ جمعہ کی ہر رات کو ان سے کعبہ میں ملاقات کرتا ہوں، جب میں سلطان المشائخ کے پاس پہنچا تو عرض کیا، قصبہ بوندی کے ایک درویش نے سلام کہا ہے، اور پھر وہ پیام کہا تو شیخ منفص ہوئے اور فرمایا۔

    او درویشے عزیزاست ولیکن زبان خود بر خود ندارد (صفحہ 146)

    فوائدالفواد کے مرتب کی زبانی یہ روایت ہے۔

    میں نے اپنے۔۔.ایک دوست سے ایک بات سنی ہے جو دل میں لگ گئی ہے، وہ بات یہ ہے کہ اس نے کہا کہ حج کے لئے وہی جاتا ہے جس کا کوئی پیر نہ ہو، خواجہ ذکرہ اللہ بالخیر۔ نے جب یہ بات سنی تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور یہ مصرع زبانِ مبارک پر آیا۔

    آں رہ بسوئے کعبہ برود این بسوے دوست

    اس کے بعد فرمایا کہ شیخ الاسلام فریدالدین قدس سرہٗ العزیز کی وفات کے بعد مجھ پر حج کا شوق غالب ہوا، میں نے کہا ذرا اجودھن جاکر شیخ کی زیارت کروں، جب شیخ الاسلام کی زیارت کو پہنچا تو میرا مقصد حاصل ہوگیا بلکہ اس سے بھی زیادہ ہی حاصل ہوا، دوسری بار پھر ہوس ہوئی پھر شیخ کی زیارت کو گیا پھر غرض حاصل ہوگئی۔ (صفحہ 155)

    اسرارالاؤلیا مرتبہ بدراسحٰق کے مطبوعہ نسخہ میں بھی سنین و اسماء کی لکھائی چھپائی کی اسی طرح کی غلطیاں ہیں جو اور مجموعوں میں ہیں لیکن اس کے باوجود اس میں چشتیہ سلسلہ کی جو تعلیمات پیش کی گئی ہیں وہ وہی ہیں جو فوائدالفواد اور خیرالمجالس میں ہیں، اس میں کہیں کفر و شرک کی بود نہیں آتی جس کی بنا پر یہ رسالہ بالکل ہی نظر انداز کردیے جانے کے لایق سمجھاجائے۔

    اس مجموعہ پر جزوی اعتراضات کے ساتھ ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس میں حضرت فریدالدین گنج شکر کی سیاحت کا ذکر ہے جب کہ فوائدالفواد میں ان کی سیاحت کا کوئی ذکر نہیں لیکن فوائدالفواد میں سیاحت کا ذکر نہ آنا اس سے قطعی انکار کی دلیل نہیں، ممکن ہے کہ فوائدالفواد میں اس لئے ذکر نہ کیا گیا کہ راحت القلوب اور سیرالاؤلیاء میں اس کا ذکر بار بار آچکا ہے، حضرت خواجہ فریدالدین گنج شکر کے سفر نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ اس زمانہ میں منگولوں کے حملوں کے سبب راستے محفوظ نہ تھے، لیکن رہروانِ سلوک کے سفر کے لئے یہ سبب مانع نہیں ہو سکتا تھا، خود حضرت فریدالدین گنج شکر نے اپنے مرید شیخ عارف کو سیوستان بھیجا اور حج کے لئے روانہ کیا (سیرالاؤلیاء صفحہ 185-184) اسی زمانے میں حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی نے سفر کیا اور شہاب الدین سہروردی کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے، حضرت جلال الدین تبریزی تو اسی زمانہ میں برابر متحرک رہے، ان کے پاؤں میں ہمیشہ چکر رہا، اس طرح حضرت فریدالدین گنج شکر نے بھی حضرت خواجہ عثمان ہارونی، حضرت خواجہ معین الدین اور حضرت قطب الدین بختیار کاکی کی روایت کے مطابق روحانی تعلیمات کی غرض سے مختلف مقامات پر جاکر بزرگانِ دین سے کسبِ فیض کیا تو اس سے انکار کرنے کی بظاہر کوئی وجہ نہیں پھر پروفیسر خلیق احمد نظامی کو اپنی فاضلانہ کتاب دی لائف اینڈ ٹائمس آف شیخ فریدالدین گنج شکر میں اس کو تسلیم کرنے میں تامل نہیں ہوا ہےکہ انہوں نے قتدھار اور سیستان کا سفر کیا، گو وہ بھی حضرت فریدالدین گنج شکر کے اور دوسرے مقامات کی سیاحت کے قائل نہیں ہیں لیکن وہ اس پُر آشوب زمانہ میں ہندوستا سے نکل کر قندھار اور سیستان جاسکتے تھے، تو پھر ان کا غزنی، بخارا، بغداد اور بدخشاں پہنچنا ناممکن نہیں کہا جاسکتا ہے، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی رحلت 632ہجری میں ہوئی جب کہ حضرت بابا فریدالدین گنج شکر کی عمر 571ہجری سے سنہ پیدا یش کے لحاظ سے 63 برس کی تھی اور اپنے مرشد کی رحلت کے بعد اجودھن میں رشد و ہدایت کی مسند پر مستقل طور سے متمکن ہوئے، اس سے پہلے اپنی عمر کی اس طویل مدت میں اگر وہ مختلف مقامات کی سیاحت کے لئے باہر گئے تو کوئی تعجب کی بات نہیں خصوصاًجب چشتیہ سلسلہ کے بزرگوں کے یہاں مختلف مقامات پر پہنچ کر بزرگانِ دین سے کسبِ فیض کرنے کی بڑی اہمیت تھی۔

    پروفیسر خلیق احمد نظامی اپنی کتاب دی لائف اینڈ ٹائمس آف شیخ فریدالدین گنج شکر میں لکھتے ہیں۔

    عہد وسطیٰ میں راہِ سلوک کی تعلیم و تربیت میں سیاحت لازمی جز تھا، اس کے متعدد فوائد تھے۔۔۔ مولانا عزیزالدین محمود بن علی کاشانی نے اس پر تفصیل سے بحث کی ہے کہ ان سیاحتوں سے کیا کیا فوائد حاصل ہوتے تھے، اکابر خواجگانِ چشت میں شیخ عثمان ہروانی، شیخ معین الدین چشتی اور شیخ قطب الدین برسوں دور دور تک سفر کرتے رہے۔ (صفحہ 27)

    البتہ یہ غور کرنا ہے کہ اسرارالاؤلیا اور اس کے ساتھ راحت القلوب میں اس سیاحت کے دوران میں حضرت فریدالدین گنج شکر نے جن جن بزرگوں کی زیارت کی، وہ ممکن تھی کہ نہیں، وہ بغداد میں حضرت شہاب الدین سہروردی (المتوفیٰ 632ہجری) بخارا میں شیخ سیف الدین الدین باخرزی (المتوفیٰ 656 ہجری میں ملے، بغداد میں ان کی ملاقات خواجہ اجل سنجری اور سیوستان میں شیخ اوحدالدین کرمانی سے بھی ہوئی، ان دونوں بزرگوں کا سنہ وفات تو نہیں معلوم لیکن وہ دنوں حضرت شہاب الدین سہروردی کے معاصر تھے، اس لحاظ سے حضرت فریدالدین گنج شکر کا ان تمام بزرگوں سے نہ ملنا بعید از قیاس نہیں، البتہ راحت القلوب میں دو جہگوں میں عبارت کھٹکتی ہے، ایک تو حسب ذیل ہے۔

    وقتے جانب بدکشاں مسافر بودم، در آں شہر بزرگاں اؤلیا، بودند، چنانچہ عبدالواحد بنسیہ شیخ ذوالنون مصری قدس اللہ سرہ العزیز بیرون شہر میاں غازی مسکن داشت چوں شنیدم نزدیک آں غار شدم۔ (صفحہ 17)

    بنسیہ کے معنی پوتے لئے جائیں تو ذوالنون مصری (المتوفیٰ 246ہجری) کے پوتے سے حضرت بابا فریدالدین گنج شکر کی ملاقات ممکن نہیں ہوسکتی لیکن بنسیہ سے پوتوں کی اولاد بھی مراد لی جائے تو پھر شیخ عبدالوحد کو حضرت ذوالنون مصری کے پوتے کی اولاد سمجھانا چاہئے جن سے پھر حضرت فریدالدین گنج شکر کی ملاقات کے سلسلہ میں شبہ پید نہیں ہوتا، اسی طرح راحت القلوب میں ایک جگہ ہے۔

    وقتےدر خدمتِ شیخ یوسف چشتی قدس سرہٗ حاضر بودم (صفحہ 22)

    معلوم نہیں شیخ یوسف چشتی سے کون مراد ہیں، اگر یہ خواجہ ابو یوسف ناصرالدین چشتی ہیں تو ان سے ملنا ممکن نہیں، کیونکہ یہ حضرت خواجہ عثمان ہارونی کے دادا پیر کے پیر ہیں، اگر ہمدردانہ طور پر غور کیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی اور بزرگ تھے جو خواجہ ابو یوسف ناصرالدین چشتی سے مختلف تھے، اگر اس کو میری بے جا تاویل سمجھی جائے اور مذکورۂ بالا فروگذاشت کو ناقابل معافی غلطی قرار دے کر راحت القلوب کو جعلی سمجھنے پر اصرار کیا جائے تو پھر ایک عیب جو ناقد حمید قلندر کی حسبِ ذیل روایت کو پڑھ کر خیر المجالس کے متعلق وہی رائے قائم کرسکتا ہے جو راحت القلوب کے بارے میں ہوسکتی ہے۔

    اس کے بعد یہ حکایت بیان فرمائی کہ خواجہ عثمان ہروانی کا ایک مجذوب درویش کا ساتھ تھا، جن کا نام فرزند خیر تھا، وہ درویش ایک شہر میں گئے تو وہاں کی جامع مسجد میں قیام کیا اور محراب کے سامنے سو گئے، مسجد لکڑی کی بنی ہوئی تھی، اس کی دیوار اور چھت بھی لکڑی کی تھی، نماز کے وقت مؤذن آیا اور۔۔۔ پائے مبارک کو کھینچا، وہ درویش اٹھ گئے، انہوں نے ایک آہ کی تو ان کے منہ سے آگ پیدا ہوئی، مسجد میں آگ لگ گئی، درویش باہر نکل آئے، آگ شہر تک پہنچ گئی، شہر جلنے لگا، شیخ عبداللہ انصاری، شہر میں تھے،ان کو خبر کی گئی کہ ایک بزرگ جامع مسجد میں سوئے ہوئے تھے، موذن نے ان سے گستاخی کی، ان کا پاؤں کھینچا، انہوں نے آہ کی، تو ان کے منہ سے آگ نکلی، اس وقت وہ آگ شہر میں آگئی ہے اور جلا رہی ہے، شیخ عبداللہ انصاری نے کہا کہ وہ بزرگ کس طرح گئے، لوگوں نے بتایا کہ فلاں طرف گئے، پیچھا کیا، تو ان کےپاس جاپہنچے، فرمایا اے درویش! یہ شہر مجھ کو بخش دو، کہا نہیں بخشتا ہوں، پھر فرمایا بخش دو، کہا ایک ثلث دیا، فرمایا کچھ اور زیادہ دے دو، کہا دو ثلث دیا، شیخ عبداللہ انصاری واپس آئے، ایک ثلث شہر جل چکا تھا، دو ثلث باقی رہ گیا تھا۔ (صفحہ 53)

    اس روایت سے ظاہر ہے کہ حضرت عثمان ہروانی، مجذوب بزرگ اور شیخ عبداللہ انصاری کا زمانہ ایک تھا، حالانکہ یہ صحیح نہیں، شیخ عبداللہ انصاری کی وفات پانچویں صدی میں 481ہجری میں ہوئی، حضرت خواجہ عثمان کی ولادت چھٹی صدی ہجری اور وفات ساتویں صدی ہجری میں ہوئی دونوں کی معاصرت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، ممکن ہے کہ یہ کہا جائے کہ یہ شیخ عبداللہ انصاری ہرات والے بزرگ نہ تھے جن کی وفات 481 ہجری میں ہوئی بلکہ کوئی دوسرے بزرگ تھے جن کےنام کی غلط کتابت ہوگئی ہے، یہ کہتے وقت راحت القلوب کے تسامح کو بھی سامنے رکھنا پڑے گا۔

    اسرارالاؤلیا کی مجلس دوم (صفحہ 11) میں ہے۔

    بعد ازاں فرمود کہ اے درویش وقتے برادرم مولانا بہاؤالدین زکریا و دعا گوی یکجا نشستہ بودیم حکایت سلوک می رفت زمانے برآمد برادرم بہاؤالدین برخاست و ایستاذ شدہ بہ ہائے ہائےبگریست و گفت انا اللہ وانا الیہ راجعون، دعا گوی پرسید کہ ایں چہ حالست گفت بر خیز بہ ہیں چوں برخاستم، چہ بینم از دروازہ بغداد و جنازہ شیخ سعدالدین حمویہ آوردہ اند و نماز جنازہ می گذارند پیشِ مسجد جامع بغداد۔(صفحہ11)

    اس روایت میں کوئی تضاد یا ضعف نہیں، کیونکہ حضرت سعدالدین حمویہ (المتوفیٰ 650ہجری) کی وفات حضرت بابا فریدالدین گنج شکر اور حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی کی زندگی ہی میں ہوئی، فوائدالفواد میں ہے۔

    بعد ازاں خواجہ ذکرہ اللہ بالخیر فرمود کہ اوّل شیخ سعدالدین حمویہ نقل کرد، بعد از وبسہ سال شیخ سیف الدین باخرزی بعد از وبسہ سال شیخ بہاؤالدین زکریا بعد از وبسہ سال شیخ فریدالدین رحمۃ اللہ علیہم اجمعین ۔ (صفحہ 13)

    لیکن اس پر یہ اعتراض ہےکہ اس کی فصل اول 631ہجری میں شروع ہوئی اور اس کے آخر میں بیان ہے کہ ا س میں بارہ سال تک کےملفوظات جمع کئے گئے ہیں جس کے یہ معنی ہیں کہ اس میں 643ہجری تک کے واقعات ہیں پھر حضرت سعدالدین حمویہ (المتوفیٰ 650ہجری) کا ذکر کیسے آسکتا ہے، پہلے کہا گیا ہے کہ اس میں سنین اور سماء کی غلطیاں ہیں، اس لئے ممکن ہے کہ 631ہجری کے سن میں کتابت کی غلطی ہوگئی ہو پھر آخر میں اجمالی طور پر یہ کہا گیا ہے کہ

    از اسرار و انوار و الفاظ در بارِ شیخ الاسلام در مدت ودرازِ دہ سال شنیدہ است دریں مجموعہ بنشتہ آمد

    اس کو 631ہجری کے بعد ہی کے بارہ سال سمجھنا محض خردہ گیری ہے، اسرارالاؤلیاء کی پہلی فصل میں تو تاریخ دی ہوئی ہے لیکن 22 فصلوں میں سے کسی ایک میں بھی تاریخ نہیں درج ہے، اس لئے پہلی فصل کی تاریخ کو غلط سمجھ کر کتاب سے نکال دیا جائے تو پھر ترتیبِ زمانی میں کوئی التباس پیدا نہیں ہوتا اس طر اس میں جو واقعات درج ہیں، اس لحاظ سے یہ یقین کرنے میں کوئی تامل نہیں ہوگا کہ حضرت سعدالدین حمویہ (المتوفیٰ 650 ہجری)، شیر خاں (المتوفیٰ 662 ہجری) اور حضرت نجیب الدین متوکل کی وفات سے پہلے یہ ملفوظات مرتب ہوئے پھر پروفیسر صاحب موصوف کا یہ اعتراض صحیح نہیں ہوگا کہ ان بزرگوں کی زندگی کا جو زمانہ ہے اسی میں ان کی وفات کا ذکر کردیا گیا ہے۔

    اسرارالاؤلیا (صفحہ 90) میں ہے۔

    فرمود کہ اے درویش وقتے من و شیخ جلال الدین تبریزی قدس اللہ سرہ العزیز در بدائرن رسیدیم روزے در دہلیز خانہ نشستہ بودیم

    اس پر پروفیسر صاحب کا اعتراض ہے کہ حضرت فریدالدین گنج شکر کبھی بدایوں تشریف نہیں لے گئے ہیں لیکن جن مستند ماخذوں کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے، ان کے نام نہیں لکھے گئے ہیں، قطعی طور پر یہ کہنا صحیح نہیں کہ حضرت فریدالدین گنج شکر کبھی بدایوں تشریف نہیں لے گئے، کیونکہ سیرالاؤلیا میں حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا کی زبانی یہ روایت ہے کہ شیخ نجیب الدین متوکل کے ایک بھائی بدایوں میں تھے اور وہ ہر سال ان سے ملنے کے لئے جاتے تھے۔

    سلطان المشائخ می فرمود کہ شیخ نجیب الدین متوکل را برادرے بود در بدایوں، ہر سال بدیدن او آنجا رفتے تا وقتے ہر دو برادر بدیدن شیخ علی بزرگ کہ صاحب نعمت بود در بداؤں رفتند(صفحہ 167)

    شیخ نجیب الدین متوکل حضرت فریدالدین گنج شکر کے بھائی تھے، اس لئے بہت ممکن ہے کہ وہ بھی اپنے بھائی سے ملنے بداؤں گئے ہوں، ایسی حالت میں حضرت جلال الدین تبریزی کے ساتھ بداؤں میں ہونا کوئی تعجب انگیز بات نہیں ہوسکتی، خصوصاً فوائدالفواد، خیرالمجالس اور سیرالاؤلیاء کی روایتوں سے ظاہر ہے کہ حضرت جلال الدین تبریزی کئی بار بداؤن پہنچے۔

    اسی کے ساتھ اسرارالاؤلیا کی مذکورۂ بالا روایت کو ہمدردانہ طور سے پڑھنے کے بعدیہ بھی خیال ہوتا ہے کہ ممکن ہے اس میں من اور جمع متکلم کا صیغہ غلط کتابت کی وجہ سے اضافہ ہوگیا ہو، کیونکہ اسی روایت میں پھر یہ صیغہ نہیں آیا ہے، اس لئے اگر اسرارالاؤلیا کا کوئی قدیم ترین نسخہ دیکھا جائے تو ممکن ہے کہ اس میں مذکورۂ بالا الفاظ کے بجائے حسب ذیل الفاظ ہوں۔

    فرمود کہ اے درویش وقتے شیخ جلال تبریزی قدس اللہ سرہٗ العزیز در بداؤن رسید ہر روزے در دہلیز خانہ نشستہ بود

    اس طرح یہ روایت فوائدالفواد (صفحہ 132) کی روایت کے بالکل مطابق ہوجاتی ہے اور اس کے بعد یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ حضرت خواجہ نے اپنے مرشد ہی کی زبانی یہ روایت دہرائی جو فوائدالفواد میں قلم بند کردی گئی، خیرالمجالس کی مجلس پنجارہ ششتم میں یہ روایت کچھ بڑھا کر درج کر دی کی گئی ہے لیکن اس جزوی اختلاف سے نفس حکایت اور پوری کتاب پر کوئی حرف نہیں آتا، اسی روایت کے سلسلہ میں پروفیسر صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا کی ملاقات حضرت فریدالدین گنج شکر سے بداؤں میں کبھی نہیں ہوئی، اس کے لکھنے کی ضرورت ہی نہ تھی، کیونکہ خود پروفیسر صاحب نے لکھا ہے کہ حضرت جلا ل الدین تبریزی کے جانے کے بعد حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا کی ولادت ہوئی، ظاہر ہے کہ حضرت فریدالدین گنج شکر حضرت جلال الدین تبریزی کے ساتھ اگر آئے بھی ہوں گے تو اس وقت حضرت نظام الدین اؤلیا سے ملنے کا سوال ہی نہیں ہوسکتا تھا۔

    اسرارالاؤلیا کی فصل یازدہم میں ہے۔

    فرمود کہ اے درویش دعا گو را برادرے بود، شیخ نجم الدین متوکل نام او بود از حد مشغول، چنانچہ دعا گوئے چندیں سیاحی کردہ است ہیچ کسے راہم چنیں نددیدم و در ہیچ شہرے نیافتم ازاں کہ آ زماں کہ او را خوف حق مستولی شدی (صفحہ 61)

    جس طرح اس مجموعہ میں کتابت کی اور غلطیاں ہیں، اسی طرح مذکورۂ باالا اقتباس میں نجیب الدین متوکل کے بجائے نجم الدین متوکل کی کتابت ہوگئی ہے، اعتراض یہ ہے کہ ملفوظات کا یہ مجموعہ 643ہجری میں ختم ہوگیا تھا، اس کے بعد بہت دنوں تک شیخ نجیب الدین متوکل زندہ رہے پھر ان ملفوظات میں برادرے بود کیسے لکھا گیا، حضرت فریدالدین گنج شکر نے جو کچھ فرمایا ہے وہ صحیح ہے، یعنی وہ اپنے بھائی کا ذکر، ان کی وفات کے بعد کر رہے تھے جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ ملفوظات ان کے بھائی کی رحلت کے بعد کے ہیں، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ملفوظات کے قلم بند ہونے کی جو تاریخ مطبوعہ نسخہ میں درج ہے وہ غلط ہے اور یقیناً کتابت کی غلطی ہے جس کو خود پروفیسر صاحب یہ کہہ کر تسلیم کرتے ہیں کہ The date given for first farl in Monday II shaban 631 A. H (1233-37) which is impossible to accept.

    اسرارالاؤلیا میں حضرت خواجہ معین الدین کے ذکر میں ہے۔

    دریں میاں لشکر محمد شاہ در اجمیر در آمد پتھورا زندہ گرفتند (صفحہ 77)

    اس پر اعتراض کرنا بھی قابلِ اعتراض ہے، کیونکہ یہ کتابت کی صریحاً بھونڈی غلطی ہے، اسرارالاؤلیا (صفحہ 33) پر بھی سلطان معزالدین محمد بن سام کا ذکر ہے لیکن وہاں سلطان معزالدین محمد شاہ مرقوم ہے، سام کے بجائے شاہ کی کتابت ہوگئی ہے، مذکورۂ بالا عبارت میں بھی معزالدین محمد سام ہی ہونا چاہئے جو غلطی سے صرف محمد شاہ لکھا گیا ہے، کتابت و طباعت کی غلطیوں سے صاف ظاہر ہے کہ ان رسالوں کی کتابت و طباعت میں وہ اہتمام نہیں کیا گیا جو واقعی ہونا چاہئے، ان غلطیوں سےفائدہ اٹھا کر طرح طرح کےاعتراضات کرنا بالکل مناسب نہیں۔

    اسرارلاؤلیا کی فصل پانزدہم، شانزدہم، ہفتدہم اور ہژدہم میں شیخ نظام الدین اؤلیا کے ساتھ شیخ بدرالدین غزنوی کا بھی ذکر آیا ہے، پروفیسر صاحب لکھتے ہیں کہ تعجب ہے کہ دونوں کو ایک ساتھ کیسے دکھایا گیا ہے، کیونکہ شیخ بدرالدین غزنوی سے شیخ نظام الدین اؤلیا کی کبھی ملاقات نہیں ہوئی اور شیخ نظام الدین کے ایک طالب علم کی حیثیت سے دہلی پہنچنے سے پہلے ان کی وفات ہوگئی تھی، معلوم نہیں پروفیسر صاحب موصوف نے یہ کیسے لکھ دیا ہے، کیونکہ فوائدالفواد میں ہے کہ

    بعد ازاں دریں معنی حکایت فرمود کہ شنودہ ام از شیخ بدرالدین غزنوی کہ او گفت کہ من چوں از غزنیں بہ لاہور آمدم (صفحہ 73)

    سیرالاؤلیا میں بھی دو جگہوں پر ہے۔

    سلطان المشائخ ۔۔۔ می فرمود کہ از شیخ بدرالدین شنیدم کہ من در خانہ حمید الدین ناگوری در آمدم۔ دیدم جامہ بہ شستن دادہ است و ہوا و سرما است، میرزی در تہ داشت من جبیہ داشتم نوپیش آوردم در حال قبول کرد و بیوشیدہ و گفت پدر ترا برمن منت ہاست (صفحہ 166)

    سلطان المشائخ می فرمود من از شیخ بدرالدین غزنوی شنیدم می گفت کہ شیخ قطب الدین بختیار قدس اللہ سرہٗ العزیز ایں دو بیت بسیار گفتے۔ (صفحہ 166)

    سوداے تو اندر دلِ دیوانہ ماست

    ہر چہ نہ حدیث تنسبت افسانہ ماست

    بیگانہ کہ از تو گفت او خویش من ست

    خویشے کہ نہ از تو گفت بیگانہ ماست

    ان روایتوں سے صاف ظاہر ہے کہ دونوں میں ملاقاتیں ہوئیں۔

    اسرارالاؤلیا میں ہے۔

    اس کے بعد فرمایا کہ اے درویش کل قیامت کے دن جب عاشقوں کو مقام تجلی میں لایا جائے گا تو حکم ہوگا کہ آنکھیں کھولو اور عاشقوں میں سے ہر ایک کو سامنے لاؤ تاکہ ان میں ہر ایک کو تجلی نصیب ہو، وہ ستر ہزار سال تک بیہوش رہیں گے لیکن جب ان کو ہوش آئے گا وہ فریاد کریں گے کہ پھر تجلی اور نصیب ہو، اسی طرح سات بار کے بعد وہ اپنے مقام پر واپس ہوں گے، جب شیخ الاسلام دام اللہ برکاتہٗ نے یہ بات ختم کی تو ایک چیخ لگائی اور بیہوش ہوگئے(صفحہ 32)

    حضرت فریدالدین کے اس قسم کے تحیر اور کیفیتِ سکر کو پروفیسر صاحب نے جھوٹ اور مہمل قرار دیا ہے، (a falseasit is absurd) لیکن پروفیسر صاحب کے نزدیک فوائدالفواد، خیرالمجالس، سیرالاؤلیا غیر مستند کتابیں نہیں ہیں بلکہ ان ہی کی روایتوں سے اپنے دعوے کو مستحکم بناتے ہیں، ان میں بھی تحیر کی روایتیں ملیں گی، مثلاً فوائدالفواد (صفحہ 144) کی اس روایت کا ذکر پہلے آچکا ہے کہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی کی ایک شعر کو سنک کر چار رات دن عالم تحیر میں مدہوش رہے اور اسی تحیر میں ان کی رحلت ہوگئ۔

    خیرالمجالس میں ہے۔

    قیامت کا ذکر تھا تو خواجہ ذکرہ اللہ بالخیر نے فرمایا، قیامت نزدیک آگئی ہے، 755 ہوگیا ہے، اس ذکر سے بشرۂ مبارک سفید ہوگیا اور حاضرین کھو گئے، اس حال میں فرمایا کہ یاروں کے لئے شیرینی لاؤ لیکن حاضرین پر قیامت کا خوف ایسا تھا کہ ان کی عمر تلخ ہورہی تھی، شیرینی ان کے سامنے رکھی رہی کسی کو کچھ خبر نہ تھی، خواجہ نے خادم سے فرمایا شیرینی واپس لے جاؤ تھوڑی دیر میں پھر لاؤ، اس وقت ہم لوگوں کو پتہ نہیں ہے کہ ہم لوگ آسمان پر ہیں یا زمین پر ہیں، دن ہے یا رات، اس حال میں ایک پہر گذر گیا، کوئی دم نہ مارتا تھا، یہاں تک کہ ایک صاحب واپس آئے اور بلند آواز سے سلام کیا، ان میں سے کچھ تو اپنے آپے میں آئے اور کچھ قیامت کے خوف سے اسی طرح مستغرق رہے (صفحہ 12)

    سیرالاؤلیا (صفحہ 172) میں ہے۔

    شیخ شیوخ العالم کی حیات میں مولانا بدرالدین اسحٰق قدس سرہٗ العزیز نے یہ شعر پڑھا۔

    پیش سیاستِ غمش روح چہ نطق نمی زند

    اے ز ہزار صعوہ کم پس تو نوا چہ می زنی

    اس بیت سے عالم تحیر طاری ہوگیا، جب جب یہ شعر پڑھا جاتا بکا اور اہتزار طاری ہوجاتا، مغرب کی نماز کا وقت ہوگیا تو شیخ شیوخ العالم نے مولانا بدرالدین اسحٰق رحمۃ اللہ علیہ سے امامت کرنے کو فرمایا، مولانا نے نماز، شروع کی، تحریمہ باندھا لیکن قرأت کرنے کے بجائے یہی شعر ان کی زبان پر آیا، اس کے بعد وہ بے ہوش ہوگئے جب اپنے ہوش میں آئے تو شیخ شیوخ العالم نے فرمایا پھر امامت شروع کرو اور حاضر رہو۔

    راحت القلوب پر اسی قسم کے کمزور اعتراضات ہیں، مثلاً شروع ہی میں کہا گیا ہے کہ اس میں باتیں فوائدالفواد سے لی گئی ہیں۔

    It contains matters taken from fawaidul-Fuwad

    لیکن پھر فوراً ہی یہ بھی لکھا گیا ہے کہ اس کے مرتب کی رسائی براہ راست فوائدالفواد تک نہیں ہوئی۔

    “The outhor does not borrow directly from Fawaidul Fuwan which seem to have been out of his reach”

    طرزِ استدلال یہ ہے کہ اگر کوئی روایت فوائدالفواد سے ملی جلی ہے تو اس کو سرقہ قرار دیا جاتاہے لیکن کوئی روایت فوائدالفواد سے کچھ مختلف ہے تو اس کو جعلی قرار دے کر رد کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔

    راحت القلوب کو جعلی بنانے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ فوائدالفواد اور خیرالمجالس کے بیان کے مطابق حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا کو اجودھن کی تیسری بار کی حاضری میں خلافت ملی لیکن راحت القلوب میں پہلی بار ہی کی حاضری میں خلافت ملنے کا ذکر ہے، ایسا سمجھنا صحیح نہیں، راحت القلوب کے آغاز میں جو باتیں لکھی گئیں ہیں اس کو در اصل تمہید سمجھنا چاہئے، جس میں خلافت کا بھی ذکر آگیا ہے لیکن یہ ذکر مجلس اول ہی کے سلسلہ میں کر دیا گیا ہے، اس لئے یہ التباس پیدا ہوگیا ہے پھر مختلف مجلسوں میں 655 کا ذکر ہے لیکن یہ سن بھی یقیناً کتابت و طباعت کی فروگذاشت ہے، کیونکہ ان تاریخوں میں جو واقعات لکھے گئے ہیں، ان میں تطبیق نہیں ہوتی، اگر محنت کی جائے تو یہ تاریخیں معلوم ہوسکتی ہیں، میری ذاتی رائے ہے کہ یہ تمام مجلسیں حضرت خواجہ کی آخری بار (یعنی 663ہجری) کی حاضری کے موقع کی ہیں، اگر ہر مجلس کے ساتھ یہ سن لکھ دیا جائے یا خیرالمجالس کی طرح سن اور تاریخ کا ذکر ہی نہ کیا جائے تو پھر واقعات میں کوئی سقم پیدا نہیں ہوتا، پروفیسر صاحب کو سن کے غلط اندراجات کی وجہ سے ہر قسم کی غلطیاں نکلانے کا موقع مل گیا ہے لیکن نفس واقعہ میں کوئی غلطی نہیں، مثلاً اس میں شیر خاں (المتوفیٰ 663ہجری)، شیخ بہاؤالدین زکریا (المتوفیٰ 666ہجری) اور شیخ سیف الدین باخرزی (المتوفیٰ 658ہجری) کی وفات کا ذکر ہے، اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ ملفوظات ان بزرگوں کی وفات کے بعد مرتب ہوتے تو پھر ہمدردانہ تنقید میں صرف اتناہی کہا جاسکتا ہے کہ اس میں سن کا جو اندراج ہے وہ غلط ہے لیکن مخالفانہ تنقید ہی میں یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ چونکہ اس نہ میں ان بزرگوں کی وفات نہیں ہوئی، اس لئے پورا مجموعہ جعلی اور فرضی ہے۔

    راحت القلوب میں اسرارالاؤلیا کی طرح حضرت فریدالدین گنج شکر کے مختلف مقامات کی سیاحت کا ذکر ہے، پروفیسر صاحب اس کو تسلیم نہیں کرتے لیکن تسلیم نہ کرنے کے اسباب پر ہم نے جو کچھ پہلے لکھا ہے وہ ناظرین کی نظروں سے گذر چکاہے، اسرارالاؤلیا ہی کی طرح راحت القلوب پر یہ اعتراض ہے کہ خواجہ حسن بصری اور ذوالنون مصری کے مریدوں (disceptes) اور حضرت بابا گنج شکر کی ملاقاتوں کا ذکر تعجب خیز ہے، کیونکہ دونوں کے زمانہ میں بڑا تفاوت ہے لیکن اس سلسلہ میں پروفیسر صاحب سے جو فروگذاشت ہوئی ہے اس کی طرف توجہ مبذول کرانے کی ضرورت ہے، راحت القلوب (24) کی ایک عبارت ہے۔

    پیرباعظمت صد و پنجاہ سال عمر او بود از نبنیسگاں خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ

    اس کا ترجمہ پروفیسر صاحب نے انگریزی میں یہ کیا ہے۔

    A myotic who was one hundred and fifty years old and was a

    disciples of the Khawaja Hasan Basari.

    پیر باعظمت کو پروفیسر صاحب نے خوجہ حسن بصری کا مرید بتایا ہے، حالانکہ وہ نبنیسگان میں تھے، نبنیسگان سے مراد پوتوں پڑپوتوں کی اولاد بھی ہے پھر مرید بتاکر تفاوت زمانہ دکھانا صحیح نہیں ہے، اسی طرح راحت القلوب (صفحہ 10) میں ہے۔

    من از نبنیسگان خواجہ جنید بغدادی ہستم

    راحت القلوب (صفحہ 17) میں ہے۔

    عبدالواحد نبیسہ شیخ ذوالنون مصری قدس اللہ سرہ العزیز

    ان دونوں عبارتوں میں نبینسگان اور نبیسہ کا ترجمہ مرید ہی کیا گیا ہے، جس سے راحت القلوب سے خواہ مخواہ سو ظن پیدا ہوجاتا ہے، راحت القلوب (صفحہ 4) کے حسب ذیل بیان پر جو اعتراض ہے، اس سے بھی سو ظن پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

    شیخ بدرالدین غزنوی شیخ جمال الدین ہانسوی و مولانا شرف الدین نبیسہ قاضی حمیدالدین ناگوری نیز حاضر بود

    پروفیسر صاحب اس پر اعتراض کرتے ہیں۔

    In majolio no II (16 shaban 655 A.H) both shaikh Badruddin Ghaznawi and Qazi Hameeduddin Nogori are diclaned to have been present as a matter of fast thay hand both died several years before Nizamuddin Auliya reached Ajodhan. They could not have been thire with him.

    شرف الدین نبیسۂ قاضی حمیدالدین ناگوری کو قاضی حمیدالدین ناگوری بتانا محض غلط فہمی پیدا کرنا ہے، پہلے یہ بتایا جا چکا ہے کہ یہ کہنا بھی صحیح نہیں کہ شیخ بدرالدین غزنوی کی ملاقات حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا سے نہیں ہوئی۔

    ایک اور مثال ملا حظہ ہو، راحت القلوب (صفحہ 56) میں ہے۔

    شیخ اسلام فرمود ابو طالب مکی در قوت القلوب می نویسد

    لیکن پروفیسر صاحب کا الزام یہ ہے کہ راحت القلوب میں قوت القلوب خواجہ عثمان ہارونی کی تصنیف بتائی گئی ہے لیکن اوپر کی سطر سے یہ بات ظاہر نہیں ہوتی ہے۔

    ایک دوسری مثال ملاحظہ ہو، راحت القلوب (صفحہ 61) میں ہے۔

    چند روز دعا گو ہانسی جاکر شیخ محمد ہانسوی کے پاس رہا ہے جو شیخ قطب الدین بختیار اوشی قدس اللہ سرہ العزیز کے یاروں میں سے تھے اور جب واپس آکر پابوسی کی تو حکم ہوا کہ بیٹھ جاؤ، میں بیٹھ گیا، ایک خط جو شیخ برہان الدین نے دیا تھا پیش کیا، اس کا مطالعہ فرمایا، اس کے بعد فرمایا کہ تم نے دیر کی، بندہ نے زمین بوسی کی اور کہا کہ تنِ خاکی تو وہاں تھا لیکن دل یہاں تھا، مخدوم بندہ نواز نے فرمایا ایسا ہی تھا جیسا کہ تم کہتے ہو، تم پر بارہا میرا اشتیاق غالب آیا اور تم کہتے ہو کہ اگر مجھ کو پر ہوتا تو اڑ جاتا اور خواجہ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور ان سے ملتا، اس کے بعد لوگوں کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ شیخ کے مرید اور فرزند کو اسی طرح ہونا چاہئے جس طرح کہ مولانا نظام الدین ہیں، فرمایا کہ انہوں نے مجھ کو ایک خط لکھا تھا، اس میں پابوسی کا بڑا اشتیاق تھا، اس میں ایک شعر بھی تھا، اس کو میں نے یاد کرلیا ہے اور جب تم کو یاد کرتا ہوں تو یہ شعر پڑھتا ہوں، یہ بہت ہی بے نظیر ہے، اگر تم پڑھو تو میں سنوں، میں تسلیم بجالا یا اور یہ شعر پڑھا۔

    زانگاہ کہ بندۂ تو دانند مرا

    بر مردمکِ دیدہ نشانند مرا

    لطف عامت عنایتے فرمودہ است

    ورنہ چہ کسم از کجا دانند مرا

    میں نے جب یہ پڑھا تو شیخ الاسلام پر رقت طاری ہوگئی، اٹھے اور رقص فرمانے لگے، اتنا رقص فرمایا کہ اس کی حد نہ رہی، صبح سے دوپہر تک رقص فرماتے رہے، رقص ختم ہوا تو اپنا خرقۂ خاص مرحمت فرمایا اور اسی روز عصا بھی عنایت فرمایا اور نعلین چوبی بھی دئے

    فوائدالفواد (صفحہ 180) میں ہے۔

    ایک بار میں نے ایک عرضداشت شیخ الاسلام فریدالدین قدس اللہ سرہ العزیز کی خدمت میں بھیجا تھا، جس میں یہ رباعی لکھ بھیجی تھی۔

    زاں روئے کہ بندۂ تو دانند مرا

    بر مردمکِ دیدہ نشانند مرا

    لطف عامت عنایتے فرموداست

    ورنہ چہ کسم خلق یہ دانند مرا

    اس کے بعد شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس رباعی کا ذکر کیا اور فرمایا کہ میں نے اس کو یاد کرلیا ہے، دونوں میں کوئی تضاد نہیں، صرف تفصیل اور اجمال کا فرق ہے لیکن پروفیسر صاحب کا یہ اعتراض ہے کہ اگر ہم فوائدالفواد کا مطالعہ کریں تو یہ پتہ چلے گا کہ خط کے ساتھ رباعی شیخ نظام الدین نے دہلی سے بھیجی تھی اور غالباً دوسری آمد کے بعد بھیجی، یہ اعتراض کہاں تک صحیح ہے، خود ناظرین غور کریں، راحت القلوب کی عبارت سے یہ ظاہر ہے کہ حضرت نظام الدین اؤلیا نے ایک خط میں یہ رباعی لکھ کر بھیجی تھی۔

    پروفیسر صاحب کا یہ اعتراض ہے کہ راحت القلوب کے پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت نظام الدین اؤلیا اجودھن کے قیام میں خانقاہ جایا کرتے تھے، حالانکہ وہ خانقاہ ہی میں مرشد کے ساتھ مقیم تھے، ان سے درس لیتے تھے، دن میں کئی بار ان سے ملتے، شاید پروفیسر صاحب کو غلط فہمی اس لئے ہوئی ہے کہ حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا کے قلم سے

    ہر مجلس کے شروع میں حسب ذیل فقرے لکھے گئے ہیں۔

    دولت پائے بوس حاصل شد۔۔ دولت پائے بوس میسر شد۔۔۔ سعادت پائے بوس میرشد۔۔۔ دولت قدم بوس حاصل شد۔۔۔ سعادت قدم بوسی حاصل شد۔۔۔۔

    یہ تو لکھنے کا ایک مودبانہ طریقہ تھا، ان فقروں سے یہ ظاہر نہیں ہوتا ہے کہ حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا اپنے مرشد سے الگ رہتے تھے، ساتھ رہنے کے باوجود احتراماً یہ فقرے لکھا کرتے تھے پھر فوائدالفواد کے حسب ذیل فقرہ پر تو وہی اعتراض وارد ہوتا ہے جو پروفیسر صاحب راحت القلوب پر کرتے ہیں۔

    خواجہ فرمود ہر چہ از شیخ شنودہ شد نوشتم چو بمقام خود باز آمدم بر جائے نسخہ کردم

    یعنی وہ خانقاہ کی مجلس میں جو کچھ سنتے لکھ لیتے پھر اپنی قیام گاہ پر آکر اس کو ترتیب دیتے، اس سے ظاہر ہے کہ ان کی قیام گاہ حضرت فریدالدین گنج شکر کی جائے رہایش سے مختلف تھی۔

    راحت القلوب (صفحہ 29) میں ہے۔

    یہ حکایت بیان فرما رہے تھے کہ ایک درویش شہاب الدین غزنوی آئے، وہ شیخ الاسلام کے مریدوں میں سے تھے، قدم بوسی کی حکم ہوا کہ بیٹھ جاؤ، وہ بیٹھے، اس درویش کو والی لاہور نے کم و بیش سو دینار دے کر شیخ الاسلام کے پاس بھیجا تھا، شیخ الاسلام نے فرمایا اے درویش! جو کچھ تمہارے پاس ہے لاؤ، انہوں نے پچاس دینار شیخ الاسلام کی خدمت میں پیش کئے، شیخ الاسلام نے تبسم فرمایا کہ شہاب تم نے بھائیوں کی اچھی تقسیم کی لیکن درویشوں کے لئے اس قسم کی بات اچھی نہیں، وہ بہت شرمندہ ہوئے، فوراً سو دینار شیخ لاسلام کو پیش کردیے، شیخ الاسلام نے فرمایا کہ اگر میں تم کو اس قسم کی بات نہ کہتا تو تم اس کام میں بھٹک جاتے، اس طرح تم درویشوں کے مقصد کو حاصل نہ کرتے پھر سو دینار ان کو دے دیے اور فرمایا کہ پھر سے بیعت کرو، بیعت میں خلل پڑگیا۔

    فوائدالفواد میں یہ روایت اس طرح درج ہے کہ حضرت فریدالدین گنجِ شکر کے خلفا کا ذکر تھا تو حضرت خواجہ نظام الدین نے فرمایا۔

    ان میں ایک ایسے درویش بھی تھے جن کو عارف کہا جاتا تھا، ان کو سیوستان کی طرف بھیجا اور بیعت کی اجازت بھی دی، واقعہ یہ ہوا کہ ایک ملک اوچ اور ملتان کی طرف تھا، یہ درویش، اس ملک کے امام تھے، دونوں کچھ باہمی تعلقات بھی رکھتے تھے، ایک بار اس ملک نے سو تنگے اس عارف کو دئیے اور شیخ الاسلام شیخ فریدالدین قدس اللہ سرہٗ العزیز کے پاس بھیجا، انہوں نے پیچا تنگے تو اپنے پاس رکھ لئے اور پچاس شیخ کی خدمت میں پیش کئے، شیخ نے تبسم فرمایا اور کہا قسمت بر در وار کردی وہ عارف شرمندہ ہوئے اور اپنے پاس جو پچا تنگے رکھے ہوئے تھے، ان کو شیخ کی خدمت میں پیش کئے اور بڑی عاجزی کی، معذرت کی پھر ارادت کے لئے التماس کیا، شیخ نے اپنے ہاتھ پر بیعت کرلیا اور وہ محلوق ہوگئے، اس کےبعد وہ اتنے راسخ العقیدہ ہوتے گئے کہ پوری استقامت سے ساری چیزیں حاصل کرلیں اور بالآخر شیخ نے ان کو بیعت کی بھی اجازت دی اور سیوستان کی طرف بھیجا۔ (صفحہ 16-215)

    سیرالاؤلیا میں فوائدالفواد ہی سے یہ روایت لی گئی لیکن فوائدالفواد کی مذکورہ روایت نقل کر کے اس کے مؤلف نے یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ مولانا عارف کو خلافت نامہ ملا تو انہوں نے شیخ الشیوخ حضرت فریدالدین سے کہا کہ وہ اس کام کےلائق نہیں ہیں اور جو کام مشائخِ کبار کرتے رہے ہیں وہ اس میں نہ ہوگا لیکن شیخ نےان پر شفقت فرمائی، اس کے بعد وہ شیخ الشیوخ عالم کی اجازت سے کعبہ گئے، جہاں سے واپس نہ ہوئے، یہ اضافہ اس لئے الحاق نہیں سمجھا جاسکتا کہ یہ فوائدالفود میں نہیں ہے۔

    اب راحۃ القلوب اور فوائدالفواد کی اس روایت میں جو اختلاف ہے وہ نام کا اختلاف ہے، راحت القلوب میں نام شہاب الدین غزنوی اور فوائدالفواد میں عارف بتایا گیا ہے، راحت القلوب میں ہے کہ وہ پہلے ہی سے حضرت شیخ فریدالدین کے مرید تھے لیکن فوائدالفواد میں ہے کہ وہ بعد میں مرید ہوئے، راحت القلوب میں ہے کہ والیٔ لاہور نےبھیجا لیکن فوائدالفواد میں مبہم طریقہ پر بتایا گیا ہے کہ ملک اوچ اور ملتان کی طرف تھا لیکن اس جزوی اختلاف سے کتاب کے جعلی اور فرضی ہونےکا ثبوت فراہم نہیں ہوتا، اس قسم کے اختلافات تذکروں میں بہت ملتے ہیں، ممکن ہےکہ ملفوظات کے مرتب کو لکھنے میں سہو ہوگیا ہو لیکن یہ احتمال دونوں مجموعوں کے لئے ہوسکتا ہے اور اگر یہ صحیح ہے کہ راحت القلوب کی یہ روایت فوائدالفواد سے سرقہ ہے تو پھر اس سرقہ میں نام کا بدل دینا سمجھ میں نہیں آتا۔

    راحت القلوب میں ہے۔

    بعد ازاں ہمدریں محل فرمود کہ وقتے قاضی حمیدالدین ناگوری و شیخ قطب الدین بختیار اوشی و شیخ جمال الدین تبریزی و شیخ بدرالدین غزنوی قدس اللہ سرہم العزیز در مسجد جامع دہلی چند روز معتکف شدند (صفحہ 45)

    پروفیسر صاحب اس روایت کو فرضی قرار دیتے ہیں اور وجہ یہ بتاتے ہیں کہ فوائدالفواد کے بیان کے مطابق حضرت جلال الدین تبریزی اور خواجہ قطب الدین بختیار کاکی سے صرف دو ملاقاتیں ایک کیلو کھری کی سرحد پر اور دوسری ملک عزیز الدین بختیار کی مسجد میں ہوئیں۔ (فوائدالفواد صفحہ 150)

    فوائدالفواد سے جامع مسجد میں دونوں کا معتکف ہونا ثبت نہیں، اول تو مذکورہ عبارت کے جمال الدین تبریزی کو واقعی جلال الدین تبریزی کو واقعی جلال الدین تبریزی سمجھائے تو اس میں اسما کی کتابت و طباعت کی غلطیوں کا ایک ثبوت اور فرہم ہوجاتا ہے، اس میں صرف مسجد کے نام کا فرق ہے، فوئدالفواد میں ہے۔

    وقتے در مسجد ملک عزیزالدین بختیار کہ اہم پیش گر مایہ اوست ہر دو بزرگ یکجا شندند (صفحہ 151)

    یکجا شدند کے اجمال میں ممکن ہے کہ دونوں اسی مسجد میں معتکف ہوئے ہوں، صرف نام کے اختلاف ہے پوری عبارت فرضی نہیں قرار دی جاسکتی ہے۔

    راحت القلوب (صفحہ 18) میں ہے۔

    بعد ازاں فرمود کہ در یمن ملاد مغل نازل شدیمن را گرد گرفتند

    اعتراض یہ ہے کہ یمن پر مغلوں کا حملہ کبھی نہیں ہوا، معلوم نہیں یہ کتابت کی غلطی ہے یا واقعی مغل ہے، اگر مغل ہے تو میری رائے ہے کہ اس زمانہ نہ میں ہندوستان میں مغلوں کے اتنے حملے ہوئے کہ ہر جگہ کے حملہ آور کو مغل ہی کہا جانے لگا، اگر یہ غلطی ہے تو محض ایک فردِ گذاشت ہے جس کی بنا پر پوری کتاب رو نہیں کی جاسکتی۔

    اس قسم کی اور فروگذاشتوں کی طرف توجہ دلا کر پروفیسر صاحب رقم طراز ہیں کہ راحت القلوب میں اتنے اور اور وظائف کا ذکر آیا ہے کہ اس کی تدوین کا مقصد ان ہی اوراد

    و وظائف کو نمایاں کرنا تھا لیکن اگر ان کو نمایاں کیا گیا ہے تو یہ اس کے جعلی ہونے کی کوئی دلیل نہیں بن سکتی، پروفیسر صاحب کے نزدیک سیرالاؤلیا بڑی مستند کتاب ہے، اس میں اوراد و وظائف کا ذکر راحت القلوب سے زیادہ ہے، رہروانِ سلوک کی اکثریت ایسی ہے کہ ان کو بزرگانِ دین کی کتابوں میں تاریخی، سیاسی اور معاشرتی معلومات سے زیادہ اوراد و وظائف ہی کی تلاش ہوتی ہے، کیونکہ ان ہی کے ذریعہ سے ان کی روحانی تسکین ہوتی ہے لیکن پروفیسر صاحب اس کو سستے قسم کا صوفیانہ لڑیچر قرار دیتے ہیں۔

    خیرالمجالس کی روایت کے مطابق مذکورۂ بالا ملفوظات کو مشکوک سمجھ کر ان میں غلطیوں کی نشاندہی کرنا ایک حد تک صحیح سمجھا جاسکتا ہے لیکن افضل الفوائد کو بھی فرضی اور جعلی قرار دینا تعجب انگیز ہے، اب تک امیر خسرو پر جنتی کتابیں لکھی گئیں ان میں ان کی تصانیف کا سیر حاصل ذکر ہے لیکن کسی نے ان کی افضل الفوائد کو جعلی اور فرضی قرار نہیں دیا ہے۔

    افضل الفوائد پر بنیادی اعتراض یہ ہے کہ اس کا طرزِ انشا، خزائن الفتوح، اعجاز خسروی اور دواوین کی تمہیدوں سے مختلف ہے لیکن ایک ایسا قادرالکلام شاعر اور نثر نگار جو تمام اساتذۂ فن کی تقلید کرسکتا ہے اور اعجاز خسروی لکھنے کے ساتھ ہندی میں عورتوں کے لئے گیت اور بچوں کے لئے مکرنیاں اور پہیلیاں لکھ سکتا ہے، اس کے لئے افضل الفوئد کی ایسی سلیس عبارت لکھانا کوئی مشکل کام نہیں اور خصوصاً جبکہ ایک کہی ہوئی چیز کو صرف نقل کردینا ہے۔

    امیر اخسرو پر سب سے زیادہ مستند کتاب ڈاکٹر وحید مرزا کی ہے، ان کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ نہ آیا کہ افضل الفوائد ایک جعلی تصنیف ہے بلکہ وہ لکھتے ہیں۔

    یہ کتاب میر حسن کی عظیم تصنیف فوئدالفواد کی بظاہر تقلید میں لکھی گئی، اس لئے یہ کتاب اعجاز خسروی یا خزائن الفتوح سے بالکل مختلف ہے، اس کی زبان بہت ہی سادہ سلیس اور لفظی صنائع کی زینت سے بالکل پاک ہے اور یہ اس زمانہ میں جو فارسی زبان بولی جاتی تھی، اس کا عمدہ نمونہ ہے ( صفحہ 224)

    پروفیسر صاحب موصوف افضل الفوائد کی حسب ذیل تحریروں کو سستے قسم کا صوفیانہ لٹریچر بتا کر جعلی قرار دیتے ہیں۔

    آنگاہ ملائم ایں معنی فرمود کہ ہمانجا در اوراد خواجہ یعنی شیخ الاسلام خواجہ عثمان ہرونی دیدہ ام ہم باستاد ابو ہریرہ کہ او گفت کہ ہر کہ روز یکشنبہ چہار رکعت نماز بگذارد بخواند در ہر رکعتےالحمد یک بار، و آمن الرسول یک بار فرید ایزد تعالیٰ بنویسد در نامۂ اعمال او بعد ہر ترسائی و ترسایہ عبادت یکسالہ را و ثواب ہزار عزا و ثواب ہزار پیغمبراں و ثواب شہیداں را را بدوبد ہندو میاں او و میاں دوزخ چنداں مسافر بود ہزار خندق درمیاں بود پہنائے ہر خندق پانصد سالہ راہ باشد و بکشاید ایزد تعالیٰ بروہشت بہشت را (قلمی نسخہ دارالمصنفین صفحہ 22)

    پروفیسر صاحب کو اعتراض ہے کہ اس قسم کی تحریریں بعد کی کتابوں میں تو بہت ہیں لیکن حضرت نظام الدین اؤلیا اور شیخ نصیرالدین چراغ کے مستند ملفوطات اور ان سے پہلے کے صوفیہ کی کتابوں میں نہ ملیں گی لیکن فوائدالفواد میں سورۂ یٰسین (صفحہ 60) اور صلوٰۃ البروج کی جو فضیلت بتائی گئی ہے وہ شاید پروفیسر صاحب کی نظر سے نہیں گذری، جس طرح سورۂ یٰسین پڑھ کر امام ناصری مرکر اور دفن ہوجانے کے بعد قبر سے باہر زندہ نکل آئے، اس کی تفصیل تو افضل الفوائد کی روایتوں سے زیادہ حیرت انگیز ہے، سیرالاؤلیا کے باب ہفتم میں ادعیہ ماثورہ اور اوراد مقبولہ کی بڑی تفصیلات ہیں، ان میں سے ایک واقعہ یہ بھی ہے۔

    می فرمود جعفر خالدی رحمۃ اللہ علیہ رانگینہ بود روزے در کشتی سوار شد، خواست کہ ملاح را چیزے بدہد چوں جامہ باز کر آں نگینہ در دجلہ افتاد و برود دعائے بود مجرب آں ۔۔۔ می خواند وقتے کتابے را مطالعہ می کرد، درمیان اوراق آں نگینہ یافت دعا ایں است یا جامع الناس، الیوم لا ریب فیہ اجمع علی ضالتی (صفحہ 428)

    افضل الفوائد کے آغاز میں حضرت امیر خسرو کے حلقۂ بیعت میں داخل ہونے کے تفصیل ہے لیکن اس سے پہلے مجلس اول کی تاریخ ذی الحجہ 713ہجری مرقوم ہے، اس سے التباس ہوتا ہے کہ اسی تاریخ میں امیر خسرو بیعت ہوئے، حالانکہ یہ تمہید تعارف ہے، اگر اس تعارف کے بعد مذکورۂ بالا تاریخ لکھی جاتی تو کوئی اعتراض نہ ہوتا لیکن یہی اعتراض راحت القلوب میں کیا گیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرتب روایت کے مطابق مجلس اول کے ملفوظات قلم بند کرنےسے پہل اپنے بیعت ہونے کا ذکر کر دینا ضروری سمجھتے تھے، اس کے بعد یہ اعتراض جاتا رہتا ہے کہ امیر خسرو نے اس مجموعہ میں 713ہجری میں بیعت ہونے کا ذکر کیا ہے، حالانکہ وہ اس سے بہت پہلے حلقۂ ارادت میں داخل ہوچکے تھے۔

    افضل الفوائد کی حسب ذیل دو رواتیں ضرور قابل تنقید ہی، اس کی مجلس 25 میں ہے۔

    ہم دریں محل فرمود کہ از زبان شیخ نجم الدین صغریٰ شنیدہ ام (صفحہ 154 قلمی نسخہ)

    پھر مجلس 26 میں ہے۔

    فرمود چوں حق تعالیٰ خواست کہ حجاج را بہ بلا مبتلا کند آخریں کسے را کہ کشت بر او را بوالسعید بن ابوالخیر بود

    پروفیسر صاحب کا اعتراض ٹھیک ہے کہ شیخ نجم الدین صغریٰ کی وفات شمس الدین التتمیش کے عہد میں ہوگئی تھی لیکن اس سلسلہ کی پوری عبارت پیچدہ قسم کی ہے۔

    دریں محل فرمود کہ از زبان شیخ نجم الدین صغریٰ شنیدہ ام کہ در مثال علی فرمودہ کہ بنشستہ دیدہ ام ذکر الاؤلیا عبادت یعنی ذکر اؤلیا عبادت است و در ذکر ایشاں ثواب عبادۃ درنامۂ بنویسد (صفحہ54)

    کسی اور قلمی نسخہ کا موازانہ کیا جائے تو یہ پیچدہ عمارت کی وضاحت ہوسکتی ہے پھر اعتراض یہ ہے کہ ابو سعید بن ابوالخیر اور حجاج کے زمانہ میں بڑا تفاوت ہے، حجاج کا برادر ابو سعید بن ابوالخیر کا قتل کرنا بعید از قیاس ہے لیکن یہ تاریخی حقیقت ہے کہ حجاج نے سعید بن جبر کو قتل کرایا (تفصیل کے لئے دیکھو تابعین، صفحہ 135 شائع کردہ دارالمصنفین) اس طرح برادر ابو سعید ابوالخیر کا نام محض کتابت کی غلطی ہے، اسی طرح نجم الدین صغریٰ میں بھی کتابت غلطی ہوگئی ہوگی، اسی کے ساتھ یہ بھی غور کرنا چاہیئے کہ ان ناموں میں جو غلطیاں ہیں وہ حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا کے بیان کرنے یا مرتب کے لکھنے یا کاتب کی کتاتب کرنے کی غلطیاں ہیں، ان معمولی فروگذاشتوں سے پوری کتاب کو جعلی قرار دینا محض ظلم ہے، ایسی غلطیاں اچھے اچھے مؤرخوں سے بھی ہوا کی ہیں۔

    پروفیسر صاحب کااعتراض ہے کہ افضل الفوائد میں شیخ معین الدین، شیخ فریدالدین، شیخ بہاؤالدین زکریا کے اوراد پھر انیس الارواح، حضرت شیخ فریدالدین کے بخارا کی سیاحت کا بھی ذکر ہے جو جعلی ملفوظات سے لئے گئے ہیں لیکن جیسا کہ پہلے بھی کہا جاچکا ہے کہ افضل الفوئد کو جعلی مجموعہ نہ سمجھنے والے ان حوالوں کو مزید سند کے طورپر استعمال کرسکتے ہیں کہ راحت القلوب اور اسرارالاؤلیا میں جو کچھ کہا گیا ہے، وہ فرضی نہیں بلکہ اس کی تائید افضل الفوائد سے بھی کی جاسکتی ہے۔

    افضل الفوائد میں پیغمبروں کے جو قصے لکھے گئے یہں ان کے لئے قصص الانبیا کا حوالہ دیاگیا ہے، اعتراض ہے کہ قصص الانبیا بعد کی تصنیف ہے لیکن قصص الانبیا کے نام سے ہر زمانہ میں کتابیں لکھی گئی ہیں، بعد کی قصص الانیبا کی کتابوں سے غلط ملط کرنا صحیح نہیں، حضرت خواجہ سے پہلے وہب بن منبہ (المتوفیٰ 114ہجری) علی بن حمزہ کسانی (المتوفیٰ 189عیسوی ) سہل بن عبداللہ (المتوفی 283ہجری) ابن جوزی (المتوفیٰ 59ہجری) نے اس نام سے کتابیں لکھیں۔

    اعتراض ہے کہ فوائدالفواد میں حلاج منصوری کی جو تصویر ہے وہ افضل الفوائد سے مختلف ہے لیکن میرے نزدیک کچھ زیادہ فرق نہیں، افضل الفوائد میں ہے۔

    ہم دریں محل فرمود کہ وقتے بزرگے بر سر قبر خواجہ منصور حلاج رسید بایستاد و گفت می دانید کہ ایں روضۂ کیست ہمہ اصحاب او گفتنند ندانیم گفت ایں روضہ منصور دیوانہ است کہ ہم در یک جرعہ چناں از دست شد کہ طاقت خود کہ سر را نگاہ دارد و چوں کشف کرد، کشتہ شد بس اے یاران ہمچنین است کہ سربادشاہاں کشف کند سزائے او ایں بود کہ منصور یافت (صفحہ 62 قلمی نسخہ)

    البتہ مقام محبت کے سلسلہ میں منصور کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔

    زہے صادق کہ اول روز بکشند دوم روز بسوزند، سوم روز در آبِ رواں اندازند آنگاہ مناسب حال ایں رباعی برزباں راند

    آں روز مباد کز و بیزار شوم

    با دیگرے دریں جہاں بار شوم

    گر بر سرکوئے تو مرا دارکند

    من رقص کناں بر سراآں دارم شوم

    افضل الفوائد کی اس روایت میں جو کیفیت ہے وہ فوائدالفواد سے مختلف نہیں، فوائدالفواد (صفحہ 254) میں ہے۔

    بندہ عرضداشت کرد کہ سیدی احمدی چگونہ کسے بود فرمود بزرگ کسے بود از عرب است و رسم عرب آنست کہ چوں کسے را بہ بزرگی یاد کنند سیدی گویند فرمود کہ در عہد شیخ حسین منصور حلاج بود رحمۃ اللہ علیہما، در انچہ حسین منصوربسو ختند و خاکستر او را در آب دجلہ رواں کردند، سید احمد قدرے ازاں آب کہ درد خاکستر بود، بہ تبرک برداشت و بخورد و آں ہمہ برکتہا از آنجا بود

    اس عبارت میں منصور حلاج کے نام کے ساتھ رحمۃ اللہ علیہما بھی ہے پھر یہ کہ حضرت خواجہ ان کی خاکستر کو باعث باکت بھی سمجھتے تھے جس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت خواجہ کے نزیدک وہ مبغوض اور مردود نہ تھے، جیسا کہ پروفیسر صاحب نے اپنے اعتراض میں ظاہر کیا ہے۔

    یہ صحیح ہے کہ مولانا محی الدین کاشانی سے حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا نے خلافت نامہ اس لئے واپس لے لیا کہ انہوں نے اودھ کے قاضی کا عہدہ قبول کرے کا ارادہ ظاہر کیا، لیکن اس قاضی کے منصب کی اہمیت کم نہیں ہوتی اور حضرت خواجہ کی زبانی افضل الفوائد میں جو حسب ذیل ملفوظ ہے، اس میں کوئی نقص پیدا نہیں ہوتا۔

    سخن در قاضیاں افتادہ بود، برلفظ مبارک راند کہ قاجی و قضا نیکو چیزے است اگر کرون بداند و حق آں کند و بجا آرد کہ آں قائم مقام حضرت رسالت صلی اللہ علیہ وسلم (صفحہ 3)

    مفتاح العاشقین پر اعتراض ہے کہ اس کی روایتیں فوائدالفوائد اور خیرالمجالس سے مسروقہ ہیں، گو اسی کے ساتھ یہ متضاد بات بھی لکھی گئی ہے کہ اس کے مرتب نے ان دونوں کتابوں کا مطالعہ نہیں کیا گویا پڑھا بھی ہے اور نہیں بھی پڑھا ہے۔

    ایک ہی بزرگ کی روایت ان کے ملفوظات کے دو مجموعوں میں ہونا بعید از قیاس نہیں، ممکن ہے کہ یہ دو موقعوں پر کہی گئی ہو جو دو مختلف مرتبوں نے علٰحدہ قلم بند کرلی ہو، پھر کسی روایت کا کسی دوسری کتاب میں دہرایا جانا سرقہ کی دلیل نہیں، خیرالمجالس میں بہت سی ایسی روایتیں ہیں جو فوائدالفواد سے لی گئی ہیں مثلاً خیرالمجالس میں شیخ ابو اسعید ابوالخیر اور ان کی صاحب جمال لڑکی (صفحہ84) یا شیخ جلال الدین تبریزی اور قاضی جمال الدین جعفری (211) یا شیخ نجم الدین کبریٰ سے حضرت شیخ سیف الدین باخرزی کی ارادت (صفحہ 180-18) کی جو رواتیں بیان گی گئی ہیں، وہ فوائدالفواد (صفحہ 18،212،256) میں بھی ہیں، صرف اجمال یا تفصیل یا تھوڑے الفاظ کے رود بدل کا فرق ہے۔

    پروفیسر خلیق حمد نظامی نے خیرالمجالس کے انگریزی دیباچہ (صفحہ 11) میں جوامع الکلم کی ایسی روایتوں کی ایک لمبی فہرست دی ہے جو خیرالمجالس میں ہیں، کیا یہ تو اردو تکرار خیرالمجالس اور جوامع الکلم کے جعلی اور فرجی ہونے کی دلیل بن سکتی ہے؟

    مفتاح العاشقین کے جعلی ہونے کی یہ بھی دلیل پیش کی گئی ہے کہ اس میں شیخ معین الدین اجمیری اور شیخ عثمان ہارونی کے رسائل انیس الارواح اور دلیل العارفین جیسی جعلی کتابوں کے حوالے ہیں لیکن جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ یہ دلیل تشفی بخش نہیں، کیونکہ ان ملفوظات میں ان کے حوالے کی موجودگی کی بنا پر خیرل المجالس میں حمید قلندر کی روایت کے مشکوک ہونے کی دلیل میں پیش کی جاسکتی ہے۔

    اباحت سجدہ کے متعلق فوائدالفواد (صفحہ 159) پر یہ روایت ہے۔

    ماضی کی امتوں میں سجدہ مستحب تھا، اسی لئے رعیت بادشاہ کو شاگرد استاد کو اور امت پیغمبر کو سجدہ کرتی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں سجدہ روک دیا گیا، اس لئے اس کا استحباب بھی ختم ہوگیا لیکن اس کی اباحت باقی رہی، اگر مستحب نہیں ہے تو مباح ہے جو چیز مباح ہے، اس پر نفی عائد نہیں ہوتی ہے، اس کی ممانعت کہاں سے آتی

    مفتاح العاشقین میں یہ روایت ہے۔

    اعتقاد سجدہ کے بیان کے سلسلہ میں فرمایا کہ حق سبحانہ تعالیٰ کے سوا سجدہ غیر کے لئے روا نہیں ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو غیر حق تعالیٰ کو سجدہ کرتا ہے کافر ہے، نعوذ باللہ منہا لیکن پہلی امتوں میں سجدہ مستحب تھا، ماں، باپ استاد، پیر اور سلاطین کو لوگ سجدہ کرتے تھے لیکن حضرت رسالتِ پناہ کا زمانہ آیا تو سجدہ کا استحاب ختم ہوگیا، یہ مباح ہوگیا جیسا کہ ایّام بیض کا روزہ پہلے فرض تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ فرض نہیں رہا، مستحب ہو گیا اور جب سجدہ کا استحاب جاتا رہا تو یہ مباح ہوگیا اس سجدہ سے کوئی کافر نہیں ہوتا ہے (صفحہ 4)

    ان روایتوں میں کوئی ایسا اختلاف نہیں جس کی بنا پر مفتاح العاشقین سے سو ظن پیدا کیا جائے، یہ اور بات ہے کہ علمائے ظاہر فوائدالفواد اور مفتاح العاشقین دونوں کی روایتوں کو تنقید سے بالا تر نہ سمجھیں گے۔

    مفتاح العاشقین کے جعلی ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس میں خواجہ قطب الدین اور خواجہ معین الدین کی غزلوں کا ذکر ہے، گو مفتاح العاشقین میں حضرت بختیار کاکی کی جو غزل نقل کی گئی ہے وہ ان کے نول کشور کے مطبوعہ نسخہ میں نہیں ہے لیکن یہ تو تسلیم کرنے میں کوئی عذر نہیں کہ حضرت خواجہ قطب الدین اور خواجہ معین الدین کے اسمائے گرامی سے جو دیوان منسوب ہیں وہ جعلی ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ تسلیم کرنا بھی ضروری نہیں کہ انہوں نے کوئی شعر یا غزل نہیں کہی، حضرت بدرالدین غزنوی اور حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا بھی کبھی کبھی شعر کہہ لیا کرتے تھے، (فوائد الفواد، ص 156-150) حضرت خواجہ جمال الدین ہانسوی نے بھی کچھ غزلیں کہی تھیں، حضرت بابا فرید گنج شکر کی طرف بھی کچھ فارسی، عربی اور پنجابی اشعار منسوب ہیں۔ (دی لائف اینڈ ٹائمس آف شیخ فریدالدین گنج شکر از پروفیسر خلیق احمد نظامی صفحہ 84،85،86)

    اس طرح اگر خواجہ قطب الدین اور خواجہ معین الدین چشتی نے بھی کچھ اشعار کہہ دیے تو کوئی تعجب کی بات نہیں، حضرت خواجہ معین الدین نے حضرت علی ہجویری کے مزار پر چلہ کرنے کے بعد جو شعر کہا وہ آج تک مشہور ہے، مفتاح العاشقین میں ان کی غزلوں کے جو حوالے آئے ہیں، ان سے مجموعہ کے فرضی سمجھنے کے بجائے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ حضرت خواجہ نصیرالدین کے عہد میں بھی ایسی غزلوں کی عام شہرت ہوگئی تھی جو بزرگان چشت کے نام سے منسوب ہو گئی تھیں آج بھی سماع کی محفلوں میں حضرت خواجہ عثمان ہارونی یا ہروانی کی ایک غزل گائی جاتی ہے اور لوگوں کو یقین ہوتا ہے کہ یہ غزل الٰہی کی ہے، کوئی یہ کہہ کر اس کو گانے سےروک نہیں دیتا کہ یہ غزل ان کی نہیں ہے، جہاں تک میری معلومات ہیں شاید کسی نے اب تک حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے مطبوعہ نسخہ (نول کشور پریس) پر اب تک ناقدانہ نظر نہیں ڈالی ہے لیکن پروفیسر محمود شیرانی اور پروفیسر محمد ابراہیم ڈار نے یہ بتایا ہے کہ دیوانِ خواجہ معین مطبوعہ نول کشور پریس کی اکثر غزلیں مولانا معین الدین بن مولانا شرف الدین حاجی محمد الفراہی کی تصانیف معار النبوت اور تفسیر فاتحہ میں پائی جاتی ہیں لیکن نول کشور پریس میں دیوان 1288ہجری مطابق 1871عیسوی میں چھپا، اس سے پہلے خواجہ صاحب کی شاعری کے نمونے تذکرہ حسینی (1136) مخزن الغرائب 1218 اور مجمع الفصا میں پائے جاتے ہیں جو اس کا ثبوت ہے کہ حضرت خواجہ کے بارے میں عام شہرت تھی کہ وہ شاعر بھی تھے اور اسی شہر کی بنا پر ان کے نام سے ایک دیوان بھی منسوب ہوگیا۔

    یہ اگر فرض کر لیا جائے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی اور حضرت فریدالدین گنج شکر نے اپنے اپنے پیروں کے ملفوظات مرتب نہیں کئے بلکہ جو ان کے نام سے منسوب ہیں وہ فرضی ہیں تو سوال یہ پید ہوتا ہے کہ ان بزرگوں کے یہاں اپنے مرشدوں کے ملفوظات کو ترتیب دینے کی سنت اور روایت نہ تھی تو آخر خواجہ نظام الدین اؤلیا نے فوائدالفواد اور حضرت خواجہ نصیرالدین چراغ دہلوی نے خیرالمجالس مرتب کرانے کی بد عت کیوں جاری کی، گر یہ بدعت حسنہ ہی سہی وہ تو اپنے خواجگان کے مسلک کے اتنے بند تھے کہ سیرالاؤلیا کی روایت کے مطابق حضرت فریدالدین نے زیارتِ خانۂ کعبہ اس لئے نہیں کی کہ ان کے پیر نے نہیں کی تھی، اسی طرح وہ جاگیریں بھی قبول نہیں کرتے تھے اور سلاطین کے درباروں میں بھی نہیں جاتے تھے کہ یہ ان کے خواجگان کی رسم نہی تھی تو آخر جب ملفوظات مرتب کرانے کی بھی رسم نہیں تھی تو خواجہ نظام الدین اؤلیا کے زمانے سے یہ رسم کیوں قائم کی گئی۔

    اگر یہ بدعتِ حسنہ نہ تھی تو پھر انیس الارواح، دلیل العارفین، فوائدالسالکین اور راحت القلوب کے بیانات کے علاوہ افضل الفوائد، مفتاح العاشقین اور سیرالاؤلیا میں ملفوظات قلم بند ہونے کی جو متواتر روایتیں ہیں، وہ لائق توجہ ہیں، ان کی خامیوں کے باوجود ان کے بین السطور میں جو کہیں کہیں کیفیت اور تاثیر ہے اور ان کے پڑھنے سے بعض اوقات جو ذہنی آسودگی اور روحانی تسلّی ہوتی ہے اور پھر ان میں اکثر جگہوں پر سلوک و معرفت کی جو باریکیاں او موشگافیاں ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے ترتیب دینے والے ادنیٰ درجہ کے مجاور نہیں ہوسکتے اور یہ بھی باور کرنے کو جی نہیں چاہتا کہ جعلی اور فرضی مجموعۂ ملفوظات کو ترتیب دینے کی ایک مسلسل مہم جاری ہوئی جو ایک عرصۂ دراز تک قائم رہی۔

    اور اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ بزرگانِ چشت نے خود ان مجموعوں کو مرتب نہیں کیا تو یہ ماننے میں کوئی عذر نہ ہونا چاہئے کہی یہ مجموعے قدیم العہد ضرور ہیں، جن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، ان کے گہرے مطالعہ کے بعد اس رائے سے کسی کو اختلاف نہ ہوگا کہ ان مین تصوف کی بنیادی تعلیمات وہی ہیں جو فوائدالفواد اور خیرالمجالس جیسی مستند اور معتبر کتابوں میں ہیں اور ان کے معترضین کو بھی اعتراض ہے کہ مجموعہ فوائدالفواد اور خیرالمجالس کی اکثر و بیشتر روایتوں کے سہارے تیار ہوئے لیکن ان کی بعض باتوں کو محض اس لئے رد کردینا کہ وہ ان دونوں کتابوں میں نہیں ہیں، ضرورت سے زیادہ تحقیقی سرگرمیوں کا اظہار کرنا ہے، یہ عجیب بات ہے کہ ہندوستان کے بعض فرقوں کے اہل قلم فرضی ماخذ بنا کر اپنی تاریخ اور ماضی کو سنوار رہے ہیں اور ہمارے پاس جو سرمایہ موجود ہے ہم اس کو خود ہی فرضی قرار دیتے رہے ہیں، اس طوریل خامہ فرسائی کا مقصد یہ ہے کہ یہ ملفوظات اب تک نہایت لا پروائی سے چھپتے رہے لیکن اگر ان کو محنت سے ایڈٹ کیا جائے اور ان میں سنین اور اسماء کی جو غلطیاں ہیں ان کی نشاندہی ہمدردانہ طور پر کر کے درست کر دی جائیں تو یہ قدیم العہد ماخذ کے طورپر احتیاط سے استعمال کئے جاسکتے ہیں، جیسا کہ عہد ماضی میں بھی اہلِ قلم کرتے رہے ہیں، مثلاً شیخ عبدالحق محدث دہلوی کو بھی ان ملفوظات کے معتبر ہونے میں کچھ شک تھا اور انہوں نے حضرت نصیرالدین چراغ دہلوی کے اس قول کو بھی نقل کیا ہے جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ

    شیخ نظام الدین می فرمود کہ من ہیچ کتابے نہ بنشتہ ام زیرا کہ شیخ الاسلام فریدالدین و شیخ الاسلام قطب الدین و از خواجگان چشت ہیچ شخصے تصنیف نہ کردہ است (اخبار الاخیار، صفحہ 76)

    لیکن اس شبقہ کے باوجود وہ ملفوظاتِ خواجگان کو ماخذ کے طور پر برابر استعمال کرتے رہے، کیونکہ ان کے حوالے وہ بار بار دیتے ہیں، حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے ذکر میں ہے۔

    در دلیل العارفین کہ خواجہ بختیار اوشی از ملفوظات خواجہ قدس سرہٗ جمع کردہ مذکور است (صفحہ22)

    پھر حضرت بختیار کاکی کا ذکر کرتے ہوے لکھتے ہیں۔

    در دلیل العافین می نویسد۔۔۔(صفحہ 25)

    حضرت فریدالدین گنج شکر کے ذکر میں ہے۔

    بعضے از ملفوظات گنج شکر کہ بخط شیخ نظام الدین اؤلیا فوائدالفوائد مکتوب می گردد (صفحہ 52)

    اور اگر محض شکوک و شبہات کی بنا پر ان ملفوظات کو جعلی سمجھ کر ان کو بالکل ہی رد کر دینے پر اصرار بڑھا تو ہم ایک ایسے قابل قدر علمی سرمایہ سے محروم ہوجائیں گے جس سے صدیوں تک نہ صرف عوام و خواص بلکہ اہلِ علم اور تذکرہ نگار بھی استفادہ کرتے آئے ہیں اور اسی کے ساتھ روحانیت اور تصوف کے منکروں کو موقع فراہم کریں گے کہ وہ اپنی کوتاہ نظری، عیب جوئی، خردہ گیری اور بدعقیدگی سے کام لے کر فوائدالفواد اور خیرالمجالس وغیرہ پر بھی نکتہ چینی کر کے ان سے سو ظن پیدا کرا دیں لیکن ظاہر ہے کہ یہ کتابیں ان کے لئے نہیں ہیں جو خرد نےمجھ کو عطا کی ہے نظرِ حکیمانہ کے معترف ہیں بلکہ ان کے لئے ہیں جو سکھائی عشق نے مجھ کو حدیثِ رندانہ کے قائل ہیں اور فرزانہ بن کر مقامِ شوق میں کھو گئے ہیں۔

    مأخذ :
    • کتاب : Monthly Ma'arif

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے