مچی ہے دھوم جہاں میں اس آستانے کی
مچی ہے دھوم جہاں میں اس آستانے کی
اگرچہ دیر ہے تو دیر ہاتھ اٹھانے کی
لگی ہے بھیڑیوں مستوں کے آنے جانے کی
جگہ نہ ملتی ہے قدموں میں سر جھکانے کی
یہ جس خزانے کے منگتے کھڑے ہیں چوکھٹ پر
تمہارے پاس ہے چابی اسی خزانے کی
تمہارے فیض قدم سے یہ فیض جاری ہے
کہ پوری ہوتی ہے ہر آرزو زمانے کی
تم آج حسنِ منور کے اپنے جلوؤں سے
نقاب اٹھا کے بدل دو فضا زمانے کی
میں سر کو رکھ کے ہتھیلی پہ آج لایا ہوں
یہ راہ نکالی ہے سرکار کو منانے کی
امیرِؔ صابری مستی میں جھومتے آئے
کچھ اور ہوگی حالت شراب خانے کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.