پوچھا جو کسی نے احقرؔ سے کیوں شغل سخن کو چھوڑ دیا
پوچھا جو کسی نے احقرؔ سے کیوں شغل سخن کو چھوڑ دیا
بولے کہ گیا جب موسم گل بلبل نے چمن کو چھوڑ دیا
چونکے نہ کسی دن خواب سے ہم غفلت میں بسر کی عمر اپنی
اے وائے غضب کب آنکھ کھلی جب روح نے تن کو چھوڑ دیا
جب باغ جناں میں بو تیری اے رونق گلشن پھیل گئی
بلبل نے گلوں سے منہ موڑا پھولوں نے چمن کو چھوڑ دیا
اے حب وطن اللہ سے ڈر بھولی ہوئی باتیں یاد نہ کر
اب تیری بلا سے بو میں بسے جب تو نے چمن کو چھوڑ دیا
آئے ہیں عجب انداز سے وہ ڈالے ہوئے رخ پر بالوں کو
زلفیں جو ہٹیں اک شور ہوا سورج نے گہن کو چھوڑ دیا
اب آنکھ کسی پر کیا ڈالیں جنچتا ہی نہیں نظروں میں کوئی
آنکھوں پہ تری صدقہ کر کے جنگل میں ہرن کو چھوڑ دیا
- کتاب : بہار میں اردو کی صوفیانہ شاعری (Pg. 180)
- Author : محمد طیب ابدالی
- مطبع : اسرار کریمی، الہ آباد (1988)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.