بہار میں خانقاہوں کا سلسلہ
دلچسپ معلومات
ماہنامہ افکار ملی، دہلی کی خصوصی پیش کش۔
سر زمین بہار اپنی مردم خیزی اور اپنے علمی و دینی کاموں کی وجہ سے ہمیشہ ممتاز رہی ہے، خصوصاً اہل دل صوفیائے کرام اور درویش صفت، شیوخ طریقت کے روشن نشانات اس ریاست کے چپہ چپہ پر نمایاں ہیں، بقول مولانا مناظر احسن گیلانی
’’بہار کی آب و ہوا میں اخلاقی تزکیہ یا دل و دماغ کو جہل و جوانی کی گندگی سے پاک و صاف کرنے کی قدرتی خاصیت، قدرت کی طرف سے بخشی گئی ہے”
اس قول پر بہار کی تاریخِ صوفیہ پر مہر تصدیق لگاتی ہے، واقعہ یہ ہے کہ اس خاک سے بڑے بڑے صوفیائے کرام اور اہل اللہ پیدا ہوئے جن کے علم و معرفت کی روشنی سے بہار کی سر زمین منور ہوئی، اخلاقی تزکیہ، علم و معرفت، خدمت و محبت اور روحانیت کا خصوصی گہوارہ رہی ہے، اسی خطہ پر فردوسی بزرگوں کے سب سے زیادہ اثرات پڑے ہیں اور دوسرے سلاسل کے بزرگو ں نے بھی اپنے سلسلہ اور دینی و روحانی مقصد کی اشاعت میں نمایاں حصہ لیا ہے، اس طرح مختلف خانوادوں اور خانقاہوں نے اس سر زمین میں دین کی ترویج و اشاعت کا کام انجام دیا ہے، یوں تو بہار میں چھوٹی بڑی بہت سی خانقاہیں اور صوفی خانوادے ہیں لیکن چند خانقاہیں اپنے کام کی وسعت اور عوام و خواص میں مقبولیت کے باعث خاص طور پر معروف و مشہور ہیں۔
خصوصاً حضرت مخدوم الملک کی جائے پیدائش منیر شریف، خانقاہ مخدوم جہاں بہار شریف، حضرت تاج العارفین شاہ محمد مجیب اللہ قادری کی خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف، خانقاہ رحمانیہ مونگیر، گیا ضلع میں حضرت مخدوم برہان الدین اور حضرت کمال علی کمال کی خانقاہ برہانیہ کمالیہ فردوسیہ، حضرت دیورہ اور خانقاہ برہانیہ کی شاخ خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ، سملہ پاک، قابل ذکر ہیں۔
خانقاہ منیر شریف : منیر پٹنہ سے بیس میل مغرب میں ایک تاریخی قصبہ ہے جو شروع ہی سے علمی و دینی اور روحانی مرکز کی حیثیت سے مشہور رہا ہے، مشہور بزرگ حضرت امام تاج فقیہ کی سرکردگی میں صوفیوں کی قدیم منیر شریف میں آیا، حضرت صوفی منیری نے حضرت امام تاج فقیہ کے حالات زندگی میں لکھا ہے کہ
’’منیر کا راجہ بہت ظالم اور سرکش تھا، حضرت امام تاج فقیہ شہر بیت المقدس کے محلہ قدس خلیل میں رہتے تھے، ایک دن حضرت رسول اللہ کو خواب میں دیکھا اور آپ کو فرمان حق صادر ہوا، صبح کو آپ نے ارادہ سفر کا اعلان فرمایا اور بہت سے لوگوں کے ساتھ ہندوستان کا رخ کیا، جب قافلہ سرحد ہندوستان پر آیا تو وہاں سے اعلان حق کرتا ہوا منیر شریف تک پہنچا، منیر کا راجہ اپنے اہل و عیال کو لے کر کہیں فرار ہوگیا اس طرح منیر فتح ہوگیا، آپ کے تین صاحبزادے شیخ اسرائیل، شیخ اسمٰعیل اور شیخ عبدالعزیز ساتھ تھے، حضرت امام محمد تاج فقیہ کا دل اس دیار میں نہیں لگا، فتح کے بعد اپنے صاحبزادوں کو اپنی جگہ چھوڑ کر وطن واپس تشریف لے گئے، حضرت شیخ اسرائیل امام تاج فقیہ کے بڑے بیٹے تھے جن کے صاحبزادے حضرت مخدوم شیخ یحییٰ منیری ہیں، آپ کی شادی عظیم آباد کے قدیم بزرگ حضرت قاضی شہاب الدین پیر جگجوت کی بڑی صاحبزادی رضیہ سے ہوئی جو خود ولیۂ کاملہ تھیں، آپ کے بطن سے حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری پیدا ہوئے، حضرت امام تاج فقیہ کے چھوٹے صاحبزادے شیخ عبدالعزیز تھے، آپ ہی کے صاحبزادے مشہور بزرگ مخدوم جلال منیری ہیں‘‘
منیر شریف کا یہ صوفی خانوادہ حضرت امام محمد تاج فقیہ کے تینوں صاحبزادوں کی اولاد پر مشتمل ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کے اخلاص اور نیت کی برکت سے رشد و ہدایت اور اشاعت حق کا وہ کام ان سے لیا کہ آج بہار کا ہر گوشہ در حقیقت ان ہی کی پھیلائی ہوئی روشنی سے روشن ہے۔
خانقاہ معظم : بہار شریف میں آٹھویں صدی ہجری کی ایک عظیم اور نامور شخصیت حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری کی ذات والا صفات بھی ہے جن کا بچپن اور شباب مروجہ علوم کے حصول اور علوم دینیہ کی تکمیل میں گذرا پھر روحانی علوم کی تکمیل اور تلاش شیخ میں آپ دہلی پہنچے، وہاں حضرت شیخ نجیب الدین فردوسی کے در دولت پر حاضر ہوئے، شیخ کی ایک نگاہ نے سلوک کی وہ ساری منزلیں طے کر دیں جن کی آپ کو ضرورت تھی پھر بیعت اور داخل سلسلہ کے بعد اجازت دے کر خواجہ شیخ نجیب الدین فردوسی نے رخصت کیا، وطن واپسی میں جب آپ ”بہیا “ کے جنگل میں پہنچے تو قیام کیا، بقول مولانا مناظر احسن گیلانی
”بہار کی آب و ہوا میں اخلاقی تزکیہ یا دل و دماغ کو جہل و نادانی کی گندگی سے پاک و صاف کرنے کی قدرتی خاصیت، قدرت کی طرف سے بخشی گئی ہے“
اس قول پر بہار کی تاریخِ صوفیہ مہر تصدیق لگاتی ہے۔
بہار شریف میں آپ کی خانقاہ، ارشاد و تربیت کا بہت بڑا مرکز تھی، جہاں آپ تشریف فرما رہے وہاں آپ کی زبان مبارک سے علوم و حقائق کے دریا بہتے، اس طرح آپ کی مجلسیں علوم دینی و معارف روحانی کی منبع ہوتیں، جہاں ہر شاہ و گدا، ہر عالم و عامی اپنے اپنے ظرف کے مطابق فیضیاب ہوتا، جسے گذرے تو مناظر قدرے سے ایسے سر شار ہوئے کہ صبر و ضبط کا یارانہ رہا، گریباں چاک کر، جنگل کی راہ لی اور روپوش ہوگئے، جنگل میں بارہ برس کا عرصہ، ریاضت و مجاہدات، خلوت و مراقبہ، عشق الٰہی کی حرارت اور بے خودی و سرمستی میں گذرا، جب سکون ہوا تو روحانیت کی تکمیل کے بعد خلق خدا کی ہدایت کی طرف متوجہ ہوئے اور اس عظیم مقصد کے لیے بہار شریف تشریف فرما ہوئے، تقریباً نصف صدی سے زیادہ کا زمانہ خلق خدا کی رشد و ہدایت اور طالبان حق کی تعلیم و تربیت میں گذرا، اس عرصہ میں لاکھوں انسانوں کے دلوں کو بدلا، سیکڑوں علما اور عارفین واصل بحق ہوئے اور جانے کتنے فقیروں اور جوگیوں نے آپ کی صحبت قبول کی، مخدوم جہاں کی تصنیفات و ملفوظات جو علوم و معارف دینی و دنیاوی کے معدن و مخزن ہیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے، ان میں مکتوبات صدی، سہ صدی، معدن المعانی، مخ المعانی، راحت القلوب، خوان پر نعمت بہت مشہور ہیں، ان میں سب سے زیادہ مقبولیت اور شہرت مکتوبات صدی کو حاصل ہوئی جو مخدوم جہاں کی زندہ یادگار اور ان کے علوم و کمالات کا آئینہ ہے اور بقول مولانا ابوالحسن علی ندوی
’’مکاتیب کا یہ نادر مجموعہ جو نہ صرف اس عصر کی تصنیفات میں بلکہ معارف و حقائق کے پورے اس اسلامی ذخیرے میں خاص امتیاز رکھتا ہے، علم کی گہرائی، تحقیقات کی ندرت مشکلات کی عقدہ کشائی، ذاتی تجربات اور اذواق صحیح، مجتہدانہ علم و نظر، کتاب و سنت کے صحیح و عمیق فہم، مقام نبوت کی حرمت و عظمت کے بیان، شریعت کی حمایت اور وجد انگیز نکات اور شرعی لطائف کے اعتبار سے ہمارے محدود علم میں پورے اسلامی کتب خانہ میں، حضرت مخدوم کے مکاتیب کی نظیر نہیں ملتی”
علوم و معارف دینی کے علاوہ یہ مکاتیب، زور قلم، قوت بیان اورحسن انشا کا بھی اعلیٰ نمونہ ہیں، مخدوم جہاں نے جہاں مسند رشد و ہدایت سے لاکھوں انسانو ں کے دلوں میں عشق الٰہی کی حرارت اور آخرت کی طلب پیدا کی وہیں اپنے ملفوظات و مکتوبات کے ذریعہ حفاظت دین اور حمایت شریعت کا فریضہ بھی انجام دیا، یہ ان کا ایک ایسا اصلاحی و تجدیدی کارنامہ ہے وہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔
حضرت مخدوم جہاں کے وصال کے بعد مسند سجادگی پر حضرت مولانا مظفر بلخی جلوہ افروز ہوئے جنہیں مخدوم الملک سے نسبی لگاؤ نہ تھا، ان کے بعد چھ مشائخ سلسلہ دار خاندان بلخیہ ہی سے خانقاہ مخدوم جہاں کے سجادہ ہوتے رہے، تقریباً 130 سال کے بعد حضرت مخدوم شیخ حافظ درویشی بلخی فردوسی از راہ محبت و احترام برضا و رغبت خاندان شرف کے ایک گوہر تاباں حضرت مخدوم شاہ محمد بھیکھ کو مسند سجادگی پر بٹھا کر خود علیحدہ ہوگئے، اس وقت سے آج تک خانقاہ مخدوم جہاں کی سجادگی ان ہی کے خاندان میں چلی آرہی ہے اور آج بھی مخدوم جہاں کی یہ خانقاہ معظم مرجع خلائق ہے۔
خانقاہ مجیبیہ : پھلواری شریف ایک مردم خیز خطہ ہے جس میں علما و صوفیا اور ادبا و شعرا ہر دور میں پیدا ہوتے رہے، اپنے علمی و عرفانی اور روحانی خصوصیتوں کے لحاظ سے بہار کے اس قصبہ کی تاریخ بہت پرانی ہے، جس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں، سب سے پہلے حضرت مخدوم منہاج الدین راستی کی اس قصبہ پھلواری میں تشریف آوری ہوئی جو حضرت مخدوم جہاں کے مرید و خلیفہ تھے جن سے اس قصبہ میں کفر و ضلالت کی تاریکی چھٹی اور حق کی روشنی پھیلی، آپ کے بعد دوسرا خاندان حضرت امیر عطاؤاللہ زینبی جعفری کا پھلواری میں آباد ہوا، حضرت امیر عطاؤاللہ کی اولاد و الحاد کافی پھیلی اور ان میں بڑے بڑے اہل علم اور اہل اللہ پیدا ہوئے، حضرت تاج العارفین شاہ محمد مجیب اللہ قادری کو آپ ہی سے نسبی اور روحانی نسبتیں حاصل ہیں، آپ نے اپنے پھوپھی زاد بھائی حضرت عمادالدین قلندر سے تعلیم و تربیت پائی اور پھر آپ کے دست حق پرست پر سلسلہ قادریہ میں بیعت کی، حضرت قلندر نے آپ کو اپنی طرف سے جمیع سلاسل کی اجازت و خلافت دے کر ارشاد و ہدایت خلق کے لیے مامور فرمایا، حضرت عمادالدین قلندر کے وصال کے بعد آپ نے اپنے وطن پھلواری شریف میں مستقل سکونت اختیار فرمائی اور رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری ہوا۔
حضرت تاج العارفین مخدوم شاہ محمد مجیب اللہ قادری کی خانقاہ سے روحانی فیوض و برکات، دور حاضر میں فیاض المسلمین حضرت مولانا شاہ بدرالدین قادری کی ذات والا صفات کے ذریعہ پھیلی اور آپ اس خانقاہ کے روح رواں ہوئے، آپ نے ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے والد ماجد حضرت مولانا شاہ شرف الدین اور اپنے پیر و مرشد مولانا شاہ محمد علی حبیب نصرؔ سے حاصل کی، تکمیل طریقت کے بعد اپنے شیخ کی طرف سے جمیع سلاسل مجیبیہ و جنیدیہ کی اجازت و خلافت سے فیضیاب ہوئے، آپ کی ذات مبارک سے بیک وقت خانقاہ جنیدیہ اور خانقاہ مجیبیہ دونوں کی سجادگی وابستہ ہوگئی اور دونوں چشمے ایک سوت سے پھوٹے، آپ کو رشد و ہدایت کے ساتھ امت کی اجتماعیت اور دینی اصلاح سے بھی بے حد دلچسپی تھی، چنانچہ جب علمائے صوبہ بہار و اڑیسہ کے ذریعہ امارت شرعیہ اور دینی تنظیم کا قیام عمل میں آیا تو باتفاق آرا علمائے کرام نے آپ کو امیر شریعت بہار و اڑیسہ منتخب ہوئے۔
خانقاہ برہانیہ کمالیہ : گیا ضلع میں شہر گیا سے تقریباً 25 میل شمال و مغرب میں ایک بہت ہی قدیم بستی ”حضرت دیورہ “ کے نام سے موسوم ہے جہاں حضرت مخدوم شاہ برہان الدین عرف خوند میاں مدفون ہیں، ان کی اولاد دیورہ کے علاوہ سملہ، مکارم چک اور پیر بیگہہ میں بھی آباد ہے، یہ عثمانی خانوادہ ہے جس کا سلسلہ نسب حضرت مخدوم برہان الدین سے ساتویں پشت میں حضرت خواجہ محمد جلال الدین کبیر الاؤلیا پانی پتی سے ملتا ہے، اس خانوادہ کو اجازت و خلافت یوں تو تقریباً تمام ہی مشہور سلاسل صوفیہ سے حاصل ہے لیکن خصوصی روحانی نسبت، سلسلہ الذہب، سلسلہ فردوسیہ سہروردیہ سے ہے اورحضرت مخدوم شاہ برہان الدین دیوردی سے چھٹی روحانی نسبت حضرت مخدوم جہاں تک پہنچتی ہے، حضرت مخدوم شاہ برہان الدین عرف خوند میاں دیوروی اپنے وقت کے ولیٔ کامل اور صوفی با صفا تھے، آپ علوم ظاہری و باطنی کے منبع اور مخزن تھے، آپ کی ذات والا صفات اس پورے علاقہ کے لیے آفتاب رشد و ہدایت تھی، آپ کے بعد آپ کے نسبی اور روحانی سلسلہ نے ایمان و یقین اور رشد و ہدایت کایہ چراغ روشن رکھا، علم و یقین کی یہ روشنی پھیلتی رہی اور فیوض و برکات کے ساتھ اصلاح امت اور اشاعت اسلام کا سلسلہ جاری رہا، اسی خاندان برہانیہ سے حضرت شاہ غلام علی دیوروی کے نواسہ حضرت شاہ کمال علی کمال دیوروی جیسے با کمال عالم، شاعر، درویش اور صوفی پیدا ہوئے آپ کو اپنے نانا حضرت شاہ غلام علی دیوروی سے بیعت کا شرف اور تعلیم و تربیت حاصل تھی، آپ اپنے زمانہ کے ولیٔ کامل اور مشہور و معروف بزرگ تھے، آپ کی ذات بابرکت سے بے شمار علمی و روحانی فیوض و برکات جاری ہوئے، آپ کے اسی فیضان روحانی کے باعث خانقاہ برہانیہ کے ساتھ کمالیہ کا اضافہ ہوا، اس عہد جدید میں حضرت مولانا شاہ احمد کبیر ابوالحسن شہید خانقاہ برہانیہ کمالیہ کے سجادہ نشیں ہوئے، یہ اپنے وقت کے باکمال ولی، 1857ء کے بعد جب ہندوستان انگیریزوں کے تسلط میں آگیا تو خانقاہ برہانیہ کمالیہ کے حضرت ابوالحسن شہید پہلے بزرگ تھے جنہوں نے بیعت طریقت میں حق کو جاری کیا اور اپنے مریدین و متوسلین کو اہل حق علمائے دین کے ساتھ مل کر آزادی کی کوششوں میں عملاً حصہ لینے کی تلقین کی، آپ کے بعد اس خانقاہ کے تمام ہی سجادگان اپنے بزرگوں کی اسی روش پر عامل رہے۔
خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ : ضلع اورنگ آباد میں ایک چھوٹی سی قدیم بستی سملہ کے نام سے موسوم ہے، یہاں ایک قدیم عثمانی خانوادہ آباد ہے، اس خانوادہ میں شروع ہی سے علما، صوفیا اور اہلِ دل بزرگ پیدا ہوتے رہے ہیں، حضرت مخدوم برہان الدین عرف خوند میاں دیوروی کی اولاد دیورہ سے سملہ آکر آباد ہوئی، یہ تمام بزرگ عام طور پر خلوت نشیں اور اہل دل رہے ہیں، عبادت و ریاضت، ذکر و اشغال اور خموش رشد و ہدایت میں پوری زندگی مشغول رہے، معروف خانقاہی مراسم کی کوئی پابندی نہیں رہی لیکن رشد و ہدایت کا خاموش سلسلہ دور دور تک پھیلاتے رہے یہی وجہ ہے کہ حضرت شاہ کمال علی کمال کے وصال کے بعد خانقاہ برہانیہ کے متوسلین نے حضرت مولانا شاہ غلام امام فردوسی سملوی کو سجادہ نشیں بنانا چاہا تو آپ نے سجادگی سے انکار فرمایا اور سملہ کی درویشانہ خلوت نشینی کو ترجیح دی اور حضرت مولانا شاہ انور علی کو مرید کر کے خرقہ و خلافت عطا کی اور خانقاہ برہانیہ کمالیہ کی سجادگی عطا فرمائی اور حضرت مولانا شاہ انور علی نے اپنے زمانہ حیات ہی میں حضرت قطب العصر مولانا شاہ محمد علی فردوسی سملوی (ابن شاہ غلام امام فردوسی سملوی) کے چھوٹے صاحبزادے حضرت مولانا شاہ احمد کبیر ابوالحسن شہید فردوسی سملوی (معروف بہ حضرت اعلیٰ) کو سملہ سے لے جا کر اپنا جانشیں مقرر فرما دیا تھا، اس طرح حضرت شہید بیک وقت سملہ میں اپنے جد امجد حضرت مولانا شاہ غلام امام فردوسی اور والد ماجد قطب العصر حضرت مولانا شاہ محمد علی فردوسی سملوی کے خلیفہ و مجاز اورحضرت دیورہ میں خانقاہ برہانیہ کمالیہ کے سجادہ نشیں ہوئے، اخیر عمر میں آپ نے اپنے منجھلے صاحبزادے حضرت شاہ فدا حسین فردوسی کو خانقاہ برہانیہ کمالیہ دیورہ کا سجادہ نشیں مقرر فرما دیا اور خود دیورہ سے اپنے آبائی مکان سملہ میں اپنے بڑے صاحبزادے حضرت مولانا حکیم شاہ محمد مجیب الحق کمالی فردوسی سملوی کے ساتھ خلوت گزیں ہوگئے۔
اس طرح شروع ہی سے سملہ علم و عرفان اور رشد و ہدایت کا مرکز رہا، اس مبارک خانوادہ میں ایک عظیم شخصیت مرد درویش، مجاہد جلیل، محبوب الاؤلیا، الحاج حضرت مولانا شاہ محمد قاسم عثمانی فردوسی کی پیدائش ہوئی، جنہوں نے اپنی درویشانہ زندگی اور خلوت نشینی کے باوصف زندگی کے تمام شعبوں میں تجدیدی کارنامے انجام دیئے، علم و ادب، تصوف و احسان، اصلاح معاشرہ، سیاست و اجتماعیت گویا زندگی کے ہر شعبہ میں تجدید و اصلاح کے نقوش ثبت کیے اور مرجع خلائق ہوئے، ان کے ذاتی اوصاف و کمال سے سملہ کی خانقاہ مجیبیہ فردوسیہ کا فروغ اور اس کی شہرت ہوئی اور حضرت مخدوم جہاں کے فیضان سے بہار کی چند فردوسی خانقاہوں میں سملہ کی خانقاہ آسمان رشد و ہدایت پر روشن ستارہ کی طرح نمودار ہوئی جس کی روشنی و تابانی اور تجلیات سے سر زمین بہار آج بھی منور ہے۔
بہار کی یہ چند معروف و مشہور خانقاہیں ہیں جنہوں نے رشد و ہدایت کے ساتھ امت کی تعمیر میں کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں، جن کا قدرے تفصیل سے یہاں ذکر کیا گیا ہے، ان کے علاوہ بھی پٹنہ اور گیا کے اطراف و جوانب میں چھوٹی بری اور بھی خانقاہیں ہیں جو اپنے اپنے دائرے میں خانقاہی مراسم و مشاغل کے ساتھ رشد وہدایت کے کاموں میں سرگرمِ عمل ہیں۔
- کتاب : Monthly Afkaar Milli, Delhi (Pg. 20)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.