حضرت مولانا علاؤالدین نیلی چشتی
دلچسپ معلومات
دلی کے بائیس خواجہ۔ باب 10
حضرت مولانا علاؤالدین نیلی چشتی قطبِ ربانی، گنجِ اسرارِ ذوالجلال اور گوہرِ دریائے فضل و کمال ہیں۔
نام : آپ کا نام علاؤالدین ہے۔
تعلیم و تربیت : آپ علومِ ظاہری کی تحصیلِ و تکمیل سے جلد ہی فارغ ہوئے، فقہ، حدیث، منطق، تفسیر اور علمِ سلوک میں دستگاہ رکھتے تھے، آپ نے قرآن مجید بھی حفظ کیا، آپ ایک اچھے قاری تھے۔
بیعت و خلافت : آپ حضرت محبوبِ الٰہی کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے، بیعت سے مشرف ہونے کے کچھ عرصہ بعد آپ خرقۂ خلافت سے سرفراز ہوئے۔
حضرت محبوبِ الٰہی کا عطیہ : ایک دن حضرت محبوبِ الٰہی حسبِ معمول بالائی منزل میں تشریف فرما تھے، آپ خانقاہ میں حاضر ہوئے اور جماعت خانے کے صحن میں نماز میں مشغول ہوئے جن لوگوں نے نماز نہیں پڑھی تھی وہ آپ کے پیچھے نماز پڑھنے کھڑے ہوگئے، آپ کی قرأت اور خوش الحانی مشہور تھی، آپ کی قرأت اور خوش الحانی سن کر حضرت محبوبِ الٰہی کو ایک عجیب حال اور ذوق و شوق پیدا ہوا، حضرت محبوبِ الٰہی نے اپنے خام اقبال کو حکم دیا کہ ان کا مصلی خاص اس شخص کو جاکر دو جو امامت کر رہا ہے، خواجہ اقبال نیچے آگئے جب آپ نے نماز ختم کی، خواجہ اقبال نے حضرت محبوبِ الٰہی کا عطیہ آپ کو دیا، آپ نے بصد احترام و ادب وہ مصلی لیا، اس کو بوسہ دیا، آنکھوں سے لگایا، سر پر رکھا اور اپنے بختِ رسا پر فخر کیا۔
پیرومرشد کا ادب : ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ آپ مولانا شمس الدین یحییٰ اور چند لوگ اودھ سے دہلی آئے، آپ اور مولانا شمس الدین یحییٰ دہلی پہنچ کر حضرت محبوبِ الٰہی کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوئے اور آداب بجا لائے، حضرت محبوبِ الٰہی نے آپ کو اور شمس الدین یحییٰ کو چوتھے روز ہی اودھ جانے کا حکم دیا، آپ دونوں اس قدر جلد واپسی کے حکم پر کبیدہ خاطرہ ہوئے لیکن پیرومرشد کا فرمان تھا کیسے ٹالتے، آپ دونوں اُدھر روانہ ہوگئے جب تلپتہ پہنچے، آپ کو تیز بخار ہوگیا، آپ تلپتہ میں رکنے پر مجبور ہوئے، حضرت محبوبِ الٰہی کی خدمت میں ایک عریضہ روانہ کیا اور اس میں اپنی بیماری کی اطلاع کے علاوہ یہ بھی تحریر کیا کہ اب فرمانِ عالی کیا ہے جیسا حکم ہو اس پر عمل کیا جائے، حضرت محبوبِ الٰہی کو جب آپ کی بیماری کی اطلاع ہوئی، آپ نے خرچ کے لئے کچھ رقم اور سواری کے لئے اپنی خاص پالکی روانہ کی اور حکم دیا کہ واپس دہلی آجاؤ، یہ حکم پاکر آپ بہت خوش ہوئے، جب آپ سے پالکی میں بیٹھنے کو کہا گیا آپ نے صاف انکار کردیا اور کہا اتنی تاب، طاقت اور مجاہ کہاں کہ خاص پالکی میں بیٹھوں، غرض آپ ایک کرائے کے ڈولے میں روانہ ہوئے، روانہ ہوتے وقت آپ نے تاکید کی کہ پالکی آپ سے آگے چلے تاکہ آپ کی نظر اُس پر پڑتی رہے اور اس کو دیکھتے رہنے کی برکت سے آپ کو صحت نصیب ہو، آپ اسی طرح روانہ ہوکر دہلی پہنچے، جب حضرت محبوبِ الٰہی کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے بیماری کا حال عرض کی، حضرت محبوبِ الٰہی نے اپنے خادم خواجہ اقبال کو حکم دیا کہ صحب کے بچے ہوئے کھانے میں سے کچھ کھانا لاکر ان کو دو، خواجہ اقبال نے کچوری، روغن اور آہری لاکر آپ کو دی، آپ نے حسبِ فرمان اپنے پیرومرشد کے کچوری، روغن، اور آہری کھائی، کھانے کے بعد آپ کا بخار اتر گیا، حضرت محبوبِ الٰہی کو جب یہ معلوم ہوا کہ آپ پالکی میں سوار نہیں ہوئے، آپ سے دریافت فرمایا کہ پالکی میں سوار کیوں نہ ہوئے، آپ نے بصد ادب عرض کیا کہ اگر حضرت مخدوم کرم و شفقت بندہ کے حال پر فرمائیں تو یہ بندہ نوازی ہے لیکن بندہ کو بھی تو اپنے محل سے واقف رہنا چاہئے اور اس کو نہ بھولنا چاہئے، جب کبھی بھی آپ کی نظر اس پالکی پر پڑتی، آپ نہایت تعظیم و تکریم کرتے اور اس پالکی سے فیوض و برکات حاصل کرتے۔
حضرت مولانا حسام الدین ملتانی سے ملاقات : حضرت محبوبِ الٰہی کا یہ طریقہ تھا کہ جو کوئی اودھ سے آتا تھا، آپ اس کو قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے مزارِ پُرانوار پر حاضر ہونے کا حکم دیتے اور بعد ازاں اپنی قدم بوسی کا شرف عطا فرماتے، آپ اور مولانا شمس الدین یحییٰ ساتھ ساتھ اودھ سے دہلی آئے، فرمانِ عالی کے مطابق آپ دونوں قطب الاقطاب حضرت قطب الدی بختیار کاکی کے مزار پر حاضر ہوئے، اس کے بعد شہر آکر کچھ لوگوں سے ملے پھر آپ دونوں حضر حسام الدین ملتانی کے درِ دولت پر گئے، مولانا حسام الدین گھر پر تشریف نہیں رکھتے تھے، تھوڑی دیر میں مولانا حسام الدین آتے دکھائی دئے، ان کے ایک ہاتھ میں ایک کپڑا تھا جس میں کھچڑی بندھی ہوئی تھی اور دوسرے ہاتھ میں لکڑیاں تھیں، آپ دونوں نے چاہا کہ کھچڑی کی پوٹلی اور لکڑیاں ان کے ہاتھ سے لے لیں لیکن مولانا حسام الدین نے اجازت نہیں دی اور فرمایا کہ ”بوجھ اٹھانا میرا حق ہے“ آپ دونوں ایک پرانے بورے پر بیٹھ گئے، مولانا شمس الدین نے ایک پائجامہ اور آپ نے ایک چاندی کا سکہ پیش کیا، سب نے کھچڑی کھائی، رخصت ہوتے وقت مولانا حسام الدین نے چاندی کا سکہ جو آپ نے پیش کیا تھا، مولانا شمس الدین یحییٰ کے سامنے رکھ دیا اور مولانا شمس الدین یحییٰ کا لایا ہوا پائجامہ آپ کے سامنے رکھ دیا اور قبول نہ کرنے کی معذرت کی۔
سیرتِ مبارک : اگرچہ آپ مجازِ مطلق تھے لیکن آپ نے کسی کو مرید نہ کیا، آپ علما کا سا لباس زیب تن فرماتے تھے لیکن باطنی طور پر درویشنانہ اوصاف سے متصف تھے، آپ تقریر بہت اچھی کرتے تھے، بڑے بڑے علما آپ کی تقریر پر عاشق تھے، آپ ایک بہت بڑے عالم تھے اور ساتھ ہی ساتھ ایک صاحبِ دل اور صاحبِ کمال بزرگ بھی تھے، آپ کی آواز میں ایک عجب دل کشی تھی، قرآن مجید قرأت سے پڑھتے تھے اور اپنے پیرومرشد کا انتہائی احترام و ادب کرتے تھے، طبیعت میں سادگی تھی، ترک و تجرید اعلیٰ درجہ کا تھا۔
آخری ایام : زندگی کے آخری دنوں میں آپ نے سب کتابیں اور اوراد بالائے طاق رکھ دئے تھے، آپ صرف ایک کتاب پڑھتے تھے اور آپ کا صرف ایک ورد تھا، آپ نے اپنے پیرومرشد حضرت محبوبِ الٰہی کے ملفوظاتِ بابرکات ”افضل الفوائد“ پڑھتے تھے، ان سے روحانی انبساط حاصل کرتے تھے اور ان کو خود اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے، ان کو کسی وقت بھی نگاہ سے اوجھل نہ ہونے دیتے تھے۔
کسی نےآپ سے دریافت کیا کہ آپ کے پاس ہر علم کی معتبر کتابیں ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ صرف حضرت محبوبِ الٰہی کے ملفوظاتِ طیبات پڑھتے ہیں، آپ نے جواب دیا کہ ”یہ صحیح ہے کہ دنیا سلوک کی کتابوں سے بھری ہوئی ہے لیکن میرے لئے میرے مخدوم کے روح افزا ملفوظات نجات کا ذریعہ ہیں“
وفات شریف : آپ نے 672ھ میں وفات پائی، آپ کا مزارِ مقدس حضرت محبوبِ الٰہی کے مزارِ پُرانوار کے قریب جپوترہ یاراں میں مشہور ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.