ہشت بہشت فارسی زبان کی ایک مشہور مثنوی ہے جسے امیر خسرو نے سنہ 1302ء کے آس پاس قلم بند کیا۔ یہ مثنوی بھی خسرو کی خمسہ میں شامل ہے درحقیقت اس مثنوی کی بنیاد نظامی گنجوی کی ہفت پیکر ہے جو سنہ 1197ء کے آس پاس معرض وجود میں آئی تھی اور خود ہفت پیکر بھی فارسی زبان کے شاہ کار رزمیہ شاہ نامۂ فردوسی کے خطوط پر مبنی ہے۔ فردوسی نے اپنے اس شاہ کار کو سنہ 1010ء کے قریب تصنیف کیا تھا۔ نظامی کی ہفت پیکر کی تقلید میں خسرو نے بھی اپنی اس مثنوی میں بہرام گور پنجم کی افسانوی داستان کو موضوع بنایا ہے اور الف لیلہ کے اسلوب میں سات شہزادیوں کی زبان سے متعدد لوک کہانیاں پیش کی ہیں۔ مثنوی ہشت بہشت کے بہشت دوم میں جو کہانی مذکور ہے اس کا ترجمہ مغربی زبانوں میں بھی ہوا اور اس کے متعلق مشہور ہے کہ امیر خسرو پہلے مصنف ہیں جنہوں نے سراندیپ کے تین شہزادوں کے کردار متعارف کروائے اور اونٹ کی مبینہ چوری اور بازیابی کی کہانی لکھی۔ اس مثنوی میں آٹھ بہشت کا جو تخیل پیش کیا گیا ہے وہ جنت کے اسلامی تصور کے عین مطابق ہے، جس کے آٹھ دروازے ہیں اور ہر دروازے پر انتہائی بیش قیمت پتھر جڑے ہوئے ہیں۔ان آٹھ میں سے سات بہشت تفریحی عمارتوں،گنبدوں پر مشتمل ہیں جو بہرام کے علاجِ قصہ گوئی کے لیے تعمیر کیے گئے ہیں۔ مثنوی میں خسرو نے آٹھوں بہشت کے طرز تعمیر اور نقشوں کا بھی ذکر کیا ہے۔
امیرخسرو کی پیدائش 651ھ موافق 1253ء میں موجودہ ضلع کانسی رام نگر، اتر پردیش کے پٹیالی میں ہوئی۔ نام یمین الدین اور لقب ابوالحسن تھا۔ عام بول چال میں آپ کو امیر خسرو کہا جا تا ہے۔
آپ کے والد امیر سیف الدین لاچین قوم کےایک ترک سردار تھے۔ منگولوں کے حملوں کے وقت ہندوستان آئے اور پٹیالی (آگرہ) میں سکونت اختیار کیا۔ ان کى والدہ ہندوستانی تھیں۔ آٹھ سال کی عمر میں یتیم ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد یہ خاندان دہلی منتقل ہوگیا۔
امیرخسرو نے سلطنت دہلی کے آٹھ بادشاہوں کا زمانہ دیکھا۔ آپ نے برصغیر میں اسلامی سلطنت کے ابتدائی ادوار کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی زندگی میں سرگرم حصہ لیا۔ محبوب الہی خواجہ نظام الدین اولیا کے بڑے چہیتے مرید تھے۔ خسرو کو بھی مرشد سے انتہائی عقیدت تھی۔ خسرو نے ہر صنف شعر، مثنوی، قصیدہ، غزل، اردو دوہے، پہیلیاں اور گیت وغیرہ میں طبع آزمائی کی۔ غزل میں پانچ دیوان یادگار چھوڑے۔ ہندوستانی موسیقی میں ترانہ، قول اور قلبانہ انہی کی ایجاد ہے۔ بعض ہندوستانی راگنیوں میں ہندوستانی پیوند لگائے۔ راگنی (ایمن کلیان) جو شام کے وقت گائی جاتی ہے انہی کی ایجاد ہے۔ کہتے یہ کہ ستار پر تیسرا تار آپ ہی نے چڑھایا۔ خواجہ نظام الدین اولیا کے مرید تھے اور انہیں کے قدموں میں دفن ہوئے۔
آپ کا تاریخ وصال 18 شوال المکرم 725ھ موافق 1325ء ہے۔
امیر خسرو شاعری سے ہی نہیں بلکہ موسیقی سے بھی کافی دلچسپی رکھتے تھے۔ ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کی ایک اہم شخصیت بھی مانے جاتے ہیں۔ کلاسیکی موسیقی کے اہم ساز طبلہ اور ستار انہی کی ایجاد مانی جاتی ہے۔ فن موسیقی کے اجزا جیسے خیال اور ترانہ بھی انہیں کی ایجاد ہے۔ دنیا میں اردو کا پہلا شعر امیرخسرو ہی کی طرف منسوب ہے۔ اس سلسلے میں اردو کے ابتدائی موجدین میں ان کا نام شمار ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets