تذکرہ عبدالرب چاؤش قوال
دلچسپ معلومات
کتاب ’’قوالی امیر خسروؔ سے شکیلہ بانو تک‘‘ سے ماخوذ
عبدالرب چاؤش مقابلوں کے فنکار ہیں، مقابلوں کی حد تک دنیائے قوالی میں ان کا نام ناقابلِ شکست تسلیم کر لیا گیا ہے، چاؤش ہندوستان کے واحد قوال ہیں جو صرف مقابلوں کی کمائی کھاتے ہیں، ملک کا بڑے سے بڑا قوال مقابلوں کے معاملے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے لیکن چاؤش کو بغیر مقابلے کے گانے سے دلچسپی نہیں ہوتی، چاؤش کے مقابلوں کا طریقہ کار سب سے دلچسپ اور سب سے الگ ہے، وہ ردیف کاٹنے، ردیف کی تکرار کرنے اور چوٹ کے قطعات پڑھنے کے علاوہ سامنے والے کے پڑھے ہوئے کلام کا پوسٹ مارٹم کرنے میں بے مثال ہیں، ان کا سب سے بڑا کمال حریف کے پڑھے ہوئے کلام کو الٹ دینا ہے، وہ سامنے والے کے مضمون سے بڑھ چڑھ کر مضمون پیش کنے کے بجائے اس کے مضمون کو الٹ دیتے ہیں، یہ طریقہ ان کا اپنا ایجاد کردہ ہے، اس طریقے سے انہوں نے اسمٰعیل آزاد جیسے مقابلہ باز قوال کو زیر کیا، یہاں تک کہ اسمٰعیل نے ان کے ساتھ مقابلوں کے پروگرام لینے بند کر دیئے، قوال برادری میں عبدالرب چاؤش جتنے مقبول ہیں اور قوال حضرات جتنی محبت و احترام سے ان کا نام لیتے ہیں اتنی محبت اور اتنا احترام قوال حضرات کی جانب سے ہندوستان کے کسی قوال کو نصیب نہیں، چاؤش خود اپنے تمام ملنے والوں کے ساتھ اس قدر اخلاق، مروت اور محبت سے پیش آتے ہیں کہ ان کا ہر ملنے والا ان کے جانثاروں میں شامل ہو جاتا ہے لیکن مقابلے کے دوران وہ اپنی شخصیت کو سانپ کی کیچلی کی طرح نکال کر پھینک دیتے ہیں، وہ اسٹیج پر ایک ایسے ناگ کی طرح پھن پھیلائے بیٹھے رہتے ہیں جس کے ڈسنے کے لیے چھیڑنے نہ چھیڑنے کی قید نہیں ہوتی، وہ ہر حال میں ڈستے ہیں ڈس کر ہی رہتے ہیں، میں یہ بات انتہائی ذمہ داری کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ چاؤش کے آگے حریف کے دل کا حال بالکل ایسا ہوتا ہے جیسے دھاڑتے ہوئے شیر کے آگے کسی چوپائے کا، کیوں کہ وہ اسٹیج پر کسی کو نہیں بخشتے، کسی قیمت نہیں بخشتے، اسمٰعیل آزاد کا کہنا ہے کہ چاؤش کا یہ رویہ کسی انتقامی جذبہ کی پیداوار یا کسی گہری عداوت کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ یہ ان کی ’’مجبوری‘‘ ہے، چاؤش کے مسلسل حملوں کے باعث اسمٰعیل نے جب ان کے ساتھ مقابلے لینے بند کر دیئے تو مقابلوں کی دنیا جیسے سونی ہو گئی، چنانچہ 1985ء میں میں نے چاؤش سے خواہش کی کہ وہ اسمٰعیل آزاد کو ساتھ لے کر حیدرآباد آئیں، چاؤش نے کہا ’’اکمل بھائی! میں تو تیار ہوں لیکن دیکھ لیجیے کہ وہ تیار ہے کہ نہیں‘‘ پھر انہوں نے اسمٰعیل کے نام ایک خط بھی دیا، ادھر سے شکیلؔ بدایونی نے بھی سفارش کی جس کی بنا پر اسمٰعیل نے دعوت قبول کر لی اور تاریخ مقررہ پر دونوں حیدرآباد پہنچ گیے، یہ وہ زمانہ تھا جب اسمٰعیل کے پروگراموں میں عوام ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوتے تھے، خود چاؤش بھی کل ہند شہرت پانے کے تقریباً دس سال بعد پہلی مرتبہ اپنے وطن آئے تھے، شائقین کا ایک سیلاب تھا کہ بس رواں تھا، ایک اژدہام تھا کہ ٹوٹا پڑتا تھا، پولس بے بس بے بس ہوئی جاتی تھی، اسمٰعیل آزاد نے ایک نعت سے پروگرام کا آغاز کیا، نعت کا ختم ہونا تھا کہ پبلک نے ’’گورے گورے گالوں نے‘‘ کے فرمائشی نعروں قیامت برپا کردی، اسمٰعیل ابھی اس نظم کے موڈ میں نہ تھے لیکن مجمع ایسا متزلزل ہو رہا تھا کہ پولس نے خود درخواست کی کہ عوام کی مانگ پوری کی جائے تو بند و بست میں سہولت ہوگی، لہٰذا اسمٰعیل نے انتہائی ماہرانہ انداز میں اپنی شہرۂ آفاق نظم شروع کی
ہمیں تو لوٹ لیا مل کے حسن والوں نے
گورے گورے گالوں نے کالے کالے بالوں نے
ان دنوں اسمٰعیل آزاد کی اس قوالی سے سارا ہندوستان گونج رہا تھا، گلی گلی میں بچے بچے کی زبان پر یہی نظم تھی، چاؤش کی موجودگی کو قطعی طور پر بھول کر ہجوم اسمٰعیل آزاد کا دیوانہ ہوا جا رہا تھا، اسمٰعیل لہک لہک کر گا رہے تھے، یوں لگتا تھا جیسے اسٹیج پر کوئی قوال نہیں گا رہا ہے بلکہ تختِ ہندوستان پر بادشاہ اکبر گرج رہا ہے، یلغار ہی یلغار تھی، حافظہ تھا کہ کتابوں کے صفحات منہ چھپائیں، روانی تھی کہ دریا شرمائیں، پھرتی و چستی کا وہ عالم تھا کہ برق دیکھتی رہ جائے، شعر و نغمہ کا ایک سیلاب تھا کہ جس میں سارا ماحول غرق تھا، کسی کو کسی کی خبر نہ تھی، سب مسحور و مدہوش تھے، یہ سحر اس وقت ٹوٹا، یہ مدہوشی اس وقت کم ہوئی جب آتش فشاں خود خاموش ہو گیا یعنی سیکڑوں اشعار پڑھ کر خود اسمٰعیل خاموش ہو گیے، اسمٰعیل کا خاموش ہونا تھا کہ ہجوم نے تالیوں سے آسمان سر پر اٹھا لیا، تالیوں کی اسی گونج کے دوران عبدالرب چاؤش کے سازندے حرکت میں آ گیے، ان کے گٹار نواز نے الکٹرک گٹار پر اتنی بلند آواز میں نغمہ چھیڑا اور نغمے کی لے اتنی تیز رکھی کہ ہجوم کی ساری توجہ ایک ہی لمحے میں اس جانب مرکوز ہوگئی، حیدرآباد کے عوام چاؤش کی مہارتِ مقابلہ سے واقف تھے، لہٰذا ایک ایٹمی دھماکے کا متوقع اورپُر اشتیاق ماحول بن گیا، اصول کے مطابق چاؤش نے پہلے ایک نعت پڑھی، اس کے بعد وہی ہوا جس کی عوام کو توقع تھی چاؤش نے ’’گورے گورے گالوں‘‘ کی نہ صرف ردیف کاٹ دی بلکہ اسمٰعیل کی پیش کی ہوئی نظم کے پرخچے اڑا دیے، شیوؔن رضوی کی لکھی ہوئی یہ ایک عامیانہ نظم ہے جسے اسمٰعیل کے انداز بیان مقبولیت کی معراج کو پہنچا دیا، یہ ساری نظم حسینوں کی بے وفائی اور حسن کی تضحیک کو عورت کی تضحیک قرار دیتے ہوئے پہلے تو خوب مذمت کی پھر عوام کو عورت کے مقام اور اس کے مرتبے سے روشناس کرایا، عورت ماں، عورت بہن، عورت بیٹی، عورت سیتا، عورت مریم و عایشہ کی دلیلیں پیش کیں اور ان شخصیتوں کے حوالے دے کر اسمٰعیل کی پیش کی ہوئی نظم کی دھجیاں بکھیر دیں، چاؤش کے اس نفسیاتی عمل سے عوام کے دلوں میں پوشیدہ جذبۂ تقدس حرکت میں آگیا اور ہجوم اسمٰعیل کے خلاف کچھ نفرت اور کچھ تضحیک آمیز نعرے لگانے لگا، یہاں تک کہ اسمٰعیل آزاد نے میدان چھوڑ دیا، ان کی جگہ ان کے شاگرد اسمٰعیل تاج نے رات بھر پروگرام کیا، اس واقعہ کے بعد اسمٰعیل آزاد نے کسی خفگی یا کسی ناراضگی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ فراخ دلی اور صفائی کے ساتھ کہا ’’چاؤش نے جو کچھ کیا وہ اس کی مجبوری ہے، وہ ایسا نہ کرے تو کیا کرے، ہم لوگ ڈھیروں ساز، شدید گلے بازی اور دنیا بھر کی اچھل کود سے اپنا رنگ جماتے ہیں اور وہ اس رنگ کو دھو کر اپنا رنگ جاتا ہے، یہی اس کا کمال ہے، جب ہم اپنے کمال کے مظاہرے میں کسر نہیں چھوڑتے تو چاؤش کیوں اپنے کمال کا مظاہر نہ کرے، جس طرح ہر فنکار کو اپنے آزادانہ مظاہرے کا حق ہے اسی طرح چاؤش کو بھی حق ہے کہ وہ کھل کر اپنے کمال حاضر جوابی کا مظاہرہ کرے، یہی وجہ ہے کہ میں چاؤش سے ٹکراؤ کی تیاری تو کرتا رہتا ہوں مگر کبھی اس کے کسی حملے کا برا نہیں مانتا‘‘
اسمٰعیل آزاد اور چاؤش کے درمیان صد ہا مقابلے ہوئے لیکن دونوں ایک دوسرے کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے اور ایک دوسرے کو اپنے سے بڑا فنکار مانتے تھے، ہندوستان کے تمام مشہور قوالوں سے اسمعٰیل آزاد اور عبدالرب چاؤش کے مقابلے ہوئے اور آج ہندوستان کے تمام قوال اسمٰعیل اور چاؤش ہی کے مقابلوں کی تقلید کرتے ہیں، در اصل قوال حضرات کو جدید مقابلوں کا فن اسی جوڑی نے سکھایا۔
عبد الرب چاؤش خود شاعر ہیں، حیراںؔ ان کا تخلص ہے، فی البلدیہ کہتے ہیں، ہندوستان کا کوئی موجودہ شاعر ان کی رفتارِ شعر گوئی کو چھو نہیں سکتا، مقابلوں کے دوران وہ کاغذ پنسل بالکل استعمال نہیں کرتے، ہارمونیم لے کر یک لخت شروع ہو جاتے ہیں اور انہیں اتنی تیز آمد ہوتی ہے کہ ان کی روانی پر اچھے اچھے شعرا کی عقل دنگ رہ جاتی ہے، یہ کوئی رٹے رٹائے اشعار نہیں ہوتے بلکہ وہ اسی منظر اور ان ہی واقعات کو نظم کرتے چلے جاتے ہیں جو ان کی نظم خوانی کے دوران پیش آتے رہتے ہیں، وہ اپنے حریف کی ہر ہر جنبش پر شعر کہتے اور پڑھتے ہیں، ان کے ان اشعار میں اس کی ایسی ہجو ہوتی ہے کہ خود حریف خفا ہونے کے بجائے ان کی صلاحیتوں کا معترف ہو جاتا ہے اور پھر اسی اعتراف کے باعث اس کے دل میں چاؤش کی عزت و احترام کا جذ بہ پیدا ہوتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.