جاتا کہاں ہے چھوڑ کے درد جگر مجھے
جاتا کہاں ہے چھوڑ کے درد جگر مجھے
ممنون التفات مسیحا نہ کر مجھے
دیر و حرم کی قید سے آزاد کر مجھے
لے چل جبین شوق در یار پر مجھے
میں پھر بتاؤں قبلۂ کونین کون ہے
تقدیر سے ملے جو ترا سنگ در مجھے
ناز ستم کا واسطہ تجھ کو ستم شعار
ہنسنے نہ پائیں دیکھ کے زخم جگر مجھے
دل سے کہیں عزیز ہیں دل کی جراحتیں
رہنے دے میرے حال پر اب چارہ گر مجھے
اہل جفا نے پھر نہ اٹھایا جفا سے ہاتھ
لذت شناس ظلم و ستم دیکھ کر مجھے
بے ہوشیوں کا نام تھا اسرار معرفت
کیونکر حریم ناز کی ہوتی خبر مجھے
اے ہم نوا عنایت صیاد کیا کہوں
ظالم نے سب اسیروں کو چھوڑا مگر مجھے
اکثر پلٹ گئی ہے شب انتطار موت
مرنے نہ درد دل نے دیا تا سحر مجھے
اہل نیاز دہر سے عرض نیاز دل
اس وسعت نظر نے کیا در بدر مجھے
مدت ہوئی کہ برق نے پھونکا تھا آشیاں
اب تک نشیمن آتا ہے جلتا نظر مجھے
انگڑائیوں نے کھینچ لی سارے بدن کی روح
اب مے کے بدلے چاہیے جان دگر مجھے
عیب و ہنر کو دیکھتا افقرؔ جو ساتھ ساتھ
ایسا ملا نہ ایک بھی اہل ہنر مجھے
- کتاب : نظرگاہ (Pg. 75)
- Author : افقرؔ وارثی
- مطبع : صدیق بک ڈپو، لکھنؤ (1961)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.