جبین شوق اتنی شریک کار ہو جائے
جبین شوق اتنی شریک کار ہو جائے
جہاں سجدہ کروں میں آستان یار ہو جائے
صبا برہم اگر زلف دراز یار ہو جائے
قیامت کروٹیں لیتی ہوئی بیدار ہو جائے
بنا دو جس کو تم مجبور وہ مجبور بن جائے
جسے مختار تم کہہ دو وہی مختار ہو جائے
تجھے معلوم کیا اے خواب ہستی دیکھنے والے
وہی ہستی ہے ہستی جو نثار یار ہو جائے
گزر جائے حدود معرفت سے طالب جلوہ
جو بے پردہ کسی ساعت جمال یار ہو جائے
حکومت ہے جنوں پر حسب منشا تیرے وحشی کی
ابھی دیوانہ بن جائے ابھی ہشیار ہو جائے
فقط اتنی اطاعت چاہتی ہے رحمت باری
کہ انساں کو گنہ کا اپنے بس اقرار ہو جائے
اسی کو کامیاب دید کہتے ہیں نظر والے
وہ عاشق جو ہلاک حسرت دیدار ہو جائے
نہ ہوگی ختم پھر بھی کشمکش شیخ و برہمن کی
اگر ہم رشتۂ تسبیح بھی زنار ہو جائے
سمجھ لینا وہیں عمر رواں کی آخری منزل
جہاں پر ختم افقرؔ جستجوئے یار ہو جائے
- کتاب : نظرگاہ (Pg. 62)
- Author : افقرؔ وارثی
- مطبع : صدیق بک ڈپو، لکھنؤ (1961)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.