عجب کہ یاد میں وہ زلف مشک سا نہ رہے
عجب کہ یاد میں وہ زلف مشک سا نہ رہے
یہ کون سر ہے کہ جس سر میں یہ ہوا نہ رہے
بجائے شمع جو ساقی و دلربا نہ رہے
یقین کہ محفل مستوں میں کچھ صفا نہ رہے
یقین کہ شاہیٔ کونین اس کے تئیں بخشے
جو اس کے در پہ کرے سجدہ وہ گدا نہ رہے
کہاں ہے روح میں عشاق کی نشان قرار
کہ دشت ریگ رواں بیچ نقش پا نہ رہے
نہ ہوئے عشق میں کب چاک جیب و دامن صبر
بدن میں برق کی جیوں ابر کی قبا نہ رہے
فراق یار میں کس جا کھلے دل عاشق
جونہی بادیہ میں آہ کچھ قضا نہ رہے
نسیم کاکل مشکیں سوں گر وہاں پہنچے
کبھی بھی دشت میں پھر آہوئے خطا نہ رہے
جو آہ سرد میری واں تلک کبھی پہنچے
چمن میں صبح کے تئیں جنبش صبا نہ رہے
جو راست باز ہیں اس دور میں رہیں عریاں
بدن میں سرو کے ہرگز کبھی قبا نہ رہے
یہ راہ عشق ہے بے راستی کے طے نہ ہوئے
گرے ہے کور اگر ہاتھ میں عصا نہ رہے
جسے شعور ہے کچھ بھی وہ اس قدر جانے
قضا ہے کچھ بھی اگر بندۂ رضا نہ رہے
یہ بادیہ موں محبت کے بے-دلیل نہ جا
کہ کارواں کو خطر ہے جو رہنما نہ رہے
خطر ہے بحر خرد میں اگر نہ ہوئے جنوں
جہاز غرق ہو گر اس میں نا خدا نہ رہے
فراق یار میں عاشق کا دل کھلے کس جا
جو صحن گلشن فردوس میں فضا نہ رہے
دوام وصل میسر ہو کس کے تئیں اے دل
ہمیشہ کاہ کے ہم راہ کہربا نہ رہے
کہاں زمیں پہ گرے جو بلند ہمت ہو
کہ شاخ نخل پہ ہرگز کبھی ہما نہ رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.