تہمت عشق کو ہم سر پہ لیے جاتے ہیں
تہمت عشق کو ہم سر پہ لیے جاتے ہیں
تیرے دیوانے عجب کام کیے جاتے ہیں
ان کو حاجت نہ رہی شیشہ و پیمانے کی
جو تیری مست نگاہوں سے پیے جاتے ہیں
زاہد تجھ کو تو ہے دوزخ و جنت کی خبر
پینے والے تیری مسجد میں پیے جاتے ہیں
ہم وہ ہیں رند کہ توبہ کو تیری اے واعظ!
توڑ کر تجھ کو پلا کر کے پیے جاتے ہیں
مر مٹے ہیں جو تیرے عشق میں اے جانِ جہاں
یہ وہ مرنا ہے کہ مرمر کے جیے جاتے ہیں
جو تیری مست اداؤں نے کیے ہیں زخمی
جاں دیے جاتے ہیں ایمان دیے جاتے ہیں
شہر خاموشاں کو خالی نہیں جاتے ہیں امیرؔ
یار پہلو میں کسی بت کی لیے جاتے ہیں
- کتاب : کلام امیر صابری (Pg. 59)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.