کبھی چار پھول چڑھا دئے جو کسی نے میرے مزار پر
کبھی چار پھول چڑھا دئے جو کسی نے میرے مزار پر
تو ہزاروں چرخ سے بجلیاں گریں ایک مشت غبار پر
وہ متاع عمر ہے رائیگاں جو نہ صرف ہو در یار پر
کہ وہ زندگی نہیں زندگی جو بسر ہو روز شمار پر
نہ حرم کے سجدوں سے واسطہ نہ سجود دیر سے کچھ غرض
مجھے کام ہے در یار سے مجھے ناز ہے در یار پر
میں ہمیشہ وقف ستم رہا مجھے فخر ہے مجھے ناز ہے
کبھی اپنی ایسی حیات پر کبھی ایسے لیل و نہار پر
ہے انہیں کی زندگی زندگی ہے انہیں کی موت بھی موت جو
رہے آستانۂ یار پر مٹے آستانۂ یار پر
وہ بہار عمر ہو یا خزاں نہیں کوئی قابل اعتنا
نہ یقیں تھا مجھ کو سرور پر نہ ہے اعتبار خمار پر
وہ ہوں رند مے کدہ نوش میں کہ ذرا بھی دیر اگر ہوئی
تو شراب شیشہ میں موجزن ہوئی میرے رنگ خمار پر
میں بھلاؤں کیسے پس فنا مری زندگی کا ہے آشنا
کہ تمام راحتیں عمر کی ہوئیں صدقے جب غم یار پر
نہ غرور عیش جہاں پہ کر نہ غم جہاں سے ملول ہو
کہ نظام دہر نہیں رہا کبھی افقرؔ ایک مدار پر
- کتاب : نظرگاہ (Pg. 58)
- Author : افقرؔ وارثی
- مطبع : صدیق بک ڈپو، لکھنؤ (1961)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.