Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

خواجہ نصیرالدین محمود چراغ دہلی

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

خواجہ نصیرالدین محمود چراغ دہلی

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

MORE BYڈاکٹر ظہورالحسن شارب

    دلچسپ معلومات

    دلی کے بائیس خواجہ۔ باب 7

    حضرت نصیرالدین محمود چراغ دہلی خاندانِ چشت کے روشن چراغ ہیں، آپ حضرت نظام الدین اؤلیا کے جانشین ہیں، آپ مردِ میدانِ دین اور فردِ میدانِ یقین ہیں۔

    خاندانی حالات : آپ کے جدامجد حضرت شیخ عبداللطیف نیروی خراسان کے رہنے ولاے تھے، وہاں سے ہجرت کرکے لاہور تشریف لائے ان کے لڑکے حضرت شیخ یحییٰ لاہور سے سکونت ترک کر کے اودھ میں رونق افروز ہوئے۔

    والدین : آپ کے والد حضرت شیخ یحییٰ اور آپ کی والدہ اودھ میں سکونت پذیر تھیں، زیاوہ وقت عبادت میں گذارتی تھیں، وہ اپنے زمانے کی رابعہ تھیں، آپ کے والد خوش حال تھے، پشمینہ فروخت کرتے تھے، آپ کے یہاں غلام بھی تھے۔

    نسب نامۂ پدری : آپ کا نسب نامہ پدری حسبِ ذیل ہے۔

    حضرت شیخ نصیرالدین محمد بن شیخ یحییٰ بن عبداللطیف بن یوسف بن عبدالرشید سلیمان بن شیخ احمد بن شیخ یوسف بن شیخ محمد بن شیخ شہاب الدین بن شیخ سلطان بین شیخ اسحاق بن شیخ مسعود بن شیخ عبداللہ بن حضرت واعظ اصغر بن واعظ اکبر بن اسحاق بن سلطان ابراہیم بن ادھم بلخی بن شیخ سلیمان بن شیخ ناصر بن حضرت عبداللہ بن امیرالمؤمنین حضرت عمر بن خطاب۔

    ولادت باسعادت : آپ اودھ میں پیداہوئے۔

    نامِ نامی : آپ کا نام نصیرالدین ہے۔

    خطاب : آپ کا خطاب محمود ہے۔

    لقب : آپ کا لقب ”چراغ دہلی“ ہے، آپ کے چراغ دہلوی کہلانے کی چند وجوہات ہیں، حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت جب مکہ معظمہ پہنچے اور حضرت امام یافعی سے ملے تو باتوں باتوں میں دہلی کے بزرگان کا ذکر آگیا، حضرت امام یافعی نے فرمایا کہ ”پہلے تو دہلی میں بہت بزرگان تھے، وہ سب واصل بحق ہوگئے“

    پھر حضرت امام یافعی نے فرمایا کہ ”اب تو شیخ نصیرالدین اودھی کہ دہلی کے چراغ ہیں، باقی ہیں“

    حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت سید جلال کچھ عرصے کے بعد مکہ معظمہ سے دہلی واپس آئے اور حضرت نصیرالدین محمود چراغ دہلی سے بیعت ہوئے اور بعد ازاں خلافت سے مشرف ہوئے، آپ کے ”چراغ دہلی“ کہلانے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ

    ”ایک مرتبہ چند درویش بسلسلۂ سیاحی دہلی آئے اور حضرت نظام الدین اؤلیا سے ملے، وہ درویش حضرت محبوبِ الٰہی کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتفاق سے حضرت نصیرالدین محمود چراغ دہلی بھی حضرت محبوبِ الٰہی کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوئے، حضرت محبوبِ الٰہی نے آپ کو بیٹھنے کا حکم دیا، آپ نے عرض کیا کہ ”درویشوں کی طرف میری پیٹ ہوجائے گی“

    حضرت محبوبِ الٰہی نے فرمایا کہ ”چراغ کی روپشت نہیں ہوتی“

    اپنے پیرومرشد کے حکم موافق آپ بیٹھے گئے، آپ کی رو پشت یکساں ہوئی، جیسے کہ آپ آگے سے دیکھتے تھے، اب پشت کی طرف سے بھی دیکھنے لگے، اسی روز سے آپ ”چراغ دہلی“ کے لقب سے مشہور ہوئے۔

    تیسری وجہ یہ ہے کہ ایک دفعہ بادشاہ نے جو حضرت محبوبِ الٰہی سے حسد رکھتا تھا اور جس کو ان کا اقتدار نا پسند تھا، عین عرس کے موقع پر حضرت محبوبِ الٰہی کی خانقاہ کے واسطے تیل بند کردیا، حضرت نصیرالدین چراغ دہلی نے یہ واقعہ حضرت محبوبِ الٰہی کے گوش گذار کیا، آپ نے دریافت فرمایا کہ ”باؤلی جو کھدر ہی ہے، اس میں کچھ پانی نکلا ہے“ حضرت نصیرالدین چراغ دہلی نے عرض کیا کہ ”حضور ! ہاں نکلا ہے“

    حضرت محبوبِ الٰہی نے حکم دیا کہ

    ”اسی کو چراغوں میں پُر کرکے روشن کرو“

    آپ نے ایسا ہی کیا، تمام چراغ تیل سے نہیں پانی سے روشن ہوگئے، حضرت نصیرالدین محمود سارے جہان میں چراغ دہلی کے لقب سے مشہور ہوگئے۔

    بچپن کا صدمہ : جب آپ کی عمر نو سال کی ہوئی، والدماجد کا سایۂ عاطفت سر سے اٹھ گیا۔

    تعلیم و تربیت : والد کے انتقال کے بعد آپ کی تعلیم و تربیت کا بار آپ کی والدہ ماجدہ نے بحسن و خوبی اٹھایا، انہوں نے اپنی پوری ذمہ داری محسوس کی اور آپ کی تعلیم و تربیت میں بہت کوشش کی، آپ کو مولانا عبدالکریم شیروانی کے سپرد کیا اور ان کی وفات کے بعد آپ نے مولانا افتخارالدین گیلانی سے تحصیلِ علم کی، آپ نے علومِ ظاہری سے جلد فراغت حاصل کی اور بیس سال کی عمر میں تمام علوم حاصل کرکے تعلیم کا سلسلہ ختم کیا۔

    درویش کی صحبت : آپ شروع ہی سے مجاہدۂ نفس میں لگے رہتے تھے، آپ نے ایک درویش کی صحبت میں رہنا شروع کیا، یہ درویش شہر سے دور جنگل میں رہتے تھے، دنیا سے ان کو کچھ غرض نہ تھی، گھاس اور پتّے کھا کر گذارہ کرتے تھے۔

    دہلی میں آمد : آپ تینتالیس 43 سال کی عمر میں دہلی میں رونق افروز ہوئے دہلی پہنچ کر آپ حضرت نظام الدین اؤلیا کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ ایک مدت تک حضرت محبوبِ الٰہی کی خدمت میں رہے۔

    بیعت و خلافت : حضرت محبوبِ الٰہی نے آپ کو بیعت سے مشرف فرمایا کہ بعد ازاں خرقۂ خلافت عطا کیا، آپ پر حضرت محبوبِ الٰہی کی خاص نوازش اور مہربانی تھی، آنحضرت نے آپ کو اپنا صاحبِ سجادہ اور جانشین بنایا، وہ تمام تبرکات جو آپ کو حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر سے ملے تھے، حضرت نصیرالدین محمود چراغ دہلی کے سپرد فرمائے اور نصیحت فرمائی کہ وہ ان تبرکات کو اسی طرح اپنے پاس رکھیں، جس طرح انہوں نے اور خواجگانِ چشت نے بصد احترام و ادب رکھا ہے، آپ کا شجرۂ بیعت اٹھارہ واسطوں سے امام اولیا حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ملتا ہے۔

    ایک واقعہ : حضرت بہاؤالدین زکریا کے مرید خواجہ محمد گاذرونی ایک مرتبہ حضرت محبوبِ الٰہی کے پاس آئے، آپ اس رات خانقاہ میں رہے، جب تہجد کی نماز کا وقت آیا تو آپ نے وضو کرنے کی غرض سے اپی رضائی اتاری، رضائی ایک جگہ رکھ کر وضو کرنے چلے گئے، جب وضو کرکے واپس آئے تو اس جگہ رضائی کو نہ پایا، آپ خانقاہ کے خادم خواجہ محمد کو سخت سست کہنے لگے، حضرت نصیرالدین چراغ دہلی خانقاہ میں عبادت میں مشغول تھے، آپ نے جب یہ گفتگو سنی، آپ اٹھے اور اپنی رضائی خواجہ محمد گاذرونی کو دے کر قصہ ختم کیا، کسی نے یہ خبر حضرت محبوبِ الٰہی کو پہنچائی، حضرت محبوبِ الٰہی نے آپ کو اوپر بلایا اور اپنی خاص رضائی آپ کو عطا کی، آپ کے لئے دعائے خیر فرمائی اور آپ کو دینی و دنیاوی نعمت سے سرفراز فرمایا۔

    پیرومرشد کی خدمت میں معروضہ : کچھ تو پاسِ ادب کی وجہ سے اور کچھ اس وجہ سے کہ حضرت امیر خسرو کو بارگاہِ محبوبِ الٰہی میں خاص قرب حاصل تھا، جب چاہتے تھے حضرت محبوبِ الٰہی کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے، آپ نے خود تو عرض نہیں کیا بلکہ حضرت امیر خسرو سے کہلوایا کہ شہر میں رہنے سے مشغولی میں فرق آتا ہے، عبادت میں خلل واقع ہوتاہے، لوگ ہر وقت آتے جاتے رہتے ہیں، اگر حکم ہو تو صحرا یا پہاڑ میں سکونت اختیار کرلوں اور وہاں سکون اور اطمینان کے ساتھ عبادت میں مشغول ہوں، حضرت امیر خسرو نے حضرت محبوبِ الٰہی سے عرض کیا، حضرت محبوبِ الٰہی نے جواب دیا کہ

    ”ان سے کہہ دو کہ شہر میں رہنا چاہئے اور مخلوق کی جفاوقضا کو برداشت کرنا چاہئے اور اس کے بدلے ان کے ساتھ بذل و ایثار اور عطا کرنی چاہئے۔

    مجاہدات : آپ نے سخت سے سخت مجاہدے کئے، ایک مرتبہ نفس نے آپ کو پریشان کیا، آپ نے نفس کو مغلوب کرنے کی غرض سے اس قدر لیموں کھائے کہ آپ سخت بیمار ہوگئے۔

    ایک دفعہ آپ نے دس روز تک کچھ نہیں کھایا، کسی نے حضرت محبوبِ الٰہی کو اس بات کی اطلاع کردی، انحضرت نے آپ کو اپنے سامنے بلایا، جب خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے، حضرت محبوبِ الٰہی نے خواجہ اقبال کو حکم دیا کہ ایک روٹی لائیں، خواجہ اقبال ایک روٹی پر بہت سا حلوہ رکھ کر لائے، حضرت محبوبِ الٰہی نے آپ کو حکم دیا کہ وہ سب کھالیں، آپ حیران ہوئے کہ یہ سب ایک مرتبہ میں کیسے کھائیں گے لیکن پیرومرشد کا حکم کیسے ٹالتے، سب کھا لیا۔

    آپ کی وصیت : آپ نے شیخ زین الدین اور شیخ کمال الدین کو وصیت فرمائی کہ ان کے وصال کے بعد ان کے شیخ کا خرقہ ان کی قبر میں ان کے سینہ پر اور کاسۂ چوبیں ان کے سرہانے اور تسبیح ان کی انگلی میں اور عصا اور نعلین ان کی برابر رکھ لینا۔

    وفات شریف : اپنے پیرومرشد کے بتیس سال بعد آپ نے 18 رمضان 757ھ کو رحلت فرمائی، جس حجرے میں آپ رہتے تھے اسی میں آپ کا مزارِ مبارک ہے، آپ کا سالانہ عرس ہوتا ہے، آپ کا مزار زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔

    آپ کے خلفا : آپ کے بہت سے خلیفہ ہیں بعض مشہور خلفا حسبِ ذیل ہیں۔

    حضرت خواجہ بندہ نواز سید محمد گیسو دراز، حضرت شیخ کمال الدین (جو آپ کی بہن کے لڑکے ہیں) مخدوم جہانیان جہاں گشت، حضرت شیخ صدرالدین طبیب دولھا، حضرت سید محمد جعفر المکی الحسینی، مولانا علاؤالدین سنویلوی، مولانا خواجگی، مولانا احمد تھانیسری، شیخ معین الدین خورد، قاضی عبدالمقتدر بن قاضی رکن الدین، قاضی محمد شادی، مخدوم شیخ سلیمان ردولوی، شیخ محمد متوکل، شیخ دانیال عرف مولانا عود، مخدوم شیخ قوام الدین دہلی میں رہے، حضرت خواجہ بندہ نواز سید محمد گیسو دراز دہلی سے دکن تشریف لے گئے، حضرت کمال الدین دہلی میں رہے۔

    سیرتِ مقدس : آپ کی ذات پسندیدہ اوصاف برگزیدہ تھے، آپ علم، عقل اور عشق میں اپنی مثال نہیں رکھتے تھے، آپ تحمل، بردباری اور ایثار میں یگانۂ روزگار تھے، آپ مخلوق کے جوروستم پر صبر کرتے تھے، برائی کا بدلہ اچھائی سے دیتے تھے، آپ اہلِ ارادت کے لئے نظیر تھے، راہِ سلوک میں بے نظیر تھے، آپ ایک مثالی پیر تھے، عین جوانی میں جو کہ کامرانی کا زمانہ سمجھا جاتھا ہے، آپ نے دنیا کو ترک کر دیا تھا، آپ امیر سے بے پرواہ تھے، وزیر سے کچھ غرض نہ رکھتے تھے، آپ اپنے پیرومرشد کی پیروی میں ہمہ تن مشغول تھے، آپ کو سماع کا شوق تھا۔

    عفو و درگذر : ایک روز کا واقعہ ہے کہ ایک قلندر آپ کی خانقاہ میں آیا، حضرت نصیرالدین چراغ دہلی حجرہ میں تشریف رکھتے تھے، وہ قلندر حجرہ میں داخل ہوا، خانقاہ میں اس کے حجرہ میں داخل ہونے کا کسی کو پتہ نہ چلا، اس نے آپ کے چہرۂ مبارک پر اٹھارہ زخم لگائے، آپ اس درجہ استغراق میں تھے کہ آپ کو کچھ پتہ نہ چلا، حجرہ کی نالی سے جب خوان باہر نکلا تو لوگ حجرہ کے اندر آگئے، قلندر کو پکڑا، آپ نے قلندر کو سزا دینے سے منع فرمایا، آپ نے اس قلندر کو ایک تیز رفتار گھوڑا اور پچاس اشرفیاں مرحمت فرمائیں اور اس سے فرمایا کہ ”جلد شہر سے باہر چلے جاؤ تاکہ تمہیں لوگ تکلیف نہ پہنچا سکیں“ اس قلندر نے ایسا ہی کیا۔

    شعر و سخن کا ذوق : حسبِ ذیل غزل آپ کے شعروسخن کی آئینہ دار ہے۔

    بے کارم و باکارم چوں مد بحساب اندر

    گویانم و خاموشم چوں خط بکتاب اندر

    اے زاہدِ ظاہر بیں از قرب چہ می پرسی

    او در من و من در وے چوں بو بہ گلاب اندر

    دریا است پر از چشمم لبِ تر نہ شود ہرگز

    ایں طرفہ عجائب بیں تشنہ است بآب اندر

    گہہ شادم و گہہ غم گیں از حالِ خودم غافل

    می گریم و می خندم چوں طفل بخواب اندر

    در سینہ نصیرالدین جز عشقِ نمی گنجد

    ایں طرف عجائب بیں دریا بحساب اندر

    تعلیمات : آپ کی بعض تعلیمات حسبِ ذیل ہیں۔

    پیر کی صفات : آپ نے فرمایا کہ

    ”اے درویش ! راہِ سلوک میں پیر اسے کہتے ہیں جسے مرید کے باطن پر تصرف حاصل ہو اور ہر لحظہ اور گھڑی مرید کی ظاہری اور باطنی مشکلات کو معلوم کرکے حل کرسکے۔

    مرید کے فرائض : آپ نے فرمایا کہ

    ”صادق مرید اسے کہتے جسے جو کچھ پیر حکم کرے بجا لائے اور جو کچھ اسے دکھائے وہی دیکھے اور ہر وقت پیر کو حاضر وناظر سمجھے جو کچھ اس کےدل میں نیک یا بد خیالات گذریں ان کا اظہار اپنے پیر سے کرے، اگر مرید کے دل میں ذرہ بھر خیال بھی پیر کے بر خلاف ہو تو وہ صادق مرید نہیں کہلا سکتا“

    فقیری کا سرمایہ : ”فقیری کا سرمایہ مجاہدہ ہے، وہ بھی صدق دل سے، نہ اس غرض سے کہ مخلوق اس کو عابد، زاہد، صاحبِ مجاہدہ جانیں بلکہ یہ مجاہدہ خاص اللہ تعالیٰ کے واسطے ہو اور جب مجاہدہ باخلاص ہوگا تو ثمرِفوائد ہوگا اور اللہ تعایٰ اسے مقامِ مقصود تک پہنچا دے گا“

    اصلی کام : آپ نے فرمایا کہ

    ”اصلی کار محافظتِ نفس کی ہے، مراقبہ میں صوفی کو لازم ہے کہ اپنے نفس کو نگاہ رکھے یعنی سانس روکے تاجمعیتِ باطن حاصل ہو، جب سانس لے گا تو باطن پریشان ہوگا اور خرابی پاوے گا“

    اقوال : آپ کے چند اقوال پیش کئے جاتے ہیں جو حسبِ ذیل ہیں۔

    تمام کاموں میں نیت خالص درکار ہے۔

    لقمۂ تجارت اچھا لقمہ ہے۔

    جس قدر سالک کو معرفتِ خدائے تعالیٰ حاصل ہوتی ہے، اسی قدر تعلقات کم ہوتے جاتے ہیں۔

    درویش کو چاہئے کہ اگر اس پر فاقہ گزرے تب بھی اپنی حاجت غیر سے نہ کہے۔

    طلبِ دنیا میں اگر نیت خیر کی ہو تو وہ فی الحقیقت طلبِ آخرت ہے۔

    سماع دردمندوں کے لئے بمنزلہ علاج ہے جس طرح ظاہری درد کے لئے علاج ہوتا ہے اسی طرح باطنی درد کے لئے سماع کے سوا اور کوئی علاج نہیں۔

    اوراد و وظائف : آپ کے بتائے ہوئے چند اوراد و وظائف حسبِ ذیل ہیں۔

    حق تعالیٰ کی محبت کے واسطے آپ نے فرمایا کہ عصر کی نماز کے بعد پانچ مرتبہ سورہ عمّ پڑھنا مفید ہے۔

    آنکھ کی روشنی کے واسطے : آپ نے فرمایا کہ عشا کی نماز کے بعد و رکعت پڑھنا چاہئے، ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد انّا اعطینا تین مرتبہ پڑھنا چاہئے اور پھر سجدہ میں یہ پڑھے۔ ”مستغی بسمعی و بصری و جعلھا الوارث“

    بعض کرامات : ایک دن عزیزالدین آپ کی خدمت میں حاضر تھے، حضرت نصیرالدین چراغ دہلی نے ایک کاغذ پر کچھ لکھا اور وہ کاغذ عزیزالدین کو دیا کہ اس کو حضرت نظام الدین اؤلیا کے روضۂ مبارک میں پیش کر دینا، عزیزالدین نے اس کو پڑھنا چاہا لیکن نہیں پڑھا، انہوں نے سوچا کہ پہلے حکم کے موافق کاغذ روضۂ مبارک میں پیش کردیں پھر پڑھیں، روضۂ مبارک میں کاغذ پیش کرنے کے بعد جو انہوں نے نگاہ ڈالی تو کاغذ بالکل صاف تھا اور اس پر کچھ نہیں لکھا ہوا تھا۔

    سلطان محمد تغلق ٹھٹھہ روانہ ہوا، دہلی کے مشائخین و بزرگان کو اپنے ہمرا لیا، حضرت نصیرالدین چراغ دہلی کو بھی ساتھ لینا چاہتا تھا، آپ نے فرمایا کہ ”سلطان کو اس سفر میں میرا ساتھ لینا مبارک نہیں ہے کیوں کہ وہ صحیح سلامت واپس نہ آئے گا‘‘

    چنانچہ ایسا ہی ہوا، سلطان محمد تغلق کا انتقال ہوا اور آپ کی دعا سے فیروز شاہ بادشاہ ہوا، آخر عمر میں حضرت نصیرالدین چراغ دہلی کے جسم سے ایسی ہی خوشبو آنے لگی تھی جیسی کہ حضرت نظام الدین اؤلیا کے جسم سے آتی تھی۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے