حضرت شاہ کمال کتھیلی
حضرت شاہ کمال کتھیلی مقتدائے راہِ دین ہیں۔
خاندانی حالات : آپ بغداد کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
والد : آپ کے والد ماجد کا نام سید محمد عمر ہے وہ حافظ بھی تھے اور حاجی بھی، وہ کامیاب طبیب ہونے کے علاوہ ایک عالم بھی تھے۔
ولادت : آپ نے 7 شوال 835ہجری کو اس عالم کو زینت بخشی۔
نام : آپ کا نام کمال ہے۔
القاب : آپ کے القاب ”سلب احوال“ اور ”لال ریال“ ہیں۔
پیشین گوئی : حضرت فضیل قادری آپ کے یہاں تشریف لائے، آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور آپ کے والد سے آپ کے متعلق فرمایا کہ
ہادیٔ کامل و ولی عادل تمہیں و دیعت ہوا ہے، اس کی تربیت صحیح طور پر کیجئے کیونکہ یہ بچہ اؤلیا کے زمرے میں مراتبِ عالیہ پر فائز ہوگا، اس کی پرواز سدرۃ المنتہیٰ تک ہوگی، اس کا علم وسیع ہوگا اور عمر دراز ہوگی۔
ابتدائی زندگی : بچپن ہی سے آپ میں ترک و تجرید کے آثار نمایاں تھے اور بچوں کی طرح کھیل کود میں دلچسپی نہیں تھی، جنگلوں میں گھومنا پھرنا آپ کا محبوب مشغلہ تھا، کھانا پینا بھی برائے نام تھا، اگر مل جاتا تو کھا لیتے ورنہ نہیں، بچپن ہی سے آپ حالتِ جذب میں رہتے تھے۔
ایک واقعہ : ایک روز جب کہ آپ حسب معمول گھر سے غائب تھے، آپ کے والد ماجد آپ کی تلاش کے لئے نکلے، ایک جنگ میں پہنچ کر دیکھا کہ آپ ایک پیڑ کے نیچے مراقبہ میں بیٹھے ہیں، آپ کو اسی حالت میں روحانی قوت کے ذریعے معلوم ہوا کہ آپ کے والد ماجد وہاں تشریف لائے ہیں، آپ وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے، آپ کے والد ماجد آپ کے پیچھے ہولئے، آپ تھوڑی دور چل کر غائب ہوگئے، آپ کے والد نے گھر آکر یہ واقعہ بیان کیا۔
بیعت و خلافت : آپ کے والد نے آپ کی یہ حالت دیکھ کر بخوبی اندازہ لگا لیا کہ آپ کی تعلیم و تربیت ان کے بس کی نہیں، انہوں نے آپ کو فضیل قادری کے سپرد فرمایا، آپ کی تعلیم و تربیت فضیل قادری کے زیر نگرانی ہوئی، آپ بہت جلد علومِ ظاہری کی تکمیل و تحصیل سے فارغ ہوئے۔
تعلیم و تربیت : آپ نے فضیل قادری کے دستِ حق پرست پر بیعت کی اور انہیں سے خرقۂ خلافت پایا، آپ نے سلوک کے تمام مدارج طے کئے، ریاضت، عبادت اور مجاہدہ میں کوئی کسر اٹھا کر نہیں رکھی۔
پیر و مرشد کی ہدایت : آپ کے پیرومرشد نے آپ کے روحانی کمالات سے خوش ہوکر آپ کو ہندوستان کی ولایت عطا فرمائی کہ ہندوستان جاکر تا دمِ آخر رشد و ہدایت میں مشغول رہیں۔
سیر و سیاحت : بغداد سے روانہ ہوکر آپ نے عراق، ایران، مشہد، نجف اشرف، تبریز، اصفہان کی سیر و سیاحت فرمائی، بہت سے کامل درویشوں سے ملے اور ان کے فیضِ باطنی سے مستفید ہوئے۔
ہندوستان میں آمد : سیر و سیاحت فرماتے ہوئے آپ ہندوستان پہنچے، ٹھٹھ میں پہنچ کر ایک سال قیام فرمایا، وہاں ملا سید محمد مدرّس کو بیعت کیا اور خرقۂ خلافت سے سرفراز فرمایا۔
ٹھٹھ سے آپ ملتان تشریف لے گئے، وہاں حمید خاں نے آپ کا شاندار استقبال کیا، ملتان سے آپ لدھیانہ میں رونق افروز ہوئے، لدھیانہ سے آپ پائل (سرہند کے قریب) تشریف لے گئے۔
کیتھلی میں قیام : پائل سے آپ کیتھل تشریف لے گئے اور کیتھل کو اپنی رشد و ہدایت کا مرکز بنایا، کیتھل میں مفتیوں کا اقتدار تھا، ان کی پانچ سو پالکیاں نکلا کرتی تھیں، مفتی طرح طرح سے آپ کی مخالفت پر آمادہ ہوگئے، بہت سے لوگ مفتیوں کے بہکانے سے آپ کے مخالف ہوگئے، وہ طرح طرح سے آپ کو اذیت پہنچانے لگے، مفتی اپنی فتنہ پردازیوں سے باز نہ آئے، ایک دن آپ کو غصہ ہی آگیا اور آپ کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ نکلے۔
”مفتیان کی جڑ اللہ شہ کمال نے پٹی“
اس کے بعد سے مفتیوں کا اقتدار گرنا شروع ہوا، یہاں تک رفتہ رفتہ وہ سب نیست و نابود ہوگئے۔
آپ کیتھل میں بلا روک ٹوٹ رشد و ہدایت فرماتے، لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے، آپ کا حلقۂ ارادت روز بروز بڑھتا گیا۔
شادی اور اولاد : آپ کے تینوں صاحبزادے حضرت شاہ عمادالدین، حضرت شاہ موسیٰ ابوالمکارم اور حضرت نورالدین صاحبِ کشف و کرامات تھے، ریاضت مجاہدہ اور تذکیہ نفس میں بے نظیر تھے۔
وفات : آپ کو شغل میت سے کافی دلچسپی تھی، اسی شغل میں کئی کئی مہینے گزر جاتے تھے، آپ اپنے حجرے سے چھ چھ مہینے باہر تشریف نہیں لاتے تھے، ایک مرتبہ آپ کے صاحبزادے حضرت شاہ عمادالدین آپ کے حجرے کی طرف سے گزرے، انہوں نے دروازے میں سے جھانک کر دیکھا کہ آپ بے حس و حرکت لیٹے ہیں، دروازہ اتارا گیا، قریب جاکر جب آپ کو دیکھا تو مردہ پایا، نبض غائب تھی، غسل دیتے وقت آپ نے حرکت کی اور غسال سے فرمایا کہ ”ہمارے مرنے کی خبر تمام شہر میں پھیل گئی ہے“ غسال نےجواب دیا کہ جی ایسا ہی ہے، یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ ”اچھا ہم جاتے ہیں“ یہ کہا اور جانِ شیریں جاں آفریں کے سپرد فرمائی، اس طرح آپ کی وفات 19 جمادی الثانی سن 921ہجری کو واقع ہوئی، آپ کا مزارِ مبارک کیتھلی میں مرجع خاص و عام ہے۔
خلفا : آپ کے مشہور خلفا حسب ذیل ہیں۔
ملا محمد مدرّس، شاہ سکندر، شاہ موسیٰ ابوالمکارم، شیخ جلال الدین ملتانی، شاہ یوسف غوث بھکری، شیخ عبدالرحمٰن سرہندی، محمد خاں تاشقندی، شاہ ہاشم بخوتوی، خواجہ امان اللہ حسینی، شیخ مودود قادری، خواجہ فتح علی خاں، خواجہ عین الدین کلانوری، خواجہ اسحاق، باوا سیتلپوری، شیخ عبدالاحد۔
سیرتِ پاک : آپ کو حضرت غوث الاعظم میران محی الدین سید عبدالقادر جیلانی کی روح پر فتوح سے براہ راست اویسی طریقے سے فیض حاصل تھا، کئی بزرگ ہستیوں نے آپ سے جلا و بقا پائی جس میں حضرت عبدالاحد، حضرت شاہ ہاشم بنوتوی، حضرت شیخ طاہر بندگی اور باوا سیتل پوری قابلِ ذکر ہیں۔
آپ کی ذاتِ ستودہ صفات کے ذریعہ سے سلسلہ قادریہ کو کافی فروغ و عروج حاصل ہوا، آپ کی شخصیت، عظمت اور بزرگی کا اندازہ حضرت مجدد الف ثانی کے ان الفاظ سے بخوبی ہوتا ہے۔
”ہم کو جب خاندانِ قادریہ کے مشائخ کا کشف ہوتا ہے تو بعد حضرت غوث الثقلین رضی اللہ عنہ کے شاہ صاحب جیسا کوئی بزرگ نظر نہیں آتا“
آپ صاحبِ کرامت اور صاحبِ تصرف بزرگوں میں سے تھے ”جن کی نظیر اؤلیائے متقدمین میں بھی کم نظر آتی ہے“
آپ کی قدرومنزلت سے کوئی انکار کی جرأت نہیں کرسکتا، آپ کیتھل کے صاحبِ ولایت تھے، آپ کا شمار کاملین اؤلیائے کرام میں ہوتا ہے، حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ
”مجھے نسبت فردینہ جس سے عروج آخر مخصوص ہے اپنے والد ماجد شیخ عبدالقادر بن زین العابدین سے حاصل ہوئی اور انہیں ایک بزرگ حضرت شاہ کمال قادری قدس سرہٗ سےجس کو جذبۂ قوی حاصل تھا اور خوارق عادات میں شہرۂ آفاق تھے ہاتھ آئی“
آپ کو جلال بہت تھا، کوئی صاحبِ ولایت کیتھل کے قریب بغیر آپ کی اجازت کے نہیں آسکتا تھا اگر کوئی ہمت کرتا تو آپ اس کی ساری صلاحیتیں سلب کر لیتے تھے، آپ نے اپنے بڑے صاحبزادے شاہ عمادالدین کی صلاحیتیں ان سے کرامت سرزد ہونے پر سلب کر لیں، آپ کے چھوٹے صاحبزادے نورالدین سے جب کرامت سرزد ہوئی تو آپ نے ان کے سینے پر اپنا ہاتھ پھیرا، ہاتھ پھیرنا تھا کہ ان کا انتقال ہوگیا۔
آپ اتباعِ سنتِ نبوی کے سخت پابند تھے، کوئی کام شروع شریف کے خلاف نہیں کرتے تھے، آپ تمام روحانی اور اخلاقی خوبیوں سے آراستہ تھے، ریاضت اور مجاہدہ میں فقیدالمثال اور عبادت اور فقر میں بینظیر تھے، فقر و غنا کا دامن کسی حالت میں بھی نہیں چھوڑتے تھے، آپ سرخ رنگ کا لباس زیبِ تن فرماتے، کبھی کبھی آپ فوجی طرز کا لباس بھی پہنتے تھے۔
ارشادات : آپ فرماتے ہیں کہ
”سالک مثلِ میت ہے اور یہ غسال کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ ٹھنڈے پانی سے غسل دے یا گرم سے، میت کو کوئی حق نہیں کہ وہ غسال کے سامنے لب کشائی کرے“
کشف و کرامات : ایک ہندو فقیر اپنی آنتوں کو نکال کر کیتھل کے تالاب کے کنارے صاف کرایا کرتا تھا، ایک روز آپ کا ادھر سے گزر ہوا، آپ یہ دیکھ کر مسکرائے اور واپس تشریف لے آئے، آپ کے آنے بعد جب باوا سیتل پوری نے اپنی آنتوں کو اندر رکھنا چاہا تو وہ ٹھیک نہیں بیٹھیں، وہ پریشان ہوئے، آپ کے پاس آکر اپنی پریشانی کی وجہ ظاہر کی، آپ نے ان کو توجہ دی، ان کا سینہ عشقِ الٰہی کا گنجینہ ہوگیا ظلمت دور ہوئی، حجابات اٹھ گئے وہ آپ کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئے، آپ نے ان کو کلاہ دے کر سرفراز فرمایا۔
ایک روز باوا سیتل پوری آپ کےیہاں گئے، آپ کے چھوٹے صاحبزادے کو پژمردہ، ناتواں اور کم زور دیکھ کر ان سے وجہ پوچھی، بوجہ کم عمری وہ وجہ نہ چھپا سکے، انہوں نے صاف صاف بتا دیا کہ کئی دن کھانا کھائے ہوگئے ہیں، باواسیتل پوری یہ سن کر بے چین ہوگئے، فوراً واپس گئے اور ایک پارس پتھر لے کر واپس آئے، پارس پتھر پیش کرتے ہوئے انہوں نے عرض کیا کہ اس سے اگر لوہے کو مس کیا جائے لوہا سونا بن جاتا ہے، کچھ دنوں کے بعد جو باوا سیتل پوری پھر درِ دولت پر حاضر ہوئے تو وہی حالت دیکھ کر حیران ہوئے کہ سنگِ پارس کے ہوتے ہوئے یہ افلاس، یہ غربت اور یہ ناداری، اتنے میں آپ تشریف لائے اور باوا سیتل پوری سے فرمایا کہ آؤ باہر چلیں، دونوں کچھ دور گئے، ایک مقام پر پہنچ کر آپ نے استنجا کیا، استنجا کرکے ڈھیلا زمین پر زور سے دے مارا، جہاں ڈھیلا گرا وہ زمین سونے کی ہوگئی، آپ نے باوا سیتل پوری سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ جتنا چاہو بلا تکلف اٹھالو، پھر فاقہ کشی کی وجہ بتاتے ہوئے فرمایا کہ فاقہ کشی کی اصل وجہ یہ ہے کہ سنتِ رسول ادا کر رہا ہوں، بعدا ازاں باوا سیتل پوری کا پیش کردہ سنگِ پارس دریا میں ڈلوا دیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.