Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

حضرت شیخ جمالی

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

حضرت شیخ جمالی

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

MORE BYڈاکٹر ظہورالحسن شارب

    دلچسپ معلومات

    خم خانۂ تصوف، باب 44

    حضرت مولانا شیخ جمال برہان ملت، گنج عزلت، بادشاہ عالمِ راز، رازدارِ جہاں نواز ہیں۔

    نام و تخلص : پہلےآپ کا نام حامد بن فضل اللہ تھا، آپ کے پیرومرشد حضرت مخدوم حضرت سماالدین سہروردی نے آپ کا نام جمال رکھا، یہ بھی کہا جاتا ہےکہ پہلے آپ کا نام جلال خاں تھا پھر پیرومرشد کے حکم سے آپ نے اپنا تخلص جمالی رکھا۔

    تعلیم و تربیت : صغر سنی میں آپ کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا، اپنی خداداد اور قابلیت فطری کے سبب عمدہ تعلیم و تربیت سے بہرہ مند ہوئے، آپ نے علومِ رسمی میں فضیلت حاصل کی۔

    بیعت و خلافت : علومِ ظاہری کی تکمیل کے بعد آپ نے شمع عقیدتِ قلبی کو قندیلِ مرشد سے روشن و منور کیا، حضرت مخدوم سماالدین سہروردی کے حلقۂ اردات میں داخل ہوئے اور خلافتِ طریقت سے سرفراز ہوئے، پیر روشن ضمیر کی خدمت میں رہ کر عبادات، ریاضات اور مجاہدات کئے اور آخر کار درجۂ کمال کو پہنچے، پیرومرشد کو وضو کرانے کی خدمت آپ کے سپرد تھی، رومال، طشت اور لوٹا آپ اپنے پاس رکھتے تھے، آپ شہر سے باہر جاکر پیرومرشد کے واسطے استنجے کے ڈھیلے ٹوکری میں بھر کر اور ٹوکری کو سرپر رکھ کر لاتے تھے۔

    پیرومرشد کی آپ سے محبت : آپ کے پیرومرشد کو آپ سے بے حد اُنس تھا، آپ خود فرماتے تھے کہ ”حضرت مخدوم کو فقیر کے ساتھ از حد محبت تھی، جب میں بیت اللہ کو گیا تو ہمیشہ میرے حق میں تہجد کے وقت یہ دعا فرماتے تھے کہ اللّٰھُم ارجع الجمالی الینا سالماً وعانِماً وَارزُقنا مَشَاھِدۃجمالِہِ ونور عَینی بِنُورِ لقائہِ بِرَحمتکَ یا ارحمَ الراحمین۔

    ترجمہ : اے خدا ! پہنچا دے جمالی کو میرے پاس صحیح و سالم اور روزی کر مجھ کو اس کے جمال کا دیکھنا اور روشن کر میری آنکھیں اس کے نورِ دیدار سے، ساتھ رحمت اپنی کے، اے سب رحم والوں سے زیادہ رحم والے۔

    آپ فرماتے ہیں کہ

    جب زیارتِ حرمین شریفین سے مشرف ہوکر شرف اندوزِ ملازمت ہوا، بغل گیر ہوئے پیار کیا اور فرمایا کہ میری برسوں کی دعا جو تہجد کے وقت کیا کرتا تھا فضلِ الٰہی سے مقرون باجابت ہوئی“

    سیر و سیاحت : آپ نے بحکم سیروا فی الارض دنیا کی خوب سیر کی اور خداوند تعالیٰ کی کاریگری اور اس کی صفات کو دیدۂ حق بیں سے خوب دیکھا، حرمین شریف کی زیارت سے مشرف ہوئے، مدینہ منورہ پہنچ کر فیضانِ نبوی سے مستفیض ومستفید ہوئے، مصر، بغداد، بیت المقدس، روم، شام، عراق، عرب و عجم، آذربایجان، گیلان، مازندران، خراسان، بہت سے ممالک کی سیر کی اور بہت سے اؤلیائے کرام وپیرانِ عظام و شعرائے نامدار سے ملاقات کی۔

    ملتان میں آپ حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی کے مزار پرانوار پر حاضر ہوئے اور شیخ صدرالدین سے ملاقات کی، ہرات میں آپ حضرت شیخ صوفی، حضرت شیخ عبدالعزیز، مولانا نورالدین جامی، حضرت مولانا مسعود شروانی اور مولانا حسین سے ملے، بغداد میں آپ نےغوث الاعظم پیرانِ پیر اور حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی کے مزارات پر حاضر ہوکر دولتِ سرمدی حاصل کی۔

    ہرات کا ایک واقعہ : جب آپ ہرات پہنچے تو پریشان حال تھے، آپ کے جسمِ مبارک پر صرف ایک تہبند تھا، کوئی دوسرا کپڑا نہیں تھا، آپ حضرت جامی سے اسی حال میں ملنے گئے، سلام علیک کرکے حضرت جامی کے برابر جا بیٹھے، یہ بات حضرتِ جامی کو ناگوار گزری، انہوں نے آپ سے کہا کہ ”میانِ خرو تو چند فرق است“ (گدھے میں اور تجھ میں کیا فرق ہے) یہ سن کر آپ نے بالشت بیچ میں رکھ دی، حضرت جامی حیران ہوئے کہ یہ کون شخص ہے آپ نے پوچھا ”کیستی“ (تم کون ہو؟) آپ کا کلام آپ کی زندگی میں وہاں مشہور ہوچکا تھا، جامی نے پوچھا کہ ”از سخنانِ جمالی چیزے یاد داری“ (کیا جمال کی کوئی چیز یاد ہے) آپ نے جامی کو کچھ اشعار سنائے پھر جامی نے آپ سے دریافت کیا کہ ”طبع شعرداری“ (تم بھی کچھ شعر کہتے ہو) آپ نے حسبِ حال شعر کہا کہ

    مارا زخاکِ کویت پیراہن است برتن

    آنہم ز آب دیدہ صد چاک تا بدامن

    آپ نے یہ شعر پڑھا اور آپ کی آنکھوں سے ایک سیلاب اشک رواں ہوگیا، جامی سمجھ گئے یہی جمالی ہیں، وہ اٹھ کر آپ سے بغل گیر ہوئے اور تعظیم و تکریم کی، جامی نے نہایت عزت کے ساتھ اپنا مہمان رکھا۔

    بادشاہوں سے تعلقات : سلطان سکندر لودی آپ کا معتقد تھا اور آپ سے انتہا درجے اُنس رکھتا تھا وہ خود شاعر تھا، اس کا تخلص ”گلرخی“ تھا وہ آپ سے اصلاح لیا کرتا تھا جب آپ عراق، شام اور عرب سے واپس دہلی تشریف لائے اس وقت سکندر لودی سنبھل میں تھا جب اس کو آپ کے آنے کا علم ہوا تو اس نے ایک خط نظم میں لکھ کر آپ کی خدمت میں روانہ کیا وہ خط حسبِ ذیل ہے۔

    رقعۂ منظومہ سلطان سکندر بن بہلول بنام شیخ جمال دہلوی۔

    آں مخزن گنجِ لا یزالی

    وے سالکِ راہِ دینِ جمالی

    در گرد جہاں بسے زدہ سیر

    در منزلِ خود رسیدہ بالخیر

    بو دی تو مسافر زمانہ

    الحمد کہ آمدی بخانہ

    در مکّہ و در مدینہ گشتی

    گوہر بودی خزینہ گشتی

    اے شیخ بما برس بزودی

    بسیار مسافرت نمودی

    بکشائے بسوئے در گہم گام

    تا در یابی ز گلرخی کام

    چشم بکمالِ تو طپاں است

    دل مرغ مثال درفغاں است

    من اسکندر تو خضر مائی

    آں بہ کہ بسوے مابیابئ

    بابر اور ہمایوں کو بھی آپ سے بے حد عقیدت تھی، وہ دونوں بادشاہ بھی آپ کا بڑا اعزاز و اکرام کرتے تھے اور کئی بار گلہائے عقیدت پیش کرنے آپ کے درِ دولت پر حاضر ہوئے۔

    شادی و اولاد : آپ کے دو لڑکے تھے، شیخ عبدالحی اور عبدالصمد عرف شیخ گدائی۔

    وفات شریف : آپ نے 10ذیعقدہ 942 ہجری کو وصال فرمایا، مزارِ مبارک مہرولی میں واقع ہے، مقبرہ عالی شان ہے، تاریخِ وفات خسروِ ہند بودہ“ ہے، اس کے علاوہ ”طالب اہلِ جمالِ معرفت“ اور ”ماہِ خلدِ بریں بھی آپ کی وفات کی تاریخیں ہیں۔

    سیرت پاک : آپ قطبِ وقت تھے، بڑے عابد و زاہد تھے، ذکروفکر میں ہمہ تن مشغول رہتے تھے، بہت متقی و پرہیزگار تھے، نہایت منکسرالمزاج تھے، ایک باوقار بزرگ تھے، اپنے پیرومرشد سے انتہائی محبت اور عقیدت تھی، اپنے پیرومرشد کی خدمت کو اپنے لئے باعثِ فخر اور سعادت سمجھتے تھے، سعادتِ ارادت سے سرفراز اور مریدوں میں ممتاز تھے، جمالِ صوری اور کمالِ معنوی سے آراستہ تھے، آپ کے متعلق یہ کہا گیا کہ ”شیخ جمالی دہلوی، جمالِ باکمال اور زبان خوش مقال رکھتے تھے“

    صوفیوں کی بزم میں آپ عارفِ گرامی تھے، علما کی مجلس میں آپ ممتاز درجہ رکھتے تھے۔

    علمی ذوق : آپ کی مشہور تصانیف حسبِ ذیل ہیں۔ سیرۃ العارفین، مراۃ المعانی۔

    شعر و سخن : آپ ایک نامی شاعر تھے جیسا کہا گیا ہے کہ ”شیخ جمالی سکندر لودی کے عہد میں شعرائے باکمال میں شمار ہوتے تھے، آپ نے ایک فارسی کا دیوان چھوڑا ہے جس میں آٹھ نو ہزار اشعار ہیں، مثنوی ”مہروماہ“ بھی آپ کی یادگار ہے، آپ کی نعت کا یہ شعر بارگاہِ نبوی میں مقبول ہوا ہے۔

    موسیٰ ز ہوش رفت بیک پرتوِ صفات

    تو عینِ ذات می نگری در تبسّمی

    حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ حضرت سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صلحا کو اس شعر کے مقبول ہونے کی بشارت دی، آپ نے خوشی خوشی فرمایا کہ ”ہذالمدحی“

    کرامات : آپ فرماتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے سلطان ابراہیم لودی کو آپ سے مکدر کردیا۔ آپ کو بھی انقباض پیدا ہوا اگر چہ بعد میں وہ کدورت محبت سے بدل گئی لیکن سطلان ابراہیم لودی کو نہ صرف تخت و تاج سے محروم ہونا پڑا بلکہ بابر کے مقابلے میں پانی پت کے میدان میں وہ مارا گیا۔

    ہرات کا واقعہ ہے کہ آپ حضرت جامی کے یہاں تھے ان کے حجرۂ خاص میں ”لمعات“ شیخ فخر الدین عراقی کی رکھی تھی، حضرت مولانا نے شیخ صدرالدین تونوی کی تعریف میں مبالغہ کیا اور کہا ”لمعات“ جو فخرالدین عراقی نے لکھی ہے وہ شیخ موصوف کی برکت کا نتیجہ ہے، آپ کو یہ بات پسند نہ آئی، رات کو حضرت جامی نے خواب دیکھا کہ صبح کو حضرت جامیؔ نے خواب کا ذکر کیا اور حضرت شیخ کی روحِ مبارک کو ثواب پہنچایا۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے