صوفی حمیدالدین ناگوری
دلچسپ معلومات
خم خانۂ تصوف۔ باب 9
حضرت صوفی حمیدالدین ناگوری اولیائے کبار میں سے ہیں۔
خاندانی حالات : آپ حضرت سعد بن زید کی اولاد سے ہیں جن کا شمار عشرۂ مبشرہ میں ہے۔
نام : آپ کا نام حمیدالدین ہے۔
لقب : آپ کی کنیت ”ابو احمد“ ہے۔
لقب کی وجہ تسمیہ : ایک دن کا واقعہ ہے کہ خواجہ معین الدین حسن چشتی بہت خوش تھے، حاضرین سے فرمایا کہ اس وقت اجازت کے دروازے کھلے ہیں جس کا جو دل چاہے مانگے، جو مانگے سو پائے، ایک شخص نے دعا مانگی اور دوسرے نے عقبیٰ کی خواہش ظاہر کی، خواجہ غریب نواز نے آپ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ ”تم کیا چاہتے ہو؟ کیا تم دنیا و عقبیٰ میں عزت و مرتبہ حاصل کرنا چاہتے ہو !“ آپ نے نہایت ادب کے ساتھ عرض کیا کہ
”بندہ را خواستی نباشد خواستِ مولیٰ ست“
ترجمہ : بندہ کی کوئی خواہش نہیں ہے جو خواہش ہے وہ مولیٰ کی خواہش کے مطابق ہے۔
یہ سن کر خواجہ غریب نواز بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ
”التارک الدنیا والفارغ عن العقبیٰ سلطان التارکین حمیدالدین الصوفی“
پس خواجہ غریب نواز کے کردہ لقب ”سلطان التارکین“ سے آپ مشہور ہوئے۔
بیعت و خلافت : آپ خواجہ معین الدین حسن چشتی کے مرید و خلیفہ ہیں۔
ذریعۂ معاش : موضع سوالی (ناگور)میں آپ کے پاس کچھ زمین تھی، آپ کاشت کرتے اور خود ہل چلاتے تھے۔
وفات : آپ 29 ربیع الآخر 673ھ کو واصل بحق ہوئے، مزار ناگور میں واقع ہے۔
سیرت : آپ بہت بڑے عالم، صوفی، صاحبِ دل اور صاحب نسبت بزرگ تھے، طریقت میں آپ کا مقام اونچا ہے، آپ کی بہت سی تصانیف ہیں، سب سے زیادہ مشہور کتاب ”اصول طریقہ“ ہے، آپ شاعر بھی تھے، آپ کے مکتوبات تصوف کا خزانہ ہیں۔
تعلیمات : آپ فرماتے ہیں کہ ”مردان را جن کا مقصد درگاہِ الٰہی تک رسائی حاصل کرنا ہے، تین گروہوں میں تقسیم ہیں، جیسا کہ کلامِ مجید میں آیا ہے۔
’’الذین اصطفینا مِن عِبادنا منہم ظالِم لِنفسہ وَمنھم مُقتصدٌ ومنھم سابقٌ بالخیراتِ‘‘
ترجمہ : ہم نے اپنے بندوں کو چن لیا ہے جس میں کچھ وہ لوگ ہیں جو اپنے نفس پر زیادتی کرتے ہیں، کچھ بہت محتاط ہیں اور کچھ نیکیوں میں بہت سبقت لے جاتے ہیں۔
”یعنی معذور، مشکور اور فانی۔۔۔“
آپ فرماتے ہیں کہ
”مراتبِ راہ کا پہلا مرتبہ علم ہے، علم حاصل کرنا ضروری ہے کیوں کہ علم کے بغیر عمل درست نہیں ہوتا۔
دوسرا مرتبہ عمل ہے کیوں کہ عمل کے بغیر نیت کا وجود نہیں۔
تیسرا مرتبہ نیت ہے : نیت صحیح ہونی چاہئے کیوں کہ صحیح نیت کے بغیر باطل کے سوا اور کوئی عمل نہیں ہوتا۔
چوتھا مرتبہ صدق ہے : صدق کا ہونا ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر عشق رونما نہیں ہوتا۔
ساتواں مرتبہ سلوک ہے : سلوک اس لئے درکار ہے کیوں کہ اس کے بغیر پیش گاہ کا دروازہ نہیں کھلتا۔
آٹھواں مرتبہ پیش گاہ کا کھلنا ہے، پیش گاہ کا دروازہ کھلنا چاہئے تاکہ مقصود ظاہر ہو۔
اقوال :
جو شخص محبت کا دعویٰ کرے اور جب رات آئے تو اپنے محبوب کے ساتھ نہ سوئے اس کا نام جھوٹوں کے دفتر میں لکھا جائے گا۔
اربابِ شریعت کی راہ و منزل تو نفس و مال سے باہر آنا ہے اور نعیم مقام میں داخل ہونا ہے اور اصحابِ طریقت کی راہ و منزل جان و دل سے باہر آنا اور وحدت کے اعلیٰ مقام پر پہنچ جانا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.