آشکارا راز حسن کبریا کیونکر ہوا
آشکارا راز حسن کبریا کیونکر ہوا
رہ کے سو پردوں میں عالم آشنا کیونکر ہوا
اے مسیحا میرے دشمن ہوں شفا سے ناامید
تو سلامت درد میرا لا دوا کیونکر ہوا
اپنا بندہ بھی مجھے کہتا ہے پھر محتاج بھی
تجھ سے شاہنشاہ کا بندہ گدا کیونکر ہوا
پوچھ لے قاتل زبان تیغ سے سب سر گذشت
کشتے کس منہ سے بتائیں کیا ہوا کیونکر ہوا
جیتے جی برسوں میں تڑپا تب نہ لی تم نے خبر
مر گئے پر پوچھتے ہو کیا ہوا کیونکر ہوا
میں نہ مانوں گا کہ دی اغیار نے ترغیب قتل
دشمنوں سے دوستی کا حق ادا کیونکر ہوا
میں نہ مانوں گا نہ آئینے کا ہے سارا قصور
خود بہ خود وہ خود پسند و خود نما کیونکر ہوا
اس نے کھینچی تیغ یاں سر جھک گیا قصہ مٹا
خلق یہ کیوں پوچھتی ہے ماجرا کیونکر ہوا
چاٹتی ہے کیوں زبان تیغ قاتل بار بار
بے نمک چھڑکے یہ زخموں میں مزا کیونکر ہوا
الفت گیسو بلا تھی مر گیا پھنس کر امیرؔ
ہے بڑا جھگڑا نہ پوچھو فیصلہ کیونکر ہوا
- کتاب : کلام امیر مینائی (Pg. 12)
- Author : امیر مینائی
- مطبع : مشورہ بک ڈپو، دہلی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.