Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

حضرت بدیع الدین مدار

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

حضرت بدیع الدین مدار

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

MORE BYڈاکٹر ظہورالحسن شارب

    حضرت شاہ بدیع الدین مدار ولیٔ زماں اور قدوۂ کاملاں تھے۔

    خاندانی حالات : آپ ہاشمی ہیں اور سادات نبی فاطمہ سے ہیں۔

    والد ماجد : آپ کے والد ماجد کا نام سید علی ہے۔

    والدہ ماجدہ : آپ کی والدہ ماجدہ فاطمہ ثانی کا سلسلہ نسب کئی واسطوں سے حضرت امام حسن تک پہنچتا ہے، ان کے والد کا نام عبداللہ تھا۔

    ولادت باسعادت : آپ حلب میں یکم شوال 442ہجری کو صبح صادق کے وقت پیدا ہوئے۔

    نام نامی : آپ کا نام بدیع الدین ہے۔

    لقب : آپ ”قطب مدار“ کے لقب سے مشہور ہیں۔

    تعلیم و تربیت : آپ کی عمر جب پانچ سال کی ہوئی تو آپ کے والد بزرگوار نے آپ کی بسم اللہ کے بعد آپ کو مولانا حذیفہ شامی کے سپرد کیا، آپ کی تعلیم مولانا حذیفہ شامی کی نگرانی میں شروع ہوئی، آپ نے بہت جلد قرآن شریف ختم کیا، بارہ سال کی عمر میں آپ نے مختلف علوم میں اچھی خاصی استعداد حاصل کی، اس کے بعد آپ نے تفسیر، حدیث، فقہ میں کمال حاصل کیا اور محدث مشہور ہوئے، چودہ سال کی عمر میں آپ کا شمار علما میں ہونے لگا، آپ نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ علمِ سیمیا، علم کیمیا اور علم ریمیا میں بھی دستگاہ حاصل کی۔

    بیعت و خلافت : بعد تحصیل علومِ ظاہری جذبۂ الٰہی نے آپ کو علمِ باطن کے حصول کی طرف متوجہ کیا، آپ حضرت طیفور شامی سے بیعت ہوئے اور بعد میں خرقۂ خلافت سے سرفراز ہوئے، آپ کے پیر و دستگیر نے آپ کو حبسِ دم کی تعلیم فرمائی، آپ حکم بجا لائے اور اس قدر حبس دم کیا کہ کھانے پینے کی خواہش جاتی رہی۔

    زیارت حرمین شریفین : مکہ معظمہ پہنچ کر آپ نے حج کا فریضہ ادا کیا، کچھ دن وہاں قیام کر کے مدینہ منورہ حاضر ہوئے، دربارِ رسالت میں باطنی نعمتوں سے مستفید و مستفیض ہوئے، نسبت محمدی سے آپ کا لقب روشن ہوا۔

    فرمان : ایک دن آپ دربارِ رسالت میں حاضر تھے، مراقب ہوئے، حضوری ہوئی، سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے فرمایا کہ ”بدیع الدین ! تم ہندوستان جاؤ اور وہاں جاکر مخلوق کی ہدایت میں کوشش کرو‘‘

    ہندوستان میں آمد : آپ پہلی بار جب ہندوستان تشریف لائے تو گجرات میں کچھ عرصہ قیام فرمایا، گجرات سے روانہ ہوکر اور شہروں کو زینت بخشی۔

    روانگی : کچھ دن ہندوستان میں رہ کر اور مختلف شہروں میں گھوم کر آپ مکہ معظمہ چلے گئے، حج کیا اور پھر مدینہ منورہ حاضرِ ہوئے، بعد ازاں بغداد اور نجف اشرف ہوتے ہوئے پھر ہندوستان تشریف لائے اور بغداد میں حضرت غوث الاعظم سے ملاقات کی، اس مرتبہ جو ہندوستان تشریف لائے تو دیگر مقامات کی سیر کی، پھر اجمیر پہنچے، اجمیر میں کوکلاہ پہاڑی پر آپ نے قیام فرمایا، خواجہ معین الدین چشتی سے آپ کی ملاقات ہوئی، اجمیر سے روانہ ہوکر دیگر مقامات کو شرف بخشا۔

    حج : حرمین شریفین کی زیارت کا شوق پھر دامن گیر ہوا، آپ حرمین شریفین کی زیارت اور حج سے فارغ ہوکر نجف اشرف گئے، وہاں سے اپنے وطن حلب آئے، حلب سے چنار گئے، وہاں کچھ دن قیام فرمانے کے بعد آپ اپنے عزیز سید عبداللہ کے تینوں لڑکوں سید ابو محمد ارغون، سید ابوتراب فنصور اور سید ابوالحسن طیغور کو ہمراہ لے کر مدینہ منورہ آئے اور ایک عرصے تک انوار محمدی سے منور و روشن اور مستفید ہوتے رہے۔

    ارشاد عالی : ایک روز دربار رسالت سے آپ کو حکم ملا کہ

    ”بدیع الدین ! ہم نے تمہارے قیام کے لئے ہندوستان کو تجویز کیا ہے، وہیں تم جاؤ اور رہو سہو اور دینِ محمدی کو پھیلاؤ اور اس کی کوشش میں دقیقہ نہ اٹھا رکھو“

    ہندوستان میں سکونت کے متعلق آپ کو دربار رسالت سے یہ حکم ملا کہ قنوج کے میدان میں جنوب کی طرف جو تالاب ہے اس کی لہروں سے یا عزیز کی آواز آتی ہے، وہ زمین ان کے رہنے کے لئے مناسب ہے، ان کا مسکن اور ان کا مدفن وہیں ہوگا“

    ہندوستان : حکم پاکر ہندوستان روانہ ہوئے، ممالک عرب، عجم، خراسان کی سیر و سیاحت فرماتے ہوئے، اجمیر آئے اور اجمیر سے کالپی چلے گئے، کالپی سے جون پور ہوتے ہوئے مکن پور پہنچے، وہاں سے کنتور گئے پھر گھاٹم پور ہوتے ہوئے سورت میں رونق افروز ہوئے۔

    آخری حج : آپ زیارتِ حرمین شریفین کے مقصد سے روانہ ہوئے، حج سے فارغ ہوکر مدینہ منور حاضر ہوئے اور دربار نبوی کی عنایت سے سرفراز ہوئے۔

    مکن پور میں مستقل قیام : ہندوستان واپس تشریف لائے اور مکن پور میں مستقل سکونت اختیار کی۔

    وصیت : آپ نے وصیت فرمائی کہ

    ”سید محمد ارغون، سید ابوتراب فنصور، سید ابوالحسن طیفور کو میں نے اپنا جانشین کیا۔۔۔ ان تینوں کی بجائے میرے تصور کرنا اور جو کوئی مشکل پیش آئے تو ان کی طرف رجوع کرنا“

    دوسری وصیت آپ نے یہ فرمائی کہ

    ”میرے جنازے کی نماز مولانا حسام الدین سلامتی پڑھائیں گے“

    وصال : آپ نے 17 جمادی الاول 838ہجری کو وصال فرمایا، مزارِ پُرانوار مکن پور میں واقع ہے، ”ساکن بہشت“ مادۂ تاریخ وفات ہے۔

    خلفا : تین حضرات کو آپ کی خلافت و جانشینی کا شرف حاصل ہوا، ان تین حضرات کو ”کنفس واحدہ“ مانا جاتا ہے اور ایک ہی لقب سے تینوں پکارے جاتے ہیں، ان تین حضرات کے نام حسبِ ذیل ہیں۔

    حضرت سید ابومحمد ارغون، حضرت سید ابوتراب فنصور، حضرت سید ابوالحسن طیفور۔

    آپ کے ممتاز خلفا حسب ذیل ہیں۔

    حضرت قاضی محمود، حضرت سید اجمل جونپور اور حضرت قاضی مطہر کے علاوہ حسب ذیل حضرات کو آپ کا خلیفہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔

    سید پولاد، شمس ثنای چو بدار، حضرت قاضی شہاب الدین پرکالہ، آتش سید صدرالدین، شیخ حسین بلخی، سید صدر جہاں، شیخ آدم صوفی، سلطان شہباز، سلطان حسن عربی، میاں سیف اللہ، شیخ فخر الدین اور عادل شاہ۔

    سیرت پاک : آپ کو مقام صمدیت حاصل تھا، آپ حبس دم بہت فرماتے تھے، آپ کی عمر بہت ہوئی، آپ کھانے پینے کی خواہش سے مدتوں سے بے نیاز رہتے تھے، آپ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت سے فیض یافتہ تھے، آپ اویسی تھے۔

    مرتے کو ماریں زندہ شاہ مدار :

    یہ مثال کہ ”مرتے کو ماریں زندہ شاہ مدار“ زبان زد خاص و عام ہے، جب کوئی شخص کسی تکلیف یا مصیبت میں گرفتار ہوتا ہے اور اس پر کوئی نئی مصیبت یا تکلیف وارد ہوتی ہے یا اس پر کوئی ظلم کیا جاتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ ”مرتے کو ماریں زندہ شاہ مدار“ اس کے معنی، مضمرات اور متعلقات سے بہت ہم کم لوگ واقف ہیں، اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ شاہ مدار کو یہ قدرت حاصل تھی کہ جو صوفی مرتبۂ فنا میں ہوتے تھے، آپ ان کو اس مقام سے نکال کر مرتبہ فنا فی الفنا میں پہنچا دیتے ہیں۔

    تعلیمات : آپ کی تعلیمات معرفت کا خزینہ ہیں۔

    خدا طلبی : آپ نے حضرت شاہ فضل اللہ بدخشانی سے فرمایا کہ

    ”اے عزیز ! تم نے اس کوچے میں قدم رکھا ہے جو ایک دریائے ناپید اکنار ہے جس میں بلا اندر بلا ہے، جو لوگ ہوشیار ہوتے ہیں وہ جرأت و ہمت کو اپنا شعار کرکے پار ہوجاتے ہیں اور حیات ابدی حاصل کرتے ہیں، اس میں راحت و آرام کو خیرباد کہنا ہوتا ہے اور جیتے جی مصیبت میں مبتلا ہونا پڑتا ہے۔

    معرفتِ خداوندی : آپ فرماتے ہیں کہ

    ”۔۔۔۔۔اول اپنے آپ کو پہچانو خدا کو پہچان لوگے، من عرف نفسہٗ فقد عرف ربہٗ۔ تم کو یہ خیال کرنا چاہئے کہ تم کون ہو کہاں سے آئے ہو اور کہاں جانا ہے، اس عالم میں کس لئے آئے تھے اور خداوند تعالیٰ نے تم کو کس لئے پیدا کیا ہے اور نیک بختی اور بدبختی کیا ہے، اول تم کو ان چیزوں سے آگاہ ہونا چاہئے اور تمہاری صفات بعض حیوانی ہیں، بعض شیطانی، بعض ملکی‘‘

    تم کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ تمہاری اصل صفات کون ہیں، یاد رکھو کھانا، پینا سونا، فربہ ہونا، غصہ کرنا یہ حیوانی صفات ہیں، مکر و فریب کرنا، فتنہ برپا کرنا، یہ شیطانی صفات ہیں، اگر ان صفات کے تم تابع ہوگے تو حق تعالیٰ کی معرفت تم کو حاصل نہیں ہوسکتی، ہاں اگر صفات ملکوتی تم حاصل کر لوگے تو کیا عجب کہ معرفتِ خداوندی سے تمہارا قلب روشن ہوجائے، تم کو کوشش کرنی چاہئے کہ صفاتِ حیوانی و شیطانی سے نکل کر صفات ملکوتی حاصل کرو“

    ”دیکھو اللہ تعالیٰ نے تم کو دو چیز سے بنایا ہے“

    ایک بدن اور دوسری روح، روح کی دو قسمیں ہیں، حیوانی، انسانی۔

    روح حیوانی تمام جانوروں کو عنایت ہوئی ہے اور روحِ انسانی انسان کے ساتھ خاص ہے، جب تک روح انسانی سے کام نہ لوگے، انسان نہیں ہوسکتے اور نہ معرفتِ خداوندی حاصل ہوسکتی ہے“

    اقوال : آدمی پر ذات کا پر تو ہے اور کعبہ پر صفات کا وحدت نقطہ سے زیادہ نہیں ہے۔

    قلندر وہ ہوتا ہے جو صفاتِ الٰہی کے ساتھ متصف ہو بفحوائے حدیث پاک۔

    التصفو بِصِفات اللہ یا تخلقوا باخلاق اللہ او کما قال یعنی خدا کی عادات اور صفات کے ساتھ تم کو اپنی عادت کرنی چاہئے۔

    دل کی حفاظت کرو۔

    سالک وہ ہوتا ہے جو چاہتا ہے کہ آسمان پر چلا جائے۔

    کشف و کرامات : بی بی نصیبہ کے کوئی لڑکا نہیں تھا، جب بغداد تشریف لے گئے تو بی بی نصیبہ آپ سے دعا کی طالب ہوئیں، آپ کی دعا سے دو لڑکے ہوئے، ایک روز کا واقعہ ہے کہ آپ دریا کے کنارہ رونق افروز تھے، ایک سودا گر اپنا مال کشتی میں رکھ کر روانہ ہوا، کچھ دور جاکر وہ کشتی دریا میں ڈوب گئی، ایک شخص نے جو وہاں موجود تھا اس حادثے کی خبر آپ کو دی، آپ نے ایک مٹھی خاک اس کو دی اور دریا میں ڈالنے کی تاکید فرمائی، اس نے وہ مٹھی خاک دریا میں ڈالی، کشتی بر آمد ہوگئی۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے