نظر نظر سے بھرے جا رہے ہیں پیمانے
نظر نظر سے بھرے جا رہے ہیں پیمانے
تیری نگاہوں کی مستی کو کوئی کیا جانے
شراب کیف کے دریا بہا دے لاکھوں
چھلک اٹھے ہیں جو تیری نظر کے پیمانے
اے زاہد تجھے معلوم کیا ہے مستوں کی
ہمارے دم ہی سے آباد ہیں خدا جانے
شمع نہ ہو گی گر روشن تو بزمِ ہستی میں
نہ جانے ٹھوکریں کھاتے کہاں یہ کہاں یہ پروانے
ہماری بادہ پرستی کی لاج رکھ لیجے
دکھا دو مجھے ساقی چھلکتے پیمانے
مٹانے والے نے کیا خوب ہی مٹایا ہے
کہ ذرہ ذرہ سے سن لیجے میرے افسانے
میرے لیے تو ہیں جنت سے لاکھ بڑھ چڑھ کر
امیرِؔ صابری کلیر کے جو ہیں ویرانے
- کتاب : کلام امیر صابری (Pg. 49)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.