تحفۂ رفاعیہ میں راتب رفاعیہ کا ثبوت
سید رضوان رفاعی
سلسلۂ رفاعیہ کا دائروں لے پر کیا جانے والا روحانی طریقۂ ذکر جو ہند و پاک میں راتب رفاعیہ کے نام سے مشہور و معروف ہے، حلقۂ ذکر میں جب نعت و منقبت، کلمۂ توحید اور قصیدوں کی بھینی بھینی صدائیں دف کی آوازوں سے بلند ہونے لگتی ہیں تو محفل میں ایک روحانی سماں بندھ جاتا ہے اور دیوانہ رفاعی لذتِ ذکر سے سرشار و مدہوش ہو کر عالمِ وجد میں، آہنی آلات مثلا گرز و شمشیر خنجر و سیخ وغیرہ سے اپنے جسم پر ضربیں لگاتے ہیں، بے خوف و خطر دہکتے کوئلوں میں کود جاتے ہیں، زہر اور تانبے کو پانی کی طرح پیتے ہیں مگر بدن سے نہ قطرہ خون رستا ہے اور نہ ہی کسی تکلیف و اذیت کا احساس ہوتا ہے اور نہ ہی زخموں کے نشانات ابھرتے ہیں، مجمع پر ایک کیف سا طاری ہو جاتا ہے اور حاضرین دم بخود ہو جاتے ہیں، یہ منظر بڑا ہی روح پرور و ایمان افروز ہوتا ہے۔
راتب رفاعیہ کب، کہاں، کیسے اور کیوں؟ کے تاریخی سرمایہ پر علمائے اہلسنت کی گرآں قدر نگارشات کا بڑا اہم ذخیرہ معتبر کتب میں موجود ہے، جس کی تفصیل کے لیے صفحات درکار ہیں، بطور اختصار اس کا لب لباب و خلاصۂ کلام کچھ اس طرح ہے، احیائے سنت و اصلاح فکر و اعتقاد، روحانیت کا مادیت پر غلبہ کا جیتا جاگتا ثبوت، منکرینِ عظمت اؤلیا کے خلاف رفاعی صوفیوں کا بر ملا اظہار احتجاج، فتنہ تاتار میں بغداد کے مسلمانوں کی آہوں کو مشائخِ رفاعیہ کا بخشا ہوا احساس تحفظ، شاه تاتار ہلاکو خان و غازان خان اور ان کے لشکر کے لیے انعام خسروی، جس کی برکتوں سے وہ آشنائے حق ہوئے، حضرت سید احمد کبیر رفاعی کی عظیم الشان اور جلیل القدر کرامت جو بعد وصال بھی آپ کے خلفا و مریدین و منتسبین میں جاری و ساری ہے۔
(الاصول الاربع فی طریق الغوث الرفاعی الارفع، سید محمد کمال الدین رفاعی دمشقی)
حضرت سید عبدالرحمٰن بن محمد شافعی المشہور با علوی مفتی الدیار الحضرمیہ تقسیم خوارق عادات و کرامات کے ضمن میں راتب رفاعیہ کی حلت و جواز پر رقمطراز ہیں کہ
’’الذين يضربون صدورهم بالدبوس اويطعنون اعينهم اويحملون النار وياكلونها وينتمون الى سيدى احمد الرفاعی و سیدی احمد بن علوان اوغير هما من الأولياء ان كانوا مستقيمين على الشريعة قائمين بالاوامر تاركين للمناهي عالمين بالفرض العيني من العلم عاملين به لم يتعلموا السبب المحصل لهذا العمل فهو من حيز الكرامة‘‘
(بغیتہ المسترشدین ۲۹۹ مطبع مصر ١٣٧١ھ - ۱۹۵۲م)
ترجمہ : جو لوگ گرز یا چھری سے اپنے سینے پر ضرب لگاتے ہیں یا آنکھوں میں سیخیں چبھوتے ہیں یا انگاروں کو ہاتھوں اور منہ میں لیتے ہیں اور اس عمل کو سیدی احمد رفاعی اور سیدی احمد ابن علوان یا اُن کے علاوہ دیگر اؤلیا رحمۃ اللہ علیم سے منسوب کرتے ہیں اگر وہ لوگ شریعتِ مطہرہ کے پابند، احکام الہی کے بجالانے والے، منہیات شرعیہ سے باز رہنے والے اور فرض عین کے عالم و عامل ہوں اور اس عمل کے اظہار حصول کے لیے کوئی دوسرا سبب مثلا سحر و جادو وغیرہ نہ سیکھا ہو تو یہ کرامت ہے۔
حضرت احمد کبیر رفاعی فرماتے ہیں کہ
’’حق جل شانہٗ دین و سنت کے احیا کے لیے کسی کو مظہر کرامت بنا دے تو ایسی صورت میں اظہارِ کرامت سے کوئی ڈر و خوف نہیں اور اگر کوئی درہم و دینار کے حصول کے لیے کرامتوں کا اظہار کرے تو وہ مجھ سے نہیں اور میں اس سے دنیا و آخرت میں بری ہوں‘‘
(البرہان المؤید، ص 12.13.14)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.