مجھے پھر اک ستم گر سے محبت ہوتی جاتی ہے
مجھے پھر اک ستم گر سے محبت ہوتی جاتی ہے
الٰہی دن بہ دن کیسی طبیعت ہوتی جاتی ہے
جفائیں ختم ہو جائیں گی جب ان کی تو کیا ہوگا
کہ مجھ کو رنج و غم سہنے کی عادت ہوتی جاتی ہے
اتر کر رہ گئی ہیں جب سے نظریں ان کی سینے میں
میرے زخموں کو تیروں سے محبت ہوتی جاتی ہے
وہ بنیادیں گلستانوں کی رکھ سکتے ہیں پانی پر
انہیں روتے میں ہنس دینے کی عادت ہوتی جاتی ہے
مجھے الطافؔ رسوا کر دیا صہبا پرستی نے
جوانی بھی مری وقف مصیبت ہوتی جاتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.