حسن پریوں کا سنا کرتے تھے پر کچھ بھی نہیں
دور کی ڈھول سہانی تھی مگر کچھ بھی نہیں
میں نہ مانوں گا نہ مانوں گا نہ مانوں گا کبھی
ہیں پہ کیا کچھ ہوا کیا ان کو خبر کچھ بھی نہیں
دل مجھے ہجر میں سمجھاتا ہے اور دل کو یہ میں
اور شب بھر یہ مصیبت ہے سحر کچھ بھی نہیں
فکر ہستی میں جو مر مر کے کھلا بھی تو یہ حال
نقش بر آب تو کچھ بھی ہے بشر کچھ بھی نہیں
پشت خط صاف دکھا کر مجھے قاصد نے کہا
بس جواب ان کا یہی ہے کہ ادھر کچھ بھی نہیں
کیوں مجھے دیکھ کے چپ چپ ہو سبب اس کا کیا
تم تو کہتے تھے محبت میں اثر کچھ بھی نہیں
ایک سا حال محبت میں ہے اپنا کب سے
سنتے تھے رنج کی بھی حد ہے مگر کچھ بھی نہیں
ہیں نے دنیا کو جو دیکھا تو کھلا یہ عاشقؔ
بے ہنر خوب ہیں سب اہل ہنر کچھ بھی نہیں
مأخذ :
- کتاب : Asli Guldasta-e-Qawwali (Pg. 2)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.