Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

یہ بھی نظر کا دھوکا ہے یا کار نظر ہے کیا معلوم

اختر علی گڑھی

یہ بھی نظر کا دھوکا ہے یا کار نظر ہے کیا معلوم

اختر علی گڑھی

یہ بھی نظر کا دھوکا ہے یا کار نظر ہے کیا معلوم

سطح پہ ذرے رقصاں ہیں یا موج گہر ہے کیا معلوم

کون نہ جانے محو ستم ہے نا حق شکوہ کیوں کیجیے

چرخ ہے یا اس پردے میں وہ عربدہ گر ہے کیا معلوم

وہ بھی ہیں کچھ کھوئے ہوئے سے جن کو واقف کہتے ہیں

ہستی کے اسرار نہاں کی کس کو خبر ہے کیا معلوم

راتوں کو اٹھ اٹھ کر ہمدم اک مدت سے روتا ہوں

میری آہ نیم شبی میں کیسا اثر ہے کیا معلوم

ہستی کا ہنگامہ بپا ہے سانس کے آنے جانے پر

عالم ضبط و تمکیں ہے یا رقص شرر ہے کیا معلوم

دیوانے تو دیوانے ہیں ان کو اپنا ہوش کہاں

عقل پہ جن کو ناز ہے اتنا ان کو مگر ہے کیا معلوم

ہجر کی شب طوفان ہجوم اشک میں اتنا ہوش کہاں

سینے میں ہے قلب کہ صرف دیدۂ تر ہے کیا معلوم

ہم نے تو رو کر ہی گزاریں گھڑیاں عمر فانی کی

ہو گا پاس درد و محبت ان کو اگر ہے کیا معلوم

مدت گزری اخترؔ کی پائی نہ کسی سے کوئی خبر

مر گیا وہ ناشاد کہ اب تک خاک بسر ہے کیا معلوم

مأخذ :
  • کتاب : تذکرہ شعرائے اتر پردیش جلد دسویں (Pg. 25)
  • Author : عرفان عباسی

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY
بولیے