Sufinama

حضرت شیخ جلال الدین تبریزی

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

حضرت شیخ جلال الدین تبریزی

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

MORE BYڈاکٹر ظہورالحسن شارب

    دلچسپ معلومات

    خم خانۂ تصوف۔ باب 2

    حضرت شیخ جلال الدین تبریزی سلطان الاصفیا ہیں۔

    ارادت : آپ حضرت شیخ ابوسعید تبریزی کے مرید تھے، حضرت نظام الدین اؤلیا ان (ابوسعید تبریزی)کی بابت فرماتے ہیں کہ

    ’’آپ بزرگ شیخ اور اعلیٰ درجے کے تارک الدنیا تھے، چنانچہ اکثر آپ پر قرض ہوجاتا لیکن کسی سے کوئی چیز نہ لیتے، ایسا بھی ہوا ہے ایک مرتبہ تین دن تک خانقاہ میں کھانا نہ پکا، آپ اور آپ کے یار تربوزے سے ہی افطار کرتے رہے اور گزارہ کرتے رہے جب یہ خبر وہاں کے حاکم نے سنی تو کہا کہ وہ ہماری چیز قبول نہیں کرتے، نقدی لے جاؤ اور شیخ کے خادم کو دے دو اور خادم سے کہو کہ تھوڑا تھوڑا خرچ کرے اور شیخ صاحب سے اس کا ذکر تک نہ کرے“

    چنانچہ شاہی (حاکم کے) نوکر نے آکر خادم کو کچھ نقدی دی اور کہا کہ مصلحت کے مطابق خرچ کرنا اور شیخ صاحب کو نہ جتانا، القصہ جب روپیہ لایا گیا اور خرچ کیا تو اس روز شیخ صاحب کو طاعت میں جو ذوق اور آرام حاصل ہوا کرتا تھا نہ ہوا، خادم کو بلا کر پوچھا کہ رات کو جو کھانا تونے ہمیں دیا وہ کہاں سے آیا تھا، خادم چھپا نہ سکا، سارا حال بیان کر دیا، پوچھا ! کون شخص لایا تھا اور کہاں کہاں قدم رکھا تھا۔

    فرمایا ”جہاں جہاں اس نے قدم رکھا وہاں سے مٹی کھود کر پھینک دو“ اور اس خادم کو بھی اسی قصور کے عوض خانقاہ سے نکال دیا۔

    خدمت : اپنے پیر و مرشد شیخ ابوسعید تبریزی کی وفات بعد آپ شیخ شہاب الدین سہروردی کی خدمت میں رہنے لگے اور ان کی ایسی خدمت کی جس کی مثال مشکل سے ملے گی۔

    شیخ شہاب الدین سہروردی ہر سال بغداد سے حج کے لئے جاتے تھے، جب بوڑھے ہوگئے تو ٹھنڈا کھانا ان سے نہیں کھایا جاتا تھا، آپ نے یہ اہتمام کیا کہ انگیٹھی اور دیگچی اپنے سرپر رکھ کر چلتے تھے لیکن سر کو نہ ہلنے دیتے تھے جب شیخ شہاب الدین سہروردی کھانا مانگتے، آپ گرم کھانا پیش کر دیتے تھے۔

    نعمت : ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ شیخ شہاب الدین سہروردی حج کرکے واپس بغداد تشریف لائے، لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہونا شرع ہوئے جو بھی آتا کچھ نہ کچھ لے کر آتا، ایک بڑھیا آئی، اس کے پاس کچھ نہیں تھا، اس نے اپنی پرانی چادر کے دامن سے ایک درم نکال کر ان کو پیش کیا، انہوں نے قبول کیا اور انہوں نے اس درم کو سب تحائف کے اوپر رکھا، بعد ازاں حاضرین سے مخاطب ہوکر شیخ شہاب الدین سہروردی نے فرمایا کہ جو جس کو لینا ہو لے لے، ہر ایک نے جو چاہا اٹھایا، آپ (جلال الدین تبریزی) اس وقت وہاں موجود تھے، شیخ شہاب الدین سہروردی نے آپ کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ ”تم بھی کچھ لے لو“

    آپ یہ اشارہ پاکر اٹھے اور وہ درم جو بڑھیا نے پیش کیا تھا اور جو سب سے اوپر رکھا تھا اٹھا لیا۔

    شیخ شہاب الدین سہروری نے یہ دیکھ کر آپ سے فرمایا کہ

    ”تو تو سب کچھ لے گیا“

    سیر و سیاحت : آپ کا اور شیخ بہاؤالدین زکریا کا سیر و سیاحت میں بہت ساتھ رہا،شیخ بہاؤالدین زکریا جب کسی شہر میں پہنچتے تو عبادت میں مشغول ہوجاتے اور آپ وہاں کی سیر کو نکل جاتے اور اس شہر کے درویشوں سے ملتے، نیشاپور پہنچ کر آپ حضرت فریدالدین عطار کے پاس گئے، فریدالدین عطار سے مل کر آپ جب واپس آئے تو شیخ بہاؤالدین زکریا نے آپ سے پوچھا کہ آج درویشوں میں کس کو بہتر پایا، آپ نے جواب دیا کہ فریدالدین عطار کو سب سے بہتر پایا پھر بہاؤالدین زکریا نے آپ سے پوچھا کہ تمہارے اور ان (فریدالدین عطار) کے درمیان کیا گفتگو ہوئی آپ نے جواب دیا کہ

    ”فریدالدین عطار نے مجھ کو دیکھتے ہی پوچھا کہ فقیر لوگ کہاں سے آنا ہوا، میں نے جواب دیا کہ بغداد سے، پھر انہوں نے پوچھا کہ وہاں کون کون درویش مشغول بحق ہیں، میں خاموش ہوگیا، میں نے کچھ جواب نہ دیا“

    یہ سن کر بہاؤالدین زکریا نے آپ سے کہا کہ ان کے یہ دریافت کرنے پر تم نے بہاؤالدین سہروردی کا نامِ نامی کیوں نہ ان کو بتایا، آ پ نے جواب دیا کہ اصل بات یہ ہے کہ

    ”میں فریدالدین عطار سے اتنا متاثر ہوا اور ان کی عظمت اور بزرگی نے میرے دل و دماغ پر ایسا قبضہ کیا کہ ان کے سامنے مجھ کو کچھ یاد نہ رہا“

    یہ سن کر بہاؤالدین زکریا خوش ہوگئے اور ان کو کچھ ایسی ناگواری ہوئی کہ آپ سے علیحدہ ہوگئے۔

    انار کا دانہ : آپ سیر و سیاحت فرماتے ہوئے ملتان تشریف لائے، ملتان سے آپ کھتوال پہنچے، آپ جہاں بھی جاتے تھے وہاں کے درویشوں سے ضرور ملتے تھے، کھتوال پہنچ کر آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا اس شہر میں کوئی درویش ہے جس سے ملا جائے۔

    کھتوال کے لوگ بابا فریدالدین گنج شکر کو”قاضی بچہ“ کہہ کر پکارتے تھے، لوگوں نے آپ کو بتایا کہ ایک ”قاضی کا بچہ“ ہے جو جامع مسجد میں رہتا ہے وہ مرید حضرت قطب الدین بختیارکاکی کا ہے۔

    یہ معلوم ہوکر آپ کو بابا صاحب سے ملنے کا اشتیاق ہوا، جب آپ روانہ ہوئے تو ایک شخص آپ سے راستے میں ملا، اس نے ایک انار آپ کو پیش کیا، آپ وہ انار ہاتھ میں لئے ہوئے بابا صاحب کے پاس آئے، آپ نے اس انار کو کاٹ کر وہاں کھانا شروع کیا، بابا صاحب کا روزہ تھا، انہوں نے نہیں کھایا، انار کا ایک دانہ زمین پر گر گیا تھا، بابا صاحب نے اس دانے کو اٹھاکر اپنی دستار میں رکھ لیا اور اس روز اسی دانے سے افطار کیا۔ ان کی طبیعت میں انشراح اور دل میں روشنی پیدا ہوئی۔

    ان کو خیال آیا اگر زیادہ کھاتے تو کیا اچھا ہوتا، جب وہ دہلی آئے تو ان کے پیر روشن ضمیر قطب الاقطاب قطب الدین بختیار کاکی نے ان سے فرمایا کہ

    ”مسعود جو انار کا دانا تیری قسمت کا تھا تجھ کو مل گیا، خاطر جمع رکھو“

    دہلی میں آمد : آپ جب دہلی تشریف لائے تو سلطان شمس الدین التمش نے آپ کا استقبال کیا، یہ بات نجم الدین صغریٰ کو حواس وقت شیخ الاسلام تھے ناگوار ہوئی، بربنائے حسد وہ آپ سے کدورت رکھنے لگے اور آپ کا اقتدار گرانے کی غرض سے مختلف قسم کی ترکیبیں اور سازشیں آپ کے خلاف کرنے لگے، پانچ سو اشرفیوں کا لالچ دے کر ایک طوائف کو جس کا نام گوہر تھا اس بات پر آمادہ کیا کہ آپ پر زنا کا الزام لگائے۔ ڈھائی سو اشرفیاں اس طوائف کو دے دی گئیں اور ڈھائی سو اشرفیاں یہ طے پایا کہ بعد میں دی جائیں گی، بقیہ ڈھائی سو اشرفیاں احمد اشرف بقال کے پاس بطورِ امانت رکھ دی گئیں۔

    جب سلطان التمش کے پاس شکایت پہنچی تو اس نے تمام مشاہیر اور مشائخ کو دہلی بلایا، دو سو سے زیادہ اؤلیائے کرام دہلی آئے، جمعہ کی نماز کے بعدسب مسجد منار میں جمع ہوئے، سلطان التمش نے نجم الدین صغریٰ کو اجازت دی کہ جس کو چاہیں ثالث بنالیں، انہوں نے بہاؤالدین زکریا کو ثالث بنایا، ان کو خیال تھا کہ بہاؤالدین زکریا کی آپ سے نیشاپور میں کشیدگی ہوگئی تھی، اس لئے وہ کشیدگی کار آمد ہوگی۔

    گو ہر حاضر ہوئی، آپ بھی بلائے گئے، جب آپ مسجد کے دروازے میں داخل ہوئے سب آپ کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوگئے۔ بہاؤالدین زکریا آگے بڑھے اور آپ کے جوتے اپنے ہاتھ میں اٹھا لئے، سلطان التمش نے دیکھ کر یہ کہا کہ جب ثالث نے اتنی عزت کی تو پھر معاملہ طے ہوگیا۔

    بہاؤالدین زکریا نے فرمایا کہ

    ”میرے اوپر واجب ہے کہ شیخ جلال الدین کی خاک پا کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بناؤں کیونکہ وہ سات برس تک سفر و حضر میں میرے پیر و مرشد کی خدمت میں مقیم رہے ہیں، امر حق اللہ پر بخوبی ظاہر ہے۔۔۔۔ پھر بھی ضروری ہے کہ امر حق کا انکشاف ہو“

    بہاؤالدین زکریا نے جب اس مطربہ سے پوچھا تو اس نے سازش کا پورا حال بیان کردیا۔

    دہلی میں آپ نے قطب الدین بختیار کاکی سے فیوض و برکات حاصل کئے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ نے قطب الدین بختیار کاکی سے خرقۂ خلافت حاصل کیا۔

    روانگی : کچھ عرصے قیام کر کے آپ نے دہلی چھوڑ دی، روانگی کے وقت آپ نے فرمایا کہ

    ”جب میں اس شہر میں آیا تو خالص سونے کی طرح تھا، اب یہاں سے چاندی ہوکر چلا ہوں“

    بدایوں میں قیام : بدایوں میں آپ نے کچھ عرصہ قیام فرمایا، ایک دن کا واقعہ ہے کہ آپ اپنے مکان کی دہلیز پر تشریف رکھتے تھے، ایک شخص جو مواسی کا رہنے والا تھا، چھاچھ کا مٹکا سر پر رکھے اس طرف گزرا، وہ شخص ڈاکوؤں کے گروہ سے تھا جب اس نے آپ کو دیکھا دیکھتے ہیں از خود رفتہ ہوگیا، اسی وقت مشرف بہ اسلام ہوا، آپ نے اس کا نام علی رکھا،

    مسلمان ہونے کے بعد وہ اپنے گھر گیا، ایک لاکھ چیتل لاکر آپ کو نذر کئے، آپ نے قبول فرمائے اور یہ ہدایت فرمائی کہ

    ”اسے اپنے پاس رکھو، جہاں میں کہوں گا وہاں صرف کرنا“

    اس رقم میں سے کسی کو سَو اور کسی کو پچاس چیتل تقسیم کئے جانے لگے، کم از کم پانچ دئے جاتے تھے، تھوڑی ہی مدت میں ساری رقم صرف ہوگئی، ایک چیتل بچا علی نے سوچا کہ ایک چیتل رہ گیا ہے اور کم از کم پانچ دئے جاتے ہیں، اب اگر کسی کو دینے کا حکم دیں گے تو کیا کرے گا۔

    اتنے میں ایک سائل آیا، آپ نے علی کو حکم دیا کہ اس سائل کو ایک چتیل دے دو۔

    لباس کی برکت : ایک دن کا واقعہ ہے کہ مولانا علاؤالدین اصولی جو اس وقت بچے تھے، بدایوں کے ایک کوچے میں پھر رہے تھے، جب آپ نے ان کو دیکھا اپنے پاس بلایا اور اپنا لباس جو اس وقت آپ پہنے ہوئے تھے اتار کر ان (علاؤالدین) کو پہنایا، حضرت نظام الدین اؤلیا فرماتے ہیں کہ

    ”مولانا علاؤالدین میں جو اخلاقِ حمیدہ اور اوصاف ستودہ پائے جاتے ہیں، وہ سب اسی جامے کی برکت ہیں“

    قاضی صاحب سے ملاقات : جس زمانے میں آپ کا قیام بدایوں میں تھا ایک دن آپ قاضی کمال الدین جعفری کے پاس تشریف لے گئے، وہاں پہنچ کر آپ کو معلوم ہوا کہ قاضی صاحب نماز پڑھ رہے ہیں، یہ سن کر آپ مسکرائے اور فرمایا کہ

    ”کیا قاضی صاحب کو نماز پڑھنا آتی ہے؟“

    دوسرے دن جب قاضی صاحب آپ سے ملے تو شکایت کی کہ ایسی بات ان کے متعلق کیوں کہی، آپ نے نماز کے متعلق بہت سی باتیں قاضی صاحب کو سمجھائیں لیکن قاضی صاحب مطمئن نہ ہوئے۔

    قاضی صاحب نے رات کو خواب میں دیکھا کہ آپ عرش پر مصلیٰ بچھائے ہوئے نماز ادا کر رہے ہیں، دوسرے دن جب آپ کی قاضی صاحب سے ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ

    ”نہایت قصد و ہمت علما کی یہ ہے کہ مفتی ہوں یا مدرس یا اس سے بڑھے تو کہیں کے قاضی ہوئے، اس سے بڑھ کر منصب صدر جہانی کا ہے پھر اس سے زیادہ ان کی ہمت نہیں ہوتی مگر فقرا کے بہت مراتب ہیں، پہلا مرتبہ یہ ہے کہ جو آج کی رات قاضی نے خواب میں دیکھا ہے“

    قاضی صاحب یہ سن کر معافی کے خواستگار ہوئے اور اپنے لڑکے برہان الدین کو آپ کا مرید بنوایا۔

    ترکِ سکونت : آپ بدایوں سے ترکِ سکونت کر کے بنگال روانہ ہوئے، آپ کے مرید علی بھی آپ کے ساتھ ہو لئے، آپ نے منع فرمایا۔

    علی نے عرض کیا۔

    ”میں کس کے پاس جاؤں؟ آپ کے سوا میں کسی کو جانتا بھی نہیں“

    آپ نے دوبارہ علی سے واپس جانے کے لئے فرمایا، علی نے پھر عرض کی

    ”آپ ہی میرے پیر اور مخدوم ہیں، آپ کے بغیر میں کیا کروں گا“

    اس پر آپ نے علی کو حکم دیا کہ

    ”واپس جا کیوں کہ یہ شہر تیری حمایت میں ہے“

    بنگال میں آمد : بنگال پہنچ کر آپ نے مستقل سکونت اختیار فرمائی اور زندگی کے آخری ایام بنگال میں گزارے، تادمِ واپسیں تعلیم و تلقین اور رشد و ہدایت فرماتے رہے، مسجد اور خانقاہ بنائی۔

    وفات : آپ 642ھ میں واصل بحق ہوئے، مزار فیضِ آثار دیو محل بندر (سلہٹ) میں مرجع خاص و عام ہے۔

    مرید : خواجہ علی آپ کے ممتاز مریدہیں۔

    سیرت : آپ اخلاقِ حمیدہ، اوصافِ ستودہ اور صفاتِ پسندیدہ کے مالک تھے، کمالاتِ صوری و معنوی سے آراستہ تھے، آپ نمازِ اشراق پڑھ کر سو جاتے، نمازِ عشا سے فارغ ہوکر مراقبہ کرتے، رات بھر جاگتے، مرید بہت کم کرتے۔

    تعلیمات : ”عالموں کی نماز اور ہوتی ہے اور فقیروں کی اور۔۔۔ علما کی نماز اس طرح ہوتی ہے کہ ان کی نظر کعبہ پر رہتی ہے اور نماز ادا کرتے ہیں اور اگر کعبہ دکھائی نہ دے تو اس طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے ہیں اور اگر کسی ایسے مقام پر ہوں جہاں سمت نہ معلوم ہوسکے تو جس طرف چاہیں قیاساً ادا کر لیتے ہیں، علما کی نماز انہیں تین قسم کی ہوتی ہیں لیکن فقیر جب تک عرش کو نہیں دیکھ لیتے، نماز ادا نہیں کرتے“

    اقوال :

    جس نے شہوت پرستی کی وہ کبھی فلاح نہیں پاتا۔

    جس کسی نے صنعت میں دل لگایا وہ دنیا کا بندہ ہوگیا۔

    کشف و کرامات : ایک دن آپ دریا کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے وضو کیا اور لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ دہلی کے شیخ الاسلام کاا نتقال ہوگیا، نمازِ جنازہ پڑھیں، نماز سے فارغ ہوکر آپ نے فرمایا کہ

    ”شیخ الاسلام دہلی نے ہم کو شہر سے باہر کیا، ہمارے شیخ نے اس کو دنیا سے باہر کیا“

    بعد کو معلوم ہوا کہ شیخ الاسلام دہلی کا اسی وقت انتقال ہوا تھا جس وقت آپ نے فرمایا تھا۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے