Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

حسن پریوں کا سنا کرتے تھے پر کچھ بھی نہیں

عاشق لکھنوی

حسن پریوں کا سنا کرتے تھے پر کچھ بھی نہیں

عاشق لکھنوی

حسن پریوں کا سنا کرتے تھے پر کچھ بھی نہیں

دور کی ڈھول سہانی تھی مگر کچھ بھی نہیں

میں نہ مانوں گا نہ مانوں گا نہ مانوں گا کبھی

ہیں پہ کیا کچھ ہوا کیا ان کو خبر کچھ بھی نہیں

دل مجھے ہجر میں سمجھاتا ہے اور دل کو یہ میں

اور شب بھر یہ مصیبت ہے سحر کچھ بھی نہیں

فکر ہستی میں جو مر مر کے کھلا بھی تو یہ حال

نقش بر آب تو کچھ بھی ہے بشر کچھ بھی نہیں

پشت خط صاف دکھا کر مجھے قاصد نے کہا

بس جواب ان کا یہی ہے کہ ادھر کچھ بھی نہیں

کیوں مجھے دیکھ کے چپ چپ ہو سبب اس کا کیا

تم تو کہتے تھے محبت میں اثر کچھ بھی نہیں

ایک سا حال محبت میں ہے اپنا کب سے

سنتے تھے رنج کی بھی حد ہے مگر کچھ بھی نہیں

ہیں نے دنیا کو جو دیکھا تو کھلا یہ عاشقؔ

بے ہنر خوب ہیں سب اہل ہنر کچھ بھی نہیں

مأخذ :
  • کتاب : Asli Guldasta-e-Qawwali (Pg. 2)

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY
بولیے