ایک ولی کا نواب صاحب کو جواب - اجمیر کیوں جاتے ہیں؟
حضرت مولانا شاہ فضلِ رحمٰن گنج مرادآبادی کی بارگاہ میں دور دور سے لوگ فیض لینے آیا کرتے تھے، چاہے وہ اؤلیااللہ ہو یا عالمِ دین، وقت کا نواب ہو یا عام انسان، ہر کسی کی حاجت روائی کرتے ہوئے شاہ فضلِ رحمٰں نظر آتے اور لوگوں کے مسئلے مسائل بھی حل کرتے تھے۔
اسی طرح ایک نواب صاحب حضرت شاہ فضلِ رحمٰن کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضور! جب فاتحہ یہیں سے پہنچ جاتی ہیں تو اجمیر جانے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ کو ایک خادم پنکھا جھل رہا تھا اور نواب صاحب آپ سے کچھ دوری پر بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے نواب صاحب کو قریب بلایا اور جب وہ قریب آئے تو آپ نے پوچھا کہ یہ جو پنکھا جھلا جا رہا ہے، اس کی ہوا آپ کو لگ رہی ہیں؟
نواب صاحب بولے جی! لگ رہی ہے پھر آپ نے پوچھا کہ جب دور بیٹھے تھے تو لگ رہی تھی؟ تو نواب صاحب بولے نہیں لگ رہی تھی آپ نے فرمایا کہ بس اسی لیے اجمیر جایا جاتا ہے، فاتحہ تو پہنچ جائے گی مگر جو رحمت وہاں خواجہ معین الدین چشتی کے مزار پر خدا کی طرف سے برس رہی ہیں وہ آپ کے گھر نہیں برسے گی۔۔۔ اسی لیے جیسے یہ پنکھے کی ہوا سے تم اطمنان پا گئے جبکہ یہ تمہارے لیے نہیں چل رہا تھا، ویسے ہی جو بھی وہاں پر یا کسی صوفی کے مزار پر حاضر ہوتا ہے تو جو انوار اور نور کی بارش ان پر ہوتی ہیں اس میں سارے حاضرین بھی بھیگ جاتے ہیں یہ جواب سن کر وہ نواب صاحب اس طرح متمئن ہوتے ہیں کہ فوراََ حضرت کے مرید ہو جاتے ہیں۔
حضرت شاہ فضلِ رحمٰن فرماتے ہیں کہ اگر نبوت کا سلسلہ ختم نہ ہوتا تو خواجہ معین الدین چشتی بھی نبی ہوتے، اسی طرح ایک بار آپ نے اجمیر شریف جانے کا ارادہ کیا تو اسی شب خواجہ معین الدین چشتی تشریف لائے اور آپ پر اس قدر خوب نوازشیں کی کہ بیان سے باہر ہے۔ (افضالِ رحمانی، ص 223)
حضرت شاہ فضلِ رحمٰن کی یہ خصوصیت تھی کہ آپ خود فرماتے ہیں کہ ہم جس نبی، صحابہ یا ولی کے بارے میں پڑھتے یا ان کے مزار پر حاضری دینے کا ارادہ کرتے تو وہ خود ملاقات کے لیے آ جاتے اور خوب نوازتے، بچپن سے ہی آپ کو حضوری حاصل تھی اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود آپ کو درسِ حدیث دیا ہے، آپ جو حدیث کے بارے ميں یہ جاننا چاہتے کہ فلاں حدیث صحیح ہے یا ضعیف، وہ حدیث آپ خود رسول اللہ سے پوچھ لیتے، آپ کو حضرت سیدہ فاطمہ زہرا سے فقر عطا ہوا تھا اور آپ کو اپنے آغوشِ مادری سے لگاکر اپنا روحانی فرزند بنایا تھا، اسی طرح آپ فرماتے ہیں کہ لڑکپن میں جب ہم یوسفِ زلیخا پڑھتے تو حضرت یوسف علیہ السلام سے ہم کو فیض آیا کرتا تھا۔ (افضالِ رحمانی، ص 200)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.