مری ہستی کا جلووں میں ترے روپوش ہو جانا
مری ہستی کا جلووں میں ترے روپوش ہو جانا
یہیں تو ہے بس اک قطرہ کا دریا نوش ہو جانا
تمہیں کیا غم مبارک ہو تمہیں روپوش ہو جانا
ہوا جاتا ہے افسانہ مرا بے ہوش ہو جانا
وہی سمجھے ہیں کچھ کچھ زندگی و موت کا حاصل
جنہیں آتا ہے جیتے جی کفن بردوش ہو جانا
یہ اچھی ابتدا کی آپ نے اے حضرت موسیٰ
دم دیدار اب لازم ہوا بے ہوش ہو جانا
زمیں کا ذرہ ذرہ آئینہ دار حقیت ہے
کہیں اپنے ہی جلووں میں نہ تم روپوش ہو جانا
بساط دہر میں غافل بھلا جینے کا حاصل کیا
کہ مرنا بھی جہاں پر ہو وبال دوش ہو جانا
وہ سر زانو پہ ان کے وہ ہوا زلف معنبر کی
ہمیں تو ہوش سے بڑھ کر ہے یوں بے ہوش ہو جانا
نظر آتے ہیں اب جلوے ہی جلوے ہر طرف مجھ کو
دلیل ہوشیاری تھا مرا بے ہوش ہو جانا
وہ اٹھنا جلوہ گاہ ناز کے پردے کا نظروں سے
وہ میرا دیکھتے ہی دیکھتے بے ہوش ہو جانا
کہیں ناکام رہ جائے نہ ذوق جستجو اپنا
عدم سے بھی خیال یار ہم آغوش ہو جانا
گزر جا منزل احساس کی حد سے بھی اے افقرؔ
کمال بے خودی ہے بے نیاز ہوش ہو جانا
- کتاب : نظرگاہ (Pg. 43)
- Author : افقرؔ وارثی
- مطبع : صدیق بک ڈپو، لکھنؤ (1961)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.