ابرو نے چشم ناز نے مژگان یار نے
ابرو نے چشم ناز نے مژگان یار نے
گھائل کیا مجھے انہیں دو تین چار نے
واعظ غرض یہ تھی کہ در بت کدہ پہ ہم
در پردہ کل گئے تھے کسی کو پکارنے
عاشق ہزاروں صورت پروانہ گر پڑے
الٹی نقاب رخ سے جو محفل میں یار نے
سودا رہا کہ عشق بتاں میں ہے فائدہ
ہم کو کیا تباہ اسی کار و بار نے
کیوں بار بار جائیں نہ ہم کوئے یار میں
مجبور کر دیا ہے دل بے قرار نے
لازم نہیں بتو تمہیں دعویٰ خدائی کا
پیدا کیا ہے اس لئے کیا کردگار نے
مجبور ہو کے بیٹھ رہے کوئے یار میں
ہم کو جواب دے دیا جب اختیار نے
دل بہر نذر یار کے آگے جو لے گئے
بولا کہ آپ لائے ہیں صدقہ اتارنے
صحرا میں ٹھہرے اور کبھی دشت میں پھرے
ہم کو دکھائی سیر یہ فصل بہار نے
اوگھٹؔ غرور کیوں نہ بتوں کو ہو اس قدر
ان کو حسیں بنایا ہے پروردگار نے
- کتاب : فیضان وارثی المعروف زمزمۂ قوالی (Pg. 16)
- Author : اوگھٹ شاہ وارثی
- مطبع : جید برقی پریس، دہلی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.