آنکھوں میں ہیں رنگ محفل ہزاروں
آنکھوں میں ہیں رنگ محفل ہزاروں
ابھی رنگ دکھلائے گا دل ہزاروں
ہزاروں ہیں رخسار ارے تل ہزاروں
فدا تیرے تل پر ہیں کیوں دل ہزاروں
اگر بزم آرائی دل یہی ہے
بنیں گے حسیں شمع محفل ہزاروں
نہ گرہیں کھلیں ان کے بند قبا کی
کھلے عقدے سربستہ مشکل ہزاروں
کیا تیرہ تاروں کو بھی اے شب غم
یہ روئے فلک پر ہیں کیوں تل ہزاروں
وہ شے آج واعظ کو ہم نے پلا کر
مٹائے خیالات باطل ہزاروں
بہت مل رہیں گے چھری پھیرنے کو
سلامت یہ دل ہے تو قاتل ہزاروں
یہ گلچیں نے کیوں پھول گلشن میں توڑا
کہ اس پر ہیں ٹوٹے عنا دل ہزاروں
گلی میں ترے حشر کے دن بھی قاتل
پڑے لوٹتے ہوں گے بسمل ہزاروں
کہیں قیس ہے اب نہ لیلہٰ کہیں ہے
بگولے ہزاروں ہیں محمل ہزاروں
یہ ہے مے کدہ کوئی چونکائے کس کو
پڑے ہیں یہاں مست و غافل ہزاروں
نہ ترسا انہیں آب خنجر کو قاتل
دعائیں تجھے دیں گے بسمل ہزاروں
لپٹ کر نہ پھر میرے دامن سے چھوٹے
گئے خار رہ سوئے منزل ہزاروں
یہ کیا مشورے حشر میں ہو رہے ہیں
یہ کیوں جمع ہیں آج قاتل ہزاروں
رہیں تا قیامت جوانی کی راتیں
یہ راتیں ہیں تو ماہ کامل ہزاروں
ابھارے سے ابھرے نہ گل تیرے آگے
چہکنے کو چہکے عنا دل ہزاروں
فن شعر بھی کیا ہی آسان فن ہے
جہاں دیکھو اس فن کے کامل ہزاروں
ریاضؔ ان سے کہہ دو ستائیں سنبھل کر
بھرے میرے سینے میں ہیں دل ہزاروں
- کتاب : ریاض رضواں (Pg. 314)
- Author : ریاضؔ خیرآبادی
- مطبع : کتاب منزل،لاہور (1961)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.