Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

کتاب: تعارف

معراج العاشقین ایسا ہدایت نامہ ہے جس میں کثرت سے خواجہ صاحب کے ملفوظات اور آپ کے وعظ اور اذکار کے حالات درج ہیں۔ حالانکہ یہ موضوع زیر بحث ہے کہ معراج العاشقین خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی تصنیف ہے یا نہیں۔ بہرحال اسے اردو نثر کی پہلی نثری کتاب مانا جاتا ہے۔ زیر نظر کتاب" معراج العاشقین " كی تشریح و تنقید ہے۔جس كو محترمہ ثریا پروین نے مرتب كیا ہے۔جس كے مطابق "معراج العاشقین" پندرھویں صدی كی ابتدا میں عالم وجود میں آئی۔اس كی لسانی خصوصیات تقریبا وہی ہیں جو عام طور سے دكنی تخلیقات كی ہوتی ہیں۔عربی ،فارسی اور ہندی زبان كا استعمال بڑی خوبی سے كیا ہےپنجابی ،برج بھاشا اور كھڑی بولی كے اثرات بھی ملتے ہیں۔تصوف كے عام اصطلاحات كو واضح كرنے كا انداز بھی خوبصورت ہے۔حضرت بندہ نواز ؒ كو اپنے عہد كے مروجہ زبانوں پر كافی عبور تھا۔انھوں نے بڑی آسانی سے ان زبانوں كااستعمال كیا ہے۔انھوں ایسے دور میں جب ابھی اردو اچھی طرح متشكل بھی نہ ہوسكی تھی نہ صرف اپنی اس گراں قدر تصنیف سے اردو كے دامن كو وسیع كیا بلكہ اپنی صلاحیت اور لسانیات پر حاكمانہ قدرت كی مدد سے "معراج العاشقین" كو اس طرح سنوارا ہے كہ یہ آج بھی لسانی ارتقا كے جائزے میں نشان راہ ہے۔معراج العاشقین كی لسانی اور ادبی محاسن اسے اس دعوے كا اہل بناتی ہے كہ یہ جنوبی ہند كی اولین نثری تخلیق ہے۔

.....مزید پڑھئے

مصنف: تعارف

سید محمد حسینی کو خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ ان کی پیدائش 13 جولائی 1321ء اور وفات 1 نومبر 1422ء کو ہوئی۔ خواجہ بندہ نواز گیسودراز سلسلہ چشتیہ کے مشہور صوفی اور خواجہ سید نصیر الدین چراغ دہلی کے مرید و خلیفہ ہیں۔ آپ حضرت مولیٰ علی کے خاندان سے تھے۔ ان کے آباواجداد ہرات کے رہنے والے تھے۔ ان ہی میں سے ایک نے دہلی کو اپنا مسکن بنایا۔ جواجہ بندہ نواز کی پیدائش 4 رجب المرجب 721ھ کو ہوئی۔ ان کے والد بزرگوار سید یوسف ایک پاکباز انسان تھے اور خواجہ نظام الدین اولیا کے دست گرفتہ تھے۔ سلطان محمد بن تغلق نے ایک بار دارالحکومت کو دولت آباد منتقل کیا تھا۔ اس کی مصاحبت میں کئی علما، مشائخ اور ماہرین دینیات بھی گئے تھے۔ خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کے والدین نے بھی نقل مقام کیا۔ جب وہ چار سال کے تھے توان کے ماموں ملک الامراء ابراہیم مصطفٰی دولت آباد کے والی بنائے گئے تھے۔ خواجہ بندہ نواز کی اہم تعلیمات میں سمجھ اور شعور، صبر و استقلال اور دیگر مذاہب کے تئیں تحمل اور رواداری تھی۔ ان کا آستانہ اور مزار شہر گلبرگہ دکن میں ہے۔ سلطان تاج الدین فیروز شاہ کی دعوت پروہ 1397ء میں گلبرگہ، دکن تشریف لے گئے۔ پندرہ سال کی عمر میں وہ دہلی لوٹ آئے تھے تاکہ خواجہ نصیرالدین چراغ دہلی کے ذریعے ان کی تعلیم و تربیت ہو۔ وہ حضرت کیتھلی، حضرت تاج الدین بہادر اور قاضی عبد المقتدر کے ایک جوشیلے شاگرد تھے۔ ایک طویل عرصہ تک آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ بھی قائم رکھا پھر 1397ء میں گلبرگہ آئے اور نومبر 1422ء میں وفات پاگئے۔

.....مزید پڑھئے

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے