فلک لاکھ بجلی گراتا رہے گا
فلک لاکھ بجلی گراتا رہے گا
جہاں ہے وہیں آشیانہ رہے گا
سلامت جو مشق تصور ہے تو پھر
تمہارا ہی ہر سمت جلوہ رہے گا
وہ دنیا تو جانے جو میں جانتا ہوں
تو ہی حاصل بزم دنیا رہے گا
مجھے ڈوب جانے دو پھر دیکھ لینا
نہ ساحل نہ طوفاں نہ دریا رہے گا
جہاں تک نہ آئے گی نیند ان کو سن کر
وہیں تک ہمارا فسانہ رہے گا
نہ تم اپنے عہد محبت کو بدلو
زمانہ تو کروٹ بدلتا رہے گا
تو بن جائے گا ایک دن دل کا درماں
جو ہر روز کچھ درد بڑھتا رہے گا
گلہ ان سے کیا بے وفائی کا افقرؔ
خبر کیا تھی دل ہی نہ اپنا رہے گا
- کتاب : نظرگاہ (Pg. 65)
- Author : افقرؔ وارثی
- مطبع : صدیق بک ڈپو، لکھنؤ (1961)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.