تمنا ہے نہ حسرت ہے نہ کوئی مدعا دل میں
تمنا ہے نہ حسرت ہے نہ کوئی مدعا دل میں
مقامِ ہو نظر آتا ہے خاک اڑتی ہے کیا دل میں
ہمارے اور ان کے فرق ہے کتنا بڑا دل میں
یہاں ذوقِ وفا دل میں وہاں شوقِ جفا دل میں
یہ گھر بھی مل گیے ہیں خوب ان کو ان کے مطلب کے
رہا کرتے ہیں چشمِ شوق میں میری وہ یا دل میں
علاجِ وحشتِ دل چارہ گر بیکار کرتے ہیں
وہ کیا جانیں کہ ہم سوچے ہوئے بیٹھے ہیں کیا دل میں
نہیں ایسا کوئی جیسا نڈر ہے وہ بتِ کافر
کبھی بھولے سے بھی آتا نہیں خوفِ خدا دل میں
سوئے دیر و حرم شیخ و برہمن ڈھونڈنے نکلے
جو دیکھیں چشمِ بینا سے نظر آئے خدا دل میں
ضرورت کیا بھری محفل میں ان سے صاف کہنے کی
وہ خود ہی جان جاتے ہیں ہمارا مدعا دل میں
خدا جانے خبر اس کی بھی کیوں کر ہوگئی ان کو
کہا تھا ایک دن بھولے سے میں نے بے وفا دل میں
ستارے بھی نہ ہوں گے اتنے ساتوں آسمانوں پر
نظر آتے ہیں جتنے داغِ الفت جابجا دل میں
بھویں بھی تن رہی ہیں خود بخود تیور بھی چڑھتے ہیں
یہ کس کے قتل کا تم نے ارادہ کر لیا دل میں
کیا اس شرط پر وعدہ انہوں نے دل میں آنے کا
وہ کہتے ہیں خیال آنے نہ پائے دوسرا دل میں
تمہاری رنجشِ بیجا بھی ہے کیا کیا ترقی پر
کبھی ہیں جھڑکیاں لب پر کبھی ہو تم خفا دل میں
بلانے آرزو پہنچی گیے ارمان لینے کو
اب آئندہ خوشی تیری ہے تو آیا نہ آ دل میں
کیا دم ناک میں کیا کیا ہجوم اضطرابی نے
نہیں صبر و قرار و ضبط کا کوسوں پتا دل میں
کبھی بن بیٹھتے ہیں رندِ میکش حضرتِ اخترؔ
کسی دن جان لیتے ہیں وہ خود کو پارسا دل میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.