تجھے آخر کہاں ڈھونڈھے مکین لا مکاں کوئی
تجھے آخر کہاں ڈھونڈھے مکین لا مکاں کوئی
نہ چلتا ہے پتا کوئی نہ ملتا ہے نشاں کوئی
وہیں کا ہو رہا جا کر جو پہنچا بھی وہاں کوئی
نہ واپس منزل جاناں سے آیا کارواں کوئی
فضائے گلستاں خاموش ہے چھائی ہے تاریکی
صدا دیتا ہے رہ رہ کر خراب آشیاں کوئی
کہیں سر ہے کہیں نقش جبیں سجدے کہیں پر ہیں
ہوا کس کس طرح مٹ کر خراب آستاں کوئی
ازل سے لب پہ ہے عہد وفا کا ایک افسانہ
زمانہ میں سنے کب تک ہماری داستاں کوئی
ہمیں معلوم ہے اتنی حقیقت اپنی ہستی کی
کہ یہ بھی راز ہے منجملۂ راز نہاں کوئی
سناتا ہوں میں روداد محبت اس توقع پر
ملا لے اپنے افسانے میں میری داستاں کوئی
چمک اٹھی ہے قسمت ایک ہی سجدہ میں کیا کہنا
لئے پھرتا ہے پیشانی پہ نقش آستاں کوئی
بس اتنی شرط ہے جس پر مدار وصل جاناں ہے
اٹھا دے درمیاں سے پردۂ عمر رواں کوئی
رہ غربت میں اے افقرؔ وہ ہم گم کردہ منزل ہیں
نہ گزرا اس طرف سے بھول کر بھی کارواں کوئی
- کتاب : نظرگاہ (Pg. 85)
- Author : افقرؔ وارثی
- مطبع : صدیق بک ڈپو، لکھنؤ (1961)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.