Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

کتاب: تعارف

یہ امرمسلمہ ہے كہ برصغیر میں اسلام كا فروغ اولیاءے كرام كی خدمات كا ثمر ہے۔یہ اولیاء ہرعلاقے میں وہاں كی زبان اور سادہ عوامی لہجے میں لوگوں كو نیكی ،اخلاق اور احكام مذہب كا درس دیتے تھے۔آٹھویں صدی ہجری كے صوفیاء میں اہم نام سید یوسف معروف بہ شاہ راجو قتال كےصاحبزادے سید محمد حسینی بندہ نواز گیسودراز ؒ كا ہے۔آپ نے عربی ،فارسی اوردكنی زبان میں رسائل و كتب لكھیں اور كئی كتابوں كے ترجمے بھی كیے۔ان تمام تصانیف میں سب سے زیادہ شہرت "معراج العاشقین" كو حاصل ہوئی۔نثری تخلیقات میں "معراج العاشقین" كو جنوبی ہند میں اولیت حاصل ہے۔اس رسالے میں قرآن و حدیث كے ذریعے مسلك تصوف كو سمجھانے كی كوشش كی گئی ہے۔حضرت نے تصوف كے ایك مخصوص نظریہ پنجتن وجود كےذریعے انسانی زندگی كی معراج یعنی ذات واحد الوجود تك رسائی كے طریقے كوآسان زبان میں سمجھایا ہے۔ زیر نظر کتاب کو خلیق انجم نے مرتب کیا ہے، جس میں خواجہ کی حالات زندگی، ان کا دکنی کلام، اس پر تبصرہ، عربی عبارتوں کا ترجمہ اور فرہنگ شامل ہے۔ اس طرح کتاب کو سمجھنا آسان ہوگیا ہے۔

.....مزید پڑھئے

مصنف: تعارف

سید محمد حسینی کو خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ ان کی پیدائش 13 جولائی 1321ء اور وفات 1 نومبر 1422ء کو ہوئی۔ خواجہ بندہ نواز گیسودراز سلسلہ چشتیہ کے مشہور صوفی اور خواجہ سید نصیر الدین چراغ دہلی کے مرید و خلیفہ ہیں۔ آپ حضرت مولیٰ علی کے خاندان سے تھے۔ ان کے آباواجداد ہرات کے رہنے والے تھے۔ ان ہی میں سے ایک نے دہلی کو اپنا مسکن بنایا۔ جواجہ بندہ نواز کی پیدائش 4 رجب المرجب 721ھ کو ہوئی۔ ان کے والد بزرگوار سید یوسف ایک پاکباز انسان تھے اور خواجہ نظام الدین اولیا کے دست گرفتہ تھے۔ سلطان محمد بن تغلق نے ایک بار دارالحکومت کو دولت آباد منتقل کیا تھا۔ اس کی مصاحبت میں کئی علما، مشائخ اور ماہرین دینیات بھی گئے تھے۔ خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کے والدین نے بھی نقل مقام کیا۔ جب وہ چار سال کے تھے توان کے ماموں ملک الامراء ابراہیم مصطفٰی دولت آباد کے والی بنائے گئے تھے۔ خواجہ بندہ نواز کی اہم تعلیمات میں سمجھ اور شعور، صبر و استقلال اور دیگر مذاہب کے تئیں تحمل اور رواداری تھی۔ ان کا آستانہ اور مزار شہر گلبرگہ دکن میں ہے۔ سلطان تاج الدین فیروز شاہ کی دعوت پروہ 1397ء میں گلبرگہ، دکن تشریف لے گئے۔ پندرہ سال کی عمر میں وہ دہلی لوٹ آئے تھے تاکہ خواجہ نصیرالدین چراغ دہلی کے ذریعے ان کی تعلیم و تربیت ہو۔ وہ حضرت کیتھلی، حضرت تاج الدین بہادر اور قاضی عبد المقتدر کے ایک جوشیلے شاگرد تھے۔ ایک طویل عرصہ تک آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ بھی قائم رکھا پھر 1397ء میں گلبرگہ آئے اور نومبر 1422ء میں وفات پاگئے۔

.....مزید پڑھئے

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے