Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

خواجہ قطب الدین بختیار کاکی

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

خواجہ قطب الدین بختیار کاکی

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

MORE BYڈاکٹر ظہورالحسن شارب

    دلچسپ معلومات

    دلی کے بائیس خواجہ- باب 2

    قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی قطب آفاق ہیں، شیخ علی الاطلاق ہیں، قطب المشائخ بالاتفاق ہیں۔

    آپ قبلۂ اہلِ یقین، قدوۂ واصلین، مطلعِ انوارِ ربِ العالمین، سیدالواصلین اور دلیل السالکین ہیں۔

    آپ خاندانِ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی سنجری کے دلبر ہیں، بابا فریدالدین گنج شکر کے رہبر ہیں، حضرت نظام الدین اؤلیا حضرت علاؤالدین صابر، حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی اور حضرت بندہ نواز گیسودراز کے روحانی پیشوا ہیں۔

    آپ اپنے وطن کو چھوڑ کر ہندوستان تشریف لائے اور خواجہ غریب نواز کی خدمت اور صحبت کو اپنے لئے باعثِ برکت سمجھا، اس صحبت اور خدمت کا آ پ کو یہ صلہ ملا کہ آپ کو خواجہ غریب نواز کے جانشین، خلیفۂ اکبر اور سجادہ نشین ہونے کا فخر حاصل ہے، خواجہ غریب نواز نے دہلی کی ولایت آپ کے سپرد فرمائی، خواجۂ خواجگانِ حضرت خواجہ معین الدین چشتی سنجری نے نور و معرفت اور حق و صداقت کی جو شمع اجمیر میں روشن کی، اس شمع کو حضرت قطب الدین بختیار کاکی نے نہ تو تندوتیز ہواؤں سے بجھنے دیا اور نہ اُس کی روشنی کو کم ہونے دیا، آپ کے بعد آپ کے جانشین حضرت بابا فریدالدین گنج شکر اور ان کے جانشینان نے شمع کی روشنی کو برقرار رکھا، یہ شمع آج بھی پوری تابانی کے ساتھ روشن ہے، اس شمع کے پروانے نے ہر شہر اور ہر گاؤں میں ملیں گے۔

    خواجگانِ چشت کو ہندوستان میں جو مقبولیت حاصل ہوئی اس پر چشتیہ خاندان کے افراد جتنا بھی فخر کریں کم ہے، خواجگانِ چشت نے اپنی گفتار اور کردار سے ایک ایسا نقلاب پیدا کیا کہ جس کا اثر ہندوستانی تہذیب و تمدن، افکار و خیالات علم و ادب، شعر و شاعری، غرض زندگی کے ہر شعبہ پر ایسا گہرا اثر پڑا کہ اس کے آثار اور خدوخال آج بھی نمایاں ہیں

    قربت داریاں : قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ساداتِ حسینی سے ہیں، آپ سیدنا حضرت امام حسین کی الاد امجاد سے ہیں۔

    نسب نامہ پدری : خواجہ قطب الدین بن سید موسیٰ بن کمال الدین بن سید احمد بن سید محمد بن سید احمد بن اسحاق حسن بن سید معروف بن سید احمد بن سید رضی الدین بن سید حسام الدین بن سید رشید الدین بن سید عبداللہ جعفر معروف بن علی بن علی النقی بن سید نانقی الجواد ابو جعرفر بن سیدنا علی رضا بن سیدنا موسیٰ کاظم بن سیدنا جعفر صادق بن سیدنا ابو جعفر بن سیدنا محمد باقر بن سیدنا علی اوسط امام زین العابدین بن سیدنا امام حسین بن سیدنا امام الاؤلیا حضرت علی کرم اللہ وجہہ۔

    آپ کا شجرۂ نسب بموجب ”سیرالاقطاب“ ذیل میں دیا جاتا ہے۔

    حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی بن سید موسیٰ بن سید احمد بن سید کمال الدین بن سید محمد بن سید احمد بن سید اسحاق حسین بن سید المعروف بن سید احمد چشتی بن سید رضی الدین بن سید حسام الدین بن سید رشید الدین بن سید جعرفر بن اامیر المومنین حضرت امام محمد نقی الجواد بن امیر المومنین حضرت امام علی موسیٰ رضاب بن حضرت امام موسیٰ کاظم بن امام محمد باقر بن حضرت امام زین العابدین بن امیر المؤمنین امام الاؤلیا سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہ۔

    ولادتِ شریف : آپ کی ولادتِ مبارک مژدۂ جاں فزا ہے، امن و مان کا پیغام ہے، روحانی انبساط کا پیش خیمہ ہے، مخلوق کے لئے باعثِ برکت ہے، جب آپ شکمِ مادری میں تھے، اسی وقت سے آپ کی بزرگی اور عظمت کے آثار نمایاں ہو گئے تھے، آپ کی والدۂ محترمہ فرماتی ہیں کہ

    ”دورانِ حمل جب میں تہجد کی نماز پڑھنے کے لئے اٹھتی تو میرے شکم میں سے ذکر (اللہ اللہ) کی آواز سننے میں آتی، یہ آواز ایک ساعت تک رہتی تھی“

    آدھی رات کے وقت آپ اس عالم فانی میں جلوہ گر ہوئے، نور نے آپ کے سارے گھر کو روشن کر دیا، نور کی اس روشنی سے آپ کی والدۂ محترمہ کو خیال ہوا کہ سورج نکل آیا ہے، آپ کی والدۂ محترمہ حیران تھیں، والدہ نے دیکھا کہ حضرت قطب صاحب کا سرِ مبارک سجدے میں ہے اور آپ زبانِ فیضِ ترجمان سے اللہ اللہ فرما رہے ہیں، تھوڑی دیر بعد حضرت قطب صاحب نے سر سجدے سے اٹھایا وہ نور کم ہوتا گیا، غیب سے آواز آئی۔

    ایں نور کہ دیدی سّرے بود از اسرارِ الٰہی کہ اکنوں درِ دل فر زندندت نہادیم۔

    ترجمہ : یہ نور جو تونے دیکھا ہے، اسرارِ الٰہی میں سے ایک سر ہے جس کو اب ہم نے تیرے فرزند کے دل میں متمکن کردیا ہے۔

    آپ کی جائے پیدائش اوش ہے، اس اوش کو بغداد کے مضافات میں بتایا گیا ہے، اس اوش کو فارس میں بھی بتایا گیا ہے، بعض نے اوش کو قصباتِ ماورالنہر میں لکھا ہے اور بعض نے ولایتِ فرغانہ میں توابعِ اند جان لکھا ہے، شہزادہ دارا شکوہ نے آپ کی جائے پیدائش اوش ولایت فرغانہ میں توابع اند جان لکھا ہے کہ

    ”و مولد واصل ایشاں از اوش فرغانہ است و آں قصبہ ایست از توابع اند جان۔۔۔“

    ترجمہ : اور جائے پیدائش اور خاندانی تعلق اوش فرغانہ (ولایت فرغانہ میں) سے ہے اور وہ قصبہ ہے توابع اند جان۔۔۔“

    سنہ ولات : آپ کی تاریخِ پیدائش کے متعلق کافی اختلاف ہے، سنہ ولادت 569 ہجری ہے۔

    نامِ نامی : آپ کا اسمِ گرامی قطب الدین ہے بعض کا خیال ہے کہ آپ کا نام بختیار ہے اور قطب الدین قدرت کا عطا کردہ خطا ہے، در اصل آپ کے بختیار کہلانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے پیرومرشد خواجۂ خواجگان خواجہ معین الدین حسن چشتی آپ کو بختیار کہہ کر پکارتے تھے، اسی وجہ سے آپ بختیار کہلانے لگے، آپ حضرت خواجہ معین الدین چشتی سے بیعت ہیں، چونکہ آپ خاندانِ چشت میں بیعت ہیں اس لئے آپ بھی چشتی کہلاتے ہیں۔

    خطاب : آپ کے پیرومرشد حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی نے آپ کو قطب الاقطاب کے خطاب سے سرفراز فرمایا۔

    لقب : آپ کا لقب کاکی ہے، آپ کے کاکی کہلانے کے چند وجوہات ہیں، جب قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے دہلی میں رہنا شروع کیا تو آپ نے ظاہری اسباب سے قطع تعلق کرلیا، آپ مع متعلقین نہایت عسرت سے گزارہ کرتے تھے، حضرت قطب صاحب عالمِ استغراق میں رہتے تھے، آپ کی اہلیہ محترمہ خورونوش کا انتظام فرماتی تھیں ایک بقال جس کا نام شرف الدین تھا، آپ کے پڑوس میں رہتا تھا، حضرت قطب صاحب کی اہلیہ محترمہ اس بقال کی بیوی سے قرض لے کر گزراہ کرتی تھیں اور کچھ آنے پر اس کا قرضہ ادا کردیتی تھیں، یہ سلسلہ چلتا رہا، ایک دن اس بقال کی بیوی نے آپ کو طعنہ دیا اور کہا کہ

    ”اگر وہ قرض نہ دے تو ان کا کام کیسے چلے، یہ بات حضرت قطب صاحب کی اہلیہ محترمہ کو ناگوار ہوئی، آپ نے اس سے قرض لینا بند کر دیا، جب یہ بات حضرت قطب صاحب کے علم میں آئی تو آپ نے ہدایت فرمائی کہ قرض نہ لیا جائے بلکہ ضرورت کے وقت بقدرِ ضرورت بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کہہ کر حجرہ کی طاق سے روٹیاں اٹھالی جایا کریں، آپ کی اہلیہ محترمہ ایسا ہی کرتیں، ایک دن آپ نے بقال کی بیوی کو اس بات سے آگاہ کر دیا، اس دن سے کاک نکلنا بند ہوگئے۔

    دارا شکوہ آپ کے کاکی کہلانے کی وجہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ

    ”و کاکی ازاں جہت گویند کہ چوں در دہلی متوطن شدہ اند و فتوح از کس قبول نمی فرمودند و خود ہمیشہ مستغرق بودند و بر فرزندانِ ایشاں عسرت می گذشت و آنہاد از زن بقالی کہ درہم سایۂ ایشاں بود بد از فاقہا جزوی قرض نمودہ اوقات گذاری خودی نمودند۔۔۔روزے زن آں بقال گفت اگر من درہمسائگی شما نمی بود کارِ شما بہلاکت می رسید۔۔۔ایں سخن بطبیعت ایشاں گراں آمد۔۔۔۔عہد کردند کہ از و قرض نگیرند۔۔۔۔روزی ایں قضیہ را بغرض بخواجہ رسانیدند فرمودند کہ ہرگز من از کسے قرض نمی گیرم و در وقتِ حاجت بطاقی کہ در حجرۂ ماست دست انداختہ بقدرِ جاجت نان پختہ بر دارند و صرف خود کنند و بہر کہ خواہند بدہند۔۔۔۔بعد ازاں ہر گاہ کہ می خواستند ازاں طاق می گرفتند و ایں نان را کاک می گویند“

    ترجمہ : اور کاکی اس وجہ سے کہتے ہیں کہ جب دہلی میں سکونت اختیار کی، آپ فتوحات کسی سے قبول نہ فرماتے تھے اور ہمیشہ استغراق میں رہتے تھے اور آپ کے لڑکوں، (متعلقین) کی عسرت سے گذر اوقات ہوتی تھی، وہ ایک بقال کی بیوی سے کہ وہ ان کے پڑوس میں رہتی تھی، فاقہ پر کچھ قرض لے لیتے تھے اور اس سے اپنا وقت گزارتے تھے، ایک روز اس بقال کی بیوی نے کہا کہ اگر میں تمہارے پڑوس میں نہ ہوتی تو تمہارا بہت ہی برا حال ہوا ہوتا، یہ بات ان کو ناگوار گذری، انہوں نے عہد کیا کہ اس سے قرض نہ لیں گے، ایک دن واقعہ خواجہ (قطب صاحب) کے گوش گذار ہوا، آپ نے فرمایا کہ میں کبھی کسی سے قرض نہیں لیتا ہوں، ضرورت کے وقت اس طاق میں سے جو ہمارے حجرے میں ہے ہاتھ ڈال کر ضرورت کے مطابق پکی ہوئی روٹیاں نکال لیں اور خود صرف کریں اور جس کو چاہیں دیں، اس کے بعد جب چاہتے اس طاق سے نان نکالتے، ان نانوں کو کاک کہتے ہیں“

    آپ کو کاکی کہنے کی ایک دوسری وجہ بھی بتائی جاتی ہے کہ ایک دن حضرت امیر خسرو نے حضرت نظام الدین اؤلیا سے دریافت کیا کہ قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین کو کاکی کیوں کہتے ہیں، سلطان المشائخ نے جواب دیا کہ

    ”ایک دن آپ مع احباب حوضِ شمسی پر تشریف فرما تھے، ہَوا سرد چل رہی تھی، یاروں نے عرض کیا کہ اگر اس وقت کا کہائے گرم ملتے تو خوب ہوتا، آپ یہ سن کر پانی میں تشریف لے گئے اور کاکہائے گرم پانی سے نکال کر یاروں کو عطا فرمانے لگے، اس روز سے آپ کاکی مشہور ہوئے“

    ابتدائی زندگی : آپ اپنے والدین کے سایۂ عاطفت میں پرورش پا رہے تھے کہ آپ کے والد اور والدہ آپ پر نازاں تھے، گھر کی برکت کو وہ اپنے شیرخوار بچے سے منسوب کرتے تھے۔

    زندگی کا پہلا صدمہ : ابھی حضرت قطب صاحب کی عمرِ مبارک ڈیڑھ سال کی تھی کہ والد کا سایہ آپ کے سر سے اٹھ گیا

    آپ کی پرورش : اب آپ کی پرورش کا پورا بار آپ کی والدۂ محترمہ پر تھا، انہوں نے آپ کی تعلیم و تربیت کو ایک مقدس فریضہ سمجھا، آپ کی ابتدائی تعلیم والدہ کی آغوش میں ہوئی۔

    بسم اللہ خوانی 573ھ مطابق1177ء : جب حضرت قطب صاحب کی عمر چار سال چار ماہ اور چار دن کی ہوئی تو آپ کی والدہ کو آپ کی بسم اللہ خوانی کی فکر دامن گیر ہوئی، اتفاق سے ان ہی ایام میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اوش میں مقیم تھے، آپ سیروسیاحت کرتے ہوئے اوش آئے ہوئے تھے، آپ کی برگزیدگی کا شہرہ سارے اوش میں تھا، حضرت قطب صاحب کی والدۂ ماجدہ نے حضرت خواجہ غریب نواز کا اوش میں قیام اپنے اور اپنے لڑکے حضرت قطب صاحب کے لیے فالِ نیک سمجھا، آپ نے طے کیا کہ خواجہ غریب نواز جیسے جلیل القدر بزرگ سے وہ اپنے لڑکے کی بسم اللہ پڑھوائیں گی، آپ نے حضرت قطب صاحب کو خواجہ غریب نواز کی خدمتِ بابرکت میں بسم اللہ خوانی کی غرض سے بھیجا۔

    خواجہ غریب نواز نے حضرت قطب صاحب کی تختی لکھنا چاہی، غیب سے آواز آئی کہ

    ”اے خواجہ ! ابھی لکھنے میں توقف کرو، قاضی حمیدالدین ناگوری آتا ہے، وہ ہمارے قطب کی تختی لکھے گا اور تعلیم دے گا“

    یہ آواز سن کر خواجہ غریب نواز رک گئے، اتنے میں قاضی حمیدالدین ناگوری آگئے، خواجہ غریب نواز نے تختی ان کو دے دی، قاضی حمیدالدین ناگوری نے حضرت قطب صاحب سے دریافت کیا کہ ”تختی پر کیا لکھیں؟“

    حضرت قطب صاحب نے جواب دیا کہ

    ’’سبحان الذی اسریٰ بِعبِدہ لیلاً من المسجد الحرام‘‘

    قاضی حمیدالدین ناگوری یہ سن کر سخت متحیر ہوئے، آپ نے دریافت کیا ! یہ تو پندرہویں سیپارہ میں ہے، تم نے قرآن مجید کس سے پڑھا، حضرت قطب صاحب نے جواب دیا۔

    ”میری والدۂ ماجدہ کو پندرہ سیپارے یاد ہیں، وہ میں نے شکمِ مادر میں حقِ تعالیٰ کی تعلیم سے یاد کر لئے“

    یہ سن کر قاضی صاحب نے تختی پر لکھا کہ

    ’’سبحان الذی اسریٰ بعبدہٖ لیلا الی آخر السورۃ‘‘

    آپ نے حضرت قطب صاحب کو چار دن میں قرآن شریف یاد کرا دیا۔

    مکتب میں داخلہ : جب حضرت قطب صاحب کی عمر پانچ سال کی ہوئی تو آپ کی والدۂ محترمہ نے آپ کو مکتب میں داخل کرنا چاہا، یہ ایک خوشی کا موقع تھا، اس خوشی میں آپ کی والدہ محترمہ نے دعوت کی، کچھ مٹھائی اور کچھ روپیہ دے کر حضرت قطب صاحب کو ایک خادم کے ہمراہ محلہ کے مکتب میں بھیجا جب آپ خادم کے ساتھ محلہ کے مکتب میں جارہے تھے تو راستے میں آپ کو ایک بزرگ ملے، ان بزرگ نے خادم سے دریافت فرمایا کہ

    ”اس سیعدِ ازلی کو کہاں لئے جاتے ہو؟“

    خادم نے جواب دیا کہ

    ”محلہ کے معلم کے پاس لئے جا رہا ہوں“

    یہ سن کر ان بزرگ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ

    ”اس کو مولانا ابا حفص کے پاس لے جانا چاہئے کہ وہ کامل ہیں اور اس لڑکے کی تعلیم ان سے علاقہ رکھتی ہے“

    ان بزرگ کی رائے کے موافق آپ بجائے محلہ کے معلم کے مولانا ابا حفص کی خدمت میں پہنچے، جب آپ وہاں پہنچے تو ان بزرگ نے مولانا ابا حفص سے کہا کہ

    ”اس بچے کی تعلیم اچھی طرح سے کرو کہ اس سے بہت کام لینے ہیں“

    حضرت قطب صاحب کو مولانا ابا حفص کے پاس سپرد کرکے وہ بزرگ چلے گئے، ان کے جانے کے بعد مولانا ابا حفص نے خادم سے پوچھا کہ

    ”کیا تو جانتا ہے یہ بزرگ کون تھے؟“

    خام نے جواب دیا کہ

    ”مجھے معلوم نہیں“

    مولانا ابا حفص نے بتایا کہ

    ”یہ حضرت خضر علیہ السلام تھے“

    تلاشِ حق : قطب الاقطاب حضرت خواجہ صاحب نے تلاشِ حق کے جذبے سے متاثر ہوکر اپنے وطن کو چھوڑا، آپ ایک شہر میں پہنچے، اس شہر میں کچھ دن قیام کیا، آبادی سے کچھ فاصلہ پر ایک مسجد تھی، مسجد کے صحن میں ایک اونچا مینارہ تھا، حضرت قطب صاحب کو ایک ایسی دعا معلوم تھی کہ اگر اس دعا کو پچھلی رات میں بعد ادائے دوگانہ مینارہ پر پڑھا جائے تو دعا کے پڑھنے والے کو حضرت خضر علیہ السلام کی ملاقات نصیب ہو، آپ نے اس موقع کو غنیمت سمجھا، دوگانہ ادا کیا پھر وہ دعا پڑھی، مینارہ سے نیچے اترے اور حضرت خضر علیہ السلام کا انتظار کرنے لگے، مسجد میں کوئی شخص نظر نہ آیا، آپ مسجد سے باہر آگئے، ایک بزرگ کو دیکھا کہ ان بزرگ نے حضرت قطب صاحب سے دریافت کیا کہ

    ”تو اس سنسان میدان میں تنِ تنہا کیا کر رہا ہے؟“

    حضرت قطب صاحب نے حضرت خضر سے ملنے کا شوق اور آپ سے ملنے کے لئے دعا پڑھنے کا حال بتایا، یہ سن کر ان بزرگ نے پوچھا کہ

    ”کیا تو دنیا چاہتا ہے؟“

    حضرت قطب صاحب نے جواب دیا کہ

    ”نہیں“

    پھر ان بزرگ نے دریافت کیا کہ

    ”کیا تو کسی کا قرض دار ہے؟“

    حضرت قطب صاحب نے جواب دیا کہ

    ”نہیں“

    ان بزرگ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ

    ”پھر تو خضر کو کیوں تلاش کرتا ہے وہ تو خود مثل تیرے سر گرداں ہے، چنانچہ اس شہر میں ایک بزرگ حقِ تعالیٰ کے ساتھ مشغول ہیں، اس نے ان سے (حضرت خضر سے) ملنے کی سات بار خواہش کی مگر میسر نہ ہوئی“

    گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ ایک اور بزرگ مسجد سے باہر آئے اور پہلے بزرگ کے قریب کھڑے ہوگئے، ان بزرگ نے حضرت قطب صاحب کا ہاتھ پکڑا اور پہلے بزرگ سے کہنے لگے کہ

    ”یہ نہ دنیا چاہتا ہے نہ کسی کا قرض دار ہے، یہ تو صرف آپ کی ملاقت کا متمنی ہے“

    قطب صاحب نے جب یہ سنا تو آپ کو خوشی ہوئی، آپ سمجھ گئے کہ پہلے بزرگ حضرت خضر علیہ السلام ہیں اور دوسرے بزرگ رجال الغیب میں سے ہیں، اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ دونوں بزرگ غائب ہوگئے۔

    بیعت 582ھ مطابق 1186ء : حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی مرید ہونا چاہتے تھے، حضرت شیخ محمود اصفہانی ایک درویشِ کامل تھے، حضرت قطب صاحب کو آپ سے گہرا تعلق اور عقیدت تھی، قطب صاحب ان سے بیعت کرنا چاہتے تھے لیکن ہوتا تو وہ ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے، ان ہی دنوں میں خواجۂ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی سنجری بسلسلۂ سیروسیاحت اصفہان پہنچے، حضرت قطب صاحب کو جب یہ معلوم ہوا کہ خواجہ غریب نواز اصفہان میں تشریف فرما ہیں تو آپ کو ان سے ملنے کی خواہش ہوئٰ آپ ان کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوئے حضرت خواجہ غریب نواز اس وقت دوتائی اوڑھے ہوئے تھے، وہ دوتائی آپ نے حضرت قطب صاحب کو مرحمت فرمائی، دو تائی دینے کے معنیٰ یہ ہوئے کہ خواجہ غریب نواز نے حضرت قطب صاحب کو شرفِ مریدی بخشا، حضرت قطب صاحب کو خواجہ غریب نواز کی جدائی گوارا نہ تھی، آپ ان کے ہمراہ رہنے لگے، سفر میں بھی خواجہ غریب نواز کے ہمرا رہتے۔

    پیرومرشد کے ساتھ سفر : خواجہ غریب نواز نے ختِ سفر باندھا، آپ اصفہان سے خانۂ کعبہ کی زیارت کے لئے روانہ ہوئے قطب صاحب آپ کے ہمراہ تھے، اس سفر کے حالات کے متعلق حضرت قطب صاحب فرماتے ہیں کہ

    ”جب دعا گو (قطب صاحب) خواجہ معین الدین کے ساتھ کعبہ کے سفر میں تھا، ایک دن صبح کی نماز کے بعد روانہ ہوکر ہم ایک شہر میں پہنچے، یہاں ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی، یہ صومعہ کے اندر معتکف تھے، ایک غار میں مثلِ سوکھی لکڑی کے اپنی آنکھیں ہوا میں کھولے عالمِ حیرت میں کھڑے تھے، ایک ماہ تک ہم ان کے پاس رہے، اس عرصہ میں وہ صرف ایک مرتبہ عالمِ صحو میں آئے، ہم نے اٹھ کر سلام کیا“

    انہوں نے جواب دیا اور فرمایا کہ

    ”اے عزیز ! تمہیں میرے اس حال سے صدمہ ہوا مگر تمہارے اس ملال سے مکافات میں بخشش ہوگی کیوں کہ اہلِ صفا فرماتے ہیں کہ جو درویش کی خدمت کرتا ہے وہ مقبول ہوتا ہے“

    الغرض انہوں نے بیٹھنے کے لئے فرمایا، ہم بیٹھ گئے پھر فرمانے لگے کہ

    ”میں شیخ محمد اسلم طؤی کا فرزند ہوں، تیس سال سے عالمِ تحیر میں مستغرق ہوں، نہ مجھے دن کی خبر ہے نہ رات کی، خدائے تعالیٰ تمہاری وجہ سے آج مجھے عالمِ صحو میں لایا ہے، تمہیں دوبارہ آنے سے تکلیف ہوگی مگر یہ بات اس فقیر کی یاد رکھنا کہ جب تم نے طریقت میں قدم رکھا ہے تو ہوائے نفس سے دنیا کی طرف متوجہ نہ ہونا، خلقت سے عزلت رکھا جو کچھ ملے اسے صرف کر دینا۔

    حقِ تعالیٰ کے مشغول نہ ہونا تاکہ خستہ نہ ہو“

    وہ بزرگ یہ نصیحت کرکے پھر عالمِ تحیر میں مشغول ہوگئے۔

    حرم شریف کی زیارت 583ھ مطابق 1187ء : حضرت قطب صاحب 583ھ میں خواجہ غریب نواز کے ساتھ مکہ معظمہ پہنچے، زیارتِ کعبہ سے مشرف ہوئے۔

    بغداد میں آمد : 585ھ مطابق 1189ء مدینہ منورہ سے خواجہ غریب نواز مع حضرت قطب صاحب بغداد شریف پہنے، بغداد پہنچ کر آپ نے وہاں کچھ دن آرام کیا۔

    خلافت : حضرت قطب صاحب کی بیعتِ خلافت سے مشرف ہونے کی تفصیل حسب ذیل ہے کہ

    خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی نے چالیس روز متواتر سرورِ کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ کو مع رواحِ مشائخینِ کرام خواب میں یہ ارشاد فرماتے ہوئے دیکھا کہ

    ”ارے معین الدین ! قطب الدین خدا کا دوست ہے، اس کو خلافت دے اور خرقۂ گلیم پہنا“

    ایک دن خواجہ غریب نواز نے فرمایا کہ

    ”آج رات میں نے حضرت ذوالجلال قادرِ باکمال کو خواب میں دیکھا، وہاں بھی یہ حکم ہوا کہ اے معین الدین ! قطب الدین بختیار کاکی کو درویشی کا خرقہ اور خلافت عطا کر، کیوں کہ قطب الدین ہمارا دوست اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی دوست ہے، ہم نے اسے برگزیدہ بندہ بنایا دیا ہے اور اس کا نام اپنے دوستوں میں درج کیا ہے“

    پس خواجہ غریب نواز نے 585ھ میں حضرت قطب صاحب کو خواجہ ابواللیث سمرقندی کی مسجد میں بیعت و خلافت سے مشرف فرمایا، اس موقع پر حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی، شیخ داؤد کرمانی، شیخ برہان الدین محمد چشتی اور شیخ تاج الدین محمد اصفہانی موجود تھے۔

    شجرۂ طریقت : حضرت قطب صاحب کا شجرۂ طریقت حسبِ ذیل ہیں : قطب الدین وہومن خواجہ معین الدین حسن سنجری وہومن خواجہ عثمان ہارونی چشتی وہومن حضرت حاجی شریف زندنی وہومن حضرت قطب الدین مودود چشتی وہومن حضرت خواجہ ناصرالدین ابو یوسف چشتی وہومن حضرت خواجہ ابو محمد چشتی وہومن حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتی وہومن حضرت خواجہ ابو اسحاق چشتی وہومن حضرت خواجہ شمشاد علوی دینوری وہومن حضرت شیخ امین الدین ہبیرۃ البصری وہومن حضرت سدیدالدین حدیقۃ المرعشی وہومن حضرت سلطان ابراہیم ادھم بلخی وہومن حضرت ابو فضیل بن عیاض وہومن خواجہ عبدالواحد بن زید وہومن حضرت خواجہ حسن بصری وہومن امام الاؤلیا سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ۔

    بغداد سے روانگی : آخر کار خواجہ غریب نواز نے کوچ کیا، آپ 586ھ مطابق 1190ء بغداد سے روانہ ہوئے، حضرت قطب صاحب اپنے پیرومرشد حضرت خواجہ غریب نواز کے ہمراہ تھے، بغدا دسے روانہ ہوکر خواجہ غریب نواز مع حضرت قطب صاحب چشت میں رونق افروز ہوئے، بعد ازاں خواجہ غریب نواز مع حضرت قطب صاحب ہرات پہنچے، ہرات سے خواجہ غریب نواز اور حضرت قطب صاحب سبزہ وار میں رونق افروز ہوئے، سبزہ وار میں کچھ دن قیام کرکے حضرت قطب صاحب بہ ہمراہی خواجہ غریب نواز لاہور پہنے، لاہور سے آپ اور خواجہ غریب نواز سمانا ہوتے ہوئے دہلی سے گذرے، دہلی سے روانہ ہوکر خواجہ غریب نواز اور حضرت قطب صاحب اجمیر پہنچے، اس سفر کے متعلق حضرت قطب صاحب فرماتے ہیں کہ

    ”لاہور سے روانہ ہوکر 587ھ میں دو ماہ سفر میں رہنے کے بعد واردِ اجمیر ہوئے۔۔۔“

    بابا فریدالدین گنج شکر کی باریابی : کچھ دن اجمیر میں قیام کرنے کے بعد خواجہ غریب نواز غزنین تشریف لے گئے، آپ کے مریدین و معتقدین بھی آپ کے ہمراہ ہولئے، حضرت خواجہ قطب صاحب کو اپنی والدۂ محترمہ سے رخصت ہوئے کافی عرصہ ہوگیا تھا، آپ اوش تشریف لے گئے، جب خواجہ غریب نواز واپس اجمیر تشریف لے آئے تو حضرت قطب صاحب بھی ہندوستان روانہ ہوئے، آپ 590ھ مطابق 1194ء میں ملتان میں رونقِ افروز ہوئے، ان دنوں ملتان علوم و فنون کا مرکز تھا، بڑے بڑے عالم یہاں رہتے تھے، لوگ دور دراز سے تحصیلِ علم کی غرض سے متلان آتے تھے، حضرت بابا فریدالدین گنج شکر تلاشِ علم میں ملتان آئے، آپ نے مولانا منہاج الدین ترمذی کی مسجد میں قیام کیا۔

    ایک دن کا واقعہ ہے کہ بابا فریدالدین گنج شکر قبلہ رو بیٹھے کتاب پڑھ رہے تھے، اس کتاب کا نام ”نافع“ تھا، حضرت قطب صاحب جب ملتان میں رونق افروز ہوتے تو آپ اسی مسجد میں گئے جہاں بابا فریدالدین گنج شکر مطالعہ میں مشغول تھے، جوں ہی حضرت بابا صاحب نے حضرت قطب صاحب کو دیکھا، آپ بے چین ہوگئے، حضرت قطب صاحب کے روئے مبارک پر جو آپ کی نظر پڑی تو آپ ایک والہانہ جذبے سے متاثر ہوکر بے اختیار کھڑے ہوگئے، آداب بجا لائے، تعظیم کے اظہار کے بعد بابا صاحب ایک طرف مؤدبانہ بیٹھے گئے، حضرت قطب صاحب نے دوگانہ تحیۃ المسجد ادا کیا پھر بابا صاحب کی طرف مخاطب ہوئے کہ

    ”تم کیا پڑھتے ہو؟“

    بابا صاحب نے مؤدبانہ جواب دیا کہ

    ”کتاب نافع پڑھتا ہوں“

    یہ جواب سن کر حضرت قطب صاحب نے زبانِ فیض ترجمان سے فرمایا کہ

    ”جانتے ہو کہ نافع سے تمہیں نفع ہوگا“

    بابا صاحب نے عرض کیا کہ

    ”مجھے تو حضرت کی سعادتِ قدم بوسی نانع ہوگی“

    یہ کہہ کر حضرت بابا صاحب والہانہ انداز میں اٹھے اور حضرت قطب صاحب کے قدموں پر اپنا سر رکھ دیا، حضرت قطب صاحب کی نظرِ کیمیا اثر اپنا کام کر چکی تھی، حضرت بابا صاحب کو اب حضرت قطب صاحب کی جدائی گوارا نہ تھی، ہر وقت حضرت قطب صاحب کی صحبت میں رہنے لگے، آپ کو حضرت قطب صاحب سے بے پناہ عقیدت ہوگئی، ملتان میں کچھ دن قیام فرما کر حضرت قطب صاحب دہلی روانہ ہوگئے، حضرت بابا صاحب نے بھی آپ کے ہمراہ دہلی جانا چاہا لیکن حضرت قطب صاحب نے حضرت بابا صاحب کی تکیمل تعلیم پر زور دیا، حضرت بابا صاحب تین منزل تک حضرت قطب صاحب کے ہمراہ آئے، وہاں سے رخصت ہوکر ملتان تشریف لے گئے، ملتان سے بلخ و بخارا تشریف لے گئے، آپ حضرت قطب صاحب سے ملنے کو بے چین تھے، دہلی پہنچ کر حضرت قطب صاحب کے دیدار سے مشرف ہوئے۔

    حضرت بابا صاحب کا بیعت ہونا 590ھ : حضرت بابا صاحب پہلی ہی مجلس میں قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوگئے، حضرت نظام الدین اؤلیا نے بوقت بیعت حضرت بابا صاحب کی عمر پندرہ سال بتائی۔

    حضرت بابا صاحب کا دہلی میں قیام : بابا صاحب کا دہلی میں کچھ عرصہ قیام رہا، اپنے پیرومرشد حضرت قطب صاحب کا حکم پاکر آپ قندھار روانہ ہوگئے، وہاں آپ نے علمِ ظاہری حاصل کرنے میں انتہائی محنت کی، وہاں سے آپ بعدِ تحصیلِ علمِ ظاہری عراق، خراسان، ماورالنہر، مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ ہوتے ہوئے اور مشائخینِ عظام سے ملتے اور روحانی فیوض حاصل کرتے ہوئے اپنے پیرومرشد حضرت قطب صاحب کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوئے، حضرت قطب صاحب کو بابا صاحب کی آمد سے بے حد خوشی ہوئی، بابا صاحب غزنی دروازہ کے قریب ایک حجرہ میں رہنے لگے، آپ اپنے پیرومرشد حضرت قطب صاحب کے فرمان کے مطابق عبادات، ریاضات اور مجاہدات میں لگے رہتے، اس زمانے میں آپ نے سخت سے سخت ریاضتیں کیں، آپ اپنے پیرومرشد کی خدمت میں روزانہ حاضر نہیں ہوتے تھے بلکہ دو ہفتہ کے بعد اپنے پیرومرشد کے جمال پُرانوار سے مشرف ہوتے تھے۔

    حضرت بابا صاحب ابھی ریاضات و مجاہدات میں مشغول تھے کہ اجمیر سے حضرت خواجہ غریب نواز دہلی تشریف لائے اور حضرت قطب صاحب کی خانقاہ میں قیام فرمایا، خواجہ غریب نواز کا دہلی میں قیام دہلی والوں کے لئے باعثِ برکت تھا، اب روحانی فیض کا چشمہ ان سے قریب تھا، عرفان کی بارش ہو رہی تھی، ہر قسم کی دولت تقسیم ہو رہی تھی، ہر شخص چاہتا تھا کہ اپنا دامنِ مراد بھر لے، ہر ایک کی قسمت تھی اور اس کا دامن تھا۔

    حضرت قطب صاحب کے حصے میں وہ نعمت آئی کہ جس پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے، حضرت قطب صاحب نے اپنے مریدوں کو خواجہ غریب نواز کے حضور میں پیش کیا، ہر ایک اپنی قابلیت اور استطاعت کے مطابق خواجہ غریب نواز سے فیض یاب ہوا جب خواجہ غریب نواز جی بھر کے عرفان کی دولت لٹا چکے تو آپ نے خود ہی حضرت قطب صاحب سے دریافت فرمایا کہ

    ”تمہارے مریدوں سے کیا کوئی نعمت پانے سے رہ گیا ہے؟“

    قطب صاحب نے عرض کیا کہ

    ”مسعود (بابا صاحب) رہ گیا ہے، وہ چلہ میں بیٹھا ہے“

    یہ سن کر خواجہ غریب نواز کھڑے ہوگئے اور قطب صاحب سے مخاطب ہوکر آپ نے فرمایا کہ

    ”آؤ ! اسے دیکھیں“

    حضرت خواجہ غریب نواز حضرت قطب صاحب اس مقام پر تشریف لے گئے جہاں حضرت بابا صاحب چلہ میں بیٹھے ہوئے تھے، وہاں پہنچ کر چلہ کا دروازہ کھولا وہاں بابا صاحب بیٹھے ہوئے تھے، آپ اتنے کمزور ہوگئے تھے کہ خواجہ غریب نواز اور حضرت قطب صاحب کی تعظیم کے واسطے کھڑے نہ ہوسکے، باچشمِ پُر آب سرِ نیاز زمین پر رکھ دیا، حضرت بابا صاحب کا یہ حال دیکھ کر خواجہ غریب نواز نے حضرت قطب صاحب سے فرمایا کہ

    ”اے قطب ! کب تک اس بے چارے کو مجاہدہ میں گھلاؤ گے، آؤ اسے کچھ عطا کریں“

    یہ کہہ کر خواجہ غریب نواز نے حضرت بابا صاحب کا دہنا ہاتھ پکڑا، حضرت قطب صاحب نے بایاں بازو پکڑا، اس طرح ہر دو بزرگوں نے بابا صاحب کو کھڑا کیا، خواجہ غریب نواز نے آسمان کی طرف منہ کرکے بارگاہِ ایزدی میں بابا صاحب کے واسطے دعا فرمائی، حضرت خواجہ غریب نواز نے عرض کیا کہ

    ”خدایا ! ہمارے فرید کو قبول فرما اور اکمل درویش کے مرتبہ پر پہنچا“

    غیب سے ندا آئی کہ

    ”ہم نے فرید کو قبول کیا، یہ وحیدِ عصر ہوگا“

    حضرت خواجہ غریب نواز نے پھر حضرت قطب صاحب کو اس امر کی تاکید کی اور ہدایت فرمائی کہ

    ”اسمِ اعظم جو خواجگانِ چشت میں سینہ بہ سینہ چلا آتا ہے اسے تلقین کرو“

    اس اسم اعظم کی برکت سے حضرت بابا صاحب خدا رسیدہ ہوگئے، آپ پر علمِ لدنی کا انکشاف ہوا اور حجابات کے پردے اٹھ گئے، خواجہ غریب نواز نے بابا صاحب کو خلعت سے سرفراز فرمایا۔

    حضرت بابا صاحب کا خلافت سے سرفراز ہونا : حضرت قطب صاحب نے حضرت بابا صاحب کو دستار، مثال اور خلافت کے دیگر لوازمات سے نوازا۔

    بابا صاحب کے متعلق پیش گوئی : اس موقع پر خواجہ غریب نواز نے حضرت بابا صاحب کے متعلق پیش گوئی فرمائی، آپ نے حضرت قطب صاحب کو مخاطب کرکے فرمایا کہ

    ”قطب ! بڑے شہباز کو دام میں لائے، اس کا آشیانہ سدرۃ المنتہیٰ ہوگا“

    اس محفل میں صوفیائے کرام، پیران عظام اور مشائخین والا احترام موجود تھے، قاضی حمیدالدین ناگوری، مولانا علی کرمانی، سید نورالدین غزنوی، مولانا مبارک، شیخ نظام الدین ابوالموائد، مولانا شمس الدین ترک، خواجہ محمد مونیہ دوز اور دیگر اصحاب موجود تھے، ایک شاعر نے جو اس مبارک موقع پر موجود تھا فی البدیہہ حسبِ ذیل اشعار پڑھے۔

    بخششِ کونین از شیخین شد در بابِ تو

    بادشاہی یافتن از بادشاہانِ جہاں

    مملک دنیا و دیں گشتہ مسلم بر ترا

    عالمِ گن گشتہ اقطاعِ تو اے شاہِ جہاں

    سفرِ اوش اور واپسی : حضرت قطب صاحب اپنی والدۂ محترمہ سے ملنے کے لئے بے چین تھے، آپ 602ھ میں اپنی والدۂ محترمہ کی قدم بوسی کی غرض سے اوش تشریف لے گئے، اوش سے آپ بغداد تشریف لے گئے، وہاں آپ حضرت شیخ شہاب الدین عمر سہروردی اور شیخ احدالدین کرمانی سے ملے، ان کے علاوہ اور بھی دیگر مشائخینِ کبار سے ملے، بغداد میں آپ کو حضرت جلال الدین تبریزی سے معلوم ہوا کہ آپ کے پیرومرشد حضرت خواجہ معین الدین حسن سنجری خراسان سے ہندوستان تشریف لے گئے ہیں اور دہلی میں قیام ہے۔

    ملتان میں آمد 611ھ مطابق 1214ء : جب حضرت قطب صاحب کو یہ خبر ملی تو آپ اپنے پیرومرشد کی قدم بوسی کے شوق میں ہندوستان روانہ ہوگئے، شیخ جلال الدین تبریزی آپ کے ساتھ ہولئے، آپ مع شیخ جلال الدین تبریزی ملتان میں رونق افروز ہوئے، یہ زمانہ سلطان شمس الدین التمش کا تھا، قباچہ بیگ ملتان کا حاکم تھا، ملتان میں حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی رشدوہدایت فرما رہے تھے۔

    قباچہ بیگ کی درخواست 611ھ مطابق 1214ء : حضرت قطب صاحب نے دہلی کا قصد کیا، قباچہ بیگ آپ کو ملتان میں روکنا چاہتا تھا، اس نے بصد عاجزی حضرت قطب صاحب سے عرض کیا کہ حضور ملتان میں سکونت اختیار فرمائیں، حضرت قطب صاحب نے اس کی یہ درخواست منظور نہ کی، آپ نے فرمایا کہ

    ”یہ مقام عالمِ غیب سے شیخ بہاؤالدین زکریا کے ذمہ لکھا گیا ہے علاوہ ازیں میں اپنے پیرومرشد خواجہ معین الدین کی اجازت کے بغیر کہیں بھی سکونت پذیر نہیں ہوسکتا“

    روانگی 611ھ مطابق 1214ء : حضرت قطب صاحب دہلی روانہ ہوگئے، ملتان سے آپ لاہور پہنچے اور لاہور سے آپ دہلی میں رونقِ افروز ہوئے، شیخ جلال الدین تبریزی یہاں سے واپس غزنی تشریف لے گئے، ملتان میں حضرت قطب صاحب سے لوگ بیعت کرنا چاہتے تھے لیکن حضرت قطب صاحب نے اس وجہ سے منع فرمایا کہ ملتان کو حضرت شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی کی ولایت سے علاقہ ہے، حضرت قطب صاحب جب ملتان سے روانہ ہوئے تو کچھ لوگ آپ کے ہمراہ ہو لئے، آپ نے ان لوگوں کو ملتان کی حدود سے باہر بمقامِ ہانسی شرفِ بیعت سے نوازا۔

    قاضی حمیدالدین ناگوری کا خواب : حضرت قاضی حمیدالدین ناگوری نے اسی زمانہ میں ایک خواب دیکھا کہ

    آفتاب جہاں تاب نے دہلی میں آکر مملکت کو روشن کردیا ہے اور وہ ان کے گھر میں آیا ہے اور کہتا ہے کہ میں تیرے گھر میں رہوں گا جب اس خواب کی تعبیر لی تو معلوم ہوا کہ

    آفتاب سے مراد ولیٔ کامل ہے جو دہلی میں رونق افروز ہوگا اور قاضی صاحب کے گھر میں سکونت پذیر ہوگا۔

    دہلی میں آمد : حضرت قطب صاحب نے دہلی پہنچ کر کیلوکڑی میں قیام فرمایا، آپ کی جائے قیام کافی فاصلہ پر تھی، لوگوں کو اور خود بادشاہ کو وہاں آنے جانے میں کافی دقت لگتا تھا۔

    سلطان کی درخواست : سلطان شمس الدین التمش نے حضرت خواجہ قطب صاحب سے عرض کیا کہ اگر آں حضرت بجائے کیلوکڑی کے مہرولی میں رہنے لگیں تو وہ خود اور لوگ دور دراز سے آنے جانے کی تکلیف سے بچ جائیں گے، سلطنت کے کام میں بھی کوئی ہرج نہ ہوگا اور لوگوں کو بھی سہولت پہنچے گی، حضرت قطب صاحب نے از راہِ عنایت و کرم سلطان شمس الدین التمش کی درخواست منظور فرمائی، آپ کیلوکڑی سے مہرولی تشریف لے آئے پہلے ایک نا بنائی کے یہاں قیام فرمایا، یہ نابنائی حضرت قطب صاحب سے عقیدت رکھتا تھا، حضرت قاضی حمیدالدین ناگوری پھر آپ کو اپنے گھر لے آئے، کچھ دن بعد آپ نے وہاں قیام فرمایا پھر آپ نے مسجد اعزازالدین کے قریب رہنا سہنا شروع کردیا۔

    دوسری درخواست : حضرت جمال الدین محمد بسطامی دہلی میں شیخ الاسلام کے جلیل عہدہ پر فائز تھے، ان کے انتقال کے بعد سلطان شمس الدین التمش کی خواہش تھی کہ حضرت قطب صاحب یہ عہدہ قبول فرمالیں جب سلطان التمش نے حضرت قطب صاحب سے اس امر کی درخواست کی تو آپ نے عہدہ قبول کرنے سے صاف انکار کردیا، سلطان التمش نے آخر کار شیخ نجم الدین صغریٰ کا اس عہدہ پر تقرر کیا۔

    آپ کا معروضہ : حضرت قطب صاحب کو اپنے پیرومرشد حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی کی قدم بوسی کا بے حد اشتیاق تھا، آپ نے حضرت خواجہ غریب نواز کی خدمت میں ایک درخواست اجمیر بھیجی، اس درخواست میں آپ نے شوقِ قدم بوسی کا اظہار کیا اور خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت چاہی، حضرت خواجہ غریب نواز نے جواب دیا کہ

    ”اگر چہ در ظاہر بعد است اما در باطن قرب است ہما نجا باید بو۔۔“

    ترجمہ : اگر چہ ظاہر میں دوری ہے لیکن روحانی طور پر قریب ہو، وہیں رہو۔۔“

    خواجہ غریب نواز کی دہلی میں آمد 611ھ مطابق 1214ء : حضرت خواجہ غریب نواز نے حضرت قطب صاحب کو دہلی آنے سے منع فرما دیا تھا، آپ بہ نفسِ نفیس دہلی تشریف لے گئے، آپ نے حضرت قطب صاحب کی خانقاہ میں قیام فرما کر حضرت قطب صاحب کی عزت افزائی فرمائی، دہلی میں کچھ دن قیام فرما کر اور عرفان کی دولت لٹا کر خواجہ غریب نواز اجمیر واپس تشریف لے آئے۔

    دوسری مرتبہ 621ھ مطابق 1224ء : اس مرتبہ حضرت خواجہ غریب نواز بغیر اطلاع دہلی میں رونق افروز ہوئے، حضرت قطب صاحب کو سخت تعجب ہوا، اس مرتبہ حضرت خواجہ غریب نواز ایک کسان کی سفارش اور اپنے فرزند حضرت خواجہ فخرالدین کے لئے موضع ماندن کی معافی کی غرض سے دہلی تشریف لے گئے تھے، حضرت قطب صاحب کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ سلطان شمس الدین التمش کے پاس تشریف لے گئے، آپ نے کسان کا معاملہ کسان کے حق میں طے کرا دیا، خواجہ غریب نواز کو نہیں جانے دیا، آپ نے موضع ماندن کی معافی کا فرمان غریب نواز کے فرزند حضرت خواجہ فخر الدین کے حق میں حاصل کیا۔

    بے رخی : شیخ نجم الدین صغریٰ دہلی میں شیخ الاسلام تھے، خواجہ غریب نواز کے ان سے دیرینہ تعلقات تھے خراسان میں ملاقات ہوچکی تھی، خواجہ غریب نواز سے دہلی میں سب ملنے آئے لیکن نجم الدین صغریٰ نہ آئے، خواجہ غریب نواز کو تعجب ہوا کہ وہ کیوں نہ آئے، آپ خود ہی ان سے ملنے ان کے مکان پر تشریف لے گئے، اس وقت شیخ نجم الدین صغریٰ ایک صوفہ تعمیر کرا رہے تھے، انہوں نے خواجہ غریب نواز کی طرف سے بے رخی برتی، اس بے رخی کے برتاؤ سے خواجہ غریب نواز کو رنج ہوا، آپ نے شیخ نجم الدین صغریٰ سے فرمایا کہ

    ”اے نجم الدین ! ایسی کیا تجھ پر بلا آئی کہ شیخ الاسلامی کے نشے میں انسانیت سے در گزرا اور راہ و رسم دیرینہ اور وضع داریٔ قدیم کو یک بارگی ترک کیا“

    شیخ نجم الدین صغریٰ یہ سن کر شرمندہ ہوئے، آپ نے خواجہ غریب نواز کے قدموں پر سر رکھا، معذت کے خواہاں ہوئے اور عرض کیا کہ

    آپ سے رشک و حسد

    ”میں پہلے جیسے آپ کا مخلص تھا ویسا ہی اب ہوں مگر قطب الدین کاکی نے میری منزلت برباد کردی ہے، جب سے وہ آپ کا مرید یہاں آیا ہے تمام مخلوق اس کی طرف رجوع ہے، میں برائے نام شیخ الاسلام ہوں، کوئی میری پرسش نہیں کرتا“

    در اصل شیخ نجم الدین صغریٰ کو خواجہ غریب نواز سے شکایت تھی کہ

    ”تو خلیفہ خود را در ایں جا گذاشتی کہ ہمہ مردم شہر دہلی بر درش چنداں ہجوم دارند کہ کسے مرا بیک برگ سبزے ہم یاد نمی کند“

    ترجمہ : آپ نے اپنے خلیفہ کو اس جگہ چھوڑ دیا ہے، دہلی کی ساری مخلوق اس کے در پر جمع رہتی ہے اور مجھ کو ایک سبز پتّے سے بھی کوئی یاد نہیں کرتا، کوئی میری پُرسش نہیں کرتا۔

    اجمیر کو روانگی : یہ سن کر خواجہ غریب نواز مسکرائے، آپ نے شیخ نجم الدین صغریٰ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ

    ”تو خاطر جمع رکھ، میں اس بارِگراں کو جو تیرے دل پر ہے، اپنے ہمراہ اجمیر لے جاؤں گا“

    دہلی سے روانگی کے وقت حضرت خواجہ غریب نواز نے حضرت قطب صاحب سے فرمایا کہ

    ”بابا قطب الدین ! تو ہمراہ ہم بیا کہ بعضے مردماں ایں جا از تو ناراض اند“

    ترجمہ : بابا قطب الدین تم میرے ہمراہ آؤ (چلو) کیوں کہ بعض لوگ تم سے یہاں خفا ہیں۔

    خواجہ غریب نواز نے دہلی سے اجمیر کو روانہ ہوتے وقت حضرت قطب صاحب کو اپنے ہمراہ لیا پس حضرت قطب صاحب برکاتِ سعادت اپنے پیرومرشد روانہ ہوئے، یہ خبر سارے شہر میں پھیل گئی، لوگ آپ کے پیچھے ہو لئے، حضرت قطب صاحب دہلی میں اس قدر ہر دل عزیز تھے کہ آپ کی جدائی کسی کو گوارا نہ تھی، سلطان شمس الدین التمش کو جب یہ خبر ملی تو وہ خواجہ غریب نواز کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے عرض کیا کہ

    ”حضور ! قطب صاحب کو اجمیر نہ لے جائیں، یہیں رہنے دیں“

    خواجہ غریب نواز کی لوگوں کی دل شکنی پسند نہ تھی، جب آپ نے دیکھا کہ دہلی کے لوگ حضرت قطب صاحب کے جانے سے رنجیدہ ہیں تو آپ نے حضرت قطب صاحب سے فرمایا کہ

    ”بابا قطب ! تم یہں رہو، تمہارے جانے سے اہلِ شہر پریشان و بے قرار ہیں، میں نہیں چاہتا کہ اتنے لوگوں کے دلوں کو تمہاری آتشِ جدائی سے کباب کروں، میں نے اس شہر کو تمہاری حمایت میں چھوڑا“

    حسبِ فرمان پیرومرشد حضرت قطب صاحب واپس آگئے اور دہلی میں رہنے گلے۔

    شوقِ قدم بوسی : کچھ مدت دہلی میں قیام فرمانے کے بعد حضرت قطب صاحب اپنے پیرومرشد کی قدمبوسی کے لئے بے چین ہوئے، آپ نے ایک عریضہ اپنے پیرومرشد حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی کی خدمتِ اقدس میں بھیجا، آپ کے پیرومرشد کا جواب آیا کہ

    ”ما نیز می خواستیم تا آں فرزندِ ارجمند را بطلبم درایں اثنا مراسلہ رسید، می باید کہ زود بیانید کہ ایں ملاقات آخریست در دنیا“

    ترجمہ : میں بھی چاہتا تھا کہ فرزندِ ارجمند کو بلاؤں کہ اسی اثنا میں مراسلہ ملا، تم کو چاہئے کہ جلد آؤ کہ یہ ملاقات اس دنیا میں آخری ہے۔

    پیرومرشد کی خدمت : حضرت قطب صاحب یہ جواب ملتے ہی اجمیر شریف روانہ ہوگئے، اجمیر پہنچ کر آپ اپنے پیرومرشد حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی کے دیدار سے مشرف ہوئے، خدمتِ بابرکت میں رہنے لگے، آخری مجلس کے حالات حضرت قطب صاحب نے اس طرح تحریر فرمائے ہیں کہ

    ”چوں خواجہ تمام کرد بگریست، فرمود کہ اے دریش ! مارا کہ ایں جا آوردہ اند مدفن ما ایں جا خواہد بود، میان چند روز ما سفر خواہم کرد“

    ترجمہ : حضرت خواجہ یہ فرما کر رونے لگے، فرمایا کہ اے درویش اس سرزمین میں جو مجھے پہنچا گیا ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ یہیں میری قبر بنے گی، چند دنوں میں ہم سفر کیں گے۔

    تبرکات کی سپردگی : اسی مجلس میں حضرت خواجہ غریب نواز نے احکام نافذ فرمائے، حضرت قطب صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ

    ”شیخ علی سنجری حاضر بودند او را فرمان شد کہ مثال نبویس برست شیخ قطب الدین بختیار کاکی ما بدہ تا در دہلی رود کہ خلافت او را دادیم کہ دہلی مقام اوست، بعد ازاں مثال تمام شد، بردست دعا گو داد، روئے بر زمین آوردم، فرمان شد کہ نزدیک بیا، نزدیک تر شدم، دستار باکلاہ بر سرِ من بدست خود نہاد، عصائے شیخ عثمان ہارونی و رداء در بر دعا گو کرد و مصلحت و مصلا نیز داد، فرمود ایں امانتے است از رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم، از خواجگانِ چشت بما رسیدہ است من ترا دادم، باید کہ چنانچ از ایشاں ما بجا آوردیم شما نیز حق ایں بجا آرید، تا فردائے قیامت میان خواجگان مارا شرمندہ نگردانی۔

    ترجمہ : شیخ علی سنجری حاضر تھے، ان کو حکم دیا کہ فرمان لکھا جائے اور ہمارے شیخ قطب الدین بختیار کاکی کو دیا جائے تاکہ وہ دہلی جائیں، ہم ان کو خلافت دیتے ہیں اور دہلی کے ان کے قیام کے لئے تجویز کرتے ہیں، پھر جب فرمان مکمل ہوگیا، دعا گو (قطب صاحب) کو عطا فرمایا، میں آداب بجا لایا، حکم ہوا کہ نزدیک آ، میں اور نزدیک ہوگیا، دستار اور کلاہ اپنے دستِ مبارک سے میرے سر پر رکھا، حضرت خواجہ عثمان ہارونی کا عصا اور خرقہ عنایت فرمایا، قرآن مجید اور مصلا بھی عنایت فرمایا، ارشاد فرمایا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مقدست امانت ہے جو خواجگانِ چشت کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے، میں تم کو یہ سونپ رہا ہوں، تم کو لازم ہے ہے کہ جس طرح ہم نے ان چیزوں کو اپنے پاس رکھا ہے، تم بھی اسی طرح رکھوگے تاکہ کل قیامت کے دن خواجگان کے سامنے مجھے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔

    حضرت قطب صاحب فرماتے ہیں کہ اس کے بعد

    ”دعا گو سربرزمیں آورد، دوگانہ نماز گزارد، فرمود، برو، بخدا سپردم و ترا بمنزل گاہِ عزت رسانیدم“

    ترجمہ : دعا گو (قطب صاحب) پھر آداب بجالایا، دو رکعت نمازِ شکرانہ ادا کی، ارشاد ہوا کہ جاؤ ! میں نے تم کو خدا کے سپرد کیا اور مقام عزت اور بزرگی پر فائز کیا۔

    پیرومرشد کی نصیحت : حضرت قطب صاحب کے پیرومرشد خواجہ غریب نواز نے آپ کو نصیحت فرمائی کہ چار باتیں بڑی خوبی کی ہیں، ان پر عمل کرنا باعثِ خیروبرکت ہے، ان چاروں باتوں میں سے کہ

    پہلی بات تو ایسی درویشی ہے کہ جس سے تونگری ظاہر ہو۔

    دوسری بات بھوکوں کا پیٹ بھرنا ہے۔

    تیسری بات یہ ہے کہ غم کی حالت میں خوشی کا اظہار کرے۔

    چوتھی بات یہ ہے کہ اگر کوئی دشمنی سے پیش آئے تو جواب میں دوستی کا مظاہرہ کرے۔

    پیرومرشد کی دعا : اس آخری مجلس کا واقعہ ہے، حضرت خواجہ غریب نواز نے حضرت قطب صاحب سے فرمایا کہ

    ”آؤ“ حضرت قطب صاحب آگے بڑھے، قدم بوسی ہوئے، خواجہ غریب نواز نے فاتحہ خیر پڑھ کر فرمایا کہ

    ”روئے نہ خراشی، مرشدہ بباش“

    اجمیر سے واپسی : حضرت قطب صاحب اپنے پیرومرشد سے رخصت ہوکر دہلی واپس تشریف لائے اور دہلی میں سکونت اختیار کرکے بقیہ عمر وہیں گذاری۔

    عظیم صدمہ : آپ کی روانگی بیس دن بعد آپ کے پیرومرشد حضرت خواجہ معین الدین چشتی واصل بحق ہوئے، جس دن آپ کو اپنے پیرومرشد کی وفات شریف کی خبر موصول ہوئی آپ حالتِ غم و رنج میں مصلے پر نماز پڑح کر لیٹ رہے، آپ نے اپنے پیرومرشد کو خواب میں دیکھا کہ آپ قدم بوس ہوئے، کیفیتِ حال دریافت کی، ارشاد ہوا کہ

    ”خداوند تعالیٰ نے رحمتِ خاص سے نوازا اور فرشتوں اور ساکنانِ عرش کے نزدیک جگہ دی، میں یہیں رہتا ہوں“

    ازواج و اولاد : آپ کی پہلی شادی آپ کے وطن اوش میں ہوئی تھی، آپ کی والدۂ ماجدہ نے آپ کا عقد ایک خاتون کے ساتھ کردیا، تین روز بعد حضرت قطب صاحب نے بیوی کو طلاق دے دی، اس شادی سے آپ کے اوراد میں فرق آیا اور یہ بات آپ کو گوارا نہ ہوئی، حضرت قطب صاحب کا ورد تھا کہ رات کو سوتے وقت تین ہزار مرتبہ درود شریف پڑھا کرتے تھے جو درود شریف آپ پڑھتے تھے وہ یہ ہے کہ

    اللّٰھُمَّ صلی علی محمد عبدِکَ ونَبیِّکَ وَ حبیبِکَ وَ رسولِکَ النَّبِیِّ الاُمّی و اٰلہِ وسَلِّم۔

    شادی کے بعد آپ تین شب درود شریف نہ پڑھ سکے، تیسرے دن آپ کے ایک مرید نے جن کا نام رئیس احمد تھا، خواب دیکھا کہ ایک عالی شان محل ہے، خلقت کا ہجوم ہے اور ایک شخص جس کی صورت نورانی ہے، محل میں بلا تکلف آجا رہے ہیں، لوگوں کا پیغام لے کر محل میں جاتے ہیں اور پیغام کا جواب لے کر باہر آتے ہیں، انہوں نے (رئیس احمد) نے محل اور ان بزرگ کے متعلق ایک شخص سے معلوم کیا، اس شخص نے ان کو بتایا کہ سرورِ عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس محل میں تشریف رکھتے ہیں اور وہ بزرگ جو آتے جاتے ہں، ان کا نام حضرت عبداللہ بن مسعود ہے۔

    رئیس احمد یہ سن کر حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس گئے اور ان سے عرض کیا کہ ان کا پیغام سرورِ عالم کو پہنچا دیں کہ وہ بھی دیدار فائض الانوار کا مشتاق ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود یہ پیغام لے کر محل میں گئے اور وہاں سے جواب لائے کہ سرورِ عالم کا اشارہ ہے کہ

    ”ابھی اس شخص میں میرے دیدار کی اہلیت اور لیاقت نہیں ہے، میرا سلام قطب الدین اوشی کو پہنچا اور میری طرف سے کہنا کہ کیا بات ہے کہ جو تحفہ وہ ہر رات ہمارے پاس بھیجتے تھے اب تین رات سے نہیں بھیجا“

    رئیس احمد کی آنکھ کھلی تو آپ سرورِ عالم کا یہ پیغام پہنچانے کے لئے بے چین تھے، آپ نے حضرت قطب صاحب کی خدمت میں حاضر ہوکر خواب سنایا، قطب صاحب نے جو سرورِ عالم کا پیغام سنا تو کھڑے ہوگئے، رئیس احمد سے پوچھنے لگے کہ ”ہاں کیا فرمایا ہے“

    رئیس احمد نے عرض کیا کہ سرورِ عالم نے فرمایا کہ ”جو تحفہ تم مجھے ہر شب بھیجا کرتے تھے وہ تین شب سے کیوں نہیں بھیجا‘‘

    حضرت قطب صاحب فوراً سمجھ گئے تحفہ سے کیا مراد ہے، شادی کی وجہ سے تین رات سے درود شریف ناغہ ہوگیا تھا، پس

    ”خواجہ ہماں زنے کہ خواستہ بود طلبیدہ ومہر او بدو رسانید و طلاق داد باز بہ اوراد و وظائف خود مشغول گشت“

    ترجمہ : خواجہ نے (قطب صاحب) اس عورت کو جس سے آپ کی شادی ہوئی تھی بلایا اور اس کا مہر اس کے حوالے کیا اور اس کو طلاق دے دی اور پھر اپنے اوراد و وظائف میں مشغول ہوگئے“

    اس کے بعد آپ نے ایک مدّت تک شادی نہیں کی۔

    دوسرا نکاح : آپ نے دوسری شادی دہلی میں سکونت اختیار کرنے کے بعد کی، یہ شادی آپ نے آخری عمر میں کی، آپ کے دو لڑکے ہوئے، ایک لڑکے کا نام احمد تھا اور دوسرے کا نام شیخ محمد تھا، شیخ محمد کا سات سال کی عمر میں انتقال ہوگیا، جب ان کے انتقال پر ان کی والدہ کے رونے کی آواز حضرت قطب صاحب کے کانوں تک پہنچی تو آپ نے شیخ بدرالدین سے پوچھا کہ ”یہ رونے کی آواز ہمارے گھر سے کس وجہ سے آرہی ہے“

    انہوں نے عرض کیا کہ ”حضور کے صاحبزادے شیخ محمد کا انتقال ہوگیا ہے، ان کی والدہ رو رہی ہیں“

    یہ سن کر حضرت قطب صاحب نے فرمایا افسوس ان کو خبر نہ ہوئی، اگر ان کو خبر ہوتی تو وہ خداوند تعالیٰ سے اس کی زندگی مانگتے اور اگر

    ”می خواستم می یافتم“ اگر مانگتا تو ضرور پاتا۔

    آپ اپنی اہلیہ محترمہ کو صبر کی تلقین فرما کر مرقبہ میں پھر مشغول ہوگئے۔

    آپ کی نسل آپ کے بڑے صاحبزادے خواجہ احمد سے چلی، آپ خواجہ احمد تماچی کے نام سے مشہور ہوئے، آپ بلند پایہ بزرگ تھے۔

    مدفن : وفات سے قبل ایک عید کے موقع پر حضرت قطب صاحب عیدگاہ سے واپسی پر ایک افتادہ اور غیرآباد زمیں میں تشریف لائے، یہی وہ مقام ہے جہاں اب آپ کا مزارِ مبارک ہے، یہاں کچھ دیر تک آپ سوچ بچار میں رہے جو لوگ ہمراہ تھے انہوں نے عرض کیا کہ ”حضور ! کس فکر میں ہیں“ آپ نے جواب دیا کہ

    ”مرا ازیں زمین بوئے دلہا می آید، مالک ایں زمین را حاضر کنید“

    ترجمہ : مجھ کو اس زمین سے دلوں کو بُو آتی ہے، اس زمین کے مالک کو حاضر کرو۔

    مالکِ زمیں حاضر ہوا، حضرت قطب صاحب نے اس زمین کو اپنے زرِ خاص سے خرید لیا اور اس زمین کو اپنے مدفن و مرقدِ مطہر کے لئے مقرر کرلیا۔

    جائے مدفن کی فضیلت : اس جگہ کو جہاں حضرت قطب صاحب کا مزارِ مبارک ہے خاص فضیلت حاصل ہے، حضرت سلیمان علیہ السلام کا تخت اڑتے اڑتے ایک بار اس جگہ پہنچا، جہاں حضرت قطب صاحب کا جائے مدفن ہے، آپ کو یہ دیکھ کر سخت تعجب ہوا کہ عرش سے فرش تک نور ہی نور ہے اور نور کے طبق فرشتے آسمان سے لا رہے ہیں اور اس زمین پر ڈال رہے ہیں، حضرت سلیمان نے دریافت فرمایا کہ یہ خوبصورت جگہ اور یہ پُرفضا مکان کس مردِ باصفا کا مسکن یا مدفن ہے، فرشتوں نے عرض کیا کہ

    ”ایں سر زمین مکن و مدفن خواجہ قطب الدین محبوب اللہ است کہ در امت رسول اللہ آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم پیدا خواہد بود وہم دریں بقعہ خواہد آسود“

    یہ سر زمین مسکن و مدفن اللہ کے محبوب خواجہ قطب الدین کا ہے کہ پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں پیدا ہوں گے اور اس جگہ آسودہ ہوں گے۔

    آخری ایام : ایک روز شیخ علی سنجری کی خانقاہ میں محفلِ سماع ہورہی تھی، صاحبِ حال اور اہلِ کمال درویش محفل میں شریک تھے، حضرت قطب صاحب بھی بہ نفسِ نفیس تشریف رکھتے تھے، قوال یہ شعر پڑھ رہے تھے۔

    عاشق رویت کجا بیند مکیں

    بستہ رویت کجا یاد خلاص

    حضرت قطب صاحب پر وجد طاری ہوا، قوال اس شعر کو دیر تک گاتے رہے، اس کے بعد قوالوں نے حضرت احمد جام کی غزل گانا شروع کی، جب صلاح الدین اور اس کے لڑکوں کریم الدین اور نصیرالدین نے یہ شعر پڑھا۔

    کشتگانِ خنجر تسلیم را

    ہر زماں از غیب جانِ دیگر است

    تو حضرت قطب صاحب پر ایسا وجد طاری ہوا کہ آپ اس کیفیت میں بے ہوش ہوگئے۔

    قاضی حمیدالدین ناگوری اور شیخ بدرالدین غزنوی آپ کو اسی حالت میں مکان پر لے گئے، آپ شعر کی تکرار کا حکم فرتے اور پھر آپ پر وجد طاری ہوتا، چار روز تک آپ پر یہ کیفیت رہی، آپ بے ہوش تھے، نماز کے وقت آپ کو ہوش آجاتا، آپ نماز ادا کرتے اور پھر وہی حالت ہوجاتی، تیسرے روز آپ کے ہربُن منہ سے تسبیح اسمِ ذات کی آواز آتی تھی اور ہربُن منہ سے خون کے قطرے ٹپکنے لگتے جو قطرہ زمین پر گرتا اس سے نقش اللہ پیدا ہوتا اور اس دل کش نفش سے اللہ کی آواز آتی تھی، دوسرے روز ہربُنِ منہ سے سبحان اللہ کی آواز آتی تھی اور خون کا قطرہ جو گرتا اس سے نقش سبحان اللہ ظاہر ہوتا، قوالی جاری رہی، جب قوال پہلا مصرعہ پڑھتے تو حضرت قطب صاحب کے قالب سے روحِ مبارک غائب ہوجاتی اور جب قوال دوسرا مصرعہ پڑھتے تو روحِ مبارک واپس آجاتی، جب آپ آہ کرنا یا نعرہ لگانا چاہتے تو قاضی حمیدالدین ناگوری آپ کا دہنِ مبارک بند کردیتے اور کہتے کہ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ساری دنیا کو جلا دیں، آپ کا دہنِ مبارک تو بند رہا لیکن آپ کا جسمِ مبارک سوختہ و گداختہ ہوگیا، آپ کی نبض دیکھ کر حکیم شمس الدین نے کہا کہ

    ”یہ مضرِ عشق ہے، آتشِ عشق نے دل و جگر کو بالکل جلا دیا ہے، اب علاج کی کوئی گنجائش نہیں“

    آپ پر 10 ربیع الاول 632ھ کو کیفیت طاری ہوئی تھی، چار شبانہ روز یہی حالت رہی، پانچویں شب میں جب کہ مصرعہ اولیٰ کی تکرار ہورہی تھی قطب الاقطاب حضرت قطب الدین بختیار کاکی نے 14 ربیع الاول 633ھ مطابق 27 نومبر 1235ء کو رحلت فرمائی۔

    آپ کی وفات کی خبر دہشت اثر سے دہلی میں کہرام مچ گیا، سلطان شمس الدین التمش، دہلی کے فقرا، مشائخ، صوفی، عوام اور خواص غرض سب ہی نے نماز جنازہ میں شرکت کی۔

    آپ کی وصیت : جنازہ جب تیار ہوگیا تو مولانا ابو سعید نے حضرت قطب صاحب کی وصیت بیان کی، آپ نے کہا کہ

    ”حضرت خواجہ ما وصیت فرمودہ کہ امامت جنازہ من کسے کند کہ از وبندش بحرام نہ کشادہ باشد و سنت نماز عصر و تکبیرِ اولیٰ گاہے از وفوت نہ شدہ باشد“

    ترجمہ : ہمارے خواجہ نے وصیت فرمائی کہ میرے جنازہ کی نماز وہ شخص پڑھائے کہ جس نے کبھی حرام نہ کیا ہو اور جس سے سنت عصر اور تکبیرِ اولیٰ کبھی فوت نہ ہوئی۔

    نمازِ جنازہ : جب حضرت قطب صاحب کی یہ وصیت لوگوں کو معلوم ہوئی تو لوگ حیران تھے کہ آخر کون خوش قسمت شخص ہے کہ جو آپ کے جنازہ کی نماز پڑھائے گا، کچھ دیر سکوت طاری رہا، آخر سلطان شمس الدین التمش آگے بڑھے، آپ نے کہا کہ

    ”مجھے ہرگز منظور نہ تھا کہ کسی کو میرے حال سے آگاہی ہو مگر حضرت قطب الاقطاب کی مرضی سے چارہ نہیں“

    سلطان شمس الدین التمش نے امامت کے فرائض انجام دیے۔

    جلوسِ جنازہ : آپ کے جنازہ کے ساتھ لوگوں کی کثیر تعداد تھی، سلطان التمش نے نماز پڑھانے کے بعد ایک طرف سے جنازہ کو کاندھا دیا اور دوسرے اہلِ دہلی نے باقی تین طرف سے جنازہ کو کاندھا دیا، آپ کو اسی جگہ پر دفن کیا گیا کہ جس کو آپ نے اپنی حیات ظاہر ہی میں اپنی آخری آرام گاہ کے لئے منتخب فرمایا۔

    آپ کا مزارِ پُرانوار مہرولی میں واقع ہے اور مرجعِ خاص و عام ہے، ہر سال آپ کا عرس مبارک 13 اور 14 ربیع الاول کو مہرولی میں بڑے تزک و احتشام سے ہوتا ہے، اجمیر میں بھی آپ کے چلہ پر ان ہی تاریخوں میں آپ کا سالانہ عرس ہوتا ہے۔

    آپ کے بعض خلفا : حضرت فریدالدین مسعود گنج شکر کو حضرت قطب صاحب کا خلیفۂ اکبر اور جانشین ہونے کا فخر حاصل ہے، آپ کے بعض خلفا حسبِ ذیل ہیں۔

    شیخ بدرالدین غزنوی، شیخ برہان الدین بلخی، شیخ ضیا رومی، مولانا فخرالدین حلوائی، مولانا برہان حلوائی، شیخ محمد سماجی، شیخ احمد بینی، شیخ حسین، شیخ فیروز، شیخ بدرالدین موئے تاب، شاہ خضر قلندر، شیخ نجم الدین قلندر، شیخ سعدالدین، شیخ محمود بہاری، مولانا محمد جاجری، سلطان نصیرالدین غازی، بابا بحری بحردریا۔

    حضرت بابا صاحب کا تبرکات پانا : حضرت بابا صاحب اپنے پیرومرشد حضرت قطب صاحب کی خدمت میں رہ کر روحانی فیوض و برکات سے مستفیض ہوتے رہے، ایک دن کا واقعہ ہے کہ حضرت بابا صاحب اپنے پیرومرشد حضرت قطب صاحب کی خدمتِ بابرکت میں حاضر تھے، آپ ایک دم اٹھے اور ہانسی جانے کی اجازت طلب کی، حضرت قطب صاحب کو حضرت بابا فرید صاحب سے انتہائی محبت تھی، آپ آنکھوں میں آنسو بھر لائے اور فرمایا کہ

    ”اے فرید ! البتہ تم جاؤ گے“

    حضرت بابا صاحب نے عرض کیا کہ

    ”جیسا حکم ہو بجا لاؤں“

    حضرت قطب صاحب نے فرمایا کہ

    ”جاؤ، میں کیا کروں، منشا نے قدرت اسی طرح ہے کہ میری وفات کے وقت تم موجود نہ ہو اور میں بھی حضرت خواجہ (معین الدین چشتی) کی وفات کے وقت موجود نہ تھا“

    حضرت قطب صاحب نے اس قدر فرمایا اور پھر عجیب غور و خوض میں سرِ مبارک جھکا لیا پھر آپ نے سر اٹھایا اور حاضرینِ مجلس کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ

    ”آؤ ! ہم سب مل کر اس درویش کی دین و دنیا کی نعت کی ترقی اور استقامت کے لئے سورۂ فاتحہ و اخلاص پڑھیں“

    سب نے سورۂ فاتحہ و اخلاص پڑھی، حضرت قطب صاحب نے بھی فاتحہ پڑھی اور بابا فرید صاحب کے واسطے دعائے خیر کی کہ

    ”خداوند تعالیٰ تجھ کو مشائخِ کبار میں سے بنائے اور استقامت کے درجہ تک پہنچائے“

    پھر حضرت قطب صاحب نے خاص مصلے اور عصا بابا صاحب کو عنایت کیا اور فرمایا کہ

    ”میں تمہاری امانت یعنی سجادہ باخرقہ و دستار اور نعلین کہ جو دست بدست پیرانِ چشت سے مجھ کو پہنچی ہیں قاضی حمیدالدین ناگوری کے سپرد کر دوں گا اور جب تم پانچویں روز (وفات کے) ہانسی سے میری قبر پر آؤ گے، وہ یہ امانتِ پیران تم کو پہنچا دیں گے اور خرقہ پہنا دیں گے، میرے مقام کو خود اپنا مقام سمجھو اور تم اس جگہ ذوق و راحت کے ساتھ بیٹھو گے اور رشد و ہدایت کروگے اور اپنے فیض سے خاص و عام کو فائدہ پہنچاؤ گے“

    قطب الاقطاب حضرت قطب صاحب نے جب یہ بات چیت ختم کی مجلس میں ایک شور برپا ہوا، حاضرینِ مجلس رونے لگے، سب نے حضرت بابا صاحب کے واسطے دعائے خیر کی۔

    وصیت : حضرت قطب صاحب نے جس محفلِ سماع میں وصال فرمایا، اسی محفل میں حضرت قاضی حمیدالدین ناگوری اور حضرت بدرالدین غزنوی کو وصیت فرمائی کہ تبرکاتِ پیرانِ عظام جو ان کے پاس ہیں وہ حضرت بابا صاحب کو جب وہ ان کے وصال کے بعد یہاں آئیں، دے دینا، حضرت بابا صاحب کی امانت ان تک پہنچا دینا اور نہایت عزت کے ساتھ حضرت بابا صاحب کو خرقہ پہنانا، حضرت قطب صاحب نے اس محفلِ سماع میں تبرکات، خرقۂ خاص، عصا، نعلین چوبیں اور دو تائی سوزنی حضرت قاضی حمیدالدین ناگوری اور حضرت بدرالدین غزنوی کو دکھائے۔

    خواب : جس رات حضرت قطب صاحب واصل بحق ہوئے، اسی رات بابا صاحب نے خواب دیکھا کہ قطب صاحب ان کو بلاتے ہیں، یہ خواب بابا صاحب کے لئے کافی اشارہ تھا، آپ سمجھ گئے کہ حضرت قطب صاحب کا وصال ہوگیا، افتاں و خیزاں، پریشان و حیران آپ ہانسی روانہ ہوئے، آپ کی آنکھوں سے اشکوں کا دریا بہہ رہا تھا، ادھر حضرت قاضی حمیدالدین ناگوری نے حضرت بابا صاحب کی خدمت میں ایک آدمی بھیجا، مہم پر حضرت بابا صاحب کی حضرت قاضی صاحب کے فرستادہ آدمی سے ملاقات ہوئی، وہ خط جس میں حضرت قطب صاحب کی وفات کی اطلاع تھی، حضرت بابا صاحب کو ملا، حضرت بابا فرید صاحب چوتھے روز دہلی پہنچے، پانچویں روز حضرت قطب صاحب کے مزارِ پُرانوار کی زیارت سے مشرف ہوئے، حضرت قاضی حمیدالدین ناگوری اور شیخ بدرالدین غزنوی نے حسبِ فرمان قطب الاقطان حضرت قطب الدین بختیار کاکی تما تبرکات حضرت بابا صاحب کے سپرد کئے، حضرت بابا صاحب نے اپنے پیرومرشد کا خرقہ پہنا، اس مصلے پر دوگانہ ادا کیا، آپ نے اپنے پیرومرشد کے مکان میں قیام فرمایا، کچھ دن دہلی میں قیام کرکے حضرت بابا صاحب ہانسی تشریف لے گئے، آپ نے فرمایا کہ

    ’’نعمتے کہ حق در حق من عطا کرہ ہمراہ من است، چہ در شہر و چہ دربایابان“

    ترجمہ : خدا تعالیٰ نے جو نعمت مجھے عطا کی ہے وہ میرے ساتھ ہے خوہ شہر ہو یا جنگل۔

    سیرتِ پاک : قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نائب رسول فی الہند کے نائب ہیں، آپ خواجہ معین الدین حسن چشتی کے نائب خلیفۂ اکبر اور جانشین ہیں، آپ قطبِ مشائخ ہیں، حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے آپ کے متعلق تحریر فرمایا ہے کہ

    ”از اکابرِ اؤلیا و اجلۂ اصفیا است“

    ترجمہ : (آپ) اکابرِ اؤلیا اور جلیل القدر صوفیائے کرام میں سے ہیں۔

    آپ کی بزرگی اور برگزیدگی میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں، اس میں کسی کو اختلاف کی گنجائش نہیں کہ

    ”جمیع مشائخ العصر معتقد و حلقہ بگوش آں حضرت بودند و شانِ عظیم و رتبۂ رفیع داشت و مستجاب الدعوات بود تاہر چہ از زبانِ مبارکش بر آمدے ہماں شدے دہر کہ صحبتِ پاک آں حضرت اختیار کردے صاحبِ ولایت شدے بہر کہ نظرِ لطف نمودے از عرش تاثریٰ ہماں ساعت او را کشف شدے“

    ترجمہ : اس زمانے کے تمام مشائخ آں حضرت کے معتقد اور حلقۂ بگوش تھے، بڑی شان والے اور بلند مرتبہ والے تھے، آپ کی دعا قبول ہوتی تھی جو کچھ زبانِ مبارک سے فرما دیتے ویسا ہی ہو جاتا جو شخص آں حضرت کی صحبتِ پاک میں رہتا وہ صاحبِ ولایت ہوجاتا اور جس پر آپ نظر ڈالتے اسی وقت اس کو عرش سے تحت تحت الثریٰ تک منکشف ہوجاتا۔

    عبادات : آپ کو عبادت میں بہت لطف آتا تھا، آپ حافظِ قرآن تھے، روزانہ ایک قرآن ختم کرتے تھے، لوگوں سے چھپ کر آپ عبادت کرتے تھے، آپ فرائضِ پنج گانہ کی ادائیگی میں ہمیشہ مستعد رہتے تھے، اس کے علاوہ آپ تین سو رکعت نفل روزانہ پڑھتے تھے، رات کو سوتے وقت تین ہزار مرتبہ درود شریف پڑھتے تھے۔

    گوشہ نشینی : آپ عزلت اور گوشہ نشینی پسند فرماتے تھے، کم کھانا، کم سونا اور کم بولنا آپ کا شعار تھا، خالق سے مشغول تھے اور مخلوق سے بے نیاز، حضرت محمد گیسو دراز نے آپ کے متعلق لکھا ہے کہ آپ ہمیشہ خاموش اور رنجیدہ رہتے تھے، آپ گریہ و زاری میں زیادہ وقت گزارتے تھے، دروازہ بند کئے تنہا بیٹھے رہتے، لوگوں سے الگ رہتے، آپ کے متعلق شیخ نور بخش لکھتے ہیں کہ

    ”خواجہ قطب الدین بختیار اوشی کان من الاؤلیاالسالکین والمرتاضین اولمجاہدین بالخلوۃ والعزلّہ وقلّہ الطعام و قلّہ المنام وقلۃ الکلام والذکر بالدوام فی الاربعینات وفی الاحوال الباطنۃ شان کیسہ معین المکاشفین“

    ترجمہ : خواجہ قطب الدین بختیار اوشی اؤلیائے سالکین اور برگزیدہ مرتاضین و مجاہدین میں سے تھے، خلوت اور گوشہ نشینی میں بسر کرتے تھے، کم کھاتے، کم سوتے، کم بولتے اور پوشیدہ طور پر ذکر میں مشغول رہتے، اپنے حالات کو چھپانے میں کوشاں رہتے۔

    شب بیداری : اول اول تو آپ کچھ دیر رات کو سوتے اور تھوڑی آرام فرماتے لیکن آخر عمر میں رات کا آرام اور سونا آپ نے ترک کر دیا تھا، راتوں کو جاگتے تھے، قرآن مجید کی تلاوت اور ذکر جلی و خفی میں مشغول رہتے۔

    فقروفاقہ : حضرت قطب صاحب کو اپنے فقر و فاقہ پر فخر تھا، آپ کی زندگی نہایت عسرت، سختی اور تنگی میں گزرتی تھی، آپ کو آپ کے اہل و عیال کو اور آپ کے وابستگان کو اکثر فاقہ رہتا تھا لیکن کسی پر یہ ظاہر نہ کرتے تھے کہ گھر میں فاقہ ہے، فاقہ کی حالت میں بھی صبر و شکر کا دامن تھامے رہتے، ابتدائے حال میں آپ کے گھر میں دستر خوان، رکابی اور پیالہ تک نہیں تھا۔

    نذرانہ سے انکار : آپ نذرانہ قبول نہیں فرماتے تھے، ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ سلطان شمس الدین التمش نے کچھ روپئے اور اشرفیاں آپ کی خدمت میں بھیجیں اور آپ سے استدعا کی کہ یہ نذرانہ آپ قبول فرمائیں آپ نے قبول نہیں کیا۔

    پیرانِ عظام کی پیروی : آپ اپنے پیرانِ عظام کی پیروی اپنے لئے باعثِ سعادت اور نجات سمجھتے تھے اور اس میں سخت کوشاں رہتے تھے، ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ سلطان التمش کا وزیر حاضرِ خدمت ہوا اور چھ گواؤں کا فرمان اور ایک کشتی طلائی اشرفیوں سے بھری ہوئی پیش کی، وزیر نے عرض کیا کہ سلطان التمش کی آرزو ہے کہ آپ اس کو قبول فرمائیں، یہ آپ کے خادمان اور مخلصان کے واسطے ہے، اس وقت بابا صاحب بھی حاضر تھے، حضرت قطب صاحب مسکرائے اور فرمایا کہ

    ”میرے پیروں نے ایسی چیزیں کبھی قبول نہیں کی ہیں، میں بھی قبول نہیں کرسکتا۔۔۔ اگر آج میں ان کی پیروی نہ کروں گا اور گاؤں اور اشرفیوں کو قبول کروں گا تو کل (قیامت کے دن) ان کو کیا منہ دکھاؤں گا اور ان کے زمرہ میں کیوں کر شامل ہوں گا۔۔۔“

    استغراق : آپ دن رات مراقبہ میں رہتے تھے، نماز کے وقت آنکھیں کھولتے تھے، غسل فرماتے تھے اور تازہ وضو کرکے نماز پڑھتے، آپ کے استغراق کا یہ عالم تھا کہ جب کوئی آپ کی زیارت کے لئے آتا تو اس کو انتظار کرنا پڑ تا تھا، اطلاع ہونے پر آپ ہوشیار ہوتے تھے، آپ کے کیف و وجد کا یہ حال تھا کہ ایک مرتبہ سات شبانہ روز آپ عالمِ تحیر میں رہے، نماز کے بعد ہوش میں آتے۔

    توکل : آپ مخلوق سے کنارہ کش رہتے تھے، بابا صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت قطب صاحب کا توکل واقعی توکل تھا، آپ بیس سال تک عالم توکل میں رہے، کسی سے کوئی سروکار نہ رکھتے تھے، باورچی خانے کا خرچہ اس طرح چلتا تھا کہ جب ضرورت ہوتی خادم حاضر ہوتا، آپ کسی طرف اشارہ کردیتے، جس قدر ضرورت ہو لے لو، جب صوفیوں کے لئے ضرورت ہوتی تو آپ مصلے کے نیچے سے اشرفیاں نکال کر خادم کو دے دیتے تھے، دن بھر کے خرچے میں یہ سب رقم خرچ ہو جاتی تھی، کوئی مسافر یا ضرورت مند آپ کے در سے خالی ہاتھ واپس نہیں آیا۔

    اخفائے حال : حضرت قطب صاحب اپنے حال کو لوگوں پر ظاہر کرنا پسند نہیں فرماتے تھے، زہد و ریاضت، عبادات و مجاہدات کو چھپاتے تھے، اپنے مریدوں کو بھی اس بات کی تلقین فرماتے تھے، ایک مرتبہ حضرت بابا صاحب نے آپ سے چلہ کشی کی اجازت چاہی، آپ نے اجازت نہیں دی اور فرمایا کہ

    ”اس کی ضرورت نہیں، کیوں کہ ان باتوں سے بھی شہرت ہوتی ہے اور فقیروں کے لئے شہرت کا ہونا آفت ہے، ہمارے پیروں میں کسی نے ایسا نہیں کیا“

    ذوقتِ سماع : آپ کو سماع کا بے حد شوق تھا، سماع سے آپ کی طبیعت کبھی سیر نہیں ہوتی تھی، سماع میں آپ پر کیفیت طاری ہوتی، تو آپ کھڑے ہوجاتے اور صحن میں رقص کرنے لگتے، البتہ نماز کے وقت آپ کو ہوش آجاتا، آپ نماز ادا کرتے اور پھر پہلی سی حالت ہوجاتی۔

    ایک دن کا واقعہ ہے کہ محفلِ سماع ہو رہی تھی، حضرت قطب صاحب رونق افروز تھے، قوالوں نے یہ شعر پڑھا کہ

    سرود چیست کہ چندیں فسونِ عشق در دست

    سرود محرم عشق است و عشقِ محرم اوست

    یہ شعر سن کر آپ پر وجدانی کیفیت طاری ہوئی، سات روز تک بے ہوش رہے، نماز کے وقت جب ہوش آتا تو آپ نماز ادا کر لیتے تھے۔

    آپ کا علمی ذوق : قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ایک بلند پایہ مصنف بھی ہیں، ایک اچھے شاعر بھی ہیں، آپ کی تصانیف حسبِ ذیل ہیں۔

    دلیل العارفین : اس کتاب میں آپ نے اپنے پیرومرشد حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی کے ملفوظات تحریر کئے ہیں۔

    زبدۃ الحقائق : یہ کتاب شائع نہیں ہوئی ہے۔

    رسالہ : آپ نے ایک رسالہ بھی مرتب کیا ہے۔

    مثنوی : ایک مثنوی بھی آپ سے منسوب کی جاتی ہے۔

    آپ کا دیوان : یہ دیوان فارسی میں ہے اور شائع ہوچکا ہے، اس میں حضرت قطب صاحب کا تخلص کہیں ”قطب الدین“ ہے اور کہیں ”قطب دین“ ہے، آپ نے اپنی شاعری کو توحید وعرفان اور حقیقت و معرفت کے اظہار کا ذریعہ بنایا، نمونۂ کلام حسبِ ذیل ہے۔

    اے لال در ثنائے صفاتت زبانِ ما

    دے در صفاتِ وحدت تو عل نا رسا

    بے چوں و بے چگونہ و بے مثل آمدے

    در کنہ ذاتِ تو نرسد عقلِ انبیا

    موجود از وجود تو باشد ہر آنچہ ہست

    فانی شوند جملہ و باشد ترا بقا

    سر گشتگانِ بادیۂ عشقِ خویش را

    ہم خود دلیل باش کہ ہستی تو رہنما

    از بحر خویش قطرۂ بر قطب دیں فشاں

    تو بادشاہ حسن یداد بندۂ گدا

    دیگر

    ز وصلِ یار خود شادانم امروز

    کہ کردہ جائے اندر جانم امروز

    بکامِ دل چشیدہ شربتِ وصل

    خلاص از آتش ہجرانم امروز

    نباشد احتیاجم یا طبیبی

    کہ کردہ یار خود در ماتم امروز

    زمن دوری مجوکز دست رفتم

    انیسِ خلوتِ جانانم امروز

    بگیر اے غم ز قطب الدین کنارہ

    کہ شادی خیمہ زد در جانم امروز

    دیگر

    آنی کہ ترا نیست مقام و منزل

    چیزے غیر تو نیست مارا حاصل

    در ہر دوجہاں ذات تو کی می گنجد

    یارب تو چگونہ جائے کردی در دل

    دیگر

    عاشق باید کہ زرد باشد رنگش

    وز جملۂ کائنات آید تنگش

    روزے صدبارا گر کند توبہ زعشق

    چوں شیشہ وگر بار زند برسنگش

    آپ کی تعلیمات : حضرت قطب صاحب کی تعلیمات میں موجودہ مشکلات کا حل ملتا ہے، آپ کے ملفوظاتِ بابرکات کو اپنے خلیفۂ اکبر و سجادہ نشین حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر نے بطریقِ مجالس جمع فرمایا ہے، آپ نے اپنی اس کتاب کا نام ”فوائد السالکین“ رکھا، ذیل میں چند مجالس کے حال سے حضرت قطب صاحب کی تعلیمات کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ہوگا۔

    مرشد کا فرض : حضرت قطب صاحب نے مجلس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ

    ”مرشد کو اس قدر قوت اور تفتیح خاصر چاہئے کہ جب طاب اس کی خدمت میں واسطے حصولِ بیعت کے حاضر ہووے اسے واجب ہے کہ ایک ہی نگاہ میں تمام الائش دنیا جو اس کے سینہ میں ہو من کل الوجوہ نکال ڈالے اور ایسا صاف کرے کہ کوئی کدورت، رنگ اور لگاؤ دنیاوی باقی نہ رہے بعدہٗ اسے اپنی بیعت سے ممتاز فرما کر واصلِ الی اللہ کرے، اگر اس قدر قوت پیر میں نہ ہو تو جاننا چاہئے کہ پیر اور مرید دونوں بادیۂ ضلالت میں ہیں“

    صاحبِ سجادہ : حضرت قطب صاحب نے حضرت خواجہ ابوبکر شبلی کی ایک درویش سے ملاقات کا حال بیان فرمایا کہ ان درویش نے حضرت ابوبکر شبلی سے صاحبِ سجادہ کی خصوصیت ان الفاظ میں بیان فرمائی کہ

    ”اے شبلی ! سجادہ پردہ متمکن ہووے اور دوسرے کا ہاتھ وہ شخص پکڑے جسے صاحبِ سجادہ ہونے کی طاقت ہو اور طاقت اس کی یہ ہے کہ جس کا ہاتھ پکڑے اسے صاحبِ سجادہ بنا دے“

    مرد کی کمالیت : حضرت قطب صاحب نے فرمایا کہ

    ”اہلِ سلوک لکھتے ہیں کہ کمالیت مرد کی چار چیز سے پیدا ہوتی ہے، اول کم سونا، دوم کم بولنا، سوم کم کھان، چہارم خلق سے کم صحبت رکھنی“۔

    آپ نے پھر بابا فریدالدین گنج شکر سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ

    ”اے درویش ! جب تک تھوڑا کھاوے اور کم نہ سووے اور کم نہ بولے اور خلق سے صحبت کم نہ رکھے ہرگز جوہرِ درویش حاصل نہ ہوگا، درویش کا گروہ وہ گروہ ہے جنہوں نے سونا اپنی ذات پر حرام کر لیا ہے اور صحبتِ خلق ماورا فعیٰ سے بدتر جانتے ہیں“

    آلائشِ دنیا : آپ نے حضرت بابا فریدالدین گنج شکر کو مخاطب کرکے فرمایا کہ

    ”اے درویش ! حضرت عیسیٰ علیہ السلام تجرید اور تفرید میں بدجۂ کامل اکمل تھے، جب انہیں آسمان پر لے گئے آواز آئی کہ انہیں الگ ہی رکھو کہ آلائشِ دنیا ان کے ساتھ ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہایت حیرت زدہ ہوئے، اسباب دنیوی اپنے کپڑوں میں دیکھنے لگے، خرقۂ شریف میں ایک سوئی اور ایک کاسۂ چوبیں پایا، عرض کی بار خدایا ! اس کا کیا کروں، وحی ربانی ہوئی، پھینک دو، آپ نے اسے پھینک دیا، تب آسمان پر گذرا ہوا“

    یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد آپ نے فرمایا کہ

    ”اے درویش ! جب قلیل و کم مایہ چیز ہونے سے ایسے اولوالعزم پیغمبر پر اعتراض ہوا تو افسوس اس بزرگ کے حال پر جو دنیا میں باکل آلودہ ہورہا ہے“

    تسلیم و رضا : حضرت قطب صاحب نے فرمایا کہ

    ”حضرت یحییٰ علیہ السلام کے حلق پر معازین نے چھری رکھی اور گلا کانٹے لگے، آپ نے شدتِ درد سے چاہا کہ فریاد کریں، اسی وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس تشریف لائے اور کہا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر آپ نے اُف کی تو نام آپ کا جریدۂ پیغامبری سے محروم کردیا جائے گا، حضرت یحییٰ علیہ السلام نے اس حکم کے سننے پر اُف تک نہ کی اور نہایت صبر کے ساتھ جان جانِ آفریں کو سونپی“۔

    حضرت زکریا کا واقعہ : حضرت قطب صاحب نے پھر حضرت زکریا علیہ السلام کا واقعہ بیان فرمایا کہ

    ”اسی طرح جب آرہ حضرت زکریا علیہ السلام کے سرِ مبارک پر رکھا گیا اور چیرنے لگے آپ نے بھی شدت تکلیف سے آہ کرنی چاہئی، حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور وہی حکمِ خداوندی سنایا، آپ بھی خاموش ہورہے، یہاں تک کہ جسمِ مبارک کے آرے سے دو ٹکڑے ہوگئے۔

    حضرت رابعہ بصری کا طریقہ : حضرت قطب صاحب نے فرمایا کہ

    ”رابعہ بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی رسم تھی کہ جس روز ان پر بلا نازل ہوتی آپ نہایت خوش ہوتیں اور فرماتیں کہ دوست نے میری یاد کی اور جس روز بلا نازل نہ ہوتی فرماتیں اور بدرجۂ اتم رنج کرتیں کہ کیا سبب ہوا جو آج میری یاد نہ ہوئی“

    حسنِ اعتقاد : مریدوں کے حسنِ اعتقاد کے بارے میں گفتگو شروع ہوئی، حضرت قطب صاحب نے فرمایا کہ

    ”بغداد شریف میں ایک درویش کو کسی اتہام میں پکڑ کر قاضی کے رو برو لائے، قاضی نے بعد تحقیقات کے حکم قتل کا سنایا، جلاد یہ حکم سن کر درویش کو سیاست گاہ میں لے گیا اور موافق قاعدہ کے قبلہ رخ کیا اور چاہا کہ قتل کرے، اس درویش نے منہ قبلہ سے پھیر کر رخ بجانت مزار اپنے پیر کے کر لیا، جلاد نے کہا، وقت موت منہ بجانب قبلہ کرنا چاہئے، درویش نے کہا کہ تو اپنے کام میں مشغول ہو، میں نے منہ اپنے قبل کی جانب کرلیا ہے، وہ دونوں اسی حیص و بیص میں تھے کہ قاصد خلیفہ کا حکم لے کر آیا کہ ہم نے قصور اس درویش کا معاف کیا، لازم ہے کہ چھوڑ دیا جائے“

    حضرت قطب صاحب نے اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ

    ”دیکھو ! اس کی خوش عقیدگی نے صاف قتل سے بچا لیا“

    تکبیر : ایک روز تکبیر کہنے کے متعلق گفتگو ہورہی تھی کہ درویش کوچے میں تکبیر کیوں کہتے ہیں، حضرت قطب صاحب نے فرمایا کہ

    ”یہ تو کہیں لکھا ہے کہ ہر گلی کوچے میں تکبیر کہی جائے اور نہ یہ طریقہ نیک ہے، البتہ واسطے شکرانہ نعمت کے تکبیر کہنا حدیث شریف میں آیا ہے کہ تکبیر کہنے سے نعمت مزید ہوتی ہے“

    بعد ازاں ارشاد ہوا کہ

    ”تکبیر کے معنیٰ حمد ہیں اور شکرِ نعمت میں حمد کرنی چاہئے“

    خدا کے خاص بندے آپ نے فرمایا کہ

    ”خدائے تعالیٰ کے ایسے بھی بندے ہیں کہ جب اپنی جگہ ہوتے ہیں کعبہ کو حکم ہوتا ہے کہ اسی جگہ جاوے کہ وہ بزرگ اس کا طواف کریں“

    کھانے کا ادب : ایک روز کا واقعہ ہے کہ مجلس ختم نہ ہوئی تھی کہ حضرت قطب صاحب کے سامنے کھانا لیا گیا، آپ نے کھانا شروع کر دیا، اتنے میں شیخ نظام الدین ابوالمؤید آئے اور آداب بجا لائے، حضرت قطب صاحب نے التفات نہ برتا، سلام کا جواب بھی نہ دیا، جب آپ کھانے سے فارغ ہوئے تو شیخ نظام الدین ابوالمؤید نے اس امر کی شکایت کی، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے جواب دیا کہ

    ”میں طاعت میں مشغول تھا، تجھے کیوں کر جواب دیتا، کیونکہ درویش کھانا واسطے قوتِ عبادت کے کھاتے ہیں، جب یہ نیت ہے وہ عین عبادت میں ہیں اور وقت طاعت جواب نہیں دیا جاتا، پس لازم ہے کہ جب کوئی کھانا کھاتے تو سلام نہ کرے، بعد اکل طعام سلام کرے“

    ارشاداتِ عالیہ : حضرت قطب صاحب کے چند اقوال پیش کئے جاتے ہیں جو حسبِ ذیل۔

    عارف : عارف وہ ہے کہ لرحظہ و ہر لمحہ اس پر عجیب حالات ظاہر ہوں اور وہ عالمِ سکر میں غرق ہوں اگر اس وقت اس کے سینے میں زین و زمان و مافیہا داخل ہوجائیں اسے ان کے اترنے سے مطلق خبر نہ ہو، عارف وہ ہے کہ جس پر ایک ایک لمحہ میں ہزاروں عالمِ اسرار کھلیں اور وہ عالمِ سکر میں ایسا محو ہو کہ اگر ہژدہ ہزار 18000 اس کے سینے میں داخل ہوں اور باہر آئیں لیکن اسے مطلق خبر نہ ہو۔

    راہِ سلوک : راہ سلوک میں درویشی دوسری چیز ہے، انبار داری دوسری چیز ہے۔

    راہِ سلوک میں حوصلہ وسیع چاہئے تاکہ اسرار جگہ پکڑیں اور فاش نہ ہونے پائیں کیونکہ رازِ سّرِ دوست ہے۔

    سلاطن راہِ سلوک وہ شخص ہے جو سر سے پاؤں تک دریائے محبت میں غرق ہے اور کوئی ایسی ساعت نہیں کہ اس کے سر پر عالمِ محبت سے بارش نہ ہوتی ہے۔

    سالک : سالک کے لئے دنیا سے بڑھ کر کوئی حجاب نہیں۔

    محبت : جو شخص محبت کا دعویٰ کرے اور تکلیف کے وقت فریاد کرے وہ محبت میں صادق نہیں بلکہ کاذب اور دروغ گو ہے۔

    کامل : جو شخص کامل ہوتا ہے وہ کبھی دوست کا راز فاش نہیں کرتا۔

    کاملِ اکمل ایسے بھی ہوئے ہیں کہ ان سے کسی حالت میں بھی سرّ دوست فاش نہیں ہوا اور وہ دوسرے رازوں سے واقف ہوتے چلے گئے۔

    درویش : درویش وہ ہے جو بروقتِ رہروی ہزاروں ملک پاؤں کے نیچے سے نکالے اور قدم آگے بڑھائے۔

    درویش جب کامل ہوجاتا ہے تو جو کچھ حکم دیتا ہے وہی ہوتا۔

    درویش کو مقامِ قرب اس وقت تک حاصل نہ ہوگا جب تک وہ سب یگانوں سے بے گانہ ہوجائے اور تجرید اختیار نہ کرے اور آلائشِ دنیا سے پاک وصاف نہ ہو۔

    جو درویش دنیا کو دکھانے کی غرض سے اچھا لباس پہنے وہ درویش نہیں بلکہ راہِ سلوک کا رہزن ہے۔

    جو دریش خواہشِ نفسانی سے پیٹ بھر کر کھانا کھائے وہ نفس پرست ہے درویش نہیں۔

    درویش کو مجرد رہنا چاہئے کہ اس سے اس کے مدارج کی ترقی ہوتی ہے۔

    درویش کا فاقہ بہ اختیار خود ہے۔

    حق تعالیٰ نے تمام ممالکت درویش کے اختیار میں کی ہے۔

    درویش کے لئے ضروری ہے کہ ہمیشہ عالمِ تجرد میں رہے۔ ہر روز ایک ملک سے گذرے اور ترقی کرتا رہے۔

    درویشی : درویشی رحت نہیں بلکہ دنیا کی مصیبتوں میں مبتلا رہنا ہے۔

    درویشی میں سب سے مشکل کام یہ ہے کہ رات کو فاقہ سے رہے تاکہ معراج کو پہنچے۔

    درویشی کی نعمت سے کوئی نعمت بالا تر نہیں ہے۔

    مرشد : پیر میں اتنی قوت ہونا ضروری ہے مرید کے قلب کی سیاہی کو اپنی باطنی قوت سے صاف کردے اور اس کو حق تعالیٰ تک پہنچا دے۔

    مرید : مرید کو پیر کے حضور و غیبت میں یکساں رہنا چاہئے اور جب ان کا وصال ہوجائے اس وقت زیادہ ادب کرنا لازم ہے۔

    اگر حضوریٔ مرشد حاصل نہ ہو اور توبہ میں لغزش واقع ہو تو اپنے پیر کے کپڑے آگے رکھے اور ان سے بیعت کرے۔

    سماع : جو لذتِ سماع میں ہے وہ کسی دوسری چیز میں نہیں ہے اور وہ کیفیت ایسی ہے کہ بغیر سماع کے حاصل نہیں ہوسکتی۔

    انبیا اور اؤلیا : انبیا علیہم السلام معصوم ہیں اور اؤلیائے کرام محفوظ ہیں۔

    عالمِ سُکر میں بھی کوئی فعل ان سے خلافِ شریعت سرزد نہیں ہوتا۔

    حسنِ عمل : جو شخص مقامِ حقیقت میں پہنچا، حسنِ عمل سے پہنچا۔

    خوفِ الٰہی : خداوند تعالیٰ کے خوف کا تازیانہ بندہ کی تادیب کے لئے ہے، جب دل میں جگہ پاتا ہے تو دل کو پارہ پارہ کردیتا ہے۔

    آدابِ مجلس : مجلس میں جب آئے جہاں خالی جگہ ہو بیٹھ جائے۔

    کشف و کرامات : در حقیقت مرد وہی ہے کہ کشف و کرامات کے مرتبے میں اپنی ذات کو ظاہر نہ کرے تاکہ سلوک کے کل درجات حاصل ہوجائیں۔

    کشف و کرامت کے اظہار سے بقیہ درجات سے محروم رہنا پڑے گا۔

    جو بات عقل میں نہ آئے اور عقل کی اس میں رسائی نہ ہو وہ کرامت ہے۔

    اکسیر : نیک بزرگوں کے کلمات کی خاصیت رکھتے۔

    اوراد و وظائف : حضرت قطب صاحب کے بتائے ہوئے چند اوراد و وظائف حسبِ ذیل ہیں۔

    حاجت پوری ہونے کے واسطے سورۂ بقرہ پڑھنا چاہئے، حضرت بابا فریدالدین گنج شکر فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت قطب صاحب کو خدا وند تعالیٰ سے کچھ حاجت تھی، آپ نے سورۂ بقرہ پڑھنا شروع کی، ابھی ایک ہی روز ہوا تھا، آپ نماز پورے طور پر پڑھنے نہ پائے تھے کہ آپ کا مقصد پورا ہوگیا۔

    قرآن شریف حفظ کرنے کے واسطے : سورۂ یوسف کا ورد مفید ہے۔

    حج کا ثواب : حج کی نیت سے جو شخص اول ماہِ ذی الحجہ میں دو رکعت نماز اس طرح پڑھے کہ اول رکعت میں سورۂ فاتحہ کی پہلی آیت سورۂ انعام، الحمدللہ الذی خلق السموٰت سے لَیعلَمُ ما تَکسِبونَ تک پڑھے اور دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد قُل یا ایھاالکٰفرون، ایک مرتبہ بڑھے، اللہ تعالیٰ حج کا ثواب اس شخص کے نامۂ اعمال میں لکھے گا۔

    آفت سے محفوظ رہنے کے واسطے : حضرت قطب صاحب نے فرمایا کہ جو شخص آیۃ الکرسی پڑھ کر گھر سے باہر نکلے، اس کے متعلق حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خدا وند تعالیٰ اس کے گھر کو آفت سے محفوظ رکھتا ہے۔

    معاش میں فراخی کے واسطے : آپ نے فرمایا کہ جس شخص کی معاش میں تنگی ہو اسے چاہئے کہ اکثر اوقات یہ دعا پڑھتا رہے۔

    یا دائم لعز و الملک وَ البَقاء یا ذوالجلال والجود اولفصل والعطاء یا ودود ذوالعرش المجید یا افعالُ لِّما یُرید۔

    کشف و کرامات : قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی سے بہت سی کرامتیں ظاہر ہوہیں، بہ نظر اختصار چند کرامتیں پیش کی جاتی ہیں جو حسبِ ذیل ہیں۔

    آپ کو سماع کا بہت شوق تھا جب آپ دہلی تشریف لائے تو آپ اور قاضی حمیدالدین ناگوری سماع سنتے تھے، جب اس کی اطلاع سلطان شہاب الدین کو ہوئی تو وہ بہت برانگیختہ ہوا، اس نے کہا کہ

    ”اگر پھر مجھے معلوم ہوا کہ انہوں نے سماع سنا ہے تو اسی وقت دار پر کھنچوا دوں گا یا مثل عین القضاۃ جلاکر خاک سیاہ کردوں گا“

    حضرت قطب صاحب نے یہ سن کر فرمایا کہ

    ”اچھا اگر وہ سلامت رہے گا تو ہمیں دار پر کھنچوا دے گا، یا جلا کر خاک کردے گا“

    اس مہینے میں سلطان شہاب الدین خراسان کی طرف چلا گیا، چند روز کے اندر ہی اندر اس کا انتقال ہوگیا، حضرت قطب صاحب ملتان میں مقیم تھے، قباچہ بیگ (ناصر الدین قباچہ) ملتان کا حاکم تھا، ایک دن وہ حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ

    ”مغلوں کا لشکر ملتان فتح کرنے آیا ہے، مجھے مقابلہ و مجالہ کی قوت نہیں، خدا کے لئے میری امداد کیجئے“

    حضرت قطب صاحب نے اس کو ایک تیر دیا اور ہدایت کی کہ

    ”مغرب کی نماز کے بعد بُرجِ حصار پر بر آمد ہوکر یہ تیر بذریعہ کمان دشمن کی طرف پھینک دے نا اور خدا کی قدرت کا تماشہ دیکھنا“

    قباچہ بیگ نے ایسا ہی کیا، تیر کا گرنا تھا کہ مغلوں کے لشکر نے راہِ فرار اختیار کی اور واپس چلا گیا۔

    ایک روز قاضی حمیدالدین ناگوری کے یہاں مجلسِ سماع تھی، حضرت قطب صاحب بھی رونقِ افروز تھے، سماع ختم ہونے پر قاضی صاحب نے حضرت قطب صاحب سے عرض کیا کہ حاضرینِ مجلس کو کھانا ملنا چاہئے، حضرت قطب صاحب نے اپنی آستین جھاڑی، پس حاضرینِ مجلس کے سامنے دو دو کاک مع گرم حلوے کے موجود تھے، ایک دن قاضی حمیدالدین ناگوری کے یہاں مجلسِ سماع ہورہی تھی، قاضی صاحب وجد میں تھے، قاضی صادق اور قاضی عماد کا دہلی کے بڑے علما میں شمار تھا، یہ دونوں حضرات مجلس میں پہنچے، اس وقت حضرت قطب صاحب کی عمر اٹھارہ سال کی تھی، ریشِ مبارک بر آمد نہیں ہوئی تھی، ان دونوں حضرات نے حضرت قطب سے مخاطب ہوکر کہا کہ

    ”اہلِ تصوف کے مذہب میں امرد کا محفلِ سماع میں ہونا خلافِ قاعدہ ہے“

    یہ سن کر حضرت قطب صاحب نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر دونوں ہاتھ منہ پر پھیرے، ہاتھوں کا پھیرنا تھا کہ اسی وقت ڈاڑھی برآمد ہوئی۔

    آپ نے ان دونوں حضرات سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ

    ”میں امرد نہیں ہوں بلکہ مرد ہوں“

    وہ دونوں عالم یہ کرامت دیکھ کر سخت حیران اور شرمندہ ہوئے، ایک دن سلطان شمس الدین التمش حضورِ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے خواب میں مشرف ہوا، اس نے خواب میں دیکھا کہ سرورِ دین و دنیا گھوڑے پر سوار ہیں اور ایک مقام پر جلوہ افروز ہیں، ارشاد فرماتے ہیں کہ

    ”ارے شمس الدین ! اس مقام پر حوض تیار کرانا کہ مخلوقِ خدا کو فائدہ پہنچے“

    سلطان التمش نے خواب سے بیدار ہوکر حضرت قطب صاحب کو اطلاع کرائی اس نے ایک خواب دیکھا ہے اور خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت چاہی، حضرت قطب صاحب نے جواب میں سلطان التمش سے کہلا بھیجا کہ

    ”ماجرائے خواب مجھے معلوم ہے، میں اس مقام پر جاتا ہوں، جہاں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حوض تیار کرانے کا حکم فرمایا ہے، تم جلد میرے پتہ پر چلے جاؤ“

    سلطان التمش ایک جگہ پہنچا، دیکھا کہ حضرت قطب صاحب نماز ادا کررہے ہیں، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو سلطان التمش آداب بجا لایا، اس نے جس جگہ سرور عالم کو خواب میں دیکھا تھا اسی جگہ گھوڑے کے سم کے نشان پائے پانی جاری تھا، اسی جگہ حوضِ شمسی کی تعمیر کرائٰ، سلطان شمس الدین التمش کی داد و دہش کا بڑا شہرہ تھا، مشہور شاعر ناصریؔ شاہی دربار میں باریابی کی غرض سے دہلی، حضرت قطب صاحب کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوکر دعا کا طالب ہوا، آپ نے زبانِ فیضِ ترجمان سے فرمایا کہ

    ”جاؤ بہت انعام پاؤ گے“

    ناصری نے چھپن اشعار کا ایک قصیدہ سلطان کی تعریف میں لکھا اور دربار میں پیش کیا، سلطان نے کچھ التفات نہ برتا، ناصری سخت پریشان ہوا، اس نے اپنے دل میں حضرت قطب صاحب سے مدد چاہی، مدد کا چاہنا تھا کہ سلطان نے ناصری کی طرف متوجہ ہوکر کہا کہ

    ”ہاں قصیدہ پڑھو“

    اس نے قصیدہ پڑھا، قصیدہ کا مطلع یہ ہے کہ

    اے فتنہ از نہیب تو زنہار خواستہ

    تیغ تو مال وفیل زکفار خواستہ

    سلطان شمس الدین التمش قصیدہ سن کر بہت خوش ہوا، ناصری کو چھپن ہزار روپئے بطورِ انعام دیئے، روپیہ لے کر ناصری خوش خوش حضرت قطب صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا، سب روپئے آپ کے سامنے رکھ دئے، آپ نے اس میں سے کچھ قبول نہیں فرمایا، وہ واپس وطن چلا گیا، آپ کی وفات کے بد بھی آپ کے فیض کا چشمہ جاری ہے، سلطان المشائخ اکثر آپ کے مزر پُرانوار پر حاضر ہوا کرتے تھے کہ ایک دن مزار شریف کو جاتے ہوئے آپ کو یہ خیال آیا کہ آنے جانے والوں کی آپ کو خبر بھی ہوتی ہے یا نہیں، جب آپ مزارِ اقدس کے قریپ پہنچے تو مزارِ شریف سے یہ آواز آئی کہ

    مرا زندہ پندار چوں خویشتن

    من ایم بجاں گر تو آئی بہ تن

    ایک فاسق و فاجر آدمی حضرت قطب صاحب کے پائیں دفن کیا گیا لوگوں نے اسے خواب میں دیکھا کہ جنت کی سیر کر رہا ہے، اس سے دریافت کیا کہ کس عمل کے بدلے اسے جنت ملی، اس شخص نے جواب دیا کہ

    ”جب عذاب کے فرشتے میری قبر میں آئے تو آپ کی (حضرت قطب صاحب کی) روحِ مبارک کو تکلیف ہوئی پس خدا وند تعالیٰ نے مجھ سے عذاب کو دور کردیا اور مجھ کو بخش دیا“ آپ کا فیضِ باطنی جاری ہے، آپ کے تصرفاتِ باطنی سے لوگ اب بھی مستفیض ہو رہے ہیں۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے