Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

وحدانیت ’’سُرمۂ بینائی‘‘ کے آئینے میں

نا معلوم

وحدانیت ’’سُرمۂ بینائی‘‘ کے آئینے میں

نا معلوم

MORE BYنا معلوم

    پروفیسر معراج الحق برقؔ

    سعدپورہ، مظفرپور

    یہ ایک مسلمہ اور ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انسان کی قدر و قیمت صورت سے نہیں سیرت سے ہوتی ہے اور نیک سیرت کا حامل انسان شاز و نادر ہی دستیاب ہے۔

    مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں

    تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے

    تیرہویں صدی ہجری کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس کی کوکھ سے چند نوادر روزگار میں سے ایک شیخ طریقت حضرت شاہ محمد اکبر ابوالعُلائی داناپوری بھی تھے جو ہشث پہل شخصیت کے حامل تھے، قدرت نے آپ کو ایک سے ایک انعامات عطا فرمائے، عہد طفلی سے ہی آپ کی ہر ادا دلکش اور ہر عمل پاکیزہ تھا آپ کی حیات بابرکات کا ہر لمحہ قوم و ملت کی اصلاح اور تعمیر و تشکیل کے لیے وقف تھا ایک جانب عارف باللہ اور شریعت و طریقت کے سَرخیل تھے تو دوسری جانب قادرالکلام شاعر اور بے مثال مؤرخ بھی تھے، غزل ہو یا نظم، مثنوی ہو یا قصیدہ ہر جگہ فکر و فن کا مظاہرہ کیا ہے وہ نہ صرف اردو بلکہ فارسی شاعری میں بھی مہارت تامہ رکھتے تھے ان کی دو دیوان بنام تجلیات عشق اور جذبات اکبرؔ مشہور و معروف ہیں جن میں صوفیانہ عقائد و نظریات سے متعلق بلیغ شاعری کے نمونے ملتے ہیں ان کے علاوہ نثر میں سُرمۂ بینائی، اخبارالعشق، شورِ قیامت، آل و اصحاب، خدا کی قدرت وغیرہا جیسی بائیس تصانیف معیار و وقار کی حامل ہیں۔

    آپ ایک صوفی صافی اور عارف باللہ تھے، آپ نے سلوک کے بڑے بڑے مراحل طے کیے تھے ا س لیے آپ کے کلام میں عارفانہ رنگ واضح طور پر نظر آتا ہے، تصانیف کثیرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس امر کا بخوبی انداز ہ ہوتا ہے کہ آپ قوی الحافظہ اور عظیم ذہانت کے مالک تھے اور قلم برداشتہ نثر و نظم لکھنے پر قادر تھے حیرت ہوتی ہے کہ خانقاہی نظم و ضبط، دینی رشد و ہدایت، اوراد و وظائف اور ذکر و مراقبہ کی مصروفیتوں اور تبلیغی ذمہ داریوں کے باوجود تصنیفی امور پر آنچ نہ آنے دی، آپ نے ۲۷ /شعبان ۱۲۶۰ھ کو چشم وجود کھولیں اور ۱۴ /رجب ۱۳۲۷ھ کو داعئی اجل کو لبیک کہا۔

    میں نے حضرت موصوف کی ایک مشہور و معروف تصنیف ’سُرمۂ بینائی‘ کے ایک عنوان ’وحدانیت‘ پر کسی قدر شرح و بسط کے ساتھ خامہ فرسائی کی کوشش کی ہے۔

    سرمۂ بینائی حضرت شاہ محمد اکبر ابوالعُلائی داناپوری کی اردو زبان میں لکھا ہوا پچیس صفحات پر مشتمل ایک مشہور و معروف رسالہ ہے، اس میں صوفیانہ عقائد مثلاً وحدت الوجود، توحید، فنافی الذات، فنافی الصفات معرفت الانسان، حقیقت النفس اور توبہ جیسے مہتم بالشان عنوانات کو نہایت اختصار و جامعیت کے ساتھ روشنی ڈالی ہے، سچ تو یہ ہے کہ دریا کو کوزہ میں بند کردیا ہے، سہل البیانی اور اثر و جاذبیت اس کا طرۂ امتیاز ہے، خیالات و نظریات کی تائید میں جابجا روشن مثالیں اور موقع محل کے اعتبار سے فارسی کے حسین و دل کش اور برجستہ اشعار پیش کیے ہیں۔

    وحدانیت : مذہب اسلام کی عمارت وحدانیت کے بنیاد پر کھڑی ہے اس کے بغیر ایمان کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے گرد و پیش شریعت اور طریقت کے سارے احکام گردش کرتے ہیں یہ کفر و ایمان کے مابین ایک حد فاصل ہے اللہ کی رضا اور نفرت میں وحدانیت کی ہی کار فرمائی ہے۔

    وحدانیت کی حقیقت : اس امر کا زبان سے اقرار کرنا اور دل سے یقین کرنا ہے کہ کائنات کی تخلیق نظام حیات ساری مخلوقات کی پرورش و پرداخت اور فنا و بقا کا مالک صرف اللہ ہے وہ بیک وقت کائنات میں وقوع پذیر سارے حرکات و سکنات کو دیکھتا، سنتا اور اس پر اپنے احکام نافذ کرتاہے اس کے اذن کے بغیر کوئی حرکت وجود پذیر نہیں ہوسکتی جاندار ہوں یا بے جان ساری مخلوقات کی زمام اللہ کے اختیار میں ہے وہی مالک و مختار اور مسبب الاسباب ہے۔

    گرگذندت رسدزِ خلق مرنج

    کہ نہ راحت رسد زخلق نہ رنج

    از خدا داں خلاف دشمن و دوست

    کہ دل ہر دو در تصوف اوس

    گرچہ تیر از کمال ہمی گذرد

    از کما ندارداند اہل خرد

    اقسام وحدانیت : حضرت امام غزالی نے اپنی تصنیف ’’احیاالعلوم‘‘ میں اس کی پانچ قسمیں لکھیں ہیں۔

    ۱ توحید منافقانہ : اس ضمن میں وہ لوگ آتے ہیں جو اللہ کی وحدانیت زبان سے اقرار کرتے ہیں لیکن دل سے یقین نہیں کرتے شریعت کی اصطلاح میں یہ لوگ منافق کہلاتے ہیں دنیامیں یہ لوگ لاکھ نیکیاں کما لیں آخرت میں ان کا کوئی حاصل نہ ہوگا زبان سے اقرار کرنے کی وجہ سے دنیامیں انہیں صرف یہ فائدہ ہوگا کہ شریعت کی تلوار سے ان کی گردنیں معمون ومحفوظ ہوں گیں۔

    ۲ توحید مقلدانہ : اس ز مرہ میں وہ لوگ آتے ہیں جو وحدانیت کا زباں سے اقرار اور دل سے یقین اس بنا پر کرتے ہیں کہ وہ اپنے آباواجداد اور معاشرے کے افراد کی زبانی روایتی طور پر وحدانیت کے بارے میں سنتے چلے آئے ہیں یعنی وہ وراثتی طور پر مومن ہیں دنیامیں عام طور پر لوگ تقلیدی طور پر مسلمان ہیں ان کے یقین میں بہت کم پختگی آتی ہے۔

    ان کی مثال ایسے لوگ ہیں جو شہر کے کسی نواب صاحب کے بارے میں صرف اتنی واقفیت رکھتے ہیں کہ وہ شہر میں کسی کوٹھی میں رہتے ہیں اور یہ واقفیت انہیں محلہ پڑو س کے افراد اور دوست و احباب سے حاصل ہوئی ہے انہیں نہ تو نواب صاحب سے بالمشافہ تعارف ہے اور نہ ان کی کوٹھی کا پتا ہے۔

    ۳ توحید متکلمانہ : اس گروہ میں وہ لوگ آتے ہیں جو دلائل اور براہین کی بنیاد پر اللہ کی وحدانیت کے قائل ہیں ان کامزاج فلسفیانہ ہوتا ہے وہ لوگ کائنات کے نظام پر طائرانہ اور حکیمانہ نظر ڈالتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اتنے وسیع اور منظم نظام کائنات کے پس پردہ یقیناً کوئی قادر مطلق ذات ہے جو سارے نظام کو بحسن وخوبی اصول وظابطہ کے تحت چلا رہا ہے۔

    ان کی مثال وہ لوگ ہیں جنہوں نے بذات خود نواب صاحب کو نہیں دیکھا ہے لیکن ان کی کوٹھی کے پاس سے ان کا گذر ہوا ہے،کوٹھی کے گیٹ پر دربان اور احاطہ میں ان کی سواری پر نظر پڑی ہے اس قرائین سے انہیں یقین ہے کہ نواب صاحب اسی کوٹھی میں مقیم ہیں یعنی وہ منتقی طور پر کسی نتیجے پر پہنچے ہیں۔

    ۴ توحید عارفانہ : اس گروہ میں وہ متقی اور پرہیزگار لوگ آتے ہیں جنہوں نے اپنی مسلسل عبادت و ریاضت وتقویٰ و ذکر ومراقبہ اور نفس کشی کے ذریعہ اللہ کی معارفت حاصل کرلی ہے یہ لوگ روحانیت اور مشاہدہ باطن کے ذریعہ اللہ کو پہچان لیتے ہیں ایسے لوگ عارف باللہ کہلاتے ہیں ان پر اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہوتا ہے اور انہیں اپنا محبوب بنالیتا ہے اور اپنے جلوے سے انہیں فیضیاب کرتا ہے۔

    ان کی مثال دنیا داری کے اعتبار سے وہ لوگ ہوتے ہیں جو نواب صاحب سے دوستی قائم کرتے اور ان کے منظور نظر ہونے کے لئے کافی تگ و دو اور وقت وحالات کے مطابق طرح طرح کی قربانیاں پیش کرتے ہیں ،رفتہ رفتہ نیک کردار اور مناسب اطوار کے ذریعہ وہ نواب صاحب کو اپنے اعتماد میں لے لیتے ہیں اور انہیں نواب صاحب کی ہم نشینی اور قربت حاصل ہوجاتی ہے وہ لوگ اپنے رنج وتعجب کی پرواہ کئے بغیر شب وروز نواب صاحب کی فرماں برداری میں مصروف رہتے ہیں، لہٰذا ان کے ساتھ نواب صاحب کی بھی کرم فرمائیاں جاری رہتی ہیں۔

    عارف باللہ کے عشق پر عقل و خرد کی پاسبانی قائم رہتی ہے اور عارف و معروف اور من وتو کارشتہ قائم رہتا ہے۔

    ۵ توحید عاشقانہ : سال مسلسل شب وروزکی عبادت و ریاضت ذکر ومراقبہ تقویٰ پرہیزگاری اور نفس کشی کے ذریعہ مقام لاہوت تک رسائی حاصل کرلیتا ہے وہ اللہ کے ذکر میں اس قدر مستغرق ہوجاتا ہے کہ اسے اللہ کے سواکچھ نظر نہیں آتا اس پر ہمیشہ تجلیات ربانی کی بارش ہوتی رہتی ہے اللہ کا دھیان اسے اتنا زبردست ہوتاہے کائنات کی ہرشے میں اسے اللہ کا جلوہ نظر آتا ہے یہاں تک کہ خود فراموشی میں مبتلا ہوجاتا ہے وہ عشق کے ایسے مقام پر پہونچ جاتا ہے جہاں عقل و خرد مفلوج ہوجاتا ہے عارف و معروف اور من وتو کا رشتہ منقطع ہو جاتا ہے اور اناالحق کی صدا بلند ہونے لگتی ہے اس کی زبان اللہ کی زبان اور ہر فعل اللہ کا فعل ہوجاتاہے ،عالم ِ استغراق اور جذب و کیف میں بے اختیار چیخ اُٹھتا ہے۔

    در بحر فنا گدا ختم ہمچوں نمک

    نے کفر نہ ایماں نہ یقیں ماند نہ شک

    کے بود یار ماجدا ماندہ

    من و تو رفتہ و خدا ماندہ

    سالک کی مرضی اللہ کی مرضی کے تابع ہوجاتی ہے وہ محبوب کے اشارہ پر حرکت و سکون اختیار کرتا ہے؎

    رشتہ درگردنم افگند دوست

    می برد ہرجا کہ خاطر خواہ اوست

    اس کا رشتہ دنیا و مافیھا سے ایسا منقطع ہوجاتاہے کہ ہرشئے کو خداتصور کرتاہے۔

    ہرچہ بینی یارہست اغیار نیست

    غیر او جز وہم و جز پندار نیست

    مادّی دنیا میں توحید عاشقانہ کی مثال وہ لوگ ہیں جنہوں نے نواب صاحب سے اتنی قربت حاصل کرلی ہے کہ وہ نواب صاحب کے پاس اور مقربوں میں شامل ہوگئے ہیں وہ نواب صاحب کے مکمل اعتماد میں ہیں وہ شب وروز فرماں برداری میں مصروف ہیں اور نواب صاحب کے بغیر ایک لمحہ نہیں رہ سکتے ،معتمدِ خاص ہونے کی وجہ سے انہیں بہت سارے اختیارات حاصل ہیں۔

    ایک قابل غور بات یہ ہے کہ فنافی اللہ ہونے سے ہرگزر یہ مرادنہیں لینا چاہئے کہ سالک وجد وحال اور کیف و استغراق کے عالم میں اپنے خالق اور محبوب کی ذات میں واقعی ضم ہو جاتا ہے اور اس کا اپنا وجود ختم ہوجاتاہے اللہ میں ضم ہوجانا ایک صوفیانہ محاورہ ہے ورنہ انسان جامہ بشریت سے باہر آہی نہیں سکتا یہ ضرور ہے کہ اس کی توجہ مکمل طور پر دنیا و مافیھا سے ہٹ کر ذات باری تعالیٰ کی جانب مرکوز ہو جاتی ہے اور اسے پس وپیش کی خبر نہیں رہتی، لہٰذ اس میں للٰہیت پیداہوجاتی ہے اور اسی رنگ میں رنگ جاتاہے اس سلسلے میں چند مثالیں پیش ہیں۔

    مثال نمبر ۱ : جس طرح آفتاب کی آمد پر آسمان کے ستارے روپوش ہوجاتے ہیں گرچہ ان کا وجود باقی رہتا ہے چوں کہ آفتاب کی روشنی اتنی زبردست ہوتی ہے کہ اس کے سامنے ستاروں کی روشنی ماند پڑجاتی ہے۔

    مثال نمبر۲ : فنافی اللہ کی مثال ایک ایسی سلاخ سے دی جاسکتی ہے جسے آگ میں خوب تپا دیا جائے تو اس میں آگ کی طرح سرخی پیدا ہوجاتی ہے اور آگ کی صفت پیداہوجاتی ہے گرچہ سلاخ کا وجود ختم نہیں ہوتا محاوروں کے طور پر کہہ سکتے ہیں کہ یہ سراپا آتش ہے۔

    مثال نمبر۳ : جب کوئی تعلیم یافتہ جن کسی ناخواندہ انسان پر مسلط ہوجاتاہے تو جن کی ساری نقل وحرکت اس انسان سے سرزد ہونے لگتی ہے یہاں تک کہ اس کی زبان سے عربی فارسی یا کسی دوسری زبان کی گفتگو جاری ہوجاتی ہے ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ جن اس کے جسم میں حلول کرچکاہے اور جب وہ جسم کو چھوڑدیتا ہے تو انسان اپنی صفت پر آ جاتا ہے۔

    اسی طرح سالک جب فنافی اللہ کے مقام پر رسائی حاصل کرلیتا ہے تو وہ اپنے محبوب حقیقی کی صفت اختیار کرلیتا ہے، سالک میں وہ صفت اللہ کی مرضی سے پیداہوتی ہے جو دائمی نہیں ہوتی دوام تو اللہ کی مخصوص صفت ہے جب سالک وجدانی اور استغراقی کیفیت میں ہوتا ہے تو اس کے اور محبوب کے درمیان کیاراز و نیاز کا معاملہ ہوتا ہے دوسروں کو اس سے متعلق آشنائی نہیں ہوتی سالک چوں کہ اپنے محبوب کا رازدار ہوتا ہے لہٰذا اس کو بے نقاب کرنا مقتضائے عشق کے خلاف تصور کرتا ہے۔

    قلم بشکن سیاہی ریزد کاغذ سوز و دم در کش

    حسن ایں قصہ عشق است دردفتر نمی گنجد

    سالک جب اللہ کے مقربین میں شامل ہو جاتا ہے تو رفتہ رفتہ وہ مادّی دنیا کے علائق سے بے نیاز ہو جاتا ہے، عشق اس کی زندگی کا سرمایہ بن جاتا ہے وہ عالمِ قدس میں سیر کرتا نظر آتا ہے کائنات کی ہر شئے میں وہ اللہ کے جلوں کا مشاہدہ کرتا ہے اور خوشی میں جھوم جھوم کر کہتا ہے۔

    بہر رنگی کہ خواہی جامہ می پوش

    من اندازِ قدرت رامی شناسم

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے