Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

تذکرہ پدم شری عزیز احمد خاں وارثی قوال

اکمل حیدرآبادی

تذکرہ پدم شری عزیز احمد خاں وارثی قوال

اکمل حیدرآبادی

MORE BYاکمل حیدرآبادی

    دلچسپ معلومات

    کتاب ’’قوالی امیر خسروؔ سے شکیلہ بانو تک‘‘ سے ماخوذ۔

    فنکار اپنے ملک کی تہذیب و تمدن کا نمائندہ ہوتا ہے اور تہذیب و تمدن نام ہے کسی ملک کی صدیوں پرانی روایات کا، اگر چہ کہ ترقی پسند افراد روایات سے چمٹے رہنے کے بجائے نئی سمتیں متعین کر کے اپنے آپ کو عصر حاضر سے ہم آہنگ کرنے میں اپنی بقا محسوس کرتے ہیں اور زمانہ بھی ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے لیکن معیار اور مربتہ کا سوال آتا ہے تو خود زمانہ بھی روایتی قدروں کو کسوٹی بناتا ہے، جدت طرازیوں کو نہیں، فنونِ لطیفہ کے ہر شعبہ میں یہ روش بڑی پائیدار ہے، جس پر اربابِ اقتدار خصوصیت کے ساتھ عمل پیرا ہوتے ہیں اور وہ اس لیے کہ ان پر اپنے ملک کی تہذیبی و تمدنی روایات کے تحفظ کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں فنکاروں کے قومی اعزازات کی تقسیم کے وقت ہر شعبہ فن میں کلاسیکی قدروں کو کسوٹی بنایا جاتا ہے اور اسی فنکار کو قومی اعزاز سے نوازا جاتا ہے جو کلاسیکی روایات کی نمائندگی کرتا ہے، عزیز احمد خاں وارثی اپنی ان ہی خصوصیات کی بنا پر شعبۂ قوالی میں ’’پدم شری‘‘ کے گراں قدر قومی اعزاز سے سرفراز کیے گیے، ان کا یہ اعزاز ملک بھر میں ان کے بلند مرتبہ شخصیت اور اعلیٰ نمائندہ فن ہونے کی شہادت کے لیے حرفِ آخر کی حیثیت رکھتا ہے۔

    عزیز وارثی 1922ء میں حیدرآباد میں پیدا ہوئے، ہندوستان میں آج آپ ہی ایک ایسے قوال ہیں جن کے افراد خاندان کو موجدِ قوالی حضرت امیر خسرو کی خدمت میں قوالی پیش کرنے کی سعادت حاصل رہی، اس خاندان کو قوالی کی ایجاد سے پہلے ’’سماع خواں‘‘ کی حیثیت سے خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ سے وابستگی کا شرف بھی حاصل ہے، اس خاندان کی ایک ٹولی اربابِ سماع میں ’’محموبِ سبحانی کی چوکی‘‘ کے نام سے مشہور تھی، یہ چوکی اسی آستانے کی مخصوص چوکی تھی جو خود حضرت محبوبِ سبحانی کا بیشتر کلام پڑھتی تھی، اسی خاندان کے کچھ افراد نے قوالی کی ایجاد کے بعد قوالی کے فن کو بھی اپنایا اور حضرت امیر خسرو کی خدمت میں بھی قوالی پیش کی لیکن آگے چل کر ان افراد نے قوالی ترک کر کے کلاسیکل موسیقی سے وابستگی اختیار کر لی، اس خاندان کو ہر دور میں کوئی نہ کوئی خاص الخاص مقام حاصل رہا، چنانچہ آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفرؔ کے دربار میں بھی اس خاندان کے ایک فرزند الحاج قطب بخش خان عرف استاد تان رس خان کو بلند اعزاز و مرتبہ حاصل تھا، وہ تمام شمالی ہند میں استاد مانے جاتے تھے، مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد بہادر شاہ ظفرؔ کے درباری موسیقیار استاد تان رس خان گوالیار گیے، گوالیار ہمیشہ سے موسیقی کا قدر داں رہا، چنانچہ یہاں تان رس خاں کو کافی عزت و مقبولیت ملی، کچھ عرصہ بعد ’’دتیا‘‘ کے مہاراجہ کی دعوت پر وہ دتیا چلے گیے، تان رس خان کے ایک چچا زاد بھائی علی بخش خان تھے جن سے تان رس خان کی بڑی بہن بیاہی ہوتی تھیں، علی بخش خان کے دو لڑکے محمد صدیق خان اور حاجی عبدالرحمٰن خان تھے، عبدالرحمٰن خان نے اپنے خاندان کے چھوڑے ہوئے سلسلۂ قوالی کو پھر سے اپنایا، ان کو حضرت شاہ منجلے صابری سے خاص عقیدت تھی اور شاہ صاحب بھی آپ کو بہت چاہتے تھے، آپ جب حج بیت اللہ سے واپس ہوئے تو حاجی عبدالرحمٰن خان کو بھی اپنے ساتھ حیدرآباد لائے، ان کے بعد ان بڑی بھائی محمد صدیق خان اور ان کے ماموں استاد تان رس خان کو بھی حیدرآباد آنے دعوت دی، تان رس خان نے یہ شرط رکھی کہ شاہِ دکن ان کی نذر قبول فرمائیں، اس سے قبل مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفرؔ نے بھی ان کی نذر قبول کی تھی، چنانچہ اسی اعزاز کی بنا پر شاہِ دکن نے بھی نذر قبول کرنے کی شرط منظور فرمالی اور استاد تان رس خان حیدرآباد آ گیے، آپ کا انتقال حیدرآباد ہی میں ہوا، آپ کا مزار احاطۂ درگاہ حضرت شاہ خاموش صابری میں ہے۔

    استاد تان رس خان کے بھانجے محمد صدیق خان کے تین لڑکے تھے، نثار احمد خان، نذیر احمد خاں اور نصیر احمد خان، پدم شری عزیز احمد خان استاد نذیر احمد خان کے فرزند ہیں، نذیر احمد خاں اور نثار احمد خان کو حیدرآباد میں غیر معمولی مقبولیت نصیب ہوئی، اسی شہرت و مقبولیت کے دوران نذیر احمد خان کا انتقال ہو گیا، چنانچہ، عزیز احمد خان وارثی بچپن ہی میں والد کی سرپرستی سے محروم ہو گیے، والد کے انتقال کے بعد انہوں نے اپنے تایا ثنار احمد خاں اور چچا نصیر احمد خان سے موسیقی کا درس لیا۔

    عزیز احمد خاں وارثی چودہ سال ہی کی عمر میں ایک ہونہار فنکار کی حیثیت سے منظرِ عام پر آ گیے، 1939ء میں جب کہ ان کی عمر سترہ سال کی تھی انہیں چھلّہ خواجہ غریب نواز، مغل پورہ، حیدرآباد میں اعلیٰ حضرت حضور نظامِ دکن آصف جاہِ سابع کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کاموقع ملا، سرکار نے ان کی قوالی بے حد پسند کی، جس کے باعث انہیں شاہی خاندان میں رسائی حاصل ہو گئی اور اس کے بعد ان کی شہرت میں چار چاند لگ گیے، امرا و معززینِ حیدرآباد میں نواب دین یار جنگ، نواب مہدی نواز جنگ اور نواب علی یاور جنگ جیسی شخصیتیں عزیز وارثی کی ابتدائی سرپرست رہیں، ان کے بعد جناب یاض الدین، جناب حبیب اللہ حسینی اور جناب کاملؔ شطاری نے ان کو اپنی تمام تر سرپرستیوں سے سرفراز کیا، خود عزیز احمد وارثی کی یاد دہانی کے مطابق ان کا پہلا ٹکٹ شو اکمل حیدر آباد نے حیدرآباد میں کرایا، آندھرا پردیش کی تشکیل کے چند سال بعد حیدرآباد کی تہذیبی سرگرمیاں نواب عابد علی خان مدیر روزنامہ ’’سیاست‘‘ اور جناب محبوب حسین جگرؔ نائب مدیر سیاست جیسی دو اور صرف دو شخصیتوں کے اطراف حلقہ گیر ہو گئیں، ان حضرات نے حیدرآباد کی دم توڑتی ادبی و تہذیبی سرگرمیوں میں پھر سے روح ڈالنے کا بیڑا اٹھایا، اس تحریک سے عزیز احمد خاں وارثی کو حیاتِ ثانی ملی، ان کی مقبولیت جو خواص میں محدود تھی ادارۂ ’’سیاست‘‘ کی سرپرستی سے عوام میں پھیل گئی، اس پھیلاؤ میں آل انڈیا ریڈیو بھی خصوصی معاون ثابت ہوا، آج عزیز احمد خان ملک کے کروڑوں عوام کے علاوہ جن اعلیٰ سیاسی و قومی شخصیتوں میں مقبول ہیں، ان میں اندرا گاندھی کا نام خصوصیت سے شامل ہے، آپ کے علاوہ سابق صدر ہند آنجہانی ڈاکٹر راجیندر پرشاد، ڈاکٹر ذاکر حسین، آنجہانی شری وی وی گری، جناب فخر الدین علی احمد، جناب لال بہادر شاستری اور ہندوستان کے اولین وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو بھی عزیز احمد خاں وارثی کے مداح اور سرپرست رہے ہیں۔

    اعلیٰ قوالی کا دار و مدار اعلیٰ شعری انتخاب پر ہوتا ہے اور اعلیٰ شعر عام موسیقی کو گوارا نہیں کرتا، لہٰذا عزیز احمد خان وارثی کو اعلیٰ قوالی کی نمائندگی کے سلسلہ میں اعلیٰ اشعار کے ساتھ ساتھ کلاسیکل طرزوں کا انتخاب کرنا پڑتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کا فن شاعری اور موسیقی کے اعتبار سے بلند فنی معیار کی کسوٹی پر کھرا اترتا ہے، موجودہ عہد میں اس معیار کو برقرار رکھنا ندیوں کو معلق بہانا ہے، عزیز احمد خان وارثی کی اسی کرشمہ سازی کے اعتراف میں حکومتِ ہند نے ۵؍ اکتوبر1971ء کو انہیں پدم شری کے اعلیٰ قومی اعزاز سے نوازا، قوال برادری میں وہ ملک کے پہلے اور واحد پدم شری ہیں، انہیں انڈین اکیڈیمی آف کلاسیکل میوزیشین کے صدر ہونے کا شرف بھی حاصل ہے، ان کے متعدد گراموفون ریکارڈ بنے اور مقبول ہوئے، انہیں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے قومی پروگراموں میں مدعو کیا جاتا ہے، انہیں حکومت سعودی عرب نے سرکاری مہمان کی حیثیت سے مدعو کیا، اس کے علاوہ انہوں نے تمام بیرونی ممالک میں عوامی دعوت پر اپنے فن کا مظاہر کیا۔

    پدم شری عزیز وارثی نیک سیرت، نیک خو، خوش اخلاق، اور نمونۂ تہذیبِ حیدرآباد ہیں، ان کا فن قوالی کی تمام روایات کا امین اور تقدس کا مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ شعورِ جدید کی تسکین کا باعث ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے