Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

بابا فریدالدین مسعود گنج شکر

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

بابا فریدالدین مسعود گنج شکر

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

MORE BYڈاکٹر ظہورالحسن شارب

    دلچسپ معلومات

    خم خانۂ تصوف۔ باب 8

    حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر برہان الشریعت، سلطان الطریقت اور گنج حقیقت ہیں۔

    خاندانی حالات : آپ کا نسب نامہ پدری امیرالمؤمنین حضرت عمر بن خطاب تک پہنچتا ہے، آپ کابل کے بادشاہ فرخ شاہ کے خاندان سے تھے، کابل کی لڑائی میں آپ کے مورثِ اعلیٰ نے شہادت پائی، آپ کے دادا قاضی شعیب فاروقی مع تین لڑکوں اور سامان کے لاہور تشریف لائے، لاہور سے قصور گئے، وہاں ان کو کھتوال کا قاضی مقرر کیا گیا اور پھر وہیں رہنے لگے۔

    والد : آپ کے والد ماجد کا نام شیخ جمال الدین سلیمان ہے۔

    والدہ : آپ کی والدہ ماجدہ بی بی قرسم خاتون مولانا وجیہہ الدین خجندی کی دختر تھیں۔

    بھائی : آپ کے بڑے بھائی کا نام اعزالدین محمود ہے، آپ کے چھوٹے بھائی حضرت نجیب الدین متوکل آپ کے مرید و خلیفہ تھے۔

    بہن : آپ کی بہن کا نام ہاجرہ ہے جو جمیلہ خاتون کے لقب سے مشہور ہیں۔

    ولادت : آپ نے 575ھ میں اس عالم کو زینت بخشی، بعض نے آپ کی پیدائش 569ھ میں ہونا لکھا ہے۔

    کرامت : رمضان کے چاند میں شک تھا، ایک بزرگ وہاں مقیم تھے، لوگوں نے ان سے پوچھا کہ روزہ رکھا جائے یا نہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ قاضی (شیخ جمال الدین) کے یہاں ایک بچہ ہوگا، اگر اس نے دودھ پیا تو روزہ نہیں رکھنا چاہئے، اسی رات کو آپ کی ولادت واقع ہوئی، آپ نے دودھ نہیں پیا، لوگوں نے روزہ رکھا۔

    نام : آپ کا نام ”مسعود“ ہے۔

    فریدالدین کہلانے کی وجہ : حضرت فریدالدین عطار نے آپ کو فریدالدین کا نام عنایت کیا، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فریدالدین لقب ہے جو بارگاہ ایزدی سے آپ کو عطا ہوا۔

    لقب : آپ ”گنج شکر“ کے لقب سے مشہور ہیں۔

    لقب کے وجوہات : آپ دہلی میں مقیم تھے، ایک دن خوب بارش ہوئی، کیچڑ کی وجہ سے چلنا پھرنا دشوار ہوگیا، آپ کو اپنے پیرومرشد قطب الدین بختیار کاکی کی قدم بوسی کا شوق ہوا، کھڑاؤں پہنے روانہ ہوئے، سات روز سے کچھ نہیں کھایا تھا، روزے رکھ رہے تھے، آپ کا پاؤں پھیل گیا، آپ کے منہ میں تھوڑی کیچڑ جا پڑی، وہ کیچڑ خداوندِ تعالیٰ کے حکم سے شکر ہوگئی، جب آپ اپنے پیرومرشد کی خدمت میں پہنچے تو انہوں نے فرمایا کہ

    ”اے فرید! جب کہ تھوڑی کیچڑی تیرے منہ میں پہنچی اور وہ شکر ہوگئی، خداوند تعالیٰ نے تیرے وجود کو شکر بنایا اور خداوند تعالیٰ تجھ کو ہمیشہ میٹھا رکھے گا“

    اس کے بعد آپ جہاں بھی جاتے لوگ کہتے کہ شیخ فریدالدین مسعود گنج شکر آتے ہیں۔

    دوسری وجہ یہ ہے کہ ایک سوداگر بیلوں پر شکر لادے لئے جارہا تھا، آپ نے اس سے شکر مانگی، اس سوداگر نے کہا کہ ”نمک ہے“ شکر نہیں ہے، آپ نے فرمایا کہ ”اچھا نمک ہی ہوگا“ وہ سوداگر جب منزلِ مقصود پر پہنچا اور بورے کھولے تو دیکھا کہ سب میں بجائے شکر کے نمک تھا، وہ آپ کی خدمت میں حاضرا ہوا اور دعا کا طالب ہوا، آپ نے فرمایا کہ

    ”شکر ہوجائے گی“

    چنانچہ وہ نمک شکر ہوگیا، اس روز سے آپ ”گنج شکر“ کے لقب سے مشہور ہوئے۔

    بچپن کا صدمہ : ابھی آپ نے ہوش بھی نہیں سنبھالا تھا کہ آپ کے والدماجد نے اس دارفانی سے کوچ کیا۔

    تعلیم و تربیت : آپ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی، بارہ سال کی عمر میں آپ نے قرآن شریف حفظ کیا، جب آپ کی عمر پندرہ سال کی ہوئی تو ملتان تشریف لائے اور مولانا منہاج الدین ترمذی سے فقہ کی مشہور کتاب ”نافع“ پڑھی اور علوم دینیہ حاصل کئے پھر آپ قندھار تشریف لے گئے، وہاں پانچ سال قیام فرمایا، تفسیر، حدیث، فقہ، صرف و نحو، منطق وغیرہ میں اعلیٰ قابلیت حاصل کی۔

    بیعت و خلافت : ایک دن آپ ایک مسجد میں جو محلہ سرائے حلوائی میں واقع تھی، بیٹھے ہوئے تھے، مولانا منہاج الدین ترمذمی اسی مسجد میں درس دیا کرتے تھے، آپ ”نافع“ کا مطالعہ کر رہے تھے۔

    قطب الدین بختیار کاکی جب ملتان تشریف لائے تو پہلے اسی مسجد میں آئے، قطب صاحب نماز سے فارغ ہوکر آپ کے پاس تشریف لائے، آپ سے پوچھا کہ

    ”مسعود ! تو چہ می خوانی“

    (مسعود ! تم کیا پڑھتے ہو؟)

    آپ نے جواب دیا کہ

    ”کتاب نافع“

    یہ سن کر قطب صاحب نے فرمایا کہ

    ”میدانی کہ نفع تو ازیں نافع خواہد بود“

    (تم جانتے ہو کہ نافع سے تمہیں نفع ہوگا)

    آپ نے عرض کیا کہ

    ”مجھے تو حضرت کی قدمبوسی سے نفع ہوگا“

    یہ کہہ کر آپ اٹھے اور سرِ نیاز قطب صاحب کے قدموں پر رکھا، ملتان میں کچھ دن قیام کر کے قطب صاحب دہلی روانہ ہوگئے، آپ نے بھی دہلی جانا چاہا لیکن قطب صاحب نے آپ کو اجازت نہ دی، آپ نے تعلیم جاری رکھنے کی تاکید فرمائی، آپ قطب صاحب کے ہمراہ تیس منزل تک آئے، آپ 590ھ میں قطب صاحب کی بیعت سے مشرف ہوئے، اس وقت آپ کی عمر پندرہ سال کی تھی، تحصیلِ علم سے فارغ ہوکر آپ 595ھ میں دہلی آئے اور غزنی کے دروازے کے قریب ایک حجرہ میں رہنے لگے، بعد ازاں خرقۂ خلافت سے سرفراز ہوئے، آپ کے پیرومرشد قطب صاحب نے اپنا خاص مصلیٰ اور عصا آپ کو عنایت فرمایا اور آپ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ

    ”میں تمہاری امانت یعنی سجادہ، دستار اور نعلین جو کہ دست بدست پیران چشت سے مجھ کو پہنچی ہیں، قاضی حمیدالدین ناگوری کے سپرد کر دوں گا اور جب تم پانچویں روز (وفات) کے ہانسی سے میری قبر پر آؤگے، وہ یہ امانتِ پیراں تم کو پہنچا دیں گے“

    حسب فرمان قطب صاحب وہ تمام تبرکات قاضی حمیدالدین ناگوری اور حضرت بدرالدین غزنوی نے آپ کے سپرد کئے، آپ نے اپنے پیر و مرشد کا خرقہ پہنا، اس مصلیٰ پر دوگانہ ادا کیا اور اپنے پیرومرشدکے مکان میں قیام کیا، پھر آپ دہلی سے ہانسی روانہ ہوگئے اور ہانسی پہنچ کر عبادت و ریاضت میں مشغول ہوئے۔

    سیر و سیاحت : آپ نے عراق، شام، سیوستان، غزنی، بخارا، قندھار وغیرہ کی سیروسیاحت فرمائی اور شیخ شہاب الدین عمر سہروردی، شیخ سیف الدین خضری، شیخ سعیدالدین جموی، شیخ بہاؤالدین زکریا، اوحدالدین کرمانی اور شیخ فریدالدین محمد عطار نیشاپوری کی صحبت سے مستفید ہوئے، آپ نے شیخ الاسلام اجل شیرازی اور شیخ شہاب الدین زندوبس سے بھی فیوض و برکات حاصل کئے۔

    اجودھن میں سکونت : ہانسی سے سکونت ترک کر کے آپ اجودھن میں جو آج کل پاک پٹن کے نام سے مشہور ہے رونق افروز ہوئے، قاضی اجودھن آپ کے سخت مخالف تھا لیکن اس کی مخالفت کارگر نہ ہوئی، آپ برابر رشد و ہدایت فرماتے رہے، شہاب الدین ساحر کے لڑکے نے آپ پر جادو کیا، آپ نے اس کا قصور معاف کیا۔

    عبادات و مجاہدات : آپ خود فرماتے ہیں کہ

    ”میں بیس برس عالمِ تفکر میں کھڑا رہا بالکل نہیں بیٹھا، میرے پاؤں سُوج گئے تھے اور خون ان سے بہتا تھا مجھے یاد نہیں کہ ان بیس سال میں میں نے کچھ کھایا ہوں یا نہیں“

    آپ نے ایک مرتبہ طے کا روزہ رکھا، ایک مرتبہ آپ نے چلۂ معکوس کیا اور ایک مرتبہ روزۂ داؤدی رکھا۔

    انشراح : حضرت جلال الدین تبریزی آپ سے کھتوال میں ملے، وہ جو انار لائے تھے اس کا ایک دانہ زمین پر پڑا رہ گیا تھا، آپ نے وہ دانہ اٹھا کر دستار میں رکھا اور اس دانے سے افطار کیا، طبیعت میں انشراح محسوس ہوا، جب اس کا ذکر اپنے پیر دستگیر سے کیا تو انہوں نے فرمایا کہ سب کچھ اسی ایک دانے میں تھا۔

    خواجہ غریب نواز کا لطف و کرم : جس زمانے میں آپ دہلی میں ریاضت و مجاہدہ میں مشغول تھے خواجۂ معین الدین حسن چشتی دہلی میں رونق افروز ہوئے اور قطب صاحب کی خانقاہ میں قیام فرمایا، خواجہ غریب نواز نے قطب صاحب کے سب مریدوں کو نعمت سے مالا مال کیا، جب سب نعمت پاچکے تو خواجہ غریب نواز نے قطب صاحب سے دریافت فرمایا کہ

    ”تمہارے مریدوں میں سے کیا کوئی نعمت پانے سے رہ گیا ہے؟“

    قطب صاحب نے عرض کیا۔

    ”جی ہاں، مسعود (بابا فریدالدین گنج شکر) رہ گیا ہے، وہ چلہ میں بیٹھا ہے“

    خواجہ غریب نواز اور قطب صاحب آپ کے حجرہ پر تشریف لے گئے، خواجہ غریب نواز نے آسمان کی طرف منہ کر کے آپ کے واسطے دعا فرمائی اور بارگاہِ ایزدی میں عرض کیا کہ

    ”خدایا! ہمارے فرید کو قبول فرما اور اکمل درویش کے مرتبہ پر پہنچا“

    غیب سے آواز آئی۔

    ”ہم نے فرید کو قبول کیا، وہ وحیدِ عصر ہوگا“

    خواجہ غریب نواز نے قطب صاحب کو ہدایت فرمائی کہ

    ”اسمِ اعظم جو خواجگانِ چشت میں سینہ بسینہ چلا آتا ہے اسے تلقین کرو“

    آپ پر علمِ لدنی کا انکشاف ہوا اور حجابات کے پردے اٹھ گئے۔

    پیشین گوئی : خواجہ غریب نواز نے آپ کے متعلق پیشین گوئی فرمائی اور قطب صاحب سے آپ کے متعلق فرمایا کہ

    ”قطب ! بڑا شہباز کو دام میں لائے اس کا آشیانہ سدرۃ المنتہیٰ ہوگا“

    بخشش :

    خواجہ غریب نواز نے آپ کو خلعت عطا فرما کر سرفراز فرمایا، قطب صاحب نے آپ کو دستار، مثال اور خلافت کے دیگر لوازمات عطا فرمائے، ایک شاعر نے جو اس موقع پر موجود تھا فی البدیہہ حسبِ ذیل اشعار پڑھے۔

    بخششِ کونین از شیخین شد در بابِ تو

    بادشاہی یافتن از بادشاہانِ جہاں

    مملکت دنیا و دیں گشتہ مسلم برترا

    عالمِ کن گشتہ اقطاعِ تو اے شاہِ جہاں

    سلاطین کی باریابی : سلطان ناصرالدین جب اوچہ و ملتان گیا تو آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، واپسی پر اس نے چار گاؤں کا فرمان اور کچھ نقدی آپ کی خدمت میں بھیجی، آپ نے گاؤں کی مثال واپس کردی اور نقدی وصول فرما کر درویشوں پر خرچ کی۔

    سلطان بلبن کو مژدہ : الفخان کو جو بعد میں سلطان غیاث الدین بلبن کے لقب سے مشہور ہوا، آپ نے تاج و تخت کا مژدہ دیا، چنانچہ وہ بادشاہ ہوا، اس نے اپنی لڑکی بی بی نہریزہ کی شادی آپ سے کی۔

    ازواج و اولاد : آپ نے چار شادیاں کیں، آپ کی پہلی شادی بی بی نہریزہ سے ہوئی، بی بی نہریزہ سلطان غیاث الدین بلبن کی صاحبزادی تھیں، آپ کی دوسری شادی بی بی کلثوم سے ہوئی جو شیخ نصراللہ کی والدہ ہیں، تیسری شادی بی بی شارو سے ہوئی اور چوتھی بی بی سکر سے، آپ کے پانچ لڑکے اور تین لڑکیاں تھیں، آپ کے صاحبزادوں کے نام حسبِ ذیل ہیں، خواجہ نصیرالدین نصراللہ، شیخ شہاب الدین، شیخ بدرالدین سلیمان، شیخ نظام الدین اور شیخ یعقوب، آپ کے صاحبزادے شیخ عبداللہ کا صغر سنی میں انتقال ہوگیا تھا، آپ کی صاحبزادیوں کے نام حسبِ ذیل ہیں، بی بی مستورہ، بی بی شریفہ، بی بی فاطمہ۔

    وفات شریف :

    آپ یا حیُّ یا قیّوم کہتے ہوئے 5 محرم الحرام 670ھ کو جوارِ رحمت میں داخل ہوئے، بعض نے آپ کا سنہ وفات 664ھ لکھا ہے، مزارِ پرانوار پاک پٹن میں فیوض و برکات کا سرچشمہ ہے۔

    خلفا : آپ کے صاحبزادے حضرت بدرالدین سلیمان آپ کے سجادہ نشیں ہوئے، بعض نے لکھا ہے کہ آپ کے خلفا پچاس ہزار سے زیادہ تھے، آپ کے مشہور خلفا حسبِ ذیل ہیں۔

    آپ کے پانچوں صاحبزادے شیخ نصیرالدین نصراللہ، شیخ شہاب الدین، شیخ بدرالدین سلیمان، شیخ نظام الدین اور شیخ یعقوب تھے، آپ کے داماد بدرالدین اسحٰق اور آپ کے چھوٹے بھائی، شیخ نجیب الدین متوکل اور آپ کے بھانجے علی احمد صابر تھے، ان خاندانی افراد کے علاوہ حضرت جمال الدین ہانسوی، حضرت نظام الدین اؤلیا، شیخ محمد سراج علی شکر ریز دھنی، شیخ علی شکربار، شیخ زکریا، شیخ زین الدین دمشقی، شیخ بابا دہار، جمال کابلی، شیخ جلال الدین، شیخ صدر دیوانہ، شیخ رکن الدین۔

    آپ کی وفات کے بعد حضرت نظام الدین اؤلیا اجودھن آئے تو آپ کے داماد حضرت بدرالدین اسحٰق نے آپ کی وصیت کے مطابق جامہ ان کو دیا۔

    سیرت : آپ ریاضت، عبادت، معاہدہ، فقر اور ترک و تجرید میں بے نظیر تھے، شہرت پسندی نہ فرماتے تھے، آپ کو استغراق بہت تھا، تحمل، بردباری، قناعت، توکل، تقویٰ، ورع، عشق، ذوق و شوق کا مجسمہ تھے، آپ کو سماع کا بہت شوق تھا، آپ حسب ذیل رباعی بہت پڑھتے تھے۔

    رباعی

    خواہم کہ ہمیشہ در رضائے تو زیم

    خاکی شوم و بزیر پائے تو زیم

    مقصودم خستہ ز کونین توئی

    از بہرِ تو میرم و برائے تو زیم

    اپنے پیرومرشد کے نہایت فرماں بردار تھے، آپ کے گھر میں فقر و فاقہ رہتا تھا، جب آپ کا وصال ہوا تو گھر میں کفن کے لئے پیسہ نہ تھا، مکان کا دروازہ توڑ کر اس کی اینٹیں قبر میں لگائی گئیں، آپ ہمیشہ روزہ رکھتے تھے، شربت کے ایک پیالے سے جس میں منقیٰ ہوتی تھی، افطار کرتے تھے، تھوڑا خود پیتے تھے باقی حاضرین کو تقسیم کر دیتے تھے، دو روغنی روٹیوں میں سے ایک خود تناول فرماتے تھے اور دوسری روٹی کے ٹکڑے کرکے حاضرین کو تقسیم کر دیتے تھے، جب آپ اجودھن تشریف لائے تو شروع میں آپ اور آپ کے متعلقین پیلو اور دیلہ پر گزارہ کرتے تھے، آپ کے مریدوں نے سالہا سال زنبیل گردان کی ہے کھانے میں نمک نہیں ہوتا تھا۔

    آپ کی پوشاک شکستہ ہوتی تھی، آپ کے پاس ایک کمبل تھا جو اتنا چھوٹا تھا کہ جب پیروں پر ڈالتے تو سر کھل جاتا اور جب سر پر ڈالتے تو پیر کھل جاتے، توکل کا یہ حال تھا کہ جو کچھ آتا خرچ کر دیتے تھے، آپ ایک عالم بھی تھے، فصاحت و بلاغت میں بے مثال تھے۔

    علمی ذوق : آپ نے اپنی مشہور کتاب ”فوائدالسالکین“ میں اپنے پیرومرشد کے ملفوظات جمع کئے ہیں، رسالہ ”موجود وجود“ رسالہ ”گفتار“ اور ”الٰہی نامہ“ بھی آپ کی تصانیف بتائی جاتی ہیں، آپ شاعر بھی تھے۔

    فہم و ادراک : شیخ بہاؤالدین زکریا نے اپنے ایک خط میں آپ کو لکھا ہےکہ

    ”میاں ما و شما عشق بازی است“

    (ہمارے اور تمہارے درمیان عشق بازی ہے)

    آپ نے جواب دیا کہ

    ”میان ما و شما عشق ہست و بازی نیست“

    (ہمارے اور تمہارے درمیان عشق ہے، بازی نہیں ہے)

    تعلیمات : آپ کی تعلیمات تصوف کا بیش بہا خزانہ ہیں، آپ فرماتے ہیں کہ

    توبہ کی چھ قسمیں ہیں، اول دل اور زبان سے توبہ کرنا، دوسرے آنکھ کی، تیسرے کان کی، چوتھے ہاتھ کی، پانچویں پاؤں کی اور چھٹے نفس کی۔

    آپ فرماتے ہیں کہ درویش جو اس دنیائے دنیٰ کی رفعت و جاہ کا خواستگار ہوا اور اپنی ذات کو لطفِ مردماں کا اسیر کرنے کی کوشش کرے، پس اس کی نسبت جاننا چاہئے کہ وہ درویش نہیں ہے، درویشوں کا نام بدنام کرنے والا ہے اور مرتدِ طریقت ہے، کیونکہ فقرا کو دنیا سے اعراض ہے“

    آپ فرماتے ہیں کہ محبت کے مقامات سات سو ہیں، پہلا مقام یہ ہے کہ جو بلا دوست کی طرف سے اس پر نازل ہو اس پر صبر کرے“

    آپ فرماتے ہیں کہ ”جب تک ان چار عالم سے اپنے تئیں نگاہ نہیں رکھ سکتا تیرے لئے کلاہ پہننا واجب نہیں۔

    1 عالمِ چشم یعنی آنکھ کو ناقابلِ دید چیزوں کے دیکھنے سے روکے۔

    عالم گوش یعنی کانوں کو ناقابلِ شنید باتوں کے سننے سے روکے۔

    عالم زبان یعنی جب تک تو زبان کو گونگا نہ بنائے گا کلاہ کا مستحق نہیں۔

    عالم دست و پا جب تک ہاتھ پاؤں کو ممنوعہ اعمال سے نہ روکے گا کلاہ کے لائق نہیں۔

    آپ فرماتے ہیں ایک جواب میں کہ

    ”چار چیزوں کے متعلق سات سو پیران طریقت سے پوچھا گیا سب نے ایک سا جواب دیا’’

    س : آدمیوں میں سب سے زیادہ عقلمند کون ہے؟

    ج۔ گناہوں کو ترک کرنے والا

    س : آدمیوں میں سب سے زیادہ ہوشیار کون ہے؟

    ج : جو کسی چیز سے پریشان نہ ہو۔

    س : آدمیوں میں سے سب سے زیادہ غنی کون ہے؟

    ج : قناعت کرنے والا۔

    س : آدمیوں میں سب سے محتاج کون ہے؟

    ج : قناعت کو ترک کرنے والا۔

    اقوال : کام سے واقف وہی لوگ ہیں جن میں یہ دونوں باتیں یعنی عشق اور عقل پائی جاتی ہیں۔

    • تصوف مولیٰ کی صفات اور دوستی کا نام ہے۔

    • زندہ دل وہ ہے جس میں محبتِ خدا ہے۔

    • سماع راحت دل ہے اور اہلِ محبت کو جنبش دینے والا ہے جو بحرِ محبت میں شناوری کرتا ہے۔

    • اگر زندگی ہے تو علم میں ہے اگر راحت ہے تو معرفت میں ہے، اگر شوق ہے تو محبت میں ہے، اگر ذوق ہے تو ذکر میں ہے۔

    اوراد و وظائف : چند اوراد و وظائف ذیل میں پیش کئے جاتے ہیں۔

    حاجت پوری ہونے کے واسطے آپ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص صبح کو سنتوں اور فرضوں کے درمیان تین روز تک سورۂ بقرہ پڑھے اس کا مقصد پورا ہو۔

    آپ فرماتے ہیں کہ جو شخص ستر بار سورۂ انعام پڑھے اس کی حاجت پوری ہو۔

    غم و فکر دور کرنے کے لئے آپ فرماتے ہیں جو شخص ’’لا الٰہَ اِلّا اَنت سبحانک انی کنت من الظالمین‘‘ پڑھے تو غم و فکر سے نجات پائے۔

    معاشی تنگی دور کرنے کے لئے آپ فرماتے ہیں کہ حسب ذیل دعا اکثر پڑھنے سے معاشی تنگی دور ہوتی ہے۔

    ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم یا دائمُ العِزُّ والمُلکِ والبقاءِ یا ذوالجلالِ والجُودِ والفَضلِ والعطاءِ یا ودُودُ ذوالعرشِ المجیدِ یا فعالٌ الِّماَ یُرِیدُ‘‘

    کشف و کرامات : ایک درویش آپ کے پاس آیا، آپ نے اس کو کچھ دے کر رخصت کرنا چاہا وہ نہیں گیا، اس نے کنگھی جو مصلے پر رکھی تھی مانگی، آپ نے کوئی جواب نہ دیا پھر اس نے کہا، آپ خاموش رہے، تیسری مرتبہ پھر اس نے کہا آپ خاموش رہے۔

    ”کنگھی مجھ کو دو، تمہارے واسطے برکت ہوگی“

    آپ نے فرمایا کہ

    ”جاؤ ! میرے حال میں دخل نہ دو، تجھ کو اور تیری برکت کو میں نے آب رواں میں ڈال دیا“

    آخر کار ! وہ درویش رخصت ہوا، جب اجودھن کے باہر پہنچا تو دریا میں نہانے لگا وہ پھر دریا سے باہر نہ آسکا، ڈوب کر مرگیا، ایک مرتبہ چھ درویش آپ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ مسافر ہیں، زادراہ چاہتے ہیں، اس وقت آپ کے سامنے چند خرمے رکھے ہوئے تھے، آپ نے وہ خرمے اٹھا کر دئے۔ انہوں نے ان خرموں کو پھینکنا چاہا، پھینکتے وقت جو ان کی نظر خرموں پر پڑی تو ان کو یہ دیکھ کر تعجب ہوا اور خوشی بھی کہ وہ خرمے زرخالصِ کے ہوگئے ہیں۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے