کیوں نہ خوش ہوں موت آئی مجھ کو منزل کے قریب
کیوں نہ خوش ہوں موت آئی مجھ کو منزل کے قریب
جان پروانہ کی نکلی شمع محفل کے قریب
پوچھنے والے مرے حال پریشاں کو نہ پوچھ
ہو رہا ہے درد سا محسوس اب دل کے قریب
کر دیا وارفتہ کچھ ایسا وفور شوق نے
بارہا آئے پلٹ ہم جا کے منزل کے قریب
وہ جو تھی اک حسن کی صورت کبھی دور از نگاہ
آ گئی ہے رفتہ رفتہ اب مرے دل کے قریب
اس کی ناکامئ قسمت پر کہاں تک روئیے
غرق ہو جائے سفینہ جس کا ساحل کے قریب
دل کی دنیا لوٹنے والے انہیں بھی لوٹ لے
رو رہی ہیں حسرتیں جو خانۂ دل کے قریب
در حقیقت ہو رہا تھا اتنا ساحل دور دور
ہو رہے تھے ہم بظاہر جتنے ساحل کے قریب
شب کی تنہائی میں باتیں کر رہا ہوں اس طرح
جیسے بیٹھا ہی تو ہے کوئی مرے دل کے قریب
ہائے کس عالم میں تو نے زندگی دھوکا دیا
دور از یار و وطن غربت کی منزل کے قریب
میرا مرنا یا کہ جینا جو بھی افقرؔ ہو مگر
ہو کسی کے آستان کعبہ منزل کے قریب
- کتاب : نظرگاہ (Pg. 105)
- Author : افقرؔ وارثی
- مطبع : صدیق بک ڈپو، لکھنؤ (1961)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.