Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

تذکرہ اسمٰعیل آزاد قوال

اکمل حیدرآبادی

تذکرہ اسمٰعیل آزاد قوال

اکمل حیدرآبادی

MORE BYاکمل حیدرآبادی

    دلچسپ معلومات

    کتاب ’’قوالی امیر خسروؔ سے شکیلہ بانو تک‘‘ سے ماخوذ۔

    گیارہویں صدی عیسوی سے موجودہ بیسویں صدی تک قوالی نے کئی منزلیں طے کیں لیکن یہ فن مذہبی اجارہ داروں کے تسلط سے اس وقت مکمل طور پر آزاد ہوا جب 1940ء سے 1950ء کے درمیان اسمٰعیل آزاد نے اس فن میں عوامی دلچسپیوں کے روایات شکن اضافے کیے، اسمٰعیل آزاد سے پہلے قوالی کی محفلوں میں عام طبقے کے لوگ یوں بجھے بجھے اور سہمے سہمے سے رہتے تھے جیسے امرا کی تقاریب میں غربا اور بن بلائے مہمان گہری دلچسپی کے باوجود عام طبقہ قوالی کو اپنے سے بالا تر اور خود کو قوالی کے معیار سے کم تر سمجھنے پر مجبور تھا، کیوں کہ قوالی کے فنکار مذہبی اجارہ داروں کی خوشنودی کے پیشِ نظر ایسے کلام کے انتخاب اور ایسے خادمانہ انداز کے پابند تھے کہ جس کے آگے عام طبقے کا احساسِ کمتری میں مبتلا ہونا فطری امر تھا، اسمٰعیل آزاد نے اس انتخابِ کلام اور اس اندازِ خادمانہ کو انتہائی جرأت مندی کے ساتھ رد کیا، اسمٰعیل آزاد سے پہلے قوالی کی محفلوں پر فارسی کا اتنا تسلط تھا کہ اردو ہندی کلام شاذ و نادر ہی پیش کیا جاتا تھا، اسمٰعیل آزاد نے جب محسوس کیا کہ قوالی کے سننے والوں میں آج مشکل سے پانچ فیصد آدمی ایسے ہیں جو فارسی کی ہلکی سی شد بد رکھتے ہیں اور باقی ایسے ہیں جو فارسی قطعاً نہ جانتے ہوئے بھی محض آدابِ محفل کی رعایت سے یا اپنے جھوٹے رعب کی خاطر واہ واہ کر رہے ہیں، یعنی حقیقی معنوں میں قوالی سے مکمل طور پر لطف اندوز ہو ہی نہیں پا رہے ہیں تو انہوں نے سب سے پہلے قوالی سے فارسی کلام کا بائیکاٹ کیا اور اس کی جگہ اردو ہندی کے عام فہم کلام کا مستقلاً رواج دیا، قدیم انداز کا ایک یہ بھی عیب تھا کہ قوال اور سامعین کے درمیان ایک اجنبیت سی رہتی تھی، اسمٰعیل نے اس اجنبیت کو توڑنے کے لیے گانے کے دوران بار بار حاضرین کو مخاطب کرنے کی بنا ڈالی، جس سے اجنبیت کا پردہ چاک ہوا اور سامعین اپنے آپ کو ایک بے تکلف ماحول میں پانے لگے، جس کی بدولت ان کے چہرے خادمانہ سنجیدگی کے بجائے آزادانہ مسرتوں سے کھِل اٹھے، یہ ایک ایسا انقلاب تھا جو رونما نہ ہوتا تو قوالی اپنی قدامت اور فارسی کلام کے باعث آج ہندوستان سے ایسے ہی غائب ہو جاتی جیسے قدیم تہذیب اور فارسی زبان غائب ہوئی، قوالی کی حیاتِ ثانی اسمٰعیل آزاد کی دین ہے، ان کے بعد آنے والے جدید قوالوں نے اپنی انتھک محنتوں سے جاوِداں کر دیا، اسمٰعیل آزاد کی مقبولیت میں ایچ یم وی کے گراموفون ریکارڈس کا بہت بڑا ہاتھ ہے، اسمٰعیل سے پہلے بھی دہلی کی گراموفون کمپنی مختلف قوالوں کے ریکارڈ تیار کر چکی تھی لیکن جب بمبئی میں ریکارڈ بننے لگے اور اسمٰعیل آزاد کی آواز ریکارڈ کی جانے لگی تو یہ آواز قوالی کے گذشتہ تمام فنکاروں کی آواز پر چھا گئی، اسمٰعیل نے قوالی کے گراموفون ریکارڈس میں کورس سے مصرعوں کی مسلسل تکرار کروانے کے عمل کو محدود کرکے خود زیادہ سے زیادہ اشعار پڑھنے کی روش اختیار کی، جس سے ریکارڈ میں کلام بھی زیادہ سمونے کی گنجائش نکلی اور قوال کی بھی اپنی آواز کے زیادہ سے زیادہ جوہر دکھانے کا میدان ملا، اسمٰعیل کا یہ طریقہ کار بے حد مقبول ہوا، آج بھی تمام جدید قوال اسی طریقہ کار کے مقلد ہیں، اسمٰعیل وہ واحد قوال ہیں جن کا ہر ریکارڈ مقبول ہوا لیکن ان کے دو ریکارڈس ’’بابا جی ملنگ شاہ دولہا‘‘ اور ’’ہمیں تو لوٹ لیا مل کے حسن والوں نے‘‘ نہ صرف اسمٰعیل آزاد کی شہرت کو معراج پر پہنچانے کا باعث ہوئے بلکہ ان ریکارڈس کی بدولت خود قوالی کا فن عوام میں شہرت و مقبولیت کی معراج کو پہنچا، اسمٰعیل آزاد کے بعد جن قوالوں کے ریکارڈ زیادہ مشہور ہوئے انہیں اسمٰعیل آزاد کی بنائی ہوئی فضا کا سہارا ملا، اسمٰعیل کے متذکرہ ریکارڈ وہ ہیں جہیں نے خود یہ فضا بنائی، یہ اسمعٰیل آزاد کی بے پناہ عوامی مقبولیت ہی کا سبب تھا کہ ان کے عہد میں قوالی کے ’’کمرشل شوز‘‘ یعنی ٹکٹ کے عوامی شوز کی بنا پر پڑی، اس سلسلہ کی ابتدا اور عام مقبولیت کا سہرا اسمٰعیل آزاد ہی کے سر ہے، فلموں میں بھی مشہور قوالوں کی شرکت کی ابتدا اسمٰعیل آزاد ہی سے ہوئی، ان سے پہلے فلموں میں جو مشہور قوال پیش کیے گیے ان کی شہرت چند صوبوں تک محدود تھی وہ کل ہند شہرت کے مالک نہ تھے بلکہ جدید قوالوں میں کل ہند شہرت کی ابتدا بھی اسمٰعیل آزاد ہی کے نام سے ہوئی، اسمٰعیل کی شہرت کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے عہد شباب میں کسی رات غیر مصروف نہ رہے، ان کا مستقل قیام بمبئی میں تھا، قوالی کے سلسلہ میں انہوں نے یہاں سے ہندوستان کے تقریباً ہر چھوٹے بڑے شہر اور ہر ضلع کا دورہ کیا۔

    تھیٹروں میں جب قوالی کے پروگرام عام ہو گیے تو ان میں نئی دل چسپی پیدا کرنے کے لیے اسمٰعیل آزاد نے جدید مقابلوں کے سلسلے شروع کیے، ان مقابلوں میں ردیف کاٹنے، ردیف کی مسلسل تکرار کرنے اور چوٹک کا کلام پڑھنے کے جدید طریقوں کو اسمٰعیل نے بڑے نکھرے ستھرے اور عام پسند انداز میں برتا، مقابلوں کا موجودہ انداز اسمٰعیل آزاد ہی کا مروج کردہ ہے۔

    اسمٰعیل آزاد کا نام جدید قوالی کی تاریخ میں ہمیشہ صفحۂ اول پر لکھا جائے گا، وہ کئی کئی بنیادوں پر اس اولیت کے حقدار ہیں، اسمٰعیل آزاد قوالی کی طرز جدید کے موجد ہونے کے ساتھ ساتھ تمام جدید قوالوں کے رہبر تسلیم کیے جاتے ہیں اور وہ اس لیے کہ انہو ں نے قوالوں کو دربار داری کی محکومانہ زندگی سے نکال کر فنکاروں کی طرح آزاد زندگی گذارنے کی راہ دکھائی۔

    اسمٰعیل آزاد حوصلہ مند، زندہ دل، ہنس مکھ، خوش مذاق، کشادہ دست اور دوست نواز انسان تھے، انہوں نے اپنی زندگی میں جتنی رقم صرف بیعانوں ہی بیعانوں میں کمائی اتنی رقم آج کے کسی اور قوال نے پوری پوری فیس لے کر زندگی بھر میں نہیں کمائی لیکن ان کی ساری زندگی غربت میں گزری، کیوں کہ انہوں نے کبھی پیسے سے پیار نہیں کیا، ان کے پاس صبح رقم آتی اور شام تک وہ پھر تہی دست ہو جاتے تھے، اس میں کچھ ان کی فیاضانہ طبیعت کا بھی دخل تھا اور کچھ اُمن کے اطراف لوگ بھی ایسے جمع ہو گیے تھے جو ان کو کل کے بارے میں سوچنے کی مہلت نہ دیتے تھے، آخری عمر میں وہ کئی کئی موذی امراض کا شکار ہو گیے تھے، جس سے ذہنی نجات پانے کے لیے وہ مستقلاً مارفیا کے انجکشن لینے کے عادی ہو گیے تھے، وہ اپنے ہاتھ سے انجکشن لیتے تھے اور ایک انجکشن سے دوسرے انجکشن کے درمیان آدھے گھنٹے سے زیادہ کا وقفہ ہو جاتا تو ان پر بحرانی کیفیت طاری ہو جاتی تھی، اسی انجکشن کی وجہ سے ان کی صحت نے قبل از وقت جواب دے دیا اور وہ ایسے علیل ہوئے کہ بسترِ مرگ کے ہو رہے، ان کے بعد ان کی بیوی بچوں کو سخت مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ انہیں رہنے کے لیے گھر بھی نہ تھا، اس میں شک نہں کہ قوال برادری نے ایک آدھ شو کر کے کچھ رقم ان کی بیوہ کو دی لیکن ایک ایسے قوال کے لیے جس نے جدید قوالوں کے لیے روزگار کی راہیں نکالیں جدید قوالوں کا اتنا سا تعاون قابلِ تعریف نہیں۔

    اسمٰعیل ایک فیاض انسان تھے، دوستوں پر ان کے کئی احسانات ہیں، کوئی اور اس کا اعتراف کرے یا نہ کرے میں یہ کہنے میں کبھی تکلف نہ کروں گا کہ انہوں نے اپنی شہرت کے پُر شباب عہد میں خود مجھے حیدرآباد میں ایک ایسا پروگرام دیا تھا جس کی ایک پائی فیس نہ لی، آج اسمٰعیل ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن ان کے فن، ان کی شخصیت، ان کے عزائم، ان کی جدتوں اور ان کی محبت کی پرچھائیاں ہر آن ہمارے قلب و ذہن پر سایہ فگن ہیں، ان کا انتخابِ کلام اتنا عام پسند، ان کی آواز اتنی پُرکشش اور ان کا اندازِ ادا اتنا اثر انگیز تھا کہ جس نے انہیں ایک بار سنا وہ انہیں تا حیات نہ بھول سکا، ان کے گراموفون ریکارڈ اتنے عام پسند اور سحر انگیز ہیں کہ صدیوں ان کی مقبولیت کم نہ ہوگی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے