دیکھا جو آئینۂ کیف کیا کہوں کیا نظر پڑا
دیکھا جو آئینۂ کیف کیا کہوں کیا نظر پڑا
جس کی تلاش تھی مجھے سے مجھ میں چھپا نظر پڑا
اب تو میری نگاہ میں شان بشر کچھ اور ہے
کیوں کہ لباسِ یار میں مجھ کو خدا نظر پڑا
کیف کی کیفیت نہ پوچھ مستوں کی محویت نہ پوچھ
دیکھ جدھر جدھر کو بھی نظریں اٹھا نظر پڑا
میری نمازِ عشق کے سجدوں کی رفعتیں نہ پوچھ
سر کو جھکا دیا جہاں کعبہ بنا نظر پڑا
اور تو کچھ خبر نہیں اتنی سی ہوش ہے مجھے
پردہ حریمِ ناز کا اٹھتا ہوا نظر پڑا
نقشِ قدم ہے یار کا یا ہے نشانِ بے نشاں
کعبہ بھی ان کے پاؤں پر جھکتا ہوا نظر پڑا
نظر کرم ہے شیخ کی دیکھا جدھر جاھر کو بھی
مجھ کو امیرؔ صابری صابر پیا نظر پڑا
- کتاب : کلام امیر صابری (Pg. 42)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.