یہ کس کی بے رخی ہے کس نے چھینا خواب آنکھوں سے
یہ کس کی بے رخی ہے کس نے چھینا خواب آنکھوں سے
کہاں لے جاؤ گے یارو مرا مہتاب آنکھوں سے
بجھی ہیں آرزوئیں بھی مٹے ہیں نقش راحت کے
ہوا کیا لے گئی آخر مرے اسباب آنکھوں سے
مری بیداد کی گونجیں فلک تک جا رہی ہیں کیوں
کہاں تک ہو سکے گا ضبط کا سیلاب آنکھوں سے
تری زلفوں کی خوشبو تھی یہی تو راز ہستی تھا
وہی پل میں بکھر کر چھن گئی نایاب آنکھوں سے
یہ کس کی یاد کا طوفاں دل ویراں میں آیا ہے
برستا ہے عجب طوفاں تری مضراب آنکھوں سے
مٹا کر خواب بھی میرے مرا عنواں بھی لے ڈالا
مگر کچھ مٹ نہیں سکتا مرے اعصاب آنکھوں سے
ہوائے دشت میں بھٹکا کیے ہیں سال ہا سالوں
مگر چھپنے لگے ہیں اب وہ سب اسباب آنکھوں سے
مجھے منصور کر دے یا عطا کر دید کا لمحہ
کہ اب اٹھنے لگا ہے پردۂ مضراب آنکھوں سے
تری باتیں تھیں جن سے جاں میں آتی تھی حرارت سی
وہ سب الفاظ اب رخصت ہوئے بے تاب آنکھوں سے
خود اپنی جستجو میں میں بہت رسوا ہوا آخر
یقیں جو تھا کبھی وہ ہو گیا نایاب آنکھوں سے
سوال دید لے کر میں ترے در پر پڑا ہوں بس
اٹھا دے اب تو پردہ مت گرا محراب آنکھوں سے
تری فرقت میں دیکھی ہے سحر بھی میں نے خالی سی
کہ جیسے چھن گیا ہو ماہ کا شاداب آنکھوں سے
تری الفت میں جو نقشے تھے دل پر ثبت نوشہ کے
وہ سب مٹنے لگے آخر ہوئے نایاب آنکھوں سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.