حضرت شیخ احمد مجدد شیبانی
دلچسپ معلومات
خم خانۂ تصوف، باب 42
حضرت شیخ احمد مجدد شیبانی زہد و تقوے میں لاثانی تھے۔
خاندانی حالات : آپ حضرت شیخ احمد مجدد شیبانی کی اولاد سے ہیں۔
والد : آپ کے والد ماجد کا نام قاضی مجددالدین تھا جو قاضی تاج الافضل بن شمس الدین شیبانی کے لڑکے تھے۔
پیدئش : آپ نارنول میں پیدا ہوئے۔
بھائی : آپ کے چھ بھائی تھے، سب سے بڑے آپ تھے۔
تعلیم و تربیت : آپ کو کل علوم میں دستگاہ حاصل تھی، آپ کو مناظرہ کا بہت شوق تھا جب آپ طالب علم تھے اسی وقت سے آپ علما کی صحبت میں رہتے تھے اور ان سے بحث کرتے تھے، بادشاہوں اور امیروں کی مجلس میں جاتے اور بے تکلف بحث کرتے، آپ کو عربی و فارسی میں تقریر کرنے کی خوب مہارت تھی۔
بیعت و خلافت : آپ حضرت حسین ناگوری سے بیعت ہوئے اور خرقۂ خلافت سے سرفراز ہوئے۔
کایا پلٹ : مرید ہونے کے بعد آپ نے بحث و مباحثہ کرنا چھوڑ دیا، بادشاہوں اور امیروں کی صحبت سے اجتناب کیا۔
اجمیر میں آمد : اٹھارہ سال کی عمر میں آپ اپنے وطن نارنول کو چھوڑ کر اجمیر آئے اور دربارِ خواجہ غریب نواز میں رہنے لگے، اجمیر میں ستر سال رہے، خواجہ غریب نواز کا روحانی اشارہ پاکر آپ نے اجمیر کے باشندوں کو اجمیر پر آنے والی مصیبت سے آگاہ کر دیا تھا اور خود بھی اجمیر سے چلے گئے۔
واپسی : اجمیر سے آپ اپنے وطن نارنول تشریف لائے۔
بشارت : ایک دن کا واقعہ ہے کہ ایک مجذوب جس کا نام اللہ دین تھا، آپ کے پاس آئے اور آپ سے کہا کہ
”احمد! تجھ کو آسمان پر بلاتے ہیں، اپنے پیر کے پاس جا“ اِدھر تو مجذوب کے فرمانے سے اور کچھ جو خواب آپ نے اس قسم کا دیکھا، اس کی وجہ سے آپ ناگور تشریف لے گئے۔
وفات : اللہ اکبر کہتے ہوئے آپ نے 25 صفر سن 927ہجری کو جان شیریں جان آفریں کے سپرد کی، مزار ناگور میں ہے۔
خلیفہ : ملا نارنولی آپ کے مرید ہیں، مولانا عبدالقادر آپ کے خلیفہ ہیں۔
سیرت : آپ عالم، زاہد، متقی پرہیزگار اور متدین تھے، دنیا اور اہلِ دنیا کی آپ کی نگاہ میں کوئی وقعت نہ تھی، عشقِ رسول میں سرشار تھے، خاندان سادات کی بےحد تعظیم و تکریم کرتے تھے، مجذوبوں سے نہایت انکساری سے پیش آتے تھے، اپنی تعریف پسند نہیں کرتے تھے، اگر کوئی مرید آپ کی تعظیم و توقیر کرتا اور آپ کو عزت سے پکارتا تو آپ فرماتے کہ ”احمد موذی زیاں کار“ آپ معمولی قسم کے کپڑے زیب تن فرماتے تھے، آپ کے پاس ایک خاص پوشاک اور ایک دستار رہتی تھی، یہ خاص کپڑے عید اور جمعہ کی نماز کے موقع پر پہنتے تھے یا اگر کوئی دنیا دار آتا تھا جب پہنتے تھے، سما ع کا شوق تھا۔
ہمت و جرأت : تلاش معاش کے سلسلہ میں آپ منڈو گئے، اس وقت آپ کی عمر بہت کم تھی، شیخ محمود دہلوی نے جو شیخ الاسلام تھے، امام سے پہلے نماز میں نیت باندھ لی، نماز ختم ہوئی، کسی نے کچھ کہا، آپ نے شیخ محمود دہلوی سے کہا کہ ان کی نماز نہیں ہوئی کیونکہ انہوں نے امام سے پہلے نیت باندھی تھی۔
منڈوا کے بادشاہوں کے سامنے جب لوگ جاتے تھے تو جھک کر اور انگشتِ شہادت کو زمین پر رکھ کر سلام کرتے تھے، آپ نے بادشاہ کو اس طرح سلام کیا اور فرمایا کہ اس طرح سلام کرنا اسلامی تعلیم کے خلاف ہے اور یہ طریقہ بدعت ہے، آپ جب بادشاہ کے سامنے گئے السلام علیکم کہا اور اس کے برابر بیٹھ گئے۔
فرمان : آپ فرماتے ہیں کہ ”اہلِ دین کو اہلِ دنیا کے سامنے ذلیل نہ ہونا چاہئے کیوں کہ یہ لوگ ظاہر بیں ہیں“
کرامت : جس زمانے میں آپ کا اجمیر میں قیام تھا، آپ نے لوگوں کو آگاہ کردیا تھا کہ اجمیر پر مصیبت آنے والی ہے، آپ بفرمان خواجہ غریب نواز اجمیر سے باہر چلے گئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.