شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی
شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی، پیر لاثانی، مقبول بارگاہِ رحمانی، برہانِ ملت، گنجِ عزلت، مخزنِ سخا، معدنِ وفا، کانِ صفا، قطب الاؤلیا، شیخ الاتقیا اور قدوۃ الاصفیا ہیں، اکابراؤلیا میں آپ کا شمار ہے، آپ شیخ شہاب الدین عمر سہروردی کے مرید اور خلفیہ ہیں۔
حسب و نسب : آپ قریشی، اسدی، ہاشمی تھے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ مہیار بن اسود بن مطلب بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصیٰ کی اولاد سے تھے، بعض نے آپ کا ”القرشی الاسدی ہونا تسلیم کیا ہے، بعض نے آپ کے سلسلۂ نسب کے متعلق لکھا ہے کہ
”سلسلۂ نسب او باشد قریشی جد مادری حضرت امیرالمؤمنین علی کرم اللہ وجہہ منتہی می شود“
ترجمہ : ان کا سلسلۂ نسب اسد قریشی پر کہ جو حضرت امیرالمؤمنین علی کرم اللہ وجہہ کے جد مادری پر منتہی ہوتا ہے۔
آپ ہاشمی ہیں اور آپ کے ہاشمی ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔
خاندانی حالات : آپ کے جد امجد مولانا شیخ کمال الدین علی شاہ ایک درویش منش بزرگ تھے، وہ خاندانِ قریش کے معزز فرد تھے، وہ مکہ سے سکونت ترک کر کے خوارزم میں رہے پھر خوارزم سے ملتان تشریف لائے اور وہاں مستقل سکونت اختیار کی، ملتان اس زمانہ میں اسلامی علوم و فنون کا مرکز تھا، ملتان میں بہت لوگ ان کے معتقد ہوئے۔
والد ماجد : آپ کے والد ماجد کا نام شیخ وجیہہ الدین تھا۔
والدہ ماجدہ : آپ کی والدہ ماجدہ کا نام بی بی فاطمہ ہے جو مولانا حسام الدین ترمزی کی دختر تھیں، جب تاتاریوں کی لوٹ مار شروع ہوئی اور بد امنی پھیلی تو مولانا حسام الدین اپنے وطن ترمذ سے قلعہ کوٹ کڑوڑ جس کو سلطان محمود غزنونی نے فتح کیا تھا، تشریف لائے اور وہیں رہنے لگے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کی والدہ بی بی فاطمہ کے والد کا نام حضرت عیسیٰ ہے جو حضرت غوث الاعظم شیخ جیلانی کی اولاد میں تھے، وہ ہامہ رہتے تھے، جب آپ کے والد ماجد شیخ وجیہہ الدین ہامہ گئے تو حضرت عیسیٰ نے اپنی لڑکی بی بی فاطمہ کی شادی ان سے کردی، وہ کچھ دن ہامہ رہے اور پھر کوٹ کڑوڑ آئے اور وہیں مستقل سکونت اختیار کی۔
پیدائش : آپ صبح کے وقت جمعہ کے دن 27 رمضان 566ھ کو کوٹ کڑوڑ میں پیدا ہوئے۔
نام : آپ کا نام بہاؤالدین ہے۔
کنیت : آپ کی کنیت ابو محمد ہے، بعض نے آپ کی کنیت ابوالبرکات بھی لکھی ہے۔
ابتدائی زندگی : آپ مادرزاد ولی تھے، بچپن سے ہی آپ میں آثارِ بزرگی نمایاں تھے، آپ کے والد ماجد جب قرآن شریف پڑھتے اور آپ آواز سنتے تو آپ فوراً دودھ پینا چھوڑ دیتے تھے اور قرآن شریف سننے میں محو ہوجاتے تھے، ابھی آپ مکتب ہی میں پڑھتے تھے کہ ایک دن آپ نے فرمایا کہ
”جس وقت خداوند تعالیٰ نے الست بِربکم فرمایا تھا، اس وقت سے لے کر اب تک کے واقعات مجھے یاد ہیں“
آپ نے والدین، دادا اور نانا کی نگرانی میں پرورش پائی۔
بچپن کا صدمہ : آپ جب بارہ سال کے ہوئے تو والد ماجد کا سایہ آپ کے سر سے اٹھ گیا۔
تعلیم و تربیت : آپ کی تعلیم و تربیت پر آپ کے والدین نے کافی توجہ دی، آپ کی تعلیم چھوٹی عمر سے شروع ہوئی، آپ نے سات سال کی عمر میں سات قرأت کے ساتھ قرآن حفظ کیا، والد ماجد کی وفات کے بعد آپ خراسان تشریف لے گئے، وہاں سات سال درسِ ظاہر میں مشغول رہے، بعد ازاں بخارا آگئے اور وہاں علم کی تکمیل کی، وہاں آپ ”بہاؤالدین فرشتہ“ کے نام سے مشہور ہوئے، مدینہ پہنچ کر آپ نے شیخ کمال الدین محمد یمنی سے جن کا شمار محدثینِ کبار میں تھا، درسِ حدیث لیا اور اجازت نامہ بھی حاصل کیا، آپ نے مدینہ میں پانچ سال قیام کیا۔
سیرو سیاحت: آپ نے خراسان، بخارا، مکہ، مدینہ اور بیت المقدس میں بہت سے درویش سے ملاقات کی، اور ان سے بہت سے فیوض حاصل کئے۔
بیعت و خلافت : بغداد آکر آپ شیخ شہاب الدین عمر سہروردی سے بیعت ہوئے، حضرت نظام الدین اؤلیا فرماتے ہیں کہ آپ سترہ روز تک شیخ شہاب الدین عمر سہروردی کی خدمت میں رہے اور بہت نعمت ان سے پائی، یہ دیکھ کر شیخ شہاب الدین عمر سہروردی کے اور مریدوں کو یہ بات ناگوار ہوئی، انہوں نے ان لوگوں سے کہا کہ ان کی شکایت بیجا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ
”تم مثلِ لکڑی کے تر ہو اور زکریا مثلِ لکڑی خشک کے ہے، پس آگ خشک لکڑی کو جلد پکڑتی ہے“
مرید ہونے کے بعد آپ کو خرقۂ خلافت کی آرزو ہوئی، ایک رات آپ نے خواب میں دیکھا کہ ایک مکان نور کا ہے اور اس مکان میں سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے ہیں اور آپ کے پیر و مرشد شیخ شہاب الدین عمر سہروردی مؤدب کھڑے ہیں، ایک طناب ہے اور اس پر بہت سے خرقے لٹک رہے ہیں، اسی درمیان میں آپ کی طلبی ہوئی، آپ کے پیر و مرشد نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا اور قدم بوس کرایا، سرورِ عالم نے ایک خرقہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ
”اے عمر ! اس خرقہ کو شیخ بہاؤالدین غوث العالم کو پہنا دو“
آپ کے پیر و مرشد نے حسب فرمان سرورعالم اس خرقہ کو طناب سے اتار کر آپ کو پہنا دیا پھر قدموں پر گرایا اور قدم بوس کرایا، جب صبح ہوئی تو آپ کے پیر و مرشد نے آپ کو اپنے پاس بلایا، آپ نے مکان اسی طرح کا پایا جیسا کہ خواب میں دیکھا تھا، آپ کے پیر و مرشد شیخ شہاب الدین سہروردی نے اس خرقہ کو جس کو سرورعالم نے پہنانے کا حکم دیا تھا، طناب سے اتار کر اپنے ہاتھ سے آپ کو پہنایا اور فرمایا کہ
”بابا بہاؤالدین! یہ سب خرقے سرورعالم کے ہیں، میں تو درمیان میں صرف ایک واسطہ ہوں، بے اجازت سرورعالم کے کسی کو نہیں پہنا سکتا جیسا تم نے معاملہ شب گزشتہ میں اپنی آنکھوں سے معائنہ کیا ہے“
خرقۂ خلافت عطا کرنے کے بعد آپ کے پیر و مرشد نے آپ کو ملتان جانے کی تاکید فرمائی۔
روانگیٔ ملتان : اپنے پیر و مرشد سے رخصت ہوکر آپ ملتان روانہ ہوئے، راہ میں آپ کی ملاقات ایک عالم فاضل قلندر سے ہوئی، ان کا نام سید عبدالقدوس تھا وہ موصل کے رہنے والے تھے، انہوں نے سید جمال الدین مجرد کی قبر پر جاکر قلندروں کا جامہ پہن لیا تھا، آپ نے ان کا قلندرانہ جامہ اتروایا اور عالم جذب سے ان کو عالمِ سلوک کو پہنچایا، نیشاپور تک شیخ جلال الدین تبریزی آپ کے ہمراہ آئے، نیشاپور پہنچ کر آپ ان سے الگ ہوگئے۔
ملتان میں آمد : آپ نے ملتان پہنچ کر مستقل سکونت اختیار فرمائی، ملتان کے درویشوں کو آپ کا آنا ناگوار گزرا، انہوں نے کوشش کی کہ آپ ملتان سے چلےجائیں، ایک پیالہ دودھ بھر کر آپ کے پاس بھیجا، اس سے مطلب یہ تھا کہ اس شہر میں دوسرے کی گنجائش نہیں ہے، آپ اس کنایہ کا مطلب سمجھ گئے، آپ نے ایک پھول اس پیالے پر رکھ دیا اور وہ پیالہ واپس کردیا، آپ نے اس طرح سے اس بات کا اظہار کیا کہ ان کی جگہ اس شہر میں اس طرح ہوگی جیسے کہ پھول دودھ پر ہے، ملتان کے درویشوں کو تعجب ہوا وہ آپ کے معتقد ہوئے۔
عہدہ : سلطان شمس الدین التمش نے نجم الدین صغریٰ کو شیخ الاسلام کے عہدے سے علیحدہ کردیا، نجم الدین صغریٰ نے حضرت جلال الدین تبریزی پر ایک طوائف سے جس کا نام گوہر تھا، زنا کا الزام لگایا، طوائف نے بعد میں بتایا کہ الزام غلط ہے اور نجم الدین صغریٰ کے پانچ سو اشرفیاں دینے کے لالچ میں اس نے ایسا کیا، اس جھوٹے بہتان کی سزا میں نجم الدین صغریٰ کو اپنے عہدے سے دست بردار ہونا پڑا، نجم الدین صغریٰ کے بجائے آپ شیخ الاسلام مقرر ہوئے۔
اولاد : آپ کے سات لڑکے تھے جن کے نام حسبِ ذیل ہیں۔
شیخ صدرالدین عارف، شیخ برہان الدین، شیخ ضیاؤالدین، شیخ علاؤالدین، شیخ شہاب الدین، شیخ قدوۃ الدین، شیخ شمس الدین۔
وفات : آپ 7 صفر 666ھ کو بروز جمعرات جوارِ رحمت میں داخل ہوئے، آپ کی عمر سو سال کی تھی۔
خلفا : آپ کے لڑکے حضرت شیخ صدرالدین عارف آپ کے خلیفہ اور سجادہ نشیں تھے، آپ کے مقتدر علما حسبِ ذیل ہیں۔
حضرت سید جلال الدین سرخ بخاری، حضرت شیخ حسن افغان، حضرت سید عثمان معروف بہ لعل شہباز، حضرت شیخ فخرالدین ابراہیم عراقی، حضرت سید صدرالدین احمد معروف بہ سید حسین۔
سیرت : آپ کے یہاں زراعت اور تجارت بڑے پیمانے پر ہوتی تھی، ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرتے تھے، آپ کا لنگر عام تھا، آپ بہت مخیر تھے، دنیا سے بے پروا تھے، سادگی اور قناعت کے ساتھ زندگی گزارتے، بہت کم کھاتے لیکن قوی غذا کھاتے، علمائےکرام، مشائخِ عظام اور مہمانوں کی بہت عزت اور خاطر کرتے، شروع زندگی میں روزے بہت رکھتے، آخری عمر میں روزانہ روزہ رکھتے تھے، ہر شب ایک قرآن ختم کرتے، تحمل و بردباری، ذوق و شوق، بے ہوشی و مدہوشی اور استغراق آپ کی نمایاں خصوصیات تھیں، آپ کو سماع کا شوق تھا۔
شعر و شاعری : آپ شاعر بھی تھے، غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی کی شان میں آپ کی ایک مشہور منقبت ہے جس کے چند اشعار ذیل میں پیش کئے جاتے ہیں۔
معلا حبِّ سبحانی مقدس قطبِ ربانی
علی سیرت حسن ثانی محی الدین جیلانی
مدد یا شاہِ جیلانی بریں افتادہ حیرانی
تو ملجائی و جانانی محی الدین جیلانی
چہ تا با ید ثنا خوانی اگر خواہد ہمیدانی
کنی ہر مشکل آسانی محی الدین جیلانی
مددیا شاہِ جیلانی نظر یا شاہِ صمدانی
کرم یا شیخِ ربانی محی الدین جیلانی
بکن کارم گہ بتوانی غریبم در پریشانی
جہاں را پیر و پیرانی محی الدین جیلانی
بدل از صدق روحانی چوں مدح پیرِ پیرانی
مرا از غم تو برہانی محی الدین جیلانی
سگ درگاہِ جیلانی بہاؤالدین ملتانی
لقائے دین سلطانی محی الدین جیلانی
تعلیمات : آپ نے فرمایا کہ
”مالِ دنیا کتناہی کیوں نہ ہو، تاہم قلیل ہے اور سانپ کی صحبت اس شخص کو نقصان پہنچاتی ہے جو افسوں اس کا نہ جانتا ہو، میرے نزدیک مالِ دنیا کی کوئی حقیقت نہیں ہے، یہ تو ایک میل مرے رخسارۂ حال کی ہے“
آپ نے فرمایا کہ
”فقیروں کے نزدیک عدم اور وجود مالِ دنیا کا یکساں ہے، نہ جانے کا غم، نہ آنے کی خوشی“
اقوالِ زریں : آپ کے چند اقوال پیش کئے جاتے ہیں جو حسب ذیل ہیں۔
• زہد تین چیزیں ہیں، جس میں یہ نہیں وہ زاہد نہیں۔
• اول شناخت حق دنیا اور دست بردار ہونا اس سے۔
• دوم خدمتِ مولیٰ اور نگاہ رکھنا اس کے آداب کا۔
• سوئم آرزو مند رہنا آخرت کا اور طلب کرنا اس کا۔
• سلامتی جسم کی قلتِ طعام میں ہے اور سلامتی روح کی ترک انام میں اور سلامتی دین کی صلوٰۃ حضرت خیرالانام میں۔
کشف و کرامات : حضرت سید جلال الدین سرخ بخاری جب ملتان آئے تو ایک روز گرمی سے تنگ آکر بخارا کے موسم کو یاد کرنے لگے، آپ کو یہ بات کشف سے معلوم ہو گئی، آپ نے اپنے ایک خادم کو مسجد میں بھیجا اور یہ تاکید فرمائی کہ صفیں لپیٹ کر مسجد کے صحن میں جھاڑو دیں، اتنے میں بادل نمودار ہوا، خوب بارش ہوئی، اولے گرے، مسجد سے باہر نہ بارش ہوئی اور نہ اولے، ظہر کی نماز کے وقت آپ مسجد میں آئے اور حضرت جلال الدین سرخ بخاری سے مسکرا کر فرمایا کہ
”کہئے سید، اولے ملتان کے بہتر ہیں یا برف بخارا کا“
انہوں نے عرض کیا کہ
”اس صورت میں تو اولے ملتان کے سو درجہ بہتر ہیں“
آپ نے ان کو اسی روز خرقۂ خلافت سے مشرف فرمایا۔
آپ کے ایک مرید خواجہ کمال الدین مسعود شیرازی جواہرات کی تجارت کرتے تھے، ایک بار ان کا جہاز طوفان میں گھر گیا، انہوں نے آپ کو یاد کیا اور آپ سے امداد چاہی، آپ جہاز پر نمودار ہوئے، سب مسافروں نے آپ کو بخوبی دیکھا، آپ نے سلامتی کی بشارت دی، جہاز بخیر و خوبی عدن پہنچا، عدن پہنچ کر مسافروں نے اپنا تہائی مال خواجہ کمال الدین کو بطورِ نذرانہ و شکرانہ دیا۔
خواجہ کمال الدین نے وہ سب مال اور اپنے نصف جواہرات اپنے بھانجہ خواجہ فخرالدین گیلانی کو دے کر ان کو آپ کی خدمت میں روانہ کیا، خواجہ فخرالدین وہ مال و جواہرات لے کر ملتان آئے، انہوں نے جب آپ کو دیکھا فوراً پہنچان لیا اور اسی لباس میں پایا جس میں انہوں نے آپ کو جہاز پر دیکھا تھا۔
وہ مال و جواہرات آپ نے تیس دن کے اندر لوگوں کو تقسیم کردیا، اس مال کی قیمت ستر لاکھ تنکہ تھی، خواجہ فخرالدین نے جب آپ کی یہ فیاضی دیکھی تو اپنا مال بھی تقسیم کردیا، فقیری اختیار کی، آپ کے مرید ہوئے، بعد ازاں حج کو گئے اور جدہ میں وفات پائی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.