فخرجہاں خواجہ محمد فخرالدین چشتی
دلچسپ معلومات
دلی کے بائیس خواجہ۔ باب 17
محب النبی حضرت مولانا فخرالدین فخرِ جہاں فخر الاولین والآخرین ہیں، آپ قطبِ زمانہ، فردِ یگانہ، شہسوارِ عرصۂ ولایت، صدرِنشینِ محفلِ کرامت ہیں۔
خاندانی حالات : بواسطہ شیخ شہاب الدین سہروردی آپ کی نسبتِ نسبی امیرالمؤمنین حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ تک پہنچتی ہے، حضرت مولانا فخرِجہاں نے سلسلۂ حدیث میں اپنے کو صدیقی لکھا ہے۔
والدِ بزرگوار : آپ کے والدِبزرگوار کا نامِ نامی اسمِ گرامی حضرت نظام الدین ہے، آپ کے خاندان کے بزرگ باہر سے تشریف لاکر قصبہ نگراؤ (کاکوری) اودھ میں سکونت پذیر ہوئے تھے، آپ کے والد حضرت نظام الدین دہلی آکر حضرت شیخ کلیم اللہ شاہجاں آبادی سے بیعت ہوئے اور خرقۂ خلافت سے مشرف ہوئے، اپنے پیرومرشد کے فرمان کے مطابق آپ دکن تشریف لے گئے اورنگ آباد میں سکونت اختیار کرکے وہیں رشدوہدایت فرمانے لگے۔
والدۂ ماجدہ : آپ کی والدۂ مکرمہ حضرت سید محمد گیسودراز کے خاندان سے تھیں۔
بھائی : آپ کے چار بھائی تھے، حضرت محمد اسماعیل آپ کے بڑے بھائی تھے اور تین سوتیلے بھائی تھے، غلام معین الدین، غلام بہاؤالدلین، غلام کلیم اللہ یہ تینوں بھائی آپ سے بیعت تھے۔
بہن : آپ کی بہن بھی آپ سے بیعت تھیں۔
ولادتِ باسعادت : آپ 1126ھ میں اورنگ آباد میں جلوہ گر ہوئے۔
نامِ نامی : آپ کے والدماجد نے آپ کی ولادتِ باسعادت کی خبر اپنے پیرومرشد حضرت شیخ کلیم اللہ شاہجہاں آبادی کو کی، حضرت شیخ کلیم اللہ شاہجہاں آبادی بہت خوش ہوئے اور آپ نے اپنا ملبوسِ خاص آپ کے واسطے بھیجا، آپ نے آپ کا نام مولانا محمد فخرالدین رکھا اور فرمایا کہ ”یہ میرا فرزند ہے“
آپ کے متعلق پیشن گوئی : حضرت شیخ کلیم اللہ شاہجہاں آبادی نے آپ کے متعلق فرمایا کہ ”یہ فرزند شہر شاہجہاں آباد کو اپنے نورِ ہدایت سے منوروروشن کرئے گا“
لقب : آپ کا لقب محب النبی ہے۔
آپ کے محب النبی کے لقب سے ممتاز ہونے کی یہ وجہ بتائی جاتی ہے کہ جب آپ خواجہ غریب نواز کے دربار میں اجمیرشریف حاضر ہوئے اس وقت ایک صاحبِ دل بزرگ اپنے کسی کام کے واسطے دربارِ غریب نواز میں حاضر تھے، ان بزرگ کو خواجہ غریب نواز نے بشارت دی کہ ان کو پہچان لو، مطلب برآری ان سے ہوگی، ان کا نام ”محب النبی“ ہے، ان بزرگ نے آپ کو تلاش کیا اور خدمت میں حاضر ہوکر سارا قصہ بیان کیا، اس روز سے آپ اس لقب سے مشہور ہوئے۔
دوسری وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ایک مرتبہ عرس کے موقع پر حضرت نصیرالدین چراغ دہلوی کے مزارِ پُرانوار پر حاضر تھے، آپ نے دیکھا کہ حضرت نصیرالدین چراغ دہلوی نے آپ کو لنگر سے کچھ تبرک دیا اور ارشاد فرمایا کہ
تم ’’محب النبی“ ہو، اس روز سے آپ محب النبی کہلانے لگے۔
تعلیم و تربیت : آپ نے چند کتابیں اپنے والدبزرگوار سے پڑھیں، آپ نے ”شرح وقایہ“ ”مشارق الانوار“ ”نفحات الانس“ ایک کتابِ علم طب میں اور ایک رسالہ تیراندازی کے فن میں یہ سب کتابیں اپنے والدماجد سے پڑھیں، آپ نے میاں محمد جان جیو سے اور کتابیں پڑھیں جن میں فصوص الحکم وغیرہ شامل ہیں، آپ نے مشہور کتاب ”ہدایہ“ مولوی عبدالحکیم سے پڑھی جو بہت بڑے عالم تھے اور فقہ میں ماہر تھے۔
بچپن کا ایک واقعہ : آپ کی عمر سات سال کی تھی کہ ایک روز آپ اپنے والدماجد کے پیر دبا رہے تھے کہ آپ پر غنودگی طاری ہوئی، سروردِ دین و دنیا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو بُن کے پانچ دانے مرحمت فرمائے، جب آپ ہوشیار ہوئے وہ بن کے پانچ دانے آپ نے اپنے ہاتھ میں دیکھے، آپ کے والدبزرگوار بھی جاگ گئے، آپ کا ہاتھ پکڑ کر انہوں نے فرمایا کہ ”ان دانوں میں ہمارا حصہ بھی ہے، آپ نے اور آپ کے والدماجد نے وہ دانے تناول فرمائے۔
بیعت و خلافت : آپ صغرسنی میں اپنے والدماجد سے بیعت ہوئے، جب آپ کی عمر پندرہ سال کی ہوئی آپ کے والدماجد نے آپ کو خرقۂ خلافت سے سرفراز فرمایا۔
والد ماجد کا وصال : خرقۂ خلافت عطا کرنے کے ایک سال بعد آپ کے والد ماجد نے جانِ شریں جانِ آفریں کے سپرد فرمائی، والد بزرگوار کے وصال کے وقت آپ کی عمر سولہ سال تھی۔
ریاضت و مجاہد : والد بزرگوار کے وصال کے بعد آپ زیادہ وقت عبادات میں گزارتے تھے، آپ اپنے حال کی کسی کو خبر نہ دیتے تھے جو لوگ آپ کے قریب تھے ان کو بھی آپ کی ریاضت، عبادات اور معاہدات کا علم نہ تھا، ایک دن آپ کے پیر بھائی اور ہم خرقۂ خواجہ کا مگار خاں نے آپ سے عرض کیا کہ آپ حلقۂ ذکر منعقد کریں اور ذکرِ جہر کرایا کریں، آپ مسکرائے اور ان سے فرمایا کہ وہ آپ کے واسطے دعا کریں کہ خداوند تعالیٰ ان کو ان کاموں کی توفیق دیں، انہوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے، ان کو جو دولت و نعمت حاصل ہوئی تھی وہ فوراً سلب ہوگئی اور وہ معافی کے خواستگار ہوئے، آپ نے ان کو معاف فرمایا اور وہ تمام دولت و نعمت جو سلب ہوئی تھی، وہ اور اس کے علاوہ مزید نعمت مرحمت فرمائی۔
ملازمت : آپ کی خواہش پر نواب نظام الدولہ ناصرجنگ نے آپ کو عہدۂ سِپہ سالاری یا نائب بخشی تفویض کیا، آپ نے تین سال تک بحسن و خوبی اپنے فرائض انجام دیئے پھر مستعفیٰ ہوکر اورنگ آباد تشریف لے گئے۔
دہلی میں آمد : ایک روز کا واقعہ ہے کہ آپ عبادت میں مشغول تھے، آپ نے یہ آواز سنی۔
بند بگسل باش آزاد اے پسر
یہ سن کر آپ کو دہلی جانے کا خیال پیدا ہوا، آپ اپنے والدماجد کے مزارِ پُرانوار پر حاضر ہوئے جب مراقب ہوئے یہ آواز سنی۔
شہ اقلیم فقرم بے خودی تخت روانِ من
نہ چوں فرہاد مزدورم نہ چوں مجنوں زمیندارم
یہ سن کر آپ نے دہلی جانے کا مصمم ارادہ کرلیا، آپ 1160ھ میں دہلی میں رونق افروز ہوئے۔
پاک پٹن میں آمد : دہلی تشریف لانے کے چھ ماہ بعد آپ حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر کے مزارِ اقدس کی زیارت کے واسطے پاک پٹن حاضر ہوئے، پانی پت میں چار راتیں قیام فرمایا، حضرت بوعلی قلندر کے فیوض و برکات سے مالامال ہوئے۔
شادی اور اولاد : ایک بیماری کے ازالہ کے واسطے آپ نے حکیموں کا مشورہ قبول فرماکر اورنگ آباد میں شادی کی، آپ کے ایک لڑکا ہوا، آپ نے ان کا نام غلام قطب الدین رکھا۔
وفات شریف : آپ 27 جمادی الثانی 1199ھ کو رات کے آخری حصہ میں اس جہانِ فانی سے رحمتِ یزدانی کی طرف رحلت فرمائی، بوقتِ وفات آپ کی عمر 73 سال کی تھی، آپ کا مزار مہرولی میں فیوض و برکات کا سرچشمہ ہے۔
آپ کے خلفا : آپ کے مشاہیر خلفا حسبِ ذیل ہیں۔
خواجہ نور محمد مہاروی، حضرت مولانا میر ضیاؤالدین، حضرت مولوی خدابخش، نواب غازی الدین میر خاں نظامؔ، شاہ فتح اللہ، مولوی محمد غوث، شاہ روح اللہ، شاہ قمرالدین اور حضرت محمد غوث۔
سیرتِ پاک : آپ کی ذاتِ والا صفات اوصافِ ظاہری و باطنی کی جامع تھی، آپ نہایت خلیق و متواضع تھے، آپ ہر آنے والے کی تعظیم و تکریم بلا کسی امتیاز کے کرتے تھے، بیماری میں بھی کھڑے ہوجاتے تھے، آپ میں ایثارِ نفس بدرجۂ اتم تھا، عبادت، ریاضت، مجاہدہ اور مراقبہ میں زیادہ وقت گزارتے تھے، سخاوت کا یہ حال تھا کہ جو روپیہ اور چیزیں نذر میں آتی تھیں، سب کو تقسیم فرما دیتے تھے، آپ اپنے واسطے کچھ نہ رکھتے تھے، انکساری اس درجہ تھی کہ جب آپ کا خاکروب پیرا دو روز متواتر خانقاہ میں صفائی کے واسطے نہیں آیا اور جب معلوم ہوا کہ وہ بیمار ہے، آپ بہ نفسِ نفیس اس کو دیکھنے اس کے گھر تشریف لے گئے، اس کو کچھ روپیہ دیا اور اس سے معذرت کی کہ اس کی خبر گیری میں انتی دیر ہوئی۔
علمی ذوق : آپ کے خطوط گنجینۂ معرفت ہیں، وہ ”رقعاتِ مرشدی“ کے نام سے شائع ہوگئے ہیں، آپ کی مشہور تصانیف حسبِ ذیل ہیں۔
فخر الحسن، عقائد نظامیہ، سیرتِ محمدیہ، عین الیقین۔
آپ کی تعلیمات : آپ کی تعلیمات اعلیٰ روحانی مقام کے حاصل کرنے میں امداد اور رہنمائی کرتی ہیں۔
مقام سیرالنفسی : آپ فرماتے ہیں کہ سیر آفاقی میں یعنی عالمِ کبیر میں عارف محبوبِ حقیقی کا مشاہدہ کرتا ہے، سیرالنفسی میں بھی وہ اس دولت سے مشرف ہوتا ہے، یہ کہنا چاہئے کہ اول تو محض آئینہ ہے اور ذاتِ پاک کا ظہور اس میں بھی ہے مگر دوم یہ کہ انسان ”عالمِ صغیر“ ہے مصفیٰ اور مجلیٰ آئینہ ہے، اس میں جو تجلیات عارف مشاہدہ کرتا ہے وہ پہلے مشاہدہ سے بہ مدارج فوق ہیں، مقام سیرالنفسی کا فنائے تام حاصل ہونے پر موقوف ہے، سالک کا باطن ما سوااللہ سے پاک ہوجاتا ہے اور خداوند تعالیٰ کی ہستی کا اس پر غلبہ ہوتا ہے تو مقامِ قربِ نوافل حاصل ہوتا ہے۔
حضور مع اللہ : آپ فرماتے ہیں کہ اصل تمام کی حضور مع اللہ کا حاصل ہونا ہے، طریقے مختلف ہیں خواہ یہ ذکر جہر سے ہو یا ذکرخفی سے، خواہ فکر سے ہو یا مراقبہ یا مرابطہ سے ہو۔
بے خودی : آپ فرماتے ہیں کہ بے خودی ایک بڑی نعمت ہے، اس کا شکر کرنا ضروری ہے لیکن سالک کو اس پر قناعت نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس کو اصلی مقصد اور مدارجِ عالیہ حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھنا چاہئے، بے خودی تو بھنگ اور افیون سے بھی پیدا ہوجاتی ہے، فرق یہ ہے کہ اس قسم کی بے خودی محمودہ نہیں ہے بلکہ مذمومہ ہے، جب بے خودی حاصل ہو تو ریاضت و مجاہدہ میں زیادہ مصروف ہونا چاہئے۔
ذکر اور محاسبہ : آپ فرماتے ہیں کہ جس قدر بھی ہوسکے ذکر کرنا چاہئے لیکن انتا نہیں کہ جس کا صحت پر برا اثر پڑے، محاسبہ کرنا بھی ضروری ہے۔
اقوال :
حضور و غیب کو دل سے دور کرنا چاہئے۔
یادِ مولیٰ سب سے اولیٰ ہے۔
دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔
سالک کو چاہئے کہ ضبط اوقات کو ہاتھ سے نہ دے۔
سال کو فریبِ نفسانی نہ کھانا چاہئے۔
انسان مظہرِ جمیعِ مراتباتِ الٰہیہ و کونیہ ہے۔
اورادووظائف : آپ ”پاس انفاس“ اور ذکرِ جلی و خفی کی تلقین فرماتے ہیں، آپ فرماتے ہیں کہ اعمالِ صالحہ مثل نوافل، نماز و تہجد و اشراق اور اوراد مثلِ درود شریف و تلاوتِ قرآن مجید کو اپنے اوپر لازم کرنا چاہئے۔
کشف و کرامات : نواب میر غازی الدین خاں کو مسئلۂ وحدت الوجود کے سمجھنے میں سخت تردد تھا، آپ نے مکاشفہ سے ان کا تردد معلوم فرمایا، ایک دن آپ نواب صاحب کے پاس تشریف لے گئے اور اپنی انگلیاں ان کی انگلیوں میں اور دونوں ہتھیلیوں سے دونوں ہتھیلیاں ملائیں پھر مسکرا کر نواب صاحب کی طرف دکھا، نواب صاحب بے ہوش ہوگئے، نواب صاحب کہتے ہیں کہ جب ہوش آیا تو تمام جمادات، نباتات اور حیوانات ایک شے نظر آنے لگے۔
اورنگ آباد سے دہلی شریف لائے ہوئے راستے میں ایک نابینا بڑھیا آپ کی خدمت میں آئی اور آپ سے عرض کیا کہ اس کی آنکھیں روشن کریں، آپ نے اپنا ہاتھ اس بڑھیا کی آنکھوں پر پھیرا، اسی وقت اس بڑھیا کی آنکھوں میں روشنی آگئی، آپ کے مرید قاضی انور ضیا دفع میں مبتلا تھے، آپ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے، آپ ان سے بغل گیر ہوئے، بغل گیر ہونے کے فوراً بعد ہی قاضی صاحب بالکل اچھے ہوگئے اور اپنے اندر ایسی قوت محسوس کرنے لگے کہ گویا بیمار ہی نہ تھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.