حضرت شیخ کلیم اللہ شاہجہان آبادی
دلچسپ معلومات
دلی کے بائیس خواجہ۔ باب 16
حضرت شاہ کلیم اللہ شاہجان آبادی مقبول بارگاہِ ایزدی ہیں، آپ زہدۂ اربابِ ریاضات و مجاہداتِ لامتناہی اور عارفِ اسرارِ معارفِ الٰہی ہیں۔
خاندانی حالات : آپ کے آباؤ اجداد خجند (ترکستان) کے رہنے والے تھے۔
والد ماجد : آپ کے والد کا نام شیخ نوراللہ ہے، آپ کو حاجی بھی بتایا ہے، بعض تذکرہ نویسوں نے آپ کو شیخ حاجی نوراللہ لکھا ہے، آپ شاہجہاں کے زمانے میں ایک کامیاب اور قابل انجینئر تھے۔
نسب نامہ پدری : آپ کا سلسلہ پہلے خلیفہ امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تک اس طرح پہنتا ہے کہ شیخ نوراللہ بن شیخ احمد بن حامد صدیقی۔
ولادت شریف : آپ شاہجہاں آباد، دہلی میں 24 جمادی الثانی 1060ھ کو ا س عالم میں تشریف لائے، اپنے آپ نے اپنی تاریخِ پیدائش رقعاتِ کلیمی میں تحریر فرمائی ہے، لفظ ”غنی“ سے آپ کی تاریخِ پیدائش نکلتی ہے۔
نامِ نامی : آپ کا اسم گرامی شیخ کلیم اللہ ہے۔
تعلیم و تربیت : حدیث، فقہ اور دیگر علومِ ظاہری آپ نے شیخ ابوالرضا سے پڑھے، ان علوم کی تکمیل کے بعد شیخ ابوالفتح قادری سے علومِ باطنی حاصل کرنے میں کوشاں ہوئے اور کچھ عرصہ بعد علومِ باطنی میں بھی درجۂ کمال کو پہنچے، آپ کو حضرت شیخ برہان الدین المعروف بہ شیخ بہلول بن کبیر محمد بن علی الصدیق برہان پوری سے نسبتِ تلمیذ اور اجازت اعمال حاصل ہے۔
تلاشِ حق : آپ ایک بزرگ سے ملے، اس وقت بھی آپ مشغولی سے خالی نہ تھے، ان بزرگ نے آپ کو صورتِ سرمدی کی تلقین کی، صورتِ سرمدی کو صورتِ لا یزالی بھی کہتے ہیں اور جوگ میں اس کو انہد کہتے ہیں، اس شغل سے آپ نے وہ آواز سنی جس کے متعلق ان بزرگ نے فرمایا تھا اور آپ کو وہ چیز حاصل ہوئی جو اب تک آپ کو حاصل نہیں ہوئی تھی، آپ نے ان بزرگ سے کہا کہ مقصود جس کی وہ تلاش میں ہیں کب حاصل ہوگا، جب اس شغل سے مقصد برابری نہیں ہوئی آپ نے وہ شغل ترک کردیا۔
مجذوب سے ملاقات : ایامِ جوانی میں آپ ایک کھتری لڑکے پر شیفتہ و فریفتہ ہوئے، اس لڑکے نے آپ کی طرف کچھ التفات نہیں برتا، شہر میں ایک مجذوب رہتے تھے، ان مجذوب کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ جس کسی کو کوئی چیز منظور کرلیتے ہیں اس کا کام ہو جاتا ہے اور جس کی چیز منظور نہیں کرتے اس کا کام نہیں ہوتا، آپ کچھ ریوڑیاں لے کر ان مجذوب کے پاس گئے، ان مجذوب نے آپ کی ریوڑیاں قبول کیں، دوسرے روز جب آپ اس لڑکے کے پاس گئے اس لڑکے نے خود آپ کو اپنے قریب بٹھایا اور بہت التفاف برتا، اس التفات کا آپ پر دوسرا اثر ہوا، آپ کا دل اس لڑکے سے برگشتہ ہوگیا، آپ ان مجذوب کے پاس آنے جانے لگے، ایک دن ان مجذوب نے آپ کو اپنے قریب بلایا اور اپنا سر آپ کی زانو پر رکھ کر سوگئے، جب وہ مجذوب سوکر اٹھے آپ کے اندر جذب کی صورت پیدا ہوئی، آپ نے اپنے میں ایک نمایاں تبدیلی محسوس کی، جب پھر ان مجذوب کے پاس گئے، ان مجذوب نے آپ کا خطرہ محسوس کیا، اپنے قریب بٹھایا اور فرمایا کہ
”اگر تم اس قسم کی آگ چاہتے ہو تو یہ میرے پاس بہت ہے لیکن پانی حضرت شیخ یحییٰ مدنی کے پاس ہے، ان کے پاس جاؤ“
زیارت کا شوق : آپ کو مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ حاضر ہونے کا شوق ہوا، چنانچہ آپ 1101ھ میں مکہ معظمہ پہنچے اور وہاں سے مدینہ منورہ روانہ ہوئے۔
بعیت و خلافت : آپ قافلہ کے ہمراہ تھے، ایک نخلستان میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت شیخ یحییٰ مدنی نے ایک شخص کو حکم دیا کہ شہر کے باہر قافلے کے ساتھ ایک شخص کلیم اللہ نام کا ہے اس کو بلا لاؤ، وہ شخص وہاں گیا اور آواز دی لیکن کوئی نہیں بولا، آپ نے آواز سنی لیکن خیال کیا کہ وہ کسی اور شخص کو پکارتا ہے اس لئے آپ خاموش رہے، اس شخص نے واپس آکر حضرت شیخ یحییٰ مدنی سے عرض کیا کہ وہاں اس نام کا کوئی شخص نہیں معلوم ہوتا، آواز دی لیکن کوئی نہیں بولا، حضرت شیخ یحییٰ نے اس شخص سے فرمایا کہ پھر جاکر کلیم اللہ جہاں آبادی کے نام سے آواز دو، اس شخص نے ایسا ہی کیا جب آپ نے اس کی آواز سنی، آپ کو یقین ہوا کہ وہ آپ ہی کو پکارتا ہے، آپ نے اس کو جواب دیا اور اس کے ساتھ چل کر حضرت شیخ یحییٰ مدنی کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوئے، آپ نے حسبِ ذیل رباعی پڑھی۔
اے کہ تو از نام تومی بارد عشق
و ز نامہ و پیام تو می بارد عشق
عاشق شود آنکس کہ بکویت گذرد
گو ز درو بام تومی بارد عشق
حضرت شیخ یحییٰ مدنی یہ رباعی سن کر بہت خوش ہوئے، آپ نے بیعت ہونے کے لئے عرض کیا، حضرت یحییٰ مدنی نے آپ کی درخواست منظور فرمائی، آپ کو بیعت سے مشرف فرمایا اور خرقۂ خلافت آپ کو مرحمت فرمایا، کچھ عرصے تک آپ اپنے پیرومرشد کی خدمت میں حاضر رہے اور روحانیت کے اعلیٰ مقام طے کرتے رہے۔
واپسی : اپنے پیرومرشد کے حکم کے مطابق آپ ہندوستان واپس تشریف لائے آپ نے دہلی آکر جامع مسجد اور لال قلعہ کے درمیان رہنا پسند فرمایا، دہلی میں آپ نے درس و تدریس اور رشدوہدایت میں ساری عمر صرف کی، ہزاروں لوگ آپ سے مستفید ہوئے۔
ذریعۂ معاش : آپ کا ایک مکان تھا، اس کا ڈھائی روپے ماہوار کرایہ آتا تھا، آپ خود ایک کرائے کے مکان میں رہتے تھے، آٹھ آنے یعنی پچاس پیسے اس مکان کا کرایہ دیتے تھے اور باقی روپئے میں اپنا اور اپنے وابستگان کا خرچہ چلاتے تھے۔
وفات شریف : آپ نے بعمر 81 سال 9 ماہ 24 ربیع الاول 1142ھ کو رحلت فرمائی، آپ کا مزارِ پُرانوار دہلی میں جامع مسجد اور لال قلعہ کے درمیان واقع ہے، آپ کا عرس مبارک ہر سال بڑی شان و شوکت سے زیرِ اہتمام نقیب الاؤلیا صاحبزادہ محمد مستحسن فاروقی متولی و سجادہ نشیں منعقد ہوتا ہے اور تین دن تک عرس کی محفلیں بڑے تزک و احتشام سے جاری رہتی ہیں۔
اولاد : آپ کے صاحبزادے حضرت محمد غوث صاحبِ دل تھے، آپ حضرت مولانا فخرالدین جہاں کے مرید اور خلیفہ تھے۔
آپ کے خلفا : آپ کے خاص خاص خلفا حسبِ ذیل ہیں۔
حضرت مولانا نظام الدین اورنگ آبادی، حضرت محمد ہاشم، مولانا شاہ ضیاؤالدین صاحب، مولانا شاہ جمال صاحب، خواجہ یوسف۔
سیرتِ پاک : آپ فانی فی اللہ ہیں، صاحبِ تجرید اور توحید ہیں، آپ کا شمار اکابرِاؤلیا میں ہے، آپ بہت بڑے عالم تھے، آپ قطبِ زمانہ تھے، آپ مجاہدات اور ریاضات میں بے مثل تھے، آپ سنتِ رسول کے سخت پابند تھے، نفل بہت بڑھتے تھے، رات کو جاگے تھے اور عبادت میں مشغول رہتے تھے، آپ جب تقریر فرماتے فصاحت اور بلاغت کے وہ جوہر دکھلاتے کہ سننے والے بے حد متاثر ہوتے، آپ کی طبیعت میں صفائی، نفاست اور پاکیزگی بدرجۂ اتم موجود تھی، روزانہ صبح کو غسل کر تے تھے، آپ کا لباس نہایت صاف و شفاف ہوتا تھا، آپ کو سماع کا بے حد شوق تھا، فرّخ سیر بادشاہ کو آپ سے کافی عقیدت تھی، اُس نے بارہا کوشش کی کہ آپ کچھ قبول فرمائیں لیکن آپ نے جایگر، مکان یا نذرانہ قبول نہیں فرمایا۔
علمی ذوق : آپ کے خطوط تصوف اور معرفت کا خزانہ ہیں، یہ خط ”مکتوباتِ کلیمی“ کے نام سے شائع ہوگئے ہیں، آپ کی مشہور تصانیف حبِ ذیل ہیں۔
سواءالسبیل، تسین، عشرۂ کاملہ، قرآن القرآن، مرقع کشکول۔
تعلیمات : آپ نے اپنے خطابت، مکتوبات اور تصانیف سے لوگوں تک پیغامِ حق پہنچایا۔
رجوعِ حق : آپ نے اپنے خلیفہ حضرت شیخ نظام الدین کو تحریر فرمایا کہ اژدہامِ خلق موجبِ شکرِ الٰہی ہے، جتنا اژدہامِ خلق زیادہ ہو، اتناہی خداوند تعالیٰ کا شکر زیادہ کرنا چاہئے۔ رجوعِ خلائق محض خداوند تعالیٰ کا فضل و کرم ہے۔ اس سے تنگ نہ ہونا چاہئے، کیوں کہ یہ دولت ہر ایک کو حاصل نہیں ہے۔
فتوحات : آپ نے فرمایا کہ ”جو کچھ فتوحات آئیں ان کو فقرا میں خرچ کر دینا چاہئے اور جس دن نہ آئیں اس دن کو غنیمت جاننا چاہئے کیونکہ فقروفاقہ میں عظیم تاثیر ہے“
وصل : آپ فرماتے ہیں کہ ” وصل عبارت ہے جملہ اشیا سے ترکِ تعلق کرنا اور اور کسی چیز کی طرف التفات نہ کرنا بے رنگی محض میں گم اور ہلاک ہوجانے سے مراد ہے، مقدمہ ابتدا اس حال کی بے خودی جملہ حواس سے ہے، یہ حالت مثلِ موت کے ہوتی ہے، فرق صرف اس قدر ہے کہ موت میں حضور نہیں ہوتا اور اس میں حضور ہے“
ذکروفکر : آپ نے فرمایا کہ ”ذکروفکر حاصل کرنے میں اپنی ساری ہمت اور تمام اوقات صرف کردیے اور ایک ساعت اور ایک لمحہ ایسی چیز کی طرف مشغول و مصروف نہ ہو جو تیرے لئے ذکروفکر کے حاصل کرنے میں خلل انداز ہو“
اقوالِ زریں : آپ کے بعض اقوال ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔
معرفت کی دو قسمیں ہیں، ایک عملی اور دوسری حالی۔
توحید کے چار مرتبے ہیں، ایک توحیدِ ایمان، دوسری توحیدِ علمی، تیسری توحیدِ حالی، چوتھی توحیدِ الٰہی۔
محبت ہی ایک ایسی چیز ہے جس پر دنیا میں ایمان و عمل کی صحت و سقم کا دارومدار اور آخرت میں مجازات کا حصہ ہے۔
اس چیز کا گم کرنا فقر ہے جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے ڈھونڈی جاتی ہے۔
اپنے تمام امور کو نسیان کے ہاتھ میں سونپ دینا توکل ہے۔
روزہ تمام عبادتوں سے افضل اور اشرف عبادت ہے بلحاظ اخفا و کتمان۔
اورادووظائف : ذیل میں آپ کے بتائے ہوئے چند اورادووظائف پیش کئے جاتے ہیں۔
حاجت پوری ہونے کے واسطے : حضرت شیخ کلیم اللہ شاہجہاں آبادی فرماتے ہیں کہ نفلوں کے بعد تنہا گوشے میں بیٹھنا چاہئے اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر سو بار یاربِّ یاربِّ کہے، جو خدا سے مانگے گا پاوے گا اگر ہزار بار کہے تو کامیابی میں کوئی شک نہیں۔
آپ فرماتے ہیں کہ حاجت روائی کے واسطے تکبیر یعنی اللہ اکبر کہنا بہت مفید ہے لیکن سو بار سے کم نہ کہنا چاہئے۔
دشمن کو مغلوب کرنے کے واسطے : آپ فرماتے ہیں کہ جب دشمن کے سامنے جائے یہ دعا پڑھے یا سُبُّوح یا قُدّوس یا غَفورُ۔
کامیابی کے واسطے : آپ فرماتے ہیں کہ جو کوئی یہ دعا پڑھے گا مقصد میں کامیاب ہوگا، یا حی یا علیم یا عزیزُ کریمُ سُبحانکَ یا کریمُ تو کارکنی صعب راس سلیم بحَقِّ اِیّاکَ نعبُدو و اِیَّاکَ نستعینُ۔
روزی کشادہ ہونے کے واسطے : آپ فرماتے ہیں کہ روزی کشادہ ہونے واسطے ہر روز سوبار یہ پڑھے۔
لا حول ولا قُوَّۃَ اِلّا باللہِ العلِیِّ العَظیمِ۔
کشف و کرامات : آپ سے بہت سی کرامتیں ظاہری ہوئیں، آپ کی چند کرامتیں حسبِ ذیل ہیں۔
1۔ جب آپ مدینہ منورہ حاضر ہوئے ایک جگہ جو شہر سے کچھ دور تھی قیام فرمایا، یکا یک آپ رباط عامر سے باہر تشریف لائے اور لوگوں سے بھی جو وہاں موجود تھے باہر آنے کو فرمایا، آپ کے باہر تشریف لاتے ہی رباط کی چھت گر گئی، سب کی جان بچ گئی۔
2۔ آپ کے ایک مرید کے امردو کے باغ میں دو پیڑ خشک ہوگئے، اس نے آپ سے عرض کیا، آپ نے اپنے وضو کا پانی اس کو دیا اور فرمایا کہ وہ پانی سوکھے ہوئے درختوں کی جڑوں میں ڈالنا، اس نے ایسا ہی کیا سوکھے ہوئے پیڑ سر سبزوشاداب ہوگئے۔
3۔ ایک سال دہلی میں بارش نہیں ہوئی، چند علما آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر طالبِ دعا ہوئے، آپ نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی کہ ”اے رب ! اپنے بندوں پر رحم فرمایا“ یہ دعا ختم ہوتے ہی خوب بارش شروع ہوئی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.