Font by Mehr Nastaliq Web

یہ کس کی بے رخی ہے کس نے چھینا خواب آنکھوں سے

عاکف حسین شاہ ولی

یہ کس کی بے رخی ہے کس نے چھینا خواب آنکھوں سے

عاکف حسین شاہ ولی

یہ کس کی بے رخی ہے کس نے چھینا خواب آنکھوں سے

کہاں لے جاؤ گے یارو مرا مہتاب آنکھوں سے

بجھی ہیں آرزوئیں بھی مٹے ہیں نقش راحت کے

ہوا کیا لے گئی آخر مرے اسباب آنکھوں سے

مری بیداد کی گونجیں فلک تک جا رہی ہیں کیوں

کہاں تک ہو سکے گا ضبط کا سیلاب آنکھوں سے

تری زلفوں کی خوشبو تھی یہی تو راز ہستی تھا

وہی پل میں بکھر کر چھن گئی نایاب آنکھوں سے

یہ کس کی یاد کا طوفاں دل ویراں میں آیا ہے

برستا ہے عجب طوفاں تری مضراب آنکھوں سے

مٹا کر خواب بھی میرے مرا عنواں بھی لے ڈالا

مگر کچھ مٹ نہیں سکتا مرے اعصاب آنکھوں سے

ہوائے دشت میں بھٹکا کیے ہیں سال ہا سالوں

مگر چھپنے لگے ہیں اب وہ سب اسباب آنکھوں سے

مجھے منصور کر دے یا عطا کر دید کا لمحہ

کہ اب اٹھنے لگا ہے پردۂ مضراب آنکھوں سے

تری باتیں تھیں جن سے جاں میں آتی تھی حرارت سی

وہ سب الفاظ اب رخصت ہوئے بے تاب آنکھوں سے

خود اپنی جستجو میں میں بہت رسوا ہوا آخر

یقیں جو تھا کبھی وہ ہو گیا نایاب آنکھوں سے

سوال دید لے کر میں ترے در پر پڑا ہوں بس

اٹھا دے اب تو پردہ مت گرا محراب آنکھوں سے

تری فرقت میں دیکھی ہے سحر بھی میں نے خالی سی

کہ جیسے چھن گیا ہو ماہ کا شاداب آنکھوں سے

تری الفت میں جو نقشے تھے دل پر ثبت نوشہ کے

وہ سب مٹنے لگے آخر ہوئے نایاب آنکھوں سے

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY
بولیے