حضرت شاہ ابوسعید مجددی دہلوی
دلچسپ معلومات
دلی کے بائیس خواجہ۔ باب 23
حضرت شاہ ابو اسعید جگر گوشۂ اؤلیا، مخزنِ اسرارِ الٰہی اور معدنِ انوارِ لامتناہی ہیں۔
خاندانی حالات : آپ کا نسب نامہ پدری حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی تک اس طرح پہنچتا ہے۔
ابو سعید بن شیخ صفی القدر بن شیخ عزیزالقدر بن شیخ محمد عیسیٰ بن شیخ سیف الدین بن شیخ محمد معصوم بن شیخ احمد سرہندی القلب بہ مجدد الف ثانی
والد بزرگوار : آپ کے والدماجد کا نام شیخ صفی القدر ہے۔
ولادت : آپ 2 ذی قعدہ سنہ 1196ھ کو مصطفیٰ آباد عرف رام پور میں پیدا ہوئے۔
نام : آپ کا نام ابوسعید ہے۔
تعلیم و تربیت : دس سال کی عمر میں آپ نے قرآن مجید حفظ کیا، قاری نسیم سے قرأت حاصل کی، علومِ عقلیہ و نقلیہ میں کمال حاصل کیا، حضرت شاہ عبدالعزیز سے حدیث کی سند حاصل کی۔
بیعت و خلافت : تعلیم سے فارغ ہوکر خدا طلبی کا راستہ اختیار کیا، اول اپنے والدماجد کی صحبت میں رہ کر استفادہ حاصل کیا پھر والد بزرگوار کی اجازت سے حضرت شاہ درگاہی کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان کی بیعت سے مشرف ہوئے، چند ہی روز میں حضرت شاہ درگاہی نے آپ کو اجازت و خلافت عطا کرکے رخصت فرمایا پھر آپ رام پور سے دہلی تشریف لائے، ایک خط حضرت قاضی ثناؤاللہ پانی پتی کی خدمت میں ارسال فرمایا، حضرت قاضی صاحب نے آپ کے خط کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا کہ حضرت شاہ غلام علی سے بہتر کوئی اور درویش نظر نہیں آتا۔
اس خط کے ملنے کے بعد آپ حضرت شاہ غلام علی کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوئے، بیعت کا اشتیاق ظاہر کیا، آپ کی درخواست قبول ہوئی، حضرت شاہ غلام علی نے اپنے حلقۂ ارادت میں آپ کو داخل کرکے سرفراز کیا، آپ کے پہلے یہ حضرت شاہ درگاہی اس وقت زندہ تھے، آپ ان کا ویسا ہی ادب و احترام کرتے تھے جیسا کہ پہلے کرتے تھے۔
شجرۂ بیعت : آپ کا شجرۂ طریقت حضرت شیخ احمد سرہندی تک اس طرح پہنچتا ہے، ابوسعید وہ مرید حضرت شاہ غلام علی وہ مرید حضرت مرزا مظہر جانِ جاناں وہ مرید حضرت نور محمد بدایوں وہ مرید حضرت سیف الدین وہ مرید حضرت محمد معصوم وہ مرید حضرت شیخ احمد سرہندی۔
منصبِ قومیت : آپ فرماتے ہیں کہ
”الحمدللہ ! ایک مدت دراز کے بعد سن ایک ہزار دو سو تینتیس آپ ہی میں ہے، یہاں رہو اور طریقہ شریفہ کو رواج دو اور روزگار و معاش کی تدبیر بحوالۂ خدا کرو، حسبنا اللہ ونعم الوکلیل۔ (خدائے تعالیٰ کا وعدہ کافی ہے)، بفرمانِ پیرومرشد آپ دہلی آکر پیرومرشد کی جگہ بیٹھے اور رشدوہدایت میں مشغول ہوئے۔
پندونصائح : آپ کے پیرومرشد نے آپ کو حسبِ ذیل نصیحتیں فرمائیں کہ
اپنی باطنی نسبت کو ہمیشہ محفوظ رکھنا۔
جملہ اوقات و حالات میں یاد داشت کو نہ چھوڑنا۔
تمام اعمال میں حضرت حبیب رب العالمین کے سنن کی مطابعت کرنا۔
اپنے تمام اوقات کو نوافل و عبادات کے ساتھ گزارنا اور کمالِ تعدیلِ ارکان کے ساتھ ادائے نماز کرنا اور دوسرے اوراد و اذکار تلاوتِ کلام مجید و درود و استغار و تفویض، امور بحضرتِ کردگار سبحانہ سے معمور رکھنا، طریقہ کے سلوک سے مقصود اخلاق کی آراستگی اور جنابِ الٰہی میں ہمیشہ متوجہ رہنا تاکہ شکستگی و نیازمندی اور اخلاص ہر وقت موجود رہے، اس کا ظاہر حبیبِ خدا صل اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کا پابند اور باطن ماسوائے حق سے رو گرداں اور جنابِ کبریائی سبحانہ کی طرف متوجہ رہے۔
غیب سے جو کچھ آمد ہو اپنی اور اپنے متعلقین کی ضرورتوں پر صرف کریں اور باقی ماندہ فقرا پر تقسیم فرما دیں۔
وفات شریف : آپ سنہ 1249ھ میں حرمین شریف کی زیارت کے لئے روانہ ہوئے زیارتِ حرمین شریف سے مشرف ہوکر آپ دہلی روانہ ہوئے 22 رمضان کو ٹونک میں رونق افروز ہوئے بیماری کی وجہ سے وہیں قیام فرمایا، عیدالفطر کے روز ظہر و عصر کے درمیان 1250ھ میں وصال فرمایا، ٹونک میں تجہیز و تکفین کی گئی، چالیس روز کے بعد آپ کا تابوت دہلی لایا گیا اور نعشِ مبارک کو نکال کر دفن کیا گیا۔
خلیفہ : آپ کے فرزندِ اکبر حضرت شاہ احمد سعید آپ کے خلفیۂ اکبر اور سجادہ نشیں ہیں۔
سیرتِ مبارک : آپ سختی و تلخی سے دل براداشتہ نہ ہوتے تھے، فقر و فاقہ پر فخر کرتے تھے، اپنے پیرومرشد کے احکام کی پابندی سختی سے کرتے تھے، ایک بلند پایہ عالم تھے اور صاحبِ کرامت درویش تھے۔
علمی ذوق : آپ کی کتاب ہدایت الطالبین آپ کی علمی یادگار ہے۔
تعلیمات : طالب آپ کی تعلیمات سے کافی فائدہ اٹھا ستکا ہے، اسم الظاہر واسم الباطن کے درمیان فرق۔
آپ فرماتے ہیں کہ ”اسم الظاہر اور اسم الباطن کے درمیان یہ فرق ہے کہ اسم الظاہر کی سیر میں ذات کا لحاظ کرنے کے بغیر ہی صفاقی تجلیات وارد ہوتی ہیں اور اسم الباطن کی سیر میں گو اسمائے صفات کی تھی تجلیات میسر آتی ہیں مگر کبھی ذاتِ تعالت و تقدست بھی مشاہدہ میں آہی جاتی ہے“
کمالاتِ نبوت کا فیض : آپ فرماتے ہیں کہ ”پیرِ دستگیر نے اسی سال کے ذیقعدہ مہینے میں پانے غلام کے عنصرِ خاک پر توجہ فرمائی اور کمالاتِ نبوت کا فیض (یعنی تجلیِ ذاتی دائمی) میرے اس لطیفہ پر وارد فرمایا، اس مقام کے علوم و معارف بس یہی ہیں کہ تمام علوم و معارف مفقود ہوجائیں اور باطن کے تمام حالات ہی بے شناخت ہوجائیں اور اس مقام میں بے رنگی اور بے کیفی حاصل الوقت ہوجاتی ہے اور ایمانیت اور عقائد میں بھی ہر طرح کی قوت پیدا ہوجاتی ہے اور استدلالی علم بدیہی ہوجاتا ہے اور اس مقام کے معارف انبیائےکرام کی شریعتیں ہیں، اس مقام میں باطن کی وسعت اور فراخی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ تمام ولایت (عام اس سے کہ ولایتِ صغریٰ ہو یا ولایتِ کبریٰ یا ولایتِ علیا) کی وسعت و فراخی اس نسبت کے پہلو میں محض ناچیز اور تنگی ہی تنگی ہے اور کچھ بھی نہیں“
دائرۂ حقیقتِ صلوٰۃ : آپ فرماتے ہیں کہ ”اس دائرہ میں بیچوں حضرت کی کمال وسعت مشاہدہ میں آئی، اس مقام کی وسعت اور بلندی کا کیا حال بیان کرے مگر اس قدر تو ضرور جان لو کہ حقیقتِ قرآن مجید اس کا ایک جزو ہے اور دوسرا جزو حقیقتِ کعبہ ہے، اس مقام کے واردات و کیفیات کی کیا وصف بیان کرے، اس مقام میں حضرت بیچوں کی کمالِ وسعت کا مراقبہ کرتے ہیں جس سالک نے اس مقدس حقیقت سے کچھ بھی خط حاصل کیا ہے وہ گیوا ادائے نماز کے وقت عالمِ دنیا سے نکل کر عالمِ آخرت میں داخل ہو جاتا ہے اور رویتِ اخروی کے مشابہ حالت حاصل کرلیتا ہے، تکبیرِ تحریمہ کے وقت دونوں جہاں سے ہاتھ اٹھا اور دونوں جہاں پسِ پشت ڈال کر اللہ اکبر کا نعرہ لگاتا ہوا حضرت سلطان ذی شان جل شانہ کے دربار میں حاضر ہوتا ہے اور بارگاہِ جل جلالہ کی عظمت و کبریائی کی ہیبت کے آگے اپنے آپ کو ذلیل و ناچیز خیال کرکے محبوبِ حقیقی پر قربان ہوئے جاتا ہے اور قرأت کے موہبِ وجود سے جو اس مرتبہ کے لائق ہے، موجود ہوکر حضرت حق سبحانہٗ کے ساتھ متکلم اور اس جناب سے جناب سے مخاطب ہوتا ہے اس کی زبان گویا موسوی شجرہ بن جاتی ہے۔
جب رکوع کرتا ہے اور غائت درجے کا خشوع بھی تا بالضرور زیادہ قرب کے ساتھ ممتاز ہوتا ہے۔
اور تسبیح کرنے کے وقت ایک خاص کیفیت سے مشرف ہوجاتا ہے پھر اب تو خواہ مخواہ حمد و ثنا کرتا ہوا قومہ کرتا ہے اور دوبارہ حضرتِ حق کے حضور میں برابر سیدھا کھڑا ہو جاتا ہے اور قومہ کرنے میں میرے فہمِ ناقص میں یہ راز ہے کہ چونکہ اب ادائے سجود کا ارادہ کرتا ہے تو قیام سے سجدہ کی طرف جانے میں رکوع سے سجود کی جانب جانے کی نسبت تذلل اور انکسار زیاہ ہے اور ادائے سجود کے وقت ایک خاص قرب حاصل ہوتا ہے اس کا کیا بیان کیا جائے، اس کے ادراک میں تو عقل بھی عاجز و قاصر ہے معلوم ہوتا ہے کہ ساری نماز کا خلاصہ سجود ہی سجود ہے اور چونکہ قربِ سجود سے خیال ہوا تھا کہ عنقا (مطلوبِ حقیقی) دام میں آپھنسا، لہٰذا اللہ اکبر کہتا ہو اجلسہ میں بیٹھ گیا یعنی اللہ تعالیٰ اس سے برتر ہے کہ میں اس کی کما حقہٗ عبادت کر سکوں اور کما ینبغی اس کا قرب حاصل کرلوں اور اسی سابق جرم کی جلسہ میں معافی ماگتا ہے، الّلٰھم اغفرلی وارحمنی۔
پھر اور زیادہ قرب طلب کرنے کے واسطے دو بارہ سجدہ کرتا ہے، ازاں بعد تشہد میں بیٹھ کر اس نعمت قرب کے احسان و انعام پر باری تعالیٰ کی جناب میں شکر و تحیات بجا لاتا ہے اور کلمۂ شہادت کی وجہ یہ ہے کہ یہ سارا قرب وغیرہ کا معاملہ توحید و رسالت کا تصدیق و اقرار کے بغیر ناممکن ہے پھر درود شریف اس واسطے پڑھتا ہے کہ یہ تمام نعمتیں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے طفیل حاصل ہوئی ہیں اور ابراہیمی درود شریف اس وجہ سے اختیار کیا گیا ہے کہ ادائے نماز کے وقت محبوبِ حقیقی کے ساتھ خلوت میسر آتی ہے اور خاص ہم نشینی اور باخصوصیت مصاحبت (منصبِ خلوت) تو صرف حضرت خلیل علیٰ نبینا و علیہ الصلٰوۃ والسلام ہی کا حصہ ہے، گویا درود شریف کی برکت کی باعثاسی ندیمی و ہم نشینی کو طلب کرتا ہے“
اقوال :
رخصت پر عمل کرنا آدمی کو بشریت کی طرف کھینچ لے جاتا ہے۔
عزیمت پر عمل کرنا ملکیت کے ساتھ مناسبت پیدا کرتا ہے۔
جب حضرتِ حق سبحانہٗ تعالیٰ کی عنایت بے غایت کسی بندے کے شاملِ حال ہو جاتی ہے تو اس کو اپنے دوستوں میں سے کسی ایک دوست کی خدمت میں پہنچا دیتے ہیں۔
جو شخص اپنے حالات ادراکِ وجدانی کے ساتھ بھی دریافت نہیں کرسکتا اس کو مقامات کی بشارت دنیا اور خوش خبری سنانا گویا طریقۂ فقرا کو بدنام کرنا اور اس کی نسبت بدگمانی پھیلانا ہے۔
کرامات : آپ کے وصال کے چالیس روز کے بعد تابوت ٹونک سے دہلی لایا گیا، جب تابوت کھولا گیا تو معلوم ہوتا تھا کہ ابھی غسل دیا گیا ہے، کسی قسم کی کوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی تھی، روئی جو نیچے رکھی ہوئی تھی اس میں سے نہایت اچھی خوشبو آرہی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.